صہابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی مکہ مکرمہ میں دعوت وتبلیغ
اللہ تعالی کی طرف سے دعوتِ اسلام کے حکم کی وحی آنے کے بعد تین برس تک حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں سب سے پہلے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تیرہ سالہ مکی دور کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوتِ دین کے لئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بھر پور معاونت کی اور اس ضمن میں پیش آنے والی ہر اذیت ،تکلیف اور دکھ کوبڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔دعوتِ دین کے اس مشکل اور کٹھن دور میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے جو مناہج اور اسالیب اختیار فرمائے، ان میں ایک اھم اسلوب ہر فرد تک انفرادی سطح پر دعوت پہنچانے کا اختیار کیا گیا اوریہ حقیقت ہے کہ اگر افراد تک ذاتی سطح پر بات پہنچائی جائے تو اس کا یقیناًاثر ہوتا ہے ۔اس لئے اسوۂ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ نے بھی اس اندازِ دعوت کو بڑے مؤثر طریقۂ تبلیغ کے طور پر اپنایا۔ چنانچہ مکی دور کے ابتدائی سالوں میں کئی لوگوں کا صحابہ کرامؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرنا اس طریقۂ تبلیغ کی کامیابی کی روشن دلیل ہے ۔علامہ ابن الاثیرؒ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: کہ ان کی دعوت پر ایک جماعت جن کو ان کے ساتھ محبت وتعلق تھا، اسلام لائی۔یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی ان کی دعوت پر اسلام لائے
ایک روایت کا مفہوم ھے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسلام میں داخل ھونے کے بعد اب میرے ذمہ کیا کام ھو گا تو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میرا کام ھے وھی تمہارا کام ھوگا یعنی میں لوگوں کو اللہ کیطرف دعوت دیتا ھوں لہذا تم بھی دعوت الی اللہ کا کام کرو سو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ نے پہلے دن سے ھی اپنا تن من دھن دعوت دین کے لئے وقف کر دیا تاھم ابھی دعوت کا کام رازداری سے کرنے کی ضرورت تھی اس لئے ھر اسلام قبول کرنے والے کو رازداری سے کام کرنے کی ھی ھدایت ملتی تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے بھی حسب حکم رازداری سے تبلیغ کا کام شروع کردیا حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نےاﷲ پاک کی طرف دعوت دینی شروع کر دی ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اپنی قوم میں ہر دلعزیز اور نرم طبیعت اور محبوب تھے اور قریش کے نسب ناموں سے پورے واقف تھے اور قریش کی زندگی کے ہر نشیب و فراز سے واقف تھے ۔تجارت کیا کرتے تھے ،بڑے با اخلاق اور وسیع القلب تھے ۔آپ کی قوم کے افراد آپ کے پاس آتے اور اکثر امور میں آپ ہی سے مشورہ لیتے کیونکہ آپ کا علم وسیع تھا اور آپ کی صحبت اچھی تھے اس لئے لوگ کثرت سے آپ کے ہاس آتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اسلام لانے کے بعد اپنی قوم میں سے جس کسی پر اعتماد تھا ،جو لوگ آپ کے پاس آتے جاتے اور آپ کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے ان سب کو اسلام کی دعوت دی پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت و تبلیغ سے حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم بھی جلد ہی دامن اسلام میں آ گئے۔ پھر چند دنوں کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابوارقم، حضرت عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہم بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر کچھ مدت کے بعد حضرت ابو ذر غفاری و حضرت صہیب رومی، حضرت عبیدہ بن الحارث بن عبدالمطلب، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور ان کی بیوی فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ عنہم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل حضرت عباس بن عبدالمطلب کی بیوی اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما بھی مسلمان ہو گئیں۔ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مردوں اور عورتوں نے بھی اسلام لانے کا شرف حاصل کرلیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۴۶)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی ابتدائی دعوت پر جو لوگ مسلمان ھوئے اگے چل کر یہ تمام بزرگ بہت بڑے بڑے مراتب کے حامل صہابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم بنے یہ لوگ “ السابقون الاولون “ کہلائے جن کی فضیلت قرآن مجید میں آئی ھے اور یہی لوگ اسلام کا ھراول دستہ تھے ان لوگوں نے اپنی زندگیاں دعوتِ اسلام کے لئے وقف کر دی تھیں دین کی تبلیغ کے لئے ان کی قربانیوں کا ایک وسیع سلسلہ ھے ان اسلام لانے والے اولوالعزم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں ایک نمایاں نام خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالی عنہ کا ھے جن کے کارھائے نمایاں حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں کثرت سے ملتے ھیں اور جن کی زندگی کے حالات کے متعلق بے شمار کتابیں تصنیف کی گئیں
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عثمان غنی بن عفان رضی اﷲ تعالی عنہ اسلام کے تیسرے خلیفۂ راشد ، داماد رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور جامع القرآن تھے۔ عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ سابقین اسلام اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، کیونکہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا تھا اس لئے ان کی کنیت “ذو النورین “ ہے ۔عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل بلکہ سرفہرست تھے بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ اسی لیےآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو’’صاحِبُالْہِجْرَتَیْن‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے دو ہجرتیں کرنے والا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ پر مکمل اعتماد فرماتے تھے اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور سخاوت کی وجہ سے ان کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت اور شہادت کی خوش خبری دی تھی
سنہ 23ھ (644ء) میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ مشورہ سے خلیفہ بنائے گے اور اپنی مظلومانہ شہادت ( 644ء تا 656ء ) تک تقریباً بارہ سال خلافت کی ذمہ داریاں انجام دیتے رھے وقتِ شہادت ان کی عمر بیاسی سال تھی
ولادت با سعادت
حضرت عثمان رضی اللہُ تعالٰی عنہ 576 عیسوی میں پیدا ھوئے آپ کی ولادت عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں ھوئی
*سلسلۂ نسب*
سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:عثمان ابن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔اس طرح آپؓکا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مبارک سلسلۂ نسب سے جا ملتا ہے۔آپؓکی والدہ کا نام’ارویٰ‘ ہے اور ان کی والدہ امِ حکیم اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد ’عبداللہ‘ جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپؓ(مَردوں میں) حضرت ابو بکر صدیق، حضرت علی اور حضرت زید ابن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد (چوتھے نمبر پر) ایمان لائے۔
منفرد طُرَّۂ اِمْتِیاز
عبداللہ بن عمر بن ابان جعفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے ماموں حسین جعفی نے کہا: تم جانتے ہو کہ حضرت عثمانؓ کا نام ذوالنورین کیوں پڑا؟ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ انھوں نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تک، حضرت عثمانؓ کے سوا کسی شخص کے نکاح میں، کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں رہیں اسی لیے آپؓ کا نام ’ذوالنورین‘ پڑا۔حضرت علیؓ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت امِ کلثومؓ کا بھی آپؓ کے نکاح میں انتقال ہو گیاتوآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میرے چالیس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان سب کا نکاح، عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ سے کر دیتا۔ آپؓ کا شمار سابقین اولین، اولِ مہاجرین اور عشرۂ مبشرہ میں ہوتا ہے۔
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر کا غالباً چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدائے غلغہ انداز بلند ہوئی۔ گو ملکی رسم و رواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے یہ آواز نامانوس تھی، تاہم وہ اپنی فطری عفت، پارسائی، دیانتداری اور راست بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کے لیے بالکل تیار تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو انھوں نے دین مبین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اپنے حلقہ احباب میں تلقین و ہدایت کا کام شروع کیا، ایام جاہلیت میں ان سے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ارتباط تھا اور اکثر نہایت مخلصانہ صحبت رہتی تھی، ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں بزرگ جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت عثمانؓ کو دیکھ کر فرمایا: ’’عثمان! خدا کی جنت قبول کرو ۔ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوا ہوں‘‘، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زبان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر بھری ہوئی تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بہ گوش اسلام ہوگیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا، جب کہ چند زن و مرد ھی اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔
حبشہ کی ہجرت
مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کے غیظ و غضب کی آگ روز بروز زیادہ مشتعل ہوتی جاتی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنی وجاہت اور خاندانی عزت کے باوجود عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروں کے ظلم و ستم کا نشانہ تھے، ان کو خود ان کے چچا نے باندھ کر مارا، اعزہ و اقارب نے سرد مہری شروع کردی اور رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفاکاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہوگئی، اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ سے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو ساتھ لے کر ملک حبش کی طرف روانہ ہوگئے، چنانچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلاوطن ہوا۔
ہجرتِ حبشہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا کچھ حال معلوم نہ ہوسکا اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پریشان خاطر تھے، ایک روز ایک عورت نے خبر دی کہ اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا، اتنا معلوم ہونے کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں عثمانؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلاوطن ہوا‘‘۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس ملک میں چند سال رہے اس کے بعد جب بعض اور صحابہؓ قریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی آگئے، یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے، اس بنا پر بعض صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم پھر ملک حبش کی طرف لوٹ گئے، مگر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ پھر نہ گئے۔
مدینہ کی ھجرت
اسی اثنا میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی ہجرت کا حکم فرمایا، تو حضرت عثمان ؓ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اورحضرت اوس بن ثابت ؓ کے مہمان ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اورحضرت اوس بن ثابت ؓ میں برادری قائم کردی۔ اس مواخات سے دونوں خاندانوں میں جس قدر محبت اوریگانگت پیدا ہو گئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت پر حضرت حسان بن ثابت ؓ تمام عمر سوگوار رہے اور ان کا نہایت پردرد مرثیہ لکھا
واقعہ بیعت رضوان
ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا،تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، جب سب لوگ بیعت کرچکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے کام سے گئے ہوئے ہیں ،پھر اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا یعنی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خود بیعت فرمائی (ترمذی). شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا. یہ وہ فضیلت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے (اشعۃ اللمعات). آپ نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ حبشہ اور مدینہ دونوں جانب ہجرت کی. غزوہ بدر کے لئے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تیاری کر رہے تھے تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ کی طبیعت ناساز تھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں ہی رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا. غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کی عدم شمولیت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بدری صحابہ میں شمار کیا اور بدر کے مال غنیمت سے حصہ بھی عطا فرمایا.
بیرِ رومہ کی خریداری
مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی کیونکہ پینے کا پانی نایاب تھا تمام شہر میں صرف بیررومہ ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا؛لیکن اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے اس کو ذریعہ معاش بنا رکھا تھا، حضرت عثمان ؓ نے اس عام مصیبت کو دفع کرنے کے لیے اس کنوئیں کو خرید کروقف کردینا چاہا، یہودی کنواں بیچنے پر راضی نہ ھوا تو حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ نے یہودی کو نصف کنواں خریدنے کی پیشکش کی سعی بلیغ کے بعد یہودی صرف نصف حق فروخت کرنے پر راضی ہوا، حضرت عثمان ؓ نے بارہ ہزار درہم میں نصف کنواں خریدلیا اورشرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کی باری ہوگی اور دوسرے دن اس یہودی کے لیے یہ کنواں مخصوص رہے گا۔ جس روز حضرت عثمان ؓ کی باری ہوتی تھی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر کر رکھ لیتے تھے کہ دودن تک کے لیے کافی ہوتا تھا، یہودی نے دیکھا کہ اب اس سے کچھ نفع نہیں ہوسکتا تو وہ بقیہ نصف بھی فروخت کرنے پر راضی ہو گیا، حضرت عثمان ؓ نے آٹھ ہزار درہم میں اس کو خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، اس طرح اسلام میں حضرت عثمان ؓ کے فیض کرم کا یہ پہلا ترشح تھا، جس نے توحید کے تشنہ لبوں کو سیراب کیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء
غزوہ تبوک اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بے مثال فیاضی
مدینہ منورہ میں نو ھجری میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، اس کا تدارک ضروری تھا؛لیکن یہ زمانہ نہایت عسرت اورتنگی کا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تشویش ہوئی اور صحابہ ؓ کو جنگی سامان کے لیے زرومال سے اعانت کی ترغیب دلائی، اکثرلوگوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، حضرت عثمان ؓ ایک متمول تاجر تھے، اس زمانہ میں ان کا تجارتی قافلہ ملک شام سے نفع کثیر کے ساتھ واپس آیا تھا، اس لیے انہوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات تنہا اپنے ذمہ لے لیے، ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوہ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے، اس بنا پر گویا حضرت عثمان ؓ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کے لیے سامان مہیا کیا اور اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کے لیے ایک ایک تسمہ تک ان کےروپے سے خریدا گیا تھا، اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامان رسد کے لیے ایک ہزار دینار پیش کیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کی اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے:ماضر عثمان ما عمل بعد ھذاالیوم (آج کے بعد عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا)۔ دس ھجری میں سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہے، حضرت عثمان ؓ بھی ہمرکاب تھے، حج سے واپس آنے کے بعد ماہ ربیع الاول 11ھ کی ابتدا میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بارہویں ربیع الاول دوشنبہ کے دن رہگزین عالم جاوداں ہوئے۔
*خلافت*
تقریباً ًدس سال خلافت کے بعد حضرت عمر ؓ نے شہادت کا مرتبہ پاتے ھوئے سفر آخرت اختیار کیا، وفات سے پہلے لوگوں کے اصرار سے خلافت کے لیے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لیا جائے، علی ؓ، عثمان ؓ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد بن وقاص ؓ، عبدالرحمن بن عوف ؓ، اورتاکید کی کہ تین دن کے اندر انتخاب کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ فاروق اعظم ؓ کی تجہیز وتکفین کے بعد انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا اور دودن تک اس پر بحث ہوتی رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا، آخر تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نےکہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں میں دائر ہے لیکن اس کو تین شخصوں تک محدود کردینا چاہیے، اورجو اپنے خیال میں جس کو مستحق سمجھتا ہوا اس کا نام لے، حضرت زبیر ؓ نے حضرت علی مرتضی ؓ کی نسبت رائے دی، حضرت سعد رضی اﷲ تعالی عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا نام لیا، حضرت طلحہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالی عنہ نے کہا میں اپنے حق سے دست بردارھوتا ہوں، اس لیے اب یہ معاملہ صرف دو اشخاص یعنی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ میں منحصر ہے اور ان دونوں میں سے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، اس کے بعد علیحدہ علیحدہ حضرت علی ؓ اورحضرت عثمان ؓ سے کہا کہ آپ دونوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دیدیں، اس پر ان دونوں کی رضامندی لینے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ مسجد میں جمع ہوئے، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک مختصر ؛لیکن مؤثر تقریر کے بعد حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ پربیعت کی، اس کے بعد حضرت علی ؓ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، حضرت علی ؓ کا بیعت کرنا تھا کہ تمام حاضرین بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے، غرض چوتھی محرم 24ھ دوشنبہ کے دن حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ اتفاق عام کے ساتھ مسند نشین خلافت ہوئے اور بارہ سال تک تختِ خلافت کو رونق بخشی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ اور المناک شہادت
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان : اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ تعالی عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کو جمعۃ المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کوشہید کرنے کی یہ سازش درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ، یہ سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گئے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔آپ کی شہادت پر مدینہ میں کہرام مچ گیا ۔حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا لوگو: واجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے ،حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ جب تک زندہ تھے اللہ کی تلوار نیام میں تھی ،اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی، حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا اگر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے خون کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے، حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کو جیسے ہی شہادت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور حافظ ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ بھی ان سے جاملیں گئے۔
آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کی شہادت کے وقت خون کا پہلا قطرہ قرآن پر گرا ۔دنیا میں ایک دن میں کئی کئی بار قرآن کی تلاوت کرنے والے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا تعلق اس طرح شہادت کے بعد بھی تاقیامت قرآن تک جڑ گیا ۔آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ کو مدینہ میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا آپ کو قبر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اتارا۔آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ کا گھر جہاں موجود تھا اس مقام کو محفوظ کرنے کیلئے وہاں مسجد ذوالنورین تعمیر کردی گئی ہے۔
سیدنا عثمان غنی ؓرضی اﷲ تعالی عنہ کی شہادت اپنی مظلومیت اور مصیبت نیز نتائج کے لحاظ سے امت میں سب سے پہلی اور بے نظیر شہادت ہے۔ آپؓکی شہادت سے قبل مسلمان متحد تھے اور ان کی متفقہ قوت کفر اور شعائرِ کفر کو مٹانے میں صَرف ہو رہی تھی اور نبوت کی برکات باقی تھیں، مگر آپؓکی شہادت کے ساتھ ہی وہ تمام برکات اٹھا لی گئیں اور امت میں اختلاف و انتشار پیدا ہو گیا اور اب تک جو قوت دشمنانِ اسلام کے خلاف استعمال ہوتی تھی باہم ایک دوسرے کو زیر کرنے میں ضایع ہونے لگی۔ جس تلوار سے کفر کی گردن زدنی ہوتی تھی، اسے مسلمان کی گردن کو دھڑ سے الگ کرنے میں استعمال کیا جانے لگا۔وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ مسلمانوں کے آپسی اختلاف بلکہ افتراق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن سے پوری امت کو فتنوں نے چہار جانب سے گھیر لیا اور ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ’ یہ وہی مسلماں ہیں جسے دیکھ کے شرمائیں یہود!‘
آپؓ کی شہادت کے واقعے کو بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہئیں، ملخص یہ کہ آپؓکی خلافت کے آخری ایام میں بعض لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا اور یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ بغاوت رونما ہو گئی اور باغیوں نے آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کا محاصرہ کر لیا(اور حضرت حسینؓجیسے) صحابہ کرامؓ کے آپؓ کے دروازے پر پہرا دینے کے باوجود، گھات لگا کر کسی طرح چھت پر چڑھ کر آپؓکو نہایت مظلومیت کے ساتھ پیاسا شہید کر دیا اور امّت دو نور والے اس عظیم صحابیِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے وجودِ مسعود سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ “ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون “ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
علامہ ذہبی نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے کمالات وخدمات کاذکران الفاظ میں کیاہے ‘ابوعمرعثمان رضی اﷲ تعالی عنہ ذوالنورین تھے ۔ان سے فرشتوں کو حیا آتی تھی۔ انھوں نے ساری امت کواختلافات میں بڑجانے کے بعدایک قرآن پرجمع کردیا۔وہ بالکل سچے ،کھرے ،عابدشب زندہ داراورصائم النہارتھے اوراللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے تھے،اوران لوگوں میں سے تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ شہادت حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کی گئیں جن میں مصنفین نے خلیفۂ ثالث سید نا عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالی عنہ کی سوانح ، عادات وخصال ، فضائل ومناقب اور کارناموں کا ذکر کر نےکے ساتھ ان کی المناک شہادت کا ذکر کیا ہے۔اور کے قتل کرنے میں شامل افراد کےالگ الگ انجام کو بھی بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ قدرت نے اعدائے دین ، اعدائے صحابہ اوراعدائے سید نا عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ سے نہایت شدید انتقام لیا۔سبائی پارٹی کے ایک ایک فرد کو عبرت ناک سزا دی خود عبد اللہ بن سبا اشق الاشقیاء جس نے دین کی تخریب،تفریق میں بین المسلمین اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کی خونریزی وخو ن آشامی کایہ سارا پروگرام بنایا تھا نہایت بری طرح آگ میں جل بھون کر واصل جہنم ہوا۔ اس کی پارٹی کاایک ایک منبر اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا ایک ایک دشمن پاگل ہوکر ذلت کی موت مرا۔
ازواج و اولاد
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، پہلی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ تھیں، حبشہ کی ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ تھیں، واپس آکر مدینہ منورہ کی ہجرت میں شریک ہوئیں، ایک سال زندہ رہیں، 2ھ میں غزوۂ بدر کے موقع پر وفات پائی، ان سے عبد اللہ نامی ایک فرزند تولد ہوا تھا جس نے پچپن ہی میں وفات پائی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے 3ھ میں نکاح ہوا، انہوں نے بھی نکاح کے چھ سات برس بعد 9ھ میں وفات پائی، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اس کے بعد حسب ذیل نکاح کیے:
فاختہ بنت غزوان،
ان کے بطن سے بھی ایک فرزند تولد ہوا، عبد اللہ نام تھا ؛لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گیا۔
ام عمروبنت جندب،
ان کے بطن سے عمرو، خالد، ابان، عمراورمریم پیدا ہوئے۔
فاطمہ بنت ولید،
یہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے بیٹے ولید اورسعید کی ماں ہیں۔
ام لبنین بن عیتیہ،
ان سے عبدالملک پیدا ہوئے، انہوں نے بچپن ہی میں وفات پائی۔
رملہ بنت شیبہ،
عائشہ، ام ابان اورام عمر و؛ان کے بطن سے تولد ہوئیں۔
نائلہ بنت الفرافصہ،
شہادتِ عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کے وقت یہ موقع پر موجود تھیں، ان کے بطن سے مریم بنت عثمان ؓ پیدا ہوئیں۔
صاحبزادوں میں سے سب سے نامور حضرت ابان ہوئے، انہوں نے بنوامیہ کے عہد میں خاصا اعزاز حاصل کیا۔رضی اللہ تعالی عنہم
جاری ھے ۔۔۔۔۔