دارِ ارقم اور دعوت الی اللہ
ویسے تو جب سے وحی کے سلسلے کا آغاز ھوا تھا تب سے ھی دعوت و تبلیغ کا مبارک عمل بھی شروع ھو گیا تھا لیکن دارِ ارقم کے شاندار نصیب کے کیا کہنے کہ اس کو دوسرے بہت سے اشراف کے ساتھ ساتھ پہلا دعوت و تبلیغ کا مرکز ھونے کا شرف بھی حاصل ھے یہاں ہر ھی رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صہابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی تربیت فرماتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم باھر جا کر دعوت و تبلیغ کا کام رازداری سے کرتے تھے گویا کارِ نبوت یعنی دعوت و تبلیغ کا سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے بہت گہرا تعلق ھے چونکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ھے اس لئے ان شاء اللہ دعوت و تبلیغ کا عمل بھی قیامت تک جاری و ساری رھے گا
دعوت الی اللہ كے معني و مفهوم:
دعوة کے لغوی معنی کسی کو آواز دینا یا پکارنا ۔ یہ باب نصر ینصر سے بطور مصدر آتا ہے إس کے لفظی معنی کسی اہم ، قابل غور اور بڑے کام کی طرف بلانا ہے اور دعوت إلى الله كا مطلب الله تعالى (دين إسلام ) كي طرف بلانا هے
كلمه ( الدعوة ) خالص إسلامي اصطلاح هے، يه فعل " دَ عَ وَ " على وزن " فَعَلَ " هے اگر ديكھا جائے, تو اس كا ايك هي مفهوم پايا جاتا هے۔ اور وه هے: كسي كو آواز يا كلام كے ذريعه اپني طرف مائل راغب يا متوجه كيا جائے, اگر وه متاثر هو جائے, تو اسے آپ ميں سے شمار كيا جائے
قرآن كريم ميں ( الدعوة ) كےمعاني:
قرآن كريم ميں يه لفظ كئي معنوں كے لئے استعمال كيا گيا هے:
1 ـ طلب:
جيسا كه الله تعالى كا فرمان هے
وَاِذَآ اُلْـقُوْا مِنْـهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا (13)
لَّا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِيْـرًا (14)
اور جب وہ اس کے کسی تنگ مکان میں جکڑ کر ڈال دیے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے۔آج ایک موت کو نہ پکارو اور بہت سی موتوں کو پکارو (الفرقان).
2 ـ ندا :
جيسا كه الله تعالى كا فرمان هے
وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَوْبِقًا0 (الكهف).
اور جس دن فرمائے گا کہ میرے شریکوں کو پکارو جنہیں تم مانتے تھے پھر وہ انہیں پکاریں گے سو وہ انہیں جواب نہیں دیں گے، اور ہم نے ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دی ہے۔
3 ـ سوال:
جيسےبني إسرائيل كے كلام كو الله نے يوں نقل فرمايا:
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ (البقرة).
يعني اپنے رب سے سوال كرو كه اسے كس رنگ كي گائے چاهئے؟
4 ـ كسي چيز پر ابھارنا اور جوش دلانا:
جيسے آل فرعون كے مؤمن كا قول نقل كرتے هوئے الله كا فرمان:
وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ (غافر).
يعني كيا يه عدل هے كه ميں تمهيں نجات كے لئے ابھاروں, اور تم مجھے جهنم كي طرف ابھارو؟
5 ـ استغاثه:
جيسے الله كا فرمان هے:
قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ0 (الأنعام).
يعني جب تم پر مصيبت آئےگي, تو تم الله كے سوا كسي اور سے استغاثه كروگے؟
6 ـ حكم:
جيسا كه الله تعالى كا فرمان هے
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ (الحديد).
يعني رسول تمهيں حكم دے رها هے كه اپنے رب پر ايمان لاؤ۔
7 ـ دعا:
جيسے الله كا فرمان هے :
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ (الأعراف)
يعني اپنے رب سے دعا كرو۔
قرآن كريم ميں إس كا استعمال ان تمام معاني پر هوا هے۔ ليكن اگر غور كيا جائے,
توان سب كا مفهوم "طلب" كے ارد گرد گھومتا نظر آتا هے. ندا منادي كے حضور كا مطالبه هے۔ سوال نا معلوم چيز كي وضاحت كا۔ ابھارنا مخاطب كي نظر ميں غير مرغوب عمل كا۔ استغاثه دفع ضرر كا۔ حكم مطلقا كسي كام كا مطالبه هے۔ دعا بھي الله سے طلب هي هے۔ صرف مقاصد كي وضاحت كے لئے الفاظ مختلف هيں۔ مگر معنى ومفهوم ايك هي هے۔
مذكوره لغوي معنوں كے لحاظ سے اگر (الدعوة)كي تعريف كي جائے تو يوں هوگي:
"الطلب من الناس الدخول في طاعة الله تبارك وتعالى، وطاعة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، والالتزام بشرائعه أي التدين بالدين الإسلامي الحنيف الذي اختاره الله تبارك وتعالى لخلقه والعمل بتعاليمه"
يعني لوگوں ميں اللہ تعالی کي أطاعت اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی أطاعت كي طلب پيدا كرنا اور الله تعالى كے آحكام كے مطابق اسلام کے مذہبی آصولوں كي تعمیل کے ساتھ کام کرتے رهنا
اس ضمن ميں اس آيت مباركه كو بھي پيش کیا جا سکتا ھے
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) (البقرة) .
اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔
اور مذكوره بيان سے يه بھي واضح هو گيا كه (الدعوة) كے لغوي معنى اور قرآن كے اصطلاحي معنوں ميں گہرا ربط هے۔ جيسے الله كا فرمان:
"ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ " اور ودعوتهم إلى سبيل الله رب العالمين وغيره
دعوت الی اللہ كے اصطلاحي معني و مفهوم:
يهاں پر جليل القدر صحابي حضرت ربعي ابن عامر رضي الله تعالى عنه كے كلام كو سب سے پهلے كلمه ( الدعوة ) كي اصطلاحي تعريف كے طور پر پيش كرنا مناسب هے جو انھوں نے جنگ قادسيه كے موقعه پر فارسيوں كے سپه سالار رستم كے سوال كے جواب ميں فرمايا تھا:
" جئنا لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد ، ومن ضيق الدنيا إلى سعة الدنيا والآخرة ، ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام "
شيخ الاسلام امام ابن تيميه رحمه الله نے كلمه ( الدعوة ) كي تعريف إس طرح فرمائي هے:
(الدعوة إلى الله : هي الدعوة إلى الإيمان به، وبما جاءت به رسله، بتصديقهم فيما أخبروا به ، وطاعتهم فيما أمروا) .(الفتاوى 15: 157).
· نيز فرمايا: (مندوب و مستحبات يا واجبات ميں سےهر وه چيز جو الله اور اس كے رسول كو پسند هو, ، ظاهر هو يا باطن هو، تو اس كا حكم دينا الدعوة إلى الله ميں سے هے۔اور هر وه چيز جسے ظاهر ميں يا باطن ميں الله اور اس كے رسول نے ناپسند كيا هو تو اس سے روكنا الدعوة إلى الله ميں سے هے۔ اور دعوت الى الله كي تكميل اس وقت تك نهيں هو سكتي , جب تك ان چيزوں كو كيا نه جائے, جسے الله پسند كرتا هے۔ اور ان چيزوں كو ترك نه كر ديا جائے, جنھيں الله نا پسند كرتا هے۔ خواه وه اقوال ميں سے هوں افعال ميں سے, ظاهري هوں يا باطني۔
اصطلاحي تعريف كي اس وضاحت سےيهاں يه بات بالكل واضح هو جاتي هے كه دعوت الى الله ميں هر وه طلب شامل هے, جسے الله پسند كرتا هے۔خواه اوامر كے طريق سے هوں, يا نواهي كے قبيل سے۔ كچھ لوگوں نے دريا كو كوزے ميں بند كرتے هوئے فرمايا:
الدعوة إلى الله تعالى هي معرفة الدين ودعوة الناس إليه تحقيقا لقوله تعالى :
بسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَالْعَصْرِ (1)اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ (2)اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
زمانہ کی قسم ہے۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔
وقوله سبحانه : {قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي }
اس آیت شریفہ میں اللہ جل شانہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا کہ اعلان کر دیجیے کہ یہ ہے میرا راستہ کہ میں بلاتا ہوں لوگوں کو اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ۔ یہ میرا راستہ ہے اور ہر اُس کا راستہ ہے جو میری اتباع کرنے والا ہے۔
يعني لغوي ،قرآني، اصطلاحي، عرفي اور ديگرجمله معاني سے دعوت كا عام اور شامل هونا اظهر من الشمس هے۔ يه اور بات هے كه لوگوں كو اپنے اپنے اعتبار سے عرف كا اختيار هے۔ پھر وه لفظ اس قدر غالب آجاتا هے, كه اس لفظ كو سنتے هي ذهن اسي طرف مبذول هوتا هے۔ مثلا "كلمه" كہنے سے كوئي بھي كلام شامل هو سكتا هے۔ مگر ايك مسلمان كا ذهن فوري طور پر كلمه طيبه يا كلمه شهاده كي طرف منتقل هو جاتا هے۔ يه كلمه كي تعريف نهيں, بلكه لوگوں كا عرف هے۔ ليكن دعوت كے لئے عرف بھي عام نهيں, بلكه محدود هوگا, جو صرف دين كي دعوت پر اطلاق كرتے هيں۔ ورنه مساجد ومنابر كے خطبے اور دروس ومحاضرات جن ميں خالص مسلمان هي شريك هوتے هيں, اور موضوعات بھي مواعظ وتذكير توعيه وتثقيف اور اسلامي تربيه پر محيط هوتے هيں, انھيں بھي دعوت الى الله هي كہا جاتا هے۔ اور يه كام كرنے والے كو داعي يا داعيه هي كہا جاتا هے۔ جب كه اسے كسي غير مسلم كو دين پيش كرنے كا شايد هي كبھي موقعه ملا هو۔
هاں اگر كوئي اپنے كسي خاص ماحول يا كسي باريك نظم ونسق اور افهام وتفهيم كے لئے اس طرح كي تخصيص كرنا چاهيں۔ كه دعوت غير مسلم كو دين كي دعوت دينا, اور مواعظ وتذكير تثقيف وتوعيه برائے مسلم كہہ ليا كريں۔ تو اس ميں كوئي اسلامي ركاوٹ نهيں هے۔ مكاتب جاليات ميں عموما اس طرح كا نظريه هے۔ دعوت جو غير مسلموں كو دين كي طرف بلايا جائے۔ اور توعيه جو مسلمانوں كي تربيت وتعليم كا كام كرے۔ تو مسلمانوں ميں ديني بيداري لانے والا بھي داعي الى الله هے۔ اور غير مسلموں ميں دين كي اشاعت كرنے والا بھي داعي الى الله هے۔
لهذا ! اگر كوئي جمعه كا خطبه پڑھتا هے, يا مسند درس پر بيٹھے بچوں كو تعليم دے رها هوتا هے, يا كسي جلسۂ عام كو خطاب كر رها هوتا هے۔ بہر صورت وه داعي الى الله هے۔
اصل مدلول كے عموم ميں كوئي اشكال نهيں۔ البته عرفا تخصيص كي گنجائش هے۔ يعني اگر كوئي اپنے عرف ميں كسي مقصد سے دعوت كو مخصوص معنى يا غير مسلموں ميں دين كي نشر واشاعت كے لئے استعمال كرے, تو ايسا كرنے كي ممانعت نهيں هے۔ جہاں تك عمومِ دعوت هے, تذكير ومواعظ پندو نصائح وغيره تو وه تو اس ميں بغير كسي كي رائے لئے از خود شامل هيں۔
بالفاظ ديگر دعوت الى الله لوگوں کو الله كي جانب راغب كرنے كو كہتے هيں خواه كسي قول وفعل كے ذريعه هو۔ يا زبان وآواز كے ذريعه. خواه وه قول يا آواز نماز كي تلقين وعظ ونصيحت پر مبني هو يا دين كي دعوت پر۔ دعوت دعوت هے۔
مخاطب كے لحاظ سے اٌمت كي قسميں:
مخاطب كے لحاظ سے اُمت كي دو قسميں هيں :
۱- اُمت مستجابه
۲- اُمت غير مستجابه
دعوت تو دعوت هے, خواه دين كي دعوت هو يا وعظ ونصيحت۔ پر ايسي جگه ميں مخاطب كے لحاظ سے اگر وه اُمت مستجابه ميں سے هے تو توعيه تذكير مواعظ وغيره كہہ ديتے هيں۔ تاكه باريك سا فرق سمجھ ميں آجائے۔ اور اگر مخاطب اُمت غير مستجابه ميں سے هے تو (فليكن أول ما تدعوهم إليه شهادة أن لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) كے تحت دين كي دعوت ديں گے۔ تو إس طرح اُمت مستجابه سے خطاب كو دعوت كپہ سكتے هيں۔ اور زياده واضح كرنے كے لئے يه كہہ سكتے هيں كه هر وه بات جو دين كے نام پركسي سے كي جائے۔ وه دعوت هے۔
اور تبليغ كے لغوي معني پہنچانا يا رپورٹ كرنا وغيره كے هيں جيسا كه حديث مباركه " بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً " سے إسكے معني ظاهر هو رهے هيں يعني ميري طرف سے پہنچاؤ چاهے إيك هي آيت كيوں نه هو
مختصر الفاظ ميں دعوت وتبليغ كا مفهوم يه هے كه الله كے بندوں كو الله كے دين كي طرف بلايا جائے اور أن تك دين كي باتوں كو آسان كركے پہنچایا جائے
دعوت الی اللہ کا مقصد:
دعوت و تبلیغ کا مقصد اپنی اور اُمت کی اصلاح ہے يعني يه دين ميري زندگي ميں آ جائے اور تمام دنيا كے إنسانوں كي زندگيوں ميں آجائے اور هر هر شخص دوزخ سے بچ كر جنت ميں جانے والا بن جائے
دعوت و تبلیغ دین کی محنت کا ایک وسیع میدان ہے اور إس ميں مختلف إدارے - جماعتيں اور أشخاص اپني اپني إستطاعت كے مطابق كام كر رهے هيں ان دعوت دین کے خادموں کا مقصد اور بنیادی دعوت یہ ہے کہ تمام اُمت ِ دعوت اسلام قبول کر کے اللہ جلّ شانہ کے سایہ رحمت میں آ جائے اور تمام اُمت اجابت یعنی امت مسلمہ میں وہ ایمان اور ایمان والی زندگی عام ہو جائے جس کی دعوت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم تشریف لائے تھے۔ اور قرآن مجید میں جس کا مطالبہ اس آیت میں کیا گیا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا ادخُلُوا فِی السِّلمِ کَآفَّةً (البقرہ)
”اے لوگو جوایمان لائے ہو داخل ہو جا ؤ اسلا م میں پورے کے پو رے “
ان داعین کی دعوت کا مقصد و محور دو باتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ تمام مسلمان چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے طریقوں کے مطابق پورا کرنے والے بن جائیں۔اور دوسری یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صدقے نبیوں والا کام اب ساری امت کی ذمہ داری ہے۔
اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے۔
یورپ اور افریقہ کے وہ علاقے جہاں پورے ملک میں چند مسجدیں ہوا کرتی تھیں، وہاں ان داعین کی محنت کو اللہ نے قبول فرمایا اور آج سینکڑوں مساجد ہیں اور بہت سے اللہ کے بندے اب بھی موجود ھیں جن کے ہاتھ پر آسٹریلیا اور افریقہ میں ہزاروں ایسے لوگ دوبارہ دائرہ اسلا م میں داخل ہوئے، جو عیسائی اور قادیانی جماعتوں کے دجل و فریب کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئے تھے،
دعوتِ دینِ اسلام ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ یہ امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ علماء اور امت کے باشعور طبقہ پر بالخصوص فرض ہے کہ وہ دعوتِ دین کا کام انجام دیں۔ تبلیغِ دین کا مشن ہر زمانے میں جاری رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے۔نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے امتی کے مشن کو بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ أَدْعُوْآ اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَ مَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یوسف)
(اے نبی صلى الله عليه وآله وسلم ) آپ کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے ،میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ ،میں اور میرے ساتھی بھی۔ اللہ پاک ہے اور ميں شرک کرنے والوں ميں سے نہیں هوں
یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰئک ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (آل عمران)
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اندر ضرور بالضرورایک ایسی جماعت ہونی ہی چاہیے جو لوگوں کو خیروبھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے ۔ عربی قواعد کی رو سے اس حکم میں تاکید درتاکید ہے ۔ نیز اس آیت کے سیاق میں علماء نے صراحت کی ہے کہ اہل کتاب کا ذکرکرنے کے بعد پہلے تو امت کو ہدایت دی گئی تقویٰ ، ایمان باللہ اورایک ساتھ متحد ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی اور اختلاف وتفرقہ سے دور رہنے کی ۔آگے اس آیت میں امت کو ایک جامع پروگرام دیا گیا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کواسلام کی دعوت دیں اور اللہ کی بندگی واطاعت کی طرف انہیں بلائیں۔
ٍ قرآن مجید کی متعدد آیات میں نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کو صریح الفاظ میں دعوتِ دین کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسے :-
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ()
اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا، اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر، بے شک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے، اور ہدایت یافتہ کو بھی خوب جانتا ہے۔النحل،
اے رسول! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا۔المائدہ
اور وہ تمہیں اللہ کی آیتوں سے روک نہ دیں بعد اس کے کہ تم پر نازل ہو چکی ہیں، اور اپنے رب کی طرف بلاؤ، اور مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہو۔القصص
مندرجه بالا آيات میں یہ حکم موجود ہے ۔ ان آیات کے مخاطبِ اصلی تو خود نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم ہیں لیکن یہ احکام سارے ہی مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے واسطے سے یہ پیغام پوری امت کو دیا جارہا ہے۔ فرداً فرداً سارے ہی مسلمان ان احکامِ قرآن کے مخاطب ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس دعوت کو لے کر پوری دنیا پر چھا جائیں۔عام مسلمان ان احکام کی ادائگی میں غفلت کے شکار ہوجائیں توبات کسی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے اور ان کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر وارثین انبیاء بھی اس مشن کو ہس پشت ڈال دیں اور دعوت دین کا کام سرے سے ترک کردیں تو یہ کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔
دعوت دین یعنی غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا شہادتِ حق بھی ہے، اللہ کا واضح فرمان موجود ہے:
وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃَ وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا۔(البقرۃ:)
اوراسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) تم پر گواہ ہو ۔
اس آیت کی شرح وتفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو روز محشر اللہ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اللہ تیرے رسول صلى الله عليه وآله وسلم کے ذریعہ ہم کوجو ہدایت ملی تھی، ہم مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اے اللہ! ترے آخری نبی اور رسول صلى الله عليه وآله وسلم کے واسطہ سے ہم کوجو دینِ حق ملا تھا، ہم نے اسے من وعن پوری دنیا تک پہنچادیا اور اسے قبول کرنے کی عام دعوت دی۔ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کا کام نہیں کیا اور اللہ کے بندوں تک دین حق کا پیغام لے کرنہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو آخرت میں اللہ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے ؟جس کا اس آیت مبارکہ میں مطالبہ ہے اور جس گواہی کے لیے بہر حال پیش ہونا ہے۔
آخری خطبہ میں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے پورے مجمعِ عام سے گواہی بھی لی کہ تم سب اس بات کے گواہ رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کردیا ہے۔ اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔غور کیجیے! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب کرکے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو!تم سب گواہ رہنا کہ اللہ تعالی نے بحیثیت امت مسلمہ ہم پرتبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ ذمہ داری ہم نے ادا کردی ہے۔ پوری دنیا تو کیا ہم اپنی بستی یا قرب وجوار کے غیر مسلم باشندوں کو مخاطب کرکے بھی ایسا نہیں کہہ سکتے ،کیوں کہ ہم نے مطلوبہ انداز میں ان تک دین کی بات پہنچائی ہی نہیں ہے۔
دوسری آیت جس میں امت مسلمہ کا مقصدِ وجود بتایا گیا ہے۔ وہ قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر110 ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔
انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء كرام کو مبعوث فرمایا ۔ اللہ تعالى کے ان برگزیدہ بندوں نے انسانوں کی رہنمائی کی، ان کو مقصدِ زندگی سے آگاہ کیا ، خدا کی بندگی کا صحیح طریقہ بتایا ، زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا اور اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ معاملات ومعاشرت کے آداب سکھائے اور ان کی وحدت واجتماعیت قائم کی، دنیا اور اس کی نعمتوں کو برتنے کے اصول سکھائے، اللہ کے آخری رسول جناب محمد صلى الله عليه وآله وسلم پر نبوت وہدایت کا یہ زریں سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اللہ کا ارشاد ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ(الاحزاب)
(لوگو!)محمد صلى الله عليه وآله وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ،مگر وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔
متعدد احادیث میں نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے کہ میں آخری نبی ہوں، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور اگر کسی نے نبوت کا دعوی کیا تو جان لینا کہ وہ شخص جھوٹا اور کذاب ہے۔
جن مقاصد کے پیشِ نظر انبیاء ورسل بھیجے جاتے تھے اور تبلیغ دین، احقاق حق و ابطال باطل، شہادت حق ،اقامت دین، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جو ذمہ داریاں ان پر ڈالی جاتی تھیں ، اب وہ جملہ ذمہ داریاں امت مسلمہ کو انجام دینی ہیں۔ یعنی انسانوں کی ہدایت ورہنمائی اور تبلیغ دین کا فریضہ اب امت مسلمہ کو انجام دینا ہوگا۔آخری نبی صلى الله عليه وآله وسلم کی امت ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔البتہ علمائے امت جن کو نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے باقاعدہ وارث بتایا ہے۔یہ علماء نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے علم وحکمت اور فہم دین وشریعت کے وارث ہیں اورامت مسلمہ کے اندر ان کا خاص مقام ہے۔
‘‘قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ۔ ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ۔’’ (سورۃ اعراف)
ترجمہ: ‘‘بولا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے،میں بھی ضروری بیٹھوں گا ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر۔ پھر ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں سے شکر گزار۔’’
ترجمہ: ‘‘محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں؛ لیکن وہ اللہ کے بندے اور خاتم النبیین ہیں۔’’
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو اللہ تعالی نے کسی ایک قوم یا ملک کا نبی و رسول بنا کر نہیں بھیجا؛ بلکہ ساری دنیا میں اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی پیغام رسانی کے لیے بھیجا۔ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں اس حقیقت کا یوں اعلان کیا ہے:
‘‘قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ’’(سورۃ اعراف)
‘‘کہہ دیجئے! اے انسانو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔’’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اپنے منصب نبوت اور عہدہ رسالت کو بخوبی نبھایا، اللہ کے بندوں کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد کے قلوب کو شمع ایمان سے منور کرکے، گوشہ اسلام میں داخل کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا۔
یہ اُمتِ محمدیہ (صلى الله عليه وآله وسلم ) اس دنيا پر یونہی بيكار پیدا نهيں کی گئی ہے؛ بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی کو، اس دین کو قیامت تک باقی رکھنا تھا اور انبیاء و رسل علیہم السلام کا سلسلہ بھی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی مبارک ذات پر ختم کردیا؛ اس لیے اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا کی قیادت و سیادت، قوم و ملت کی رہنمائی و نگرانی اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فريضہ کو انجام دینے کے لیے اس امت کو پیدا فرمایا۔ اسی کام و عمل اور فريضہ کی وجہ سے اللہ نے قرآن کریم میں اس کو خیر الامم کے معزز لقب سے خطاب فرمایا، ارشاد خداوندی ہے:
‘‘کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ۔’’ ( آل عمران)
ترجمہ: ‘‘تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو بُرے کاموں سے اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا، کچھ ان میں سے ایماندار ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں’’
‘‘اے مسلمانو! خدا تعالی نے تم کو تمام امتوں میں بہترین امت قرار دیا ہے۔ اس کے علم ازلی میں پہلے سے یہ بات مقدر ہو چکا تھا، جس کی خبر بعض انبیائے سابقین کو بھی دیدی گئی تھی کہ جس طرح نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آله وسلم سب نبیوں سے افضل ہوں گے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت بھی جملہ امت و اقوام پر سبقت لے جائے گی؛ کیوںکہ اس کو سب سے اشرف و اکرم نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نصیب ہوگا۔ ادوم و اکمل شریعت ملےگی۔ علوم و معارف کے دروازے ان پر کھول دیے جائیں گے۔ ایمان و عمل اور تقوی کی تمام شاخیں اس کی محنت اور قربانیوں سے سر سبز شاداب ہوںگی۔ وہ کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہوگی، بلکہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم کو اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہوگا۔ گویا اس کا وجود ہی اس لیے ہوگا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں جنت کے دروازوں پر لا كھڑا کرے۔ منکر (برے کاموں) میں کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور اور ہر قسم کی بد اخلاقی اور نا معقول باتیں شامل ہیں۔ ان سے روکنا بھی کئی طرح سے ہوگا۔ کبھی زبان سے، کبھی ہاتھ سے، کبھی قلم سے، کبھی تلوار سے، غرض ہر قسم کا جہاد اس میں داخل ہوگیا۔ یہ صفت جس قدر عموم و اہتمام سے امت محمدیہ صلى الله عليه وآله وسلم میں پائی جاتی ہے، پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔’’ (تفسیر عثمانی)
إس ميں كوئي شك نهيں كه دعوت وتبليغ هر هر مسلمان كے لئے ضروري ولازمي هے ليكن علماء كرام چونكه آنبياء كرام كے وارث هيں إس لئے إن پر بطور خاص يه ذمه داري عائد هوتي هے كه وه نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے وارث هونے كي وجه سے إس فريضه كو پوري تندهي سے أنجام ديں حضور آكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا:
‘‘إِنَّ العُلماءَ وَرَثۃُ الأنبیاءِ، و إِنَّ الأنبیاءَ لم یُوَرِّثُوا دِینارًا و لا دِرھمًا؛ و إنَّما ورّثوا العلمَ؛ فمن أَخَذَ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافرٍ۔’’ (مشکوۃ)
ترجمہ: ‘‘یقینا علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء دینار و درہم کا وارث نہیں بناتے؛ بلکہ وہ علم ہی کا وارث بناتے ہیں؛ لہذا جس شخص نے اسے حاصل کرلیا، اس نے ایک بڑا حصہ حاصل کرلیا۔’’
اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ علماء انبیاء علیہم السلام کے علمی وارث ہیں؛ لہذا دینِ اسلام کی نشرو اشاعت، افرادِ امت کو اچھے کاموں کی رہنمائی اور برے کاموں سے روکنا اور اللہ سبحانہ و تعالى کے احکام کی اطاعت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرنا: یہ تمام چیزیں علماء کرام کی ذمّےداریوں میں شامل ہیں۔ اس حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام کی یہ دوہری ذمّے داری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تا قیام قیامت‘‘امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ’’ کو اسلام و ایمان سے روشناس کرائیں اور جو لوگ پیغام اسلام کے حوالے تشنہ لب ہیں ، ان کی تشنگی بجھائیں۔ اگر کوئی دولت ایمان سے مالا مال ہے اور فرائض و واجبات ، اعمال صالحہ، تقوی و پرہیزگاری میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے اس طرف بھی توجہ دلائی جائے۔
ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (سورہ نحل)
ترجمہ: ‘‘بلاؤ اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔’’
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ آیت کریمہ مذکورہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ‘‘آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے:
اول: حکمت،
دوئم: موعظت
سوئم: مجادلہ بالتی ھی احسن۔
بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بناء پر ہیں۔
دعوت بالحکمہ، اہل علم و فہم کے لیے،
دعوت بالموعظہ، عوام کے لیے،
مجادلہ بالتی ھی آحسن : یہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں، یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔’’ مفتی صاحبؒ مزید رقم طراز ہیں: ‘‘دعوت الی اللہ در اصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے، امت کے علماء اس منصب کو ان کے نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ تو لازم ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے، وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدال کا موجب بن جاتی ہے۔(معارف القرآن)
‘‘فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى’’ (سورہ طٰہ)
ترجمہ:‘‘سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے۔’’
اس آیت کریمہ میں فرعون جیسے ظالم و جابر اور جفا کار کے پاس بھی دعوت کے وقت نرم گفتاری، رقت انگیزی، سلیقہ مندی اور خوش آہنگی کا درس دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت مخاطب کے اعتبار سے دی جائے گی اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے کو پیش نظر رکھ کر دعوت دی جائے گی، اگر اس راستے سے ذرہ برابر بھی بے توجہی کی گئی، تو داعی ناکام و نا مراد اور بے نیل و مرام رہے گا اور اس کی دعوت بے کار اور رائیگاں ہوگی۔
آج یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر مسلمان نان شبینہ کے محتاج ہیں، قتل و غارت گری کے شکار ہیں، ان پر ظالم و جابر حکمراں مسلط ہیں، ان کے ملکوں پر غاصبانہ قبضہ ہو رہا ہے، اپنے وطن میں رہتے ہوئےغیروں سے خائف ہیں، عزیز کو ذلیل کیا جا رہا ہے، مقدس مقامات: مساجد و خانقاہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے اور مدارس و مکاتب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب تباہی و بربادی کا سلسلہ لگا ہوا ہے اور مسلمان دفاعی قوت سے بھی محروم ہے، چہ جائيکہ اپنے دشمن کو مغلوب کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہ اور مرکزی سبب یہ ہے کہ مسلمانان عالم نے دعوت و تبلغ جیسی اہم ذمے داری کو ترک کردیا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ ترک دعوت کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:‘‘امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جب اس کام کو چھوڑ دے گی تو سخت مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کردی جائے گی اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہوجائے گی، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ اس نے اپنے فرض منصبی کو نہیں پہچانا اور اس کی قدر نہ کی اور جس کام کے انجام دہی کی ذمہ داری تھی اس سے غافل رہی اور اس کو بھلائے رکھنے سے سستی و کاہلی عام ہوجائےگی، گمراہی و ضلالت کی شاہراہیں کھل جائےگی، آپس میں پھوٹ پڑ جائےگی، آبادیاں ویران ہوجائیں گی۔ مخلوق تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اس تباہی و بربادی کی خبر اس وقت ہوگی، جب میدان حشر میں خدا کے سامنے باز پرس کے لیے بلايا جائےگا۔ (قرآنی افادات)
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔ إِن يَّشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ۔ وَمَا ذَلِكَ
عَلَى اللهِ بِعَزِيزٍ’’ (سورہ فاطر)
ترجمہ: ‘‘اے لوگو تم ہو محتاج اللہ کی طرف اور اللہ وہی ہے بے پرواه سب تعریفوں سے، اگر چاہے تم کو لے جائے اور لے آئے ایک نئی خلقت اور یہ بات اللہ پر مشکل نہیں۔’’
الله تعالى سے هر وقت يه دعا كرني چاهيے كه وه ذات هميں إس كام كے لئے قبول فرمالے اور ۔زندگي كے آخري سانس تك هميں يه كام كرنے كي توفيق عنايت فرما دے - آمين يا رب العلمين
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اﷲ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتا۔
(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے۔ میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
اور جن لوگوں کو ہم کتاب (تورات) دے چکے ہیں (اگر وہ صحیح مومن ہیں تو) وہ اس (قرآن) سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان (ہی کے) فرقوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس کے کچھ حصہ کا انکار کرتے ہیں، فرما دیجیے کہ بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اﷲ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔
(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو، بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔
ہم نے ہر ایک امت کے لیے (احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کر دی ہے، انہیں اسی پر چلنا ہے، سو یہ لوگ آپ سے ہرگز (اﷲ کے) حکم میں جھگڑا نہ کریں، اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں۔ بے شک آپ ہی سیدھی (راہِ) ہدایت پر ہیں۔ اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ فرما دیجیے: اﷲ بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔
فرما دیجیے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔
اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔
اور اس شخص سے زیادہ آچھی بات کس کی ھو سکتی ھے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں ( اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔
(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساق ط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑلیا۔ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔
(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوںسے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قرب الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجیے۔
اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بے شک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے۔
اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لیے چن لیا ہے۔ تم اور تمہارا بھائی (ہارون) میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے۔ سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔
اور ہم نے انہیں (یعنی انبیاء کو انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔
اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔
اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔
وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور ان کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اور اﷲ کی راہ میں ان سے (دفاعاً) جنگ کرو جو تم پر جنگ مسل ط کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اﷲ کے لیے وطن چھوڑا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اﷲ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (تعمیری کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے۔
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (ظلم و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (قیامِ اَمن کے لیے) جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے۔ اور سب دین (یعنی نظام بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔
بے شک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لیے (وعدۂ) جنت کے عوض خرید لیے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں (قیامِ اَمن کے اعلیٰ تر مقصد کے لیے) جنگ کرتے ہیں، سو وہ (دورانِ جنگ) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کیے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں منائو جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے۔
ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچیّ ہیں۔
اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو یقینا چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔
اور (قیامِ اَمن اور تکریمِ اِنسانیت کے لیے ) اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لیے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مدد گار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مدد گار ہے۔
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک ﷲ تعالى صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔
دعوت الی اللہ كي فضيلت:
(آحاديث مباركه كي روشني میں..
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے (ہر بات لوگوں تک) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
ایک روایت میں حضرت ابو ِقرْصَافهَ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ بھی تم مجھ سے سنتے ہو اسے بیان کیا کرو اور کسی شخص کے لیے بھی مجھ پر جھوٹ باندھنا جائز نہیں ہے۔ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اور میرے فرمان کے علاوہ میری طرف کچھ منسوب کیا اُس کے لیے جہنم میں گھر بنا دیا جائے گا جس میں آتشِ جہنم اُس کی غذا ہوگی۔
( رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے (دوسروں کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے جبکہ ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس غلطی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے جبکہ ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
حضرت جَریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالی تو اس کے لیے اپنے عمل کا ثواب بھی ہے اور اُس کے بعد جو اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی ہے جبکہ ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (اسی طرح) جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتداء کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا گناہ بھی ہے اور جو اس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے جبکہ اُن کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔
( رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه،)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے (براہِ راست) سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے آگے پہنچا دیا۔ بہت سے سمجھ بوجھ رکھنے والے اپنے سے زیادہ فہم و بصیرت رکھنے والے شخص کو (حدیث) پہنچاتے ہیں اور بہت سے فقہ کے حامل لوگ درحقیقت خود فقیہ نہیں ہوتے۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منٰی میں مسجد خیف میں کھڑے ہو کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے میری بات کو سن کر اسے یاد رکھا پھر اسے اس شخص تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا تھا۔ پس بہت سے سمجھ بوجھ والے دراصل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (میری بات کو) اس شخص تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فہم و بصیرت رکھتا ہے۔
(رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الرَّدِ عَلَی الزِّنَادِقَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ ).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بعد میں آنے والے لوگوں میں سے عادل لوگ اس علم کے حامل ہوں گے۔ وہ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پسند لوگوں کے جھوٹے دعووں اور جاہلوں کی تاویل کو ختم کریں گے۔
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (آخری زمانے میں) دین حجاز کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ جاتا ہے۔ اور دین حجاز میں اس طرح پناہ لے گا جس طرح بکری پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لیتی ہے۔ بے شک دین کی ابتداء اجنبیت (اور تنہائی) سے ہوئی (یعنی دین کی اتباع اور پیروی کرنے والے سوسائٹی میں اجنبی لگتے تھے) اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین (معاشرے میں) پھر اجنبی لگے گا اور (دین کی تبلیغ کی خاطر) الگ تھلگ ہونے والوں کے لیے خوشخبری ہے جو میرے بعد میری اس سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیا ہو گا۔
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: إِنَّ الدِّيْنَ (أَوْ قَالَ: إِنَّ الإِسْلَامَ) بَدَأَ غَرِيْبًا وَسَيَعُوْدُ غَرِيْبًا کَمَا بَدَأَ. فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنِ الْغُرَبَائُ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يُحْيُوْنَ سُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا عِبَادَ اﷲِ.( رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین (یا فرمایا: اسلام) کی ابتداء اجنبیت سے ہوئی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ اس کا آغاز ہوا تھا۔ غرباء (دین کی تبلیغ کی خاطر الگ تھلگ ہونے والوں) کو مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ! غرباء (اجنبی لوگ) کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو میری سنت کو زندہ کرتے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔
11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِيَاکُمْ وَالْجُلُوْسَ بِالطُّرُقَاتِ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيْهَا. فَقَالَ: إِذْ أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيْقَ حَقَّهُ. قَالُوْا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيْقِ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَکَفُّ الْأَذٰی، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ).
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچتے رہنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! ہمیں ایسی جگہوں پر بیٹھنے کے سوا چارہ کار نہیں کیونکہ ہم بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر تمہارا راستوں میں بیٹھنا ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کر دیا کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! راستے کا حق کیا ہے؟ فرمایا: نظریں نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کا (راستہ سے) ہٹا دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے منع کرنا ۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کی آزمائش اس کے اہل و عیال، اس کے مال اور اس کے پڑوس (کے معاملات) میں ہے جس کا ازالہ نماز، خیرات و صدقات، (دوسروں کو) اچھی بات کا حکم دینے اور بری بات سے روکنے میں مضمر ہے۔
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بروزِ قیامت) ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ اس کے اندر اس طرح گھومے گا جیسے چکّی چلانے والا گدھا گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو وہی نہیں ہے جو دوسروں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا اور بری باتوں سے منع کیا کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا: ہاں میں اچھی باتوں کا حکم تو دیتا تھا لیکن خود اس پر (کما حقہ) عمل نہیں کرتا تھا اوربرے کاموں سے منع کرتا تھا لیکن خود اس سے باز نہیں رہتا تھا۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں (سفر کرنے کے سلسلے میں) قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والی منزل آئی اور بعض کے حصے میں اوپر والی۔ پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا تو اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ (چنانچہ اس خیال سے کہ اوپر کے لوگوں کو ان کے آنے جانے سے تکلیف ہوتی ہے) نیچے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا۔ اُوپر والے اس کے پاس آئے اور کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اُس نے کہا: تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ پس اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بھی بچا لیا اور وہ خود بھی بچ گئے، لیکن اگر انہوں نے اسے (سوراخ کرنے کیلئے اس کی مرضی پر) چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کر دیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کرڈالا۔
(رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقہ پر کار بند ہوتے اور ان کے حکم کی پیروی کرتے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف (نالائق) لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ سے (اُن کی اصلاح کیلئے) ان سے جہاد کیا وہ مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے ان کے لیے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کیلئے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔
(رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعض صحابہ نے آپ سے عرض کیا: یارسول اﷲ! صلی اللہ علیہ وسلم مال والے تو ثواب لُوٹ کر لے گئے۔ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں، اور اپنے زائد مال سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے صدقہ کا سبب نہیں بنایا؟ ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر بار الْحَمْدُ ِﷲِ کہنا صدقہ ہے، ہر بار لَا إِلٰهَ إلّا اﷲ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، تمہارا عملِ تزویج کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرنے کی غرض سے عملِ تزویج کرتا ہے تو اس کے لئے اس عمل میں اجر بھی ہوتا ہے۔ (یہ کیسے ہے)؟ فرمایا: بھلا بتلاؤ اگر کوئی حرام طریقہ سے اپنی شہوت کو پوری کرے تو کیا اسے گناہ ہوگا؟ (یقینا ہوگا) تو! اِسی طرح جب وہ حلال طریقہ سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اُس کو اَجر بھی ملے گا۔۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر پیش آنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے لئے صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو سیدھا راستہ بتانا تمہارے لئے صدقہ ہے۔کسی اندھے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا تمہارے لئے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا (بھی) تمہارے لئے صدقہ ہے۔
(رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ).
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر انسان کی تخلیق تین سو ساٹھ جوڑوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ تو جو شخص ایک دن میں اپنے جسم کے ان تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر اَﷲُ أَکْبَر، اَلْحَمْدُ ِﷲِ، لَا إلٰهَ إِلَّا اﷲُ، سُبْحَانَ اﷲِ اور أَسْتَغْفِرُ اﷲَ کہتا ہے، لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی کو ہٹا دیتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے یا برائی سے روکتا ہے، تو اُس دن وہ اس طرح چل رہا ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے بچالیا۔
(رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ )ُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر روز، جس میں سورج طلوع ہے، ہر انسان پر صدقہ لازم ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم میں ہر ایک کے پاس صدقہ کے لیے سامان کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے دروازے بہت ہیں۔ سُبْحَانَ اﷲِ، الْحَمْدُ ِﷲِ، اﷲُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کہنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا، بہرے کو بات سنوانا، نابینا کو راستہ بتانا، راہنمائی چاہنے والے کی راہنمائی دینا، اپنی ٹانگوں کی ساری توانائی استعمال کرتے ہوئے مظلوم فریادی کی مدد کو جانا اور اپنی پوری قوتِ بازو سے ضعیف کی امداد کرنا۔ یہ سب تمہاری طرف سے تمہاری جان کے لیے صدقہ ہیں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها بیان کرتی ہیں: (ایک مرتبہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چہرۂِ اقدس سے جان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرمانا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا پھر کسی سے کلام کیے بغیر باہر تشریف لے گئے۔ میں حجروں (کی طرف سے مسجد) کے قریب ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! بے شک اللہ ل فرماتا ہے: نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو قبل اس کے کہ (وہ وقت آ جائے جب) تم مجھ سے دعا مانگو اور میں تمہاری دعا قبول نہ کروں، تم مجھ سے سوال کرو اور میں تم کو عطا نہ کروں اور تم مجھ سے میری مدد طلب کرو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو قبل اس کے کہ (ایسا وقت آجائے جب) تم اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگو (مگر) تمہاری دعا کو قبول نہ کیا جائے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: ’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔ تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔‘ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تمہیں بہر صورت نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار مستجاب نہیں ہوگی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں ضرور نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔ پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے انہیں روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ پھر ان کے علماء ان کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ مل کر کھاتے پیتے رہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم دگر الجھا دیا {اُنہیں حضرت داؤد اور حضرت عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام ) کی زبان پر (سے) لعنت کی جاچکی (ہے)۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے}۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (یہ فرماتے ہوئے) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جب تک تم اُن کو اچھی طرح حق کی طرف پھیر نہ دو (تم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے)۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک اﷲ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا جب تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور اُس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ لہٰذا جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اﷲ تعالیٰ خاص و عام سب لوگوں کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم میں سے کوئی کیسے اپنے آپ کو حقیر جان سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہ تم میں سے کوئی شخص کوئی معاملہ دیکھے اور اسے اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا حکم بھی معلوم ہو مگر وہ پھر بھی بیان نہ کرے تو اﷲ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن فرمائے گا : تجھے فلاں فلاں معاملہ میں (حق بات) کہنے سے کس نے منع کیا تھا؟ وہ جواب دے گا: لوگوں کے خوف نے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: تمہیں تو (ان سب سے بڑھ کر) مجھ سے ہی ڈرنا چاہیے تھا۔
(رَوَاهُ أَبُوْ دَاؤدَ وَابْنُ حَبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.)
حضرت ھُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس قوم میں برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے (اور اس کے ذمہ دار لوگ) اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو اپنے کسی عذاب میں مبتلا کر دے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم لوگوں پر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکو گے لیکن میرا دیدار کرنا (اس وقت) ہر مومن کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہو گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں میری زیارت کر لیں۔
حضرت عبدا لرحمن حضرمی بیان کرتے ہیں: مجھے اس نے خبر دی جس نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک میری اُمت میں ایک قوم ایسی ہے جس کو پہلے لوگوں کے اجر و ثواب کی طرح کا اجر دیا جائے گا۔ وہ برائی سے منع کرنے والے ہوں گے۔
حضرت عبد الرحمن بن علاء حضرمی رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: مجھے اُس شخص نے بتایا جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے اجر اس اُمت کے اولین کے برابر ہو گا۔ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوں سے جہاد کریں گے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اُس کے لیے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔
حضرت ابو جمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دن کا کھانا کھایا۔ ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ ہی کی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ اُنہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا (وہ اِس جہت سے تم سے بھی بہتر ہوں گے)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا میری اُمت میں میرے بعد ایسے لوگ بھی آئیں گے جن میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ اپنے اہل و مال کے بدلے میری زیارت خرید لے (یعنی اپنے اہل و مال کی قربانی دے کر ایک مرتبہ مجھے دیکھ لے)۔
(رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ ).
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد کے طریق سے اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے) فرمایا: تمہارے نزدیک ایمان کے لحاظ سے کون سی مخلوق سب سے محبوب ترین ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: فرشتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرشتے کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حضوری میں رہتے ہیں! اُنہوں نے عرض کیا: پھر انبیاء کرام f۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور انبیاء کرام کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے! اُنہوں نے عرض کیا: تو پھر ہم (ہی ہوں گے)۔ فرمایا: تم ایمان کیوں نہیں لاؤ گے جب کہ خود میری ذات تم میں جلوہ افروز ہے! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مخلوق میں میرے نزدیک پسندیدہ ترین ایمان ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔ کئی کتابوں کو پائیں گے مگر (صرف میری) کتاب میں جو کچھ لکھا ہو گا (بِن دیکھے) اُس پر ایمان لائیں گے۔
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن الحارث سے فرمایا: جان لے۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں کیا جان لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! جان لے۔ اس نے پھر عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں کیا جان لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو مٹ چکی تھی تو اُس کو بعد ازاں اُس پر عمل کرنے والے ہر شخص کی مثل اجر ملے گا، جبکہ اُن (عمل پیرا ہونے والوں) کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ (اسی طرح) جس کسی نے بدعت ضلالہ (یعنی گمراہی کی طرف لے جانے والی نئی چیز) نکالی جس سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا حاصل نہیں ہوتی تو اُس کو اُس پر اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اُس برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو ہو گا، جبکہ ان لوگوں کے (گناہوں کے) بوجھ میںبھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (یہ دعا کرتے ہوئے) سنا: اے اﷲ! ہمارے خلفاء پر رحم فرما۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے، میری احادیث اور سنت بیان کریں گے اور لوگوں کو سکھلائیں گے۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے تین مرتبہ دعا فرمائی: میرے خلفاء پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ کے خلفاء کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ جو میری سنت کو زندہ کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا شخص سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے جان و مال کے ذریعے جہاد کرنے والا مومن۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دریافت کیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو کسی گھاٹی میں رہ کر خشیتِ الٰہی اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے (انہیں) چھوڑ دیتا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: حَرَّمَهُمَا اﷲُ عَلَی النَّارِ.(رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.)
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: فَهُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ.(رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.)
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: فَهُوَ حَرَامٌ عَلَی النَّارِ. (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان (دونوں قدموں) کو آگ پر حرام کر دیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس وہ دونوں قدم آگ پر حرام ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس وہ دوزخ پر حرام ہے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روايت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات چوکس رہتا ہے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک ماہ روزے رکھے اور قیام کیا۔ اگر کوئی شخص اس دوران فوت ہو جائے تو اس کے نامۂ اعمال میں ان اعمال کا اندراج جاری رہتا ہے جنہیں وہ سر انجام دیا کرتا تھا اور وہ (منکر و نکیر کی) آزمائش سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے (اُخروی) رزق کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ روايت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر مرنے والے کے عمل پر (اختتام اعمال کی) مہر لگا دی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں چوکس رہتے ہوئے مرنے والے کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے۔ نیز وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ ہی ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روايت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غزوات دو طرح کے ہیں: جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کیا، امام کی اطاعت کی، نفیس مال (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کیا، ساتھی سے نرمی برتی اور فساد سے بچا، بے شک اس (جہاد میں مجاہد) کا سونا اور جاگنا سب کا سب باعث ثواب ہے۔ (دوسرا وہ شخص) جو اظہارِ فخر، ریاکاری اور نام و نمود کی نیت سے جہاد کے لیے نکلے، امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد کرے تو وہ (جیسا گیا تھا) اُسی حالت میں لوٹے گا (یعنی اسے ثواب میں کچھ حصہ نہ ملے گا)۔
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےروايت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا بھی چہرہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کے دھوئیں سے (بھی) محفوظ فرمائے گا۔ اور جس شخص کے بھی پاؤں اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے اللہ تعالیٰ اس کے قدموں کو قیامت کے دن آگ سے محفوظ فرمائے گا۔
46- عن سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ يُحْیِي بِهِ الْإِسْلَامَ لَمْ يَکُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الأَنْبِيَاءِ إِلَّا دَرَجَةٌ.(رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.)
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام کو زندہ کرنے کے لئے علم سیکھا، اُس کے اور انبیاء کے درمیان سوائے ایک درجے کے کوئی فرق نہیں ہوگا۔
دعوت الی اللہ كي محنت:
دعوت وتبليغ دینِ اسلام کا بہت هي إهم باب هے هماري تمام عبادتوں كا مغز يهي دعوت وتبليغ هي هے تو گويا دعوت وتبليغ هماري تمام عبادتوں كي بنياد هے اور إس كي محنت كرنا بهي بهت ضرورى هے كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا
إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إنشاءالله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
يهي صورت حال دعوت وتبليغ كي محنت كي هے كه دعوت وتبليغ كو صحيح معنوں ميں كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور إس كے فضائل اور بركات حاصل كرنے كے لئے يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هي هونا ضروري هے قرآن و سنت كي روشني ميں دعوت الی اللہ کی يه محنت اس طرح ھو کہ زیادہ سے زیادہ توحید یعنی کلمۂ طیبہ کی دعوت دی جائے گی پھر اس کی خود پر مشق کی جائے گی اور پھر سب کچھ کرنے کےبعد توکل اللہ پر کرنا ھو گا اور اس ذات سے رو روکر کامیابی کے لئے دعا کیجائےگی
دعوت و تبلیغ میں سب سے پہلے کلمۂ توحید یعنی کلمۂ طیبہ اور اس کے مفہوم و یقین کی دعوت ہے۔ یعنی اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے - اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب دعوت دی جائے. اس سے دوسرے کو دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپنی اصلاح ہو جائیگی.
اکابرين اس ضمن میں کہتے ہیں کہ ’’غیر اللہ سے ہونے کا یقین‘‘دل سے نکالواور ’’اللہ ہی سے ہونے کا یقین ‘‘دل میں ڈالواور اس کا راستہ ہے’’ كلمه كي دعوت‘‘۔
’یہ محنت (مکہ میں )دس سال تک کرائی گئی ہمارا اور صحابہ کا فرق یہی ہے کہ انہوں نے دس سال تک کوئی چیز دیکھی نہیں،سوائے ’’دعوت‘‘کے ،اس لئے ان کو کوئی اشکال نہیں ہوا۔ہمارا قصہ کیا ہے ؟مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے تو مسلمان،نماز پڑھ لی تو مسلمان،گائے کا گوشت کھالیا تو مسلمان،ہمارے مسلمان ہونے کی کئی شکلیں ہیں ،وہاں مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ ’’صاحبِ دعوت‘‘نہ ہو‘‘۔
۔وہاں تو راستہ ہی ایک تھا ۔جو آتا تھا وہ ’’دعوت‘‘کے راستے سے آتا تھا اور دعوت کے راستے سے آنے کے بعد اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا سوائے ’’دعوت الی اللہ ‘‘کے ۔
’’توحيد کی دعوت کا شرعی مفہوم
قرآن پاک ميں الله تعالى كا فرمان هے
قُلْ اَىُّ شَىْءٍ اَكْبَـرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللّـٰهُ ۖ شَهِيْدٌ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ ۚ وَاُوْحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَـغَ ۚ اَئِنَّكُمْ لَـتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّـٰهِ اٰلِـهَةً اُخْرٰى ۚ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىْ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُـوْنَ
تو پوچھ کہ سب سے بڑا گواہ کون ہے، کہہ دو اللہ، میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور مجھ پر یہ قرآن اتارا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے ڈراؤں اور اس کو بھی جس تک یہ قرآن پہنچے، کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہیں، کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا، کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
آيت بالا کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے :
’’رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں تین کافر حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اے محمد صلى الله عليه وآله وسلم!تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں جانتے ؟(توان کے جواب میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ) لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘‘(اور جان لو کہ )میں اسی کلمہ کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں اور اسی کلمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہوں۔پس اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ
’’اے نبی !ان سے پوچھئے کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟‘‘۔
اسی طرح نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اوصاف حمیدہ سے متعلق سورۃ الاحزاب کی آیت ﴿وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ ﴾کی تفسیرحضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت قتادہ رضي الله تعالى عنهم یوں فرماتے ہیں :
’’وداعیاً الی شھادة لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘
’’یعنی آپ صلى الله عليه وآله وسلم اس بات کی طرف دعوت دینے والے تھے کہ گواہی دو اس با ت کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نےحضرت معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه کودعوت دینے کا طریقہ سکھایا جبکہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم ان کو یمن کی طرف روانہ کررہے تھے: فرمايا
فَادْعُھُمْ الی شھادة أن لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
’’سب سے پہلے ان کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی طرف دعوت دو‘‘ ۔
پس ثابت ہواکہ شریعت اسلامی میں ’’ لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی دعوت‘‘ایک اہم دینی و شرعی اصطلاح ہے ،جس کا سمجھنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔
لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ كي دعوت دينا تمام آنبياء كرام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا طريقه رها هے اور پهر إسي پر صحابه كرام عمل پيرا رهے اور پهر إسي پر آكابرين أمت كا عمل رها هے سو يه هر مسلمان كي ذمه دارى هے كه وه إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دينے كي سعى كرے اور يه إيك حقيقت هے كه جتني إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دي جائے گى اتنا هي إس كلمه كا يقين دعوت دينے والوں كے دلوں ميں آتا چلا جائے گا بيشمار لوگوں كي زندگياں إس بات كي شاهد هيں كه جب أنهوں نے إس محنت كو اپنا مقصد بنايا اور كلمه كي دعوت دوسروں كو دينى شروع كي تو الله تعالى نے ان كے دلوں ميں إس كلمه كے يقين كو مضبوط بنا ديا الله تعالى هم سب كو إس كي توفيق عطا فرمائيں- آمين - المختصر يه كه دعوت وتبليغ كي دعوت ميں سب سے مقدم لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ كي هي دعوت هے
مذہب اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے،یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بواسطۂ خاتم النبیین سیدالمرسلین حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم مخلوق کے نام ایک ابدی صلاح وفلاح پرمشتمل پیغام و دعوت ہے۔اُمتِ مسلمہ اُس آخری نبی صلى الله عليه وآله وسلم کی آخری امت ہے جواِس مبارک پیغام الٰہی کی حامل ہے۔ اس اِمت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک خاص اورمبارک پیغام ودعوت لے کرآئی ہے،لوگوں کواس کی طرف بلانا اورتمام اطراف عالم میں اس کی دعوت کو پھیلانا یہ إس اُمت کے افراد کی زندگی کا فریضہ ہے۔ اُمتِ محمدیہ صلى الله عليه وآله وسلم كا یہ مبارک فریضہ قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ کے نصوص اورنبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی سیرت مقدسہ سے بالکل واضح طور پرثابت ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کُنْتُمْ خَیْرَأمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘۔ (آل عمران)
ترجمہ:’’(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہوجولوگوں(کی نفع رسانی)کے لئے نکالی گئی هو،تم اچھے کاموں کا حکم کرتے ہواوربرے کاموں سے منع کرتے ہو‘‘۔
اس آیت کریمہ میں صاف اورکھلے لفظوں میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلم امت کا وجود ہی اس لئے ہوا ہے کہ وہ اُممِ عالم کی نفع رسانی کا فریضہ سرانجام دے،خیرکی طرف بلائے،معروف کی ترویج کرے اورمنکرات سے روکے۔اس سے بڑھ کرایک دوسری آیت مباركه میں اللہ رب العزت نے اس کام کے لئے ایک مستقل جماعت کا ہونا ضروری قراردیا،قرآن مجید میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إلٰی الْخَیْرِیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَأُولٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔
(آل عمران)
ترجمہ:’’اورچاہئے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ھو جو لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دیتی رہے اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکرتی رہے اوریہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
فریضۂ دعوت میں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی نیابت اس سے مزید ایک قدم اورآگے بڑھ کرامت مسلمہ فریضۂ دعوت میں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی جانشین اور نائب ہے،اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا فریضۂ منصبی بیان فرمایا، وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ کام حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم کا ہے اورنبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کوحکم دیا کہ وہ اپنی اُمت کو یہ بتلا دیں کہ یہ کام متبعین کا بھی ہے،اللہ رب العزت کا ارشاد مبارک ہے:
’’قُلْ ہَـذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْ إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘۔ (یوسف)
ترجمہ:’’اے نبی صلى الله عليه وآله وسلم !آپ فرمادیجئے، کہ یہ میراراستہ ہے میں لوگوںکو اللہ کی طرف بلاتا ہوںب صیرت کے ساتھ،یہ میرا اورمیری اتباع کرنے والوںکا بھی کام ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کو نبوت کے تین بڑے فرائض عطا کئے:
۱- تلاوتِ آیات ۔
۲- تزکیہ
۳- تعلیمِ کتاب وحکمت
اُمتِ مسلمہ اپنے نبی صلى الله عليه وآله وسلم کی جانشینی میں ان تینوں کاموں میں شریک ہے،یہ تینوں فرائض اُمت مسلمہ پرفرض کفایہ ہیں۔حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے مبارک دور اور خیر القرون میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعینؒ اوراس کے بعداسلافؒ نے ہر زمانے میں ان اُمور کی انجام دہی کی بھرپورسعی فرمائی۔ خود حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کرسنائیں، اس کے احکام بیان کئے،ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دی اوراپنی مبارک صحبت اور پُر تاثیر تدبیر سے ان کے باطن ونفوس کا تزکیہ بھی فرمایا۔ تاریخ دعوت وعزیمت خیرالقرون سے دوری کے زمانہ میں رفتہ رفتہ ان فرائض نبوت کی ادائیگی میں کوتاہی شروع ہوئی ،ظاہری علوم اورتزکیۂ باطن دوالگ الگ راہیں قراردی گئیں،نتیجہ یہ نکلا کہ علم والے دنیا کے طالب ہوئے اورتصوف وتزکیہ کے مدعی علوم شریعت سے بے بہرہ ہوگئے۔ لیکن بمقتضائے سنت الٰہی ہر زمانے میں ایسی شخصیات پیدا ہوتی رہیں جن میں نورنبوت کے تعلیم وتربیت والے رنگ نمایاں طورسے یکجا تھے۔ان جلیل القدراورعظیم المرتبت شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے،ان نفوس قدسیہ کے تذکرہ کے لئے سینکڑوں کیا ہزاروں دفتر ناکافی ہیں،قریب کے زمانہ میں مفکرِاسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ كتاب تحریر فرما کر اس سلسلۃ الذہب کی بعض کڑیوں کے روشن کردارکواُمت مسلمہ کے سامنے لائے۔
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اُصولِ دعوت:
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے مبارک عمل ’’دعوت الی اللہ ‘‘ کے چند بنیادی اصول یہ ہیں:
پہلا اُصول
تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کا بنیادی اُصول خلق خدا پر شفقت اور خیرخواہی کا جذبہ ہے،بندگانِ خدا کی تباہ شدہ حالت سے وہ غمگین اورمتفکر ہو جاتے،ان کی خیرخواہی کے نتیجہ میں ان کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح ان کی امت سدھرجائے، راہ راست پر آجائے۔ قرآن مجید نے اس کوکہیں’’أنَالَکُمْ نَاصِحٌ أمِین‘‘کہیں’’وَنَصَحْتُ لَکُمْ‘‘ اور کہیں پر’’وَأنْصَحُ لَکُمْ‘‘کہہ کربیان کیاہے۔
دوسرا اُصول
تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت میں یہ بات مشترکہ طورسے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام اوردعوت کے عمل پرکسی سے کوئی اجرت ومزدوری طلب نہیں کیا کرتے تھے،مخلوق سے دنیاوی اجر،تعریف ومحبتیں،وغیرہ تمام اغراض دنیوی سے مکمل استغناء برتتے تھے،جس کے نتیجہ میں ان کی دعوت نہایت مؤثراورنتیجہ خیزہوا کرتی تھی۔قرآن مجید نے اس اُصول کوان کے الفاظ میں بیان کیا هے
’’وَمَاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍإنْ أَجْرِیَ إلَّاعَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘۔ (الشعراء)
ترجمہ:’’اور مانگتا نہیں میں تم سے اس پر کچھ بدلہ(حق)میرا بدلہ ہے اسی پروردگارِ عالم پر‘‘۔
تیسرا اُصول
دعوت إلی الخیراورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا ایک بڑا اور بنیادی اصول نرمی،نرم گوئی،حکمت وبصیرت اورایسے خلوص و محبت سے دوسرے کومخاطب کیا جائے کہ داعی کی بات مدعوکے نہ چاہتے ہوئے بھی اس اندازِتخاطب کی وجہ سے اُس کے دل کے نہاں خانوں میں اترجائے۔دعوت کے اس زریں اصول کواللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہے: ’’أدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ ‘‘۔ (النحل) ترجمہ:’’ آپ اپنے پروردگارکی طرف لوگوںکو دانش مندی اوراچھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت اوربحث ومباحثہ کریں تو وہ بھی خوبی سے‘‘۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس نرمی وحکمت کا یہ مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں كه عقائد و فرائض میں مداہنت سے کام لیا جائے،مداہنت فی الدین بتعلیم قرآن ممنوع ہے۔
چوتھا اصول
دعوت دینے والے داعیان حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوتِ خیرکے سلسلے میں سیرت نبوی صلى الله عليه وآله وسلم سے رہنمائی حاصل کریں،اورنہجِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اتباع کی کوشش کریں۔ حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی دعوت کے آغازمیں سب سے پہلے سب سے زیادہ تاکید توحید ورسالت یعنی کلمہ’’ لاإلہ إلااللّٰہ‘‘کی فرمائی، جس کے دل ودماغ میں کلمۂ طیبہ کی حقیقت اترگئی، اس کے لئے احکامات پرعمل پیرا ہونا آسان ہوگیا۔ خود احادیث مباركه میں آتا ہے کہ پہلے آیاتِ ترغیب نازل ہوئیں،پھرآیاتِ حلال وحرام نازل کی گئیں۔
پانچواں اصول
تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت سے دعوت کا ایک اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام لوگوں کا اپنے پاس آنے کا انتظارنہیں فرماتے تھے،بلکہ دعوت حق لے کر خود ان کے پاس چل کرجایا کرتے تھے،یہ وصف حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی دعوت میں نمایاں طورسے پایا جاتا ہے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی سیرت مبارکہ اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تبلیغی ودعوتی اسفاراس پر واضح اوربین دلیل ہیں۔
چھٹا اُصول
داعی کے لئے دعوت إلی الخیرکے سلسلے میں ایک اہم اصول اپنے کاموں کو ترک کرکے ہجرت و خروج کواختیارکرنا اورپاکیزہ وعلمی وعملی ماحول میں جانا بھی ہے، جہاں سے مستفید ہوکر اپنی قوم و قبیلہ وعلاقہ میں آکراُن کوفیض یاب کرنا ہے۔
ساتواں آصول
دعوت وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے والوں کی تعلیم وتربیت کا زیادہ ترمدار صحبتِ اسلاف، باہمی تعلیم وتعلم پرہونا چاہئے۔ان کے دن دعوت إلی اللہ اوراموردین میں مصروف ومشغول ہوں اور راتیں تنہائی میں اپنے خالق ومالک کے ساتھ مناجات میں صرف ہوا کریں۔ دعوت الی الخیر کے یہ چند بنیادی اصول ہیں،پس دعوت وتبلیغ کی جو تحریک بھی مذکورہ اصولوں کے مطابق کام کرے گی تو ان کی محنت نہج نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اوراصلِ اول کے زیادہ سے زیادہ قریب تر ہوگی۔
جاری ھے ۔۔۔۔۔