دوسرا نمبر : صلوة(نماز)

 دوسرا نمبر : صلوة(نماز)

دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت

(قسط نمبر - 3 )


 نمبر - 3 )


دوسرا  نمبر : صلوة(نماز) 


إيمان كے بعد سب سے پهلى چيز جو هر مسلمان كے لئے لازمي هے وه نماز هے - نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے معنى ومفهوم كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-

لغوی معنی:

"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ نماز كي هر ركعت ميں سورة فاتحه كي تلاوت كي جاتي هے جو مكمل دعا هے - صلوٰۃ" کے إيك معنی بہترین ذکر کے بهي ہیں جيسا كه قرآن مجيد ميں نماز كو ذكر فرمايا گيا هے

"صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے بهي ہیں، جب کہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ٓفرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، یعنی برکت کی دعا دیتے ہیں" یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوق یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔

شرعی معنی:

شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے سے اللہ کی عبادت کرنا هے جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" بمعنی دعا کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"

درآصل "صلوٰۃ" دعا ہی کا ایک نام تھا پھر یہ نماز ک) دعا سے مناسبت کی وجہ سے شرعی نماز کا بھی نام ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں آپس میں قریب ہیں۔ پس جب بھی شریعت میں "صلوٰۃ" (نماز) کہا جائے تو اس سے نماز کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی شریعت میں لفظ "صلوٰۃ" اس مخصوص عبادت نماز ہی کے لئے خاص ہوگیا -


"صلوٰۃ" (نماز) کا مفہوم :

نماز الله تعالى كے خزانوں سے براه راست حاصل كرنے كا ذريعه هے - اپني حاجتيں الله تعالى سے مانگنے كے لئے نماز إيك بهترين راسته هے-

نماز ميں دعا کی اقسام:

1- دعائے مسئلہ:

اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کے لئے مفید ہو مثلاً دنیوی و اخروی نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ نماز اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔

2- دعائے عبادت:

اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے زبانِ حال سے اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔


شریعت میں نماز کا حکم:

قرآن مجید، احادیثِ نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم اور اجماعِ امت سے پنجگانه نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر وقت كي پابندي كے ساتهـ فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:


إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء)

ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے"


ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (سورۃ البقرۃ)

ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔


ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (سورۃ البینہ)

ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی (سچی امت ) کا دین ہے۔"


اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:

"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآله وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔


ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔

"امت مسلمہ کا دن اور رات میں پانچ نمازوں کے وجوب پر اجماع ہے"

نماز كا مقصد:

نماز كے مقصد سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم عبادت الله تعالى كي طرف سے عنايت هونے كا مقصد كيا هے؟ تو نماز كا مقصد يه هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي صفت صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي همارا يهي معمول بن جائے- يه إيك مشق هے تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -


نماز کی اَہمیت :

جيسا كه عرض كيا جاچكا هے كه نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ إس كي إهميت كا أنداذه إس بات سے لگايا جا سكتا هے كه الله تعالى نے تمام آحكام بذريعه وحي (بواسطه حضرت جرائيل آمين ) نازل فرمائے ليكن نماز شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ روايات ميں هے كه جب رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم معراج شريف پر تشريف لے گئے تو الله تعالى نے فرمايا ميرے حبيب(صلى الله عليه وآله وسلم) جب كوئى دوست اپنے دوست كو ملنے جاتا هے تو كوئى تحفه ساتهـ لے كر جاتا هے تو (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) ميرے لئے كيا تحفه لے كر آيا هے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نےعرض كيا يا الله ميں تو صرف عاجزى لے كر پيش هوا هوں تو پهر الله تعالى كي جانب سے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كو إيك عظيم تحفه يعني دن رات ميں (50) نمازيں عطا فرمائى گئيں

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم وہاں سے واپس ہوئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا ’’آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کو کیا حکم ملا؟‘‘ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض كيا

’’میں لوگوں کو آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم سے زیادہ جانتا ہوں ﷲ کی قسم میں نے بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کیا ہے اور بے شک آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) واپس جائیں اور ﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کریں ‘‘ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے إس طرح رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم  تخفيف كے لئے دربار خداوندي ميں حاضر هوتے رهے اور هر مرتبه دس نمازيں كم هوتي رهيں اور اس طرح ﷲ تعالیٰ نے آخرى مرتبه پانچ کم کر کے پانچ نمازیں مقرر کر دیں واپسی میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انھوں نے پوچھا کیا حکم ملا؟ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ (صلی ﷲ علیہ وسلم) کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی میں نے آپ (صلی ﷲ علیہ وسلم) سے پہلے لوگوں کو خوب تجربہ کیا ہے اور بنی اسرائیل کی خوب جانچ کی ہے آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) اپنے رب کے پاس جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کئی مرتبہ درخواست کر چکا ہوں اب تو مجھے شرم آتی ہے ۔سو جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس ہوئے تو ﷲ تبارک و تعالیٰ عزوجل نے آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کو پکارا اور کہا


میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی میں ایک نیکی کا بدلہ دس دونگا اسی طرح پانچ نمازیں پچاس کے برابر ہوں گی میری بات تبديل نہیں هوا کرتی( بخاری )
اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بهي بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں سينكڑوں مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ (صریحاً) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :

1. وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَO (سورة البقره)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

2۔ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO (سورہ طٰہٰ)
’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘

3۔ اﷲ عزوجل نے اپنے نہایت برگزیدہ پیغمبر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO (سورة مريم)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)‘‘

اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے شہادت توحید و رسالت کے بعد جس فریضہ کی بجا آوری کا حکم قرآن و سنت میں بهت زياده تاکید کے ساتھ آیا ہے وہ نماز ہی ہے۔ چند درج ذیل احادیث مباركه کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام میں نماز کو کیا إهميت حاصل ہے؟
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ. عَلَی أَنْ يُعْبَدَ اﷲُ وَ يُکْفَرَ بِمَا دُوْنَهُ. وَإِقَامِ الصَّلَاةِ. وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ. وَحَجِّ الْبَيْتِ. وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے سوا سب کی عبادت کا انکار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

2۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اﷲُ عزوجل، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوئَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْد أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
’’ﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان نمازوں کے لئے بہترین وضو کیا اور ان کے وقت پر ان کو ادا کیا، کاملاً ان کے رکوع کئے اور ان کے اندر خشوع سے کام لیا تو اﷲ عزوجل نے اس کی بخشش کا عہد فرمایا ہے، اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں، چاہے تو اسے بخش دے، چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘

3۔ نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حد یثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :
الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اﷲَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ.
’’نماز کو لازم پکڑو اور اپنے غلام، لونڈی کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
سبحان ﷲ - ﷲ تعالیٰ کے انعام و اکرام و احسان پر ذرا انسان غور کرے کہ ﷲ نے ان پانچ نمازوں کے ثواب کو پچاس نمازوں کے برابر فرما دیا يعني بنده نمازيں تو پانچ ادا كرے گا اور اس كا رب اسے ثواب پچاس كا عطا فرمائے گا مسلمان ایسے انعامات کو ضائع کرے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو گی- ﷲ تعالی هم سب مسلمانوں کو پانچ وقت كي نماز ادا کرنے كا إهتمام كرنے کی توفیق عطا فرمائے -آمین

نماز دین کا ستون ہے:
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے"۔ (صحیح مسلم)

قیامت والے دن سب سے پہلے نماز کا سوال :
روزِ محشر تمام اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کی بابت استفسار کیا جائے گا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ پس اگر یہ (حساب) ٹھیک ہوگیا تو اس کا سارا عمل ٹھیک ہوجائے گا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو اس کا سارا عمل خراب ہوجائے گا۔ (اخرجہ الطبرانی)
اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ (پھر آپ نے) فرمایا "اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں (اس کے باوجود پوچھیں گے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے پوری کی ہے یا کم رکھی ہے؟ اگر نماز پوری ہوگی تو اس کے لئے پوری نماز لکھ دی جائے گی۔ اور اگر کم ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے "دیکھو آیا میرے بندے کے پاس نفل نمازوں میں سے کچھ ہے؟" پھر اگر نفل میں سے کچھ ہوا تو فرمائیں گے کہ "میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل میں سے پورا کردو۔" پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے۔" (سنن ابی داود)

نماز قائم کرنے والوں اور اس کے قیام کا حکم دینے والوں کی تعریف:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا 0 وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا 0
ترجمہ: "اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔" (سورۃ المریم)

گھر والوں کو نماز کا حکم دينا:
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور آپ کے اتباع كرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم ديں
-فرمانِ الٰہی ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى0
ترجمہ: "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔ (سورۃ طہٰ)

أولاد كو نماز كا حكم دينا:
اور آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز کے لئے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو" (رواہ الترمذی )

نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں خاصیتیں:

نماز کو ایمان کا نام دیا جانا:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ0
ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (البقرۃ)
اس آیت میں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے ادا کی گئیں۔ اور یہاں نماز کو "ایمان" کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ ایک مسلمان کے قول اور عمل دونوں کی تصدیق کرتی ہے۔

دیگر عبادات کے مقابلے میں خصوصیت سے نماز کا ذکر:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:


اُتْلُ مَآ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَـذِكْرُ اللّـٰهِ اَكْبَـرُ ۗ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ 0



جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو، بے شک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے، اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔(العنکبوت)

کتاب کی تلاوت بمعنی "اس کی اتباع اور اس میں جو اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل درآمد کرنا" کے ہے۔ اس میں نماز بھی شامل ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد نماز کا دیگر شرعی امور سے علیحدہ طور پر، بطورِ خاص بھی ذکر کیا گیا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ
ترجمہ: "اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی (الانبیاء)
ایک مرتبہ تو "فعل الخیرات" میں نماز بھی داخل ہوگئی کیونکہ یہ بھی ایک عظیم فعلِ خیر ہے مگر اس کی اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ الگ سے بھی اس کا ذکر کیا گیا۔

قرآن مجید میں بیشتر عبادات کے ہمراہ اولیت کے ساتھ نماز کا تذکرہ:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ0
ترجمہ: "کہہ دو کہ: "بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔ (الانعام)

ایک اور مقام پر فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الکوثر)
ترجمہ: "لہٰذا تم اپنے رب (کی خوشنودی) کیلئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو"
ان آیات میں زکوٰۃ اور قربانی کے ساتھ نماز کا ذکر ہے اور ان عبادات کے ذکر پر مقدم بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کثیر آیات میں نماز کے ہمراہ دیگر عبادات کا ذکر موجود ہے۔

نماز ہر حال میں فرض ہے:
نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر حال میں فرض ہے (حالتِ حیض و نفاس کے علاوه) چاہے انسان مریض ہو، سفر میں ہو، حالتِ خوف میں ہو یا اس کے علاوہ کسی حال میں۔ یہ ضرور ہے کہ خصوصی حالات میں اس کی ادائیگی میں سہولت کی خاطر کبھی رکعات میں تخفیف کی گئی ہے اور کبھی بیٹھ کر، لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

جمیع اعضائے انسانی کی عبادت:
نماز دیگر عبادات سے یوں بھی ممتاز ہے کہ اس میں انسان کے تمام اعضاء استعمال ہوتے ہیں حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی کے وقت کسی سوچ کا دل میں لانا بھی ممنوع ہے۔ زبان ذکر میں مشغول ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں قیام، رکوع، سجود و تشہد میں۔

تارکِ نماز قرآن و حدیث کی روشنی میں:
1:تارکِ نماز كا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نه کرسکنا:
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ 0 خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ 0
ترجمہ: "جس دن ساق کھول دی جائے گی، اور ان کو سجدے کیلئے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ اس وقت بھی انہیں سجدے کیلئے بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ صحیح سالم تھے، (اس وقت قدرت کے باوجود یہ انکار کرتے تھے)" (سورۃ القلم)
ان آیات سے علمائے کرام نے دلیل لی ہے کہ تارکِ نماز بھی اس وقت میں کفار اور منافقین کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرسکے گا جیسا کہ مسلمان اس موقع پر کریں گے۔ اگرچہ وہ مسلمانوں میں سے ہو۔ کیونکہ انہیں بھی سجدے (نماز) کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ دیگر مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔

2: نماز نہ پڑھنا دوزخ جانے کا ایک بہت بڑا سبب:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ 0 إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ 0 فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ 0 عَنِ الْمُجْرِمِينَ 0 مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ 0 قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ 0
ترجمہ: "ہر شخص اپنے کرتوت کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے دائیں ہاتھ والوں کے کہ وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔ مجرموں کے بارے میں، کہ "تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟" وہ کہیں گے کہ : "ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے،" (المدثر)

3: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز كا فرق ہے
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز ہے۔ پس جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا" (مسلم)

4:تركِ نماز سے كفر واقع هونا:
حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا" (ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ وغيرهما)

نماز کی اَہمیت :
نماز ہمارے دین کا ایک اہم ستون ہے۔ اور اس کی اہمیت تو نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس فرمان سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ " اسلام اور کفر میں فرق "نماز" كا ہے۔ سطور بالا ميں إس حوالے سے قرآن وحديث كے واضح ارشادات بيان كيے گے یہاں چند اور احادیث مباركه پیش كي جاتي هيں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
" تحقیق قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا۔ "
(ابو داؤد ، حاکم )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعلی عنہ فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ(صلى الله عليه وآله وسلم ) نے فرمایا" وقت پر نماز پڑھنا-" میں نے کہا کہ پھر کونسا؟ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم ) نے فرمایا:" ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا-" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم )نے فرمایا:" اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کرنا ( بخاری و مسلم )
رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم نے فرمایا : نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو- نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو (ابن ماجہ و ابن حبان )
رسول كريم  صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا " آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز ہی حائل ہے (مسلم )
نماز با جماعت کی اہمیت:
نماز كي إهميت كے ضمن ميں يه بهي جاننا ضروري هے كه مرد كے لئے فرض نماز مسجد ميں جاكر باجماعت ادا كرنے كا حكم هے اور إس كي بهي بهت هي إهميت قرآن وحديث ميں وارد هوئى هے :
الله تعالى نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ 0
 نماز قائم كرو - ذكوة ادا كرو اور ركوع كرنے والوں كے ساتهـ ركوع كرو (البقره)

إس آيت مباركه ميں الله تعالى نے نماز جماعت كے ساتهـ ادا كرنے كا حكم فرمايا هے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ : جو شخص اللہ تعالی سے قیامت کے دن مسلمان ہو کر ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیۓ اور " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے۔ ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے که :" اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے۔۔ اور اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھوگے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبي کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت كو چھوڑ دوگے۔ اور اگر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت چھوڑدوگے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔
اور جب کوئى شخص اچھا وضو کرکے مسجد جاۓ تو اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائى مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے زمانه ميں جماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئى پیچھے نہیں رہتا تها يهاں تك كه بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیۓ آجاتا تھا۔

حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اکیلے شخص کی نمازسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا 27 درجہ زیادہ (ثواب رکھتا) ہے۔(بخاری ، مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" اس ذات کی قسم جس کے قبضئه قدرت میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ لکڑی کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیۓ کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے- (بخاری ، مسلم )۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص (حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ) آئے انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا عذر پیش کر کے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاهی کیونکہ انہیں کوئى مسجد میں لے کر آنے والا نہیں تھا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پوچھا: اذان سنتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن مكتوم رضي الله تعالى عنه نے کہا-جی ہاں! آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا:" تو پھر تم نماز كي جماعت میں حاضر ہو (مسلم )۔
یہ تمام احادیث نماز کے اہمیت اور مردوں کے لیۓ باجماعت نماز ادا کرنے پر دلالت كرتي ہیں۔ اور پھر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اس ارشاد کی جانب نظر کیجیے کہ آپ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے والے مردوں پر اتنے غضبناک ہوتے ہیں کے ان کے گھروں کو جلانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور ایک نابینا صحابی کو بھی مسجد میں آکر باجماعت پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
کـچھ لوگ نماز تو پڑهتے هيں ليكن مسجد جانا كوئى ضرورى نهيں سمجهتے اور سوال كرتے هيں کہ کیا مسجد جانا فرض ہے؟ كيا نماز باجماعت ادا كرنا فرض هے؟ تو عرض يه هےکہ نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی اتنی واضح احادیث کی موجودگی میں کیا اس بحث کی کوئى ضرورت باقي ره جاتي ہے کہ کیا مسجد جانا اور باجماعت نماز ادا كرنا فرض ہے یا سنت یا نفل۔ جب ہمیں نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا واضح حکم مل گیا هے تو همارے لئے عافيت اور كاميابي كا راسته يهي ره جاتا هے كه هميں بهانه بازي سے كام لينے كي بجائے اپنے پيارے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے فرمان پر سر تسلیم خم کرکے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہیۓ۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

نماز کی فضيلت َ :
نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بے شمار إرشادات آحاديث كي كتابوں ميں ذكر كيے گئے هيں ظاهر هے إن فضائل كو إس مختصر سے صفحه پر بيان كرنا ناممكن هے ليكن بطور تبرك چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه معلوم هو كه نماز كتني قيمتي چيز هے اور هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے
نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے چنانچه ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 (سورۃ العنکبوت)
ترجمہ: "(اے نبي صلى الله عليه وآله وسلم) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے"
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات:
نماز دین کا ستون هے - نماز مومن کی معراج هے- نمازایمان کی نشانی هے-
نماز شکر گزاری کا بھترین ذریعہ هے- نماز میزان عمل هے- ہر عمل نماز کے تابع هے- يوم قیامت پہلا سوال نماز کے بارے میں هوگا - نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزارهے- نمازی کا گھر آسمان والوں کے لئے نور هے- نماز گناہوں سے دوری کا ذریعہ هے- نماز گناہوں کی نابودی کا سبب هے - نماز شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ هے - نماز بلاؤں سے دوری كا سبب هے- نماز عذاب قبر سے بچنے كا ذريعه هے- نماز عبادت الہی کا مقررہ طریقہ ہے۔ نماز اسلام کی تعلیمات کے اہم ترین اجزا میں سے ہے۔ نمازی شهنشاہ کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھول هي دیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آله وسلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم:)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔
(صحیح مسلم:)۔

پیارے نبي صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کیلئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
فرمانِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآله و سلم ہے کہ جو شخص ہر روز بارہ رکعات (یعنی مؤكده سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ ( مسلم)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔ (صحیح مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
عمرو بن سعید بن عاص رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔" (صحیح مسلم)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو اور خشوع و ركوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے" (رواہ احمد وغیرہُ )
إيك حديث كا مفهوم هے كه جو شخص پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرے گا الله تعالى أسے مندرجه زيل پانچ طرح سے أنعام وأكرام سے نوازيں گے :
(1) أس كے رزق كي تنگي دور كردي جائے گي
(2) أسے عذاب قبر سے محفوظ كرديا جائے گا
(3) أسے حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جائے گا
(4) أسے پل صراط پر سے بجلي كي كڑك كي طرح گزار ديا جائے گا
(5) أسے بغير حساب كتاب جنت ميں داخل كرديا جائے گا
فائده: پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرنے كا مطلب يه هے كه وضو بهي آچهي طرح سے كرے اور وقت كي پابندي بهي كرے اور نماز بهي دهيان اور خشوع وخضوع سے ادا كرے- رزق كي تنگي دور هونے كا مطلب رزق ميں بركت اور دل كو إطمينان هونا هے- حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جانا كاميابي كي نشاني هوگي يعني يه شخص كامياب هوجائے گا- پل صراط دوزخ كے اوپر إيك پل هوگا جس كي اونچائى - درمياني راسته اور أتروائى بهت زياده مسافت هوگي بجلي كي كڑك كا مطلب كه جس طرح آسماني بجلي چند سيكنڈ ميں كڑكتي هے إسي طرح يه شخص إس پل سے بهت تيزى سے پار هوجائے گا- آخري أنعام جنت ميں داخله هوگا جو كسي حساب وكتاب كي مشفت كے بغير عمل ميں آجائے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ’ (مسلم، )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ (مسلم)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ‘‘اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں’’۔ (مسنداحمد)
حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ( مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔ (’ صحیح ابن خزیم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان) ًِ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم)
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائیگی۔ (مسلم، مسنداحمد)
مذکورہ بالا احادیث مباركه کے علاوہ بےشمار احادیث مباركه ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ جن كا إحاطه كرنا بهت مشكل هے چونکہ عمل کے لیے اتنی آحاديث مباركه بهي کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔
افسوس : کیسی بدبختی ہے كه نماز کے بارے میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی إيك بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہے اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کررہی ہے چنانچه قرآن كريم ميں ارشاد هے 
‘‘وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ’’۔ ( آل عمران) ‘
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے

"مغرب کی نماز بیج کے بمنزلہ ہے۔ عشا کی نماز جڑ کی مانند ہے جو تاریکی اور اندھیرے میں نشوونما پاتی ہے۔ صبح کی نماز زندگی کی کونپل کی طرح ہے جو زمین سے سر نکالتا ہے۔ ظہر کی نماز پتّوں اور شاخوں جیسی ہے۔ عصر کی نماز شجرِ عبادت کے ثمر کی مانند ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جس کسی نے عصر کی نماز ضائع کی، اُس نے اپنے اہل و عیال اور مال پر ستم کیا۔"
نماز کے قائم کرنے میں اعضاء و جوارح کے اعمال اور زبان و قلب کے اذکار شامل ہیں

 اعمال و اذکار میں سے ہر ایک اپنی ظاہری صورت کے علاوہ معنویت اور روحانیت کا حامل ہے، جو نمازی کے معراج اور اُس کے بلند حیاتی مدارج اور ٰالله تعالى کے تقرّب کا سبب بنتا ہے، اور اگر ظاہری حالت معنی کے معارف سے خالی ہو تو زبانی ذکر ایک بےمعنی لفظ، ایک بےمغز خول اور ایک بےجان جسم ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر و قیمت نہیں"

مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت :
 نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات آحاديث مباركه كي كتابوں سے اوپر ذكر كيے گئے هيں جيسا كه عرض كيا جاچكا كه مردوں كے لئے حكم يه هے كه وه مسجد جاكر باجماعت نماز ادا كرنے كي كوشش كريں - بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے جس طرح نماز کے متعلق بہت سخت تاکید آئی ہے اسی طرح جماعت کے متعلق بھی بہت سے تاکیدیں وارد ہوئی ہیں
 رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہو تی ہے۔ (البخاری و مسلم والترمذی )
فائده : جب آدمی نے نماز پڑھني هي ہے اورذياده سے ذياده ثواب کی طلب بهي ہے تو بهتر يهي هے کہ مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے تاکہ اتنا بڑا ثواب حاصل ہوجائے آخر دنيا كيلئے بهي تو هم زياده نفع كمانے كي كوشش كرتے هيں اور زياده نفع كيلئے دن رات إيك كرديتے هين ليكن آفسوس دين كے بڑے نفع سے بھی بے توجہی کی جاتی ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ نہیں اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں - جماعت کی نماز کے لئے جانے میں كاروبار كا نقصان سمجھا جاتا ہے اور مسجد جانے کی بھی دقت کہی جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے یہاں ﷲ جل شانہ کی عظمت ہے اﷲ کے وعدوں پر ان کو اطمینان ويقين ہے اس کے اجرو ثواب کی کوئی قیمت ہے اس کے یہاں إس قسم كے عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کی ﷲ جل شانہ نے قرآن پاک میں تعریف فرمائی ہے
مسجد جانے اور باجماعت نماز كے بيشمار فضائل بهي آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں إنتهائى إختصار كے ساتهـ چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه هميں باجماعت نماز كي قدرو قيمت كا پته چل جائے چونكه هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے إس لئے إسے زياده زياده قيمتي بنانا همارا فرض هے تو مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت كے متعلق آحاديث مباركه ملاحظه فرمائيں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم صفوں کے درمیان ایک سے دوسرے کونے تک چلتے اور ہمارے کندھوں، سینوں کو ہاتھ لگا کر سیدھا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ تم باہم اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’صفوں کو درست کرو، کندھوں کے درمیان برابری کرو، صفوں میں خلل کو بند کرو، اپنے ساتھیوں کے لئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے، جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کے لئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (ترغیب و ترھیب:)۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت ہو کر پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کیلئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس كے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)" (متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔"
(رباط کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک نفس کا عبادت کے لئے روکنا اور دوسرا وہ رباط جو جہاد میں ہوتا ہے) (صحیح مسلم)
إيك حديث ميں هے كه نمازي جب نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہو جاتی ہے اور پھرجب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے
اگر هم غور كريں تو معلوم هوگا كه اس امت پر ﷲ تعالی کی طرف سے انعامات کی بے پناه بارش هوئی هے جیسا کہ اور بھی بہت سے جگہ اس کا ظہور ہے اس لئے اول پچیس درجہ تھا بعد میں ستائیس ہو گیا بعص شراح نے ایک عجیب بات سمجھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس پچیس درجه والي حدیث کا ثواب ستائیس درجه والی حدیث سے بہت زیادہ ہے اس لئے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجہ کی زیادتی ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ المضاعت ہو تی ہے جس کا ترجمہ دو چند اور دو گنا ہوگا ہے یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے اس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سو بتیس (۳۳۵۵۴۴۳۲) درجہ ہوا حق تعالیٰ شا نُہ‘ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں اس كي رحمت بهت وسيع هے وه جتنا مرضي ثواب اپنے بندے كو عطا فرمادے اسے كوئى روكنے والا نهيں
اور غور كا مقام هے كه جب نماز کے چھوڑنے کا گناہ ایک حقبہ ہے تو اس کے پڑھنے کا ثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے حديث مباركه ميں حضورؐ آكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرف بهي اشارہ فرمایا کہ یہ تو خود ہی غور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجر و ثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھرسے وضو کر کے محض نماز هی كي نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہوتی چلی جاتی ہے
بنو سلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا ان کے مکانات مسجد سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہو جائیں حضورؐ أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا وہیں رہو تمہارے مسجد تک آنے کا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے ایک اور حدیث میں هے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے نماز کو جائے وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کر حج کو جائے ادس کے بعد حضورصلى الله عليه وآله وسلم ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلے پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں فرشتے اﷲ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں
حضرت سالم حداد رحمة الله عليه ایک بزرگ هوئے هيں تجارت کرتے تھے جب آذان کی آواز سنتے تو رنگ متغیرہو جاتا اور زرد پڑ جاتا بے قرار ہو جاتے دکان کھلی چھوڑ کر عاشقانه شعر پڑهتے هوئے مسجد كي طرف روانه هوحاتے
محمد بن سما ایک بزرگ عالم هوئے ہیں جو امام ابو یوسف رحمة الله عليه اور امام محمد رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھتے تھے کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولی فوت ہو گئی تھی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہو گئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی مگر ملائکہ کی آمین کا کیا ہو گا ملائکہ کی آمین کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احادیث میں یہ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم آیا ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہو جاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے
اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کا ثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں بلکہ مجمع کی شرکت نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے ان کے علاوہ اور بہت سے خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں ایک ضروری امر یہ بھی قابل غور ہے علماء نے فرمايا هے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہو گا جب نماز صحيح معنوں ميں نماز بھی ہو اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔ الله تعالى هم سب كو نماز باجماعت اور خوب خوب سنوار كر پڑهنے كي توفيق عنايت فرمائے - آمين ثم آمين يا رب العلمين

نفلي نمازوں کی فضيلت :
پانچ وقت کی نمازیں تو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں، ان کے علاوہ نفلی نمازیں ہیں، وہ جتنی چاہے پڑھے، بعض خاص نمازوں کے فضائل بھی رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بیان فرمائے هيں، مثلاً: تہجد کی نماز، اِشراق، چاشت، اوّابین، نمازِ استخارہ، نمازِ حاجت وغیرہ۔ نفلي نمازين مسجد كي بجائے اپنے گهر ميں ادا كرني ذياده أفضل هيں تاهم اگر گهر ميں إيسا ماجول ميسر نه هو تو مسجد ميں بهي ادا كرنے ميں كوئى حرج نهيں جو شخص جتني نفل نمازوں كا إهتمام كرے گا اس كي فرض نمازوں ميں أتنا هي خشوع اور خضوع ذياده هوگا اور يه ظاهر سي بات هے جو شخص نفلي نمازوں كا إهتمام كرتا رهے گا أس كي فرض نمازوں كي حفاظت الله كريم كي طرف سے هوتي رهے گي اور نفلي نمازوں كا يه ذخيره اسے قيامت والے دن فائده دے گا چنانچه إيك جديث كا مفهوم هے كه قيامت والے دن اگر كسي كي فرض نمازوں ميں كمي هوگئى تو الله تعالى كے حكم سے نوافل ميں سے پورا كرليا جائے گا إس لئے هر مسلمان كو نفل نمازوں كا ذخيره بهي اپنے پاس ركهنا چاهيے جس طرح فرض نمازوں كے فضائل آحاديث كي كتابوں ميں موجود هيں إسي طرح نفل نمازوں كے فضائل بهي آحاديث كي كتابوں ميں كافي زياده وارد هوئے هيں - نوافل مكروه أوقات كے علاوه جب جي چاهے اور جتنے چاهے ادا كيے جاسكتے هيں ليكن كچهـ نفلي نمازوں كے بهي أوقات مقرر هيں اور انكے فضائل بهي آحاديث مباركه ميں موجود هيں:

هيں:

1. نمازِ تہجد كي فضيلت:
یہ نماز تنہائی میں اللہ تعاليٰ سے مناجات اورملاقات کا دروازہ ہے اور انوار و تجلیات کا خاص وقت ہے۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے فرائض كي بعد يه نماز سب سے أفضل هے
اس کی کم از کم دو (2) رکعتیں ہیں۔ اور زياده س زياده بارہ (12) رکعات کا مشائخ كا معمول ہے۔ بعد نمازِ عشاء سو کر جس وقت بھی اٹھ جائیں پڑھ سکتے ہیں۔بہتر أوقات نصف شب یا آخر شب هيں
حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲ تعاليٰ کو تمام (نفل) نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب صلاۃ داؤد علیہ السلام ہے، وہ آدھی رات سوتے، (پھر اٹھ کر) ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نمازِ تہجد ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، سنن ترمذی، صحیح ابن حبان، مسند احمد)

2. نمازِ اشراق كي فضيلت:
اس کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ أفضل يه هے كه اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اُٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کریں۔
اس کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
اس نماز سے باطن کو نور ملتا ہے اور قلب کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا پھر دو رکعت نماز ادا کی تو اسے پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘(ترمذی)
حضرت ابوذر اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ (حدیث قدسی) روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو میرے لیے شروع دن میں چار رکعتیں پڑھ میں اس دن کے اختتام تک تیری کفایت فرماؤں گا۔‘‘ (ترمذی اور ابوداؤد)

3. نمازِ چاشت(ضحى) كي فضيلت:
اس نماز کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر ہوتا ہے . جب طلوعِ آفتاب اورآغازِ ظہر کے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔
اس کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔ کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (8) رکعات بھی بیان کی گئی ہیں۔
احادیث نبوی صلى الله عليه وآله سلم میں اس نماز کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں:
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعاليٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘ (ترمذی اور ابن ماجہ )
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو چار پڑھے عابدین میں لکھا جائے گا، اور جو چھ پڑھے اس دن اس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ پڑھے اللہ تعاليٰ اسے قانتین میں لکھے گا اور جو بارہ پڑھے اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔‘‘(طبرانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چاشت کی دو رکعتوں کی پابندی کرے اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ ( مسند احمد و سننِ ترمذی اورسننِ ابن ماجہ )

4. نمازِ اوّابین كي فضيلت:
یہ مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز ہے جو کم از کم دو(2) طویل رکعات یا چھ (6) مختصر رکعات ہے۔
یہ نماز اجر میں بارہ سال کی عبادت کے برابر بیان کی گئی ہے۔ اس کی فضیلت اور انوار و برکات بھی نمازِ تہجد جیسی ہیں۔
اس کا معمول پختگی سے اپنایا جائے خواہ کم سے کم رکعات ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ خاص قبولیت، قرب، تجلیات اور انعامات کا وقت ہے۔ اس کے اسرار بے شمار ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ برس کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ (ترمذی اورابن ماجہ )
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (طبرانی)

5. نمازِ توبہ كي فضيلت:
مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ توبہ ادا کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً گناہ سرزد ہونے کے بعد اس نماز کے پڑھنے سے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
امام ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حِبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، پھر استغفار کرے تو اللہ تعاليٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اﷲُ ص وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَo (آل عمران)
’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اِصرار بھی نہیں کرتےo ‘‘

6. نمازِ تسبیح (صلاة التسبيح ) كي فضيلت:
اس نماز کی چار رکعات ہیں، مکروہ اوقات کے علاوہ ان کو جب چاہیں ادا کیا جا سکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثنا پڑھیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
ثنا کے بعد پندرہ (15) بار درج ذیل تسبیح پڑھیں:
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر.

پھر تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر دس (10) بار یہی تسبیح پڑھیں،
پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ. کے بعد دس (10) بار،
پھر رکوع سے اٹھ کر سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے سے اٹھ کر جلسہ میں دس (10) بار،
پھر دوسرے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعددس (10) بار پڑھیں۔
پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہو جائیں اور تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo سے پہلے پندرہ (15) بار اسی تسبیح کو پڑھیں اور بعد ازاں سورت فاتحہ، پھر اسی طریقے سے چاروں رکعات مکمل کریں۔ ہر رکعت میں پچھتر (75) بار اور چاروں رکعات میں کل ملا کر تین سو (300) بار یہ تسبیح پڑھی جائے گی.
امام ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور بیہقی سمیت اہل علم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی کتب میں بیان کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے چچا جان! کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟ کیا آپ کو دس خصلتوں والا نہ بنا دوں؟ کہ جب تک آپ ان پر عمل پیرا رہیں تو اللہ تعاليٰ آپ کے اگلے پچھلے، پرانے، نئے، غلطی سے یا جان بوجھ کر، چھوٹے، بڑے، پوشیدہ اور ظاہر ہونے والے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (اس کے بعد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نمازِ تسبیح کا طریقہ سکھایا۔) پھر فرمایا:’’ اگر روزانہ ایک مرتبہ پڑھ سکو تو پڑھو، اگر یہ نہ ہو سکے توہر جمعہ کو، اگر اس طرح بھی نہ کر سکو تو مہینہ میں ایک بار، اگر ہر مہینے نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار اور اگرایسا بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک بار پڑھ لو۔‘‘

7.نمازِ حاجت كي فضيلت:
جب کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو وہ اللہ کی تائید و نصرت کے لیے کم از کم دو رکعت نفل بطور حاجت پڑھے۔۔ اس نماز کی برکت سے اللہ تعاليٰ حاجت پوری فرما دیتا ہے۔
طریقہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں اس کے دو طریقے ملتے ہیں:
ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بزار اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ تعاليٰ یا کسی انسان کی طرف کوئی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھے اور پھر اللہ تعاليٰ کی حمد و ثنا اور بارگاہ رسالت میں تحفۂ درود پیش کر کے یہ دعا مانگے:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، اَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَ عَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَيْتَهَا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کرنے کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعاليٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی:
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسَاَلُکَ وَاَتَوَجَّهُ اِلَيْکَ بِنَبِيِکَ مُحَمَّدٍ نَّبِيِ الرَّحْمَةِ، اِنِّی تَوَجَّهْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی هٰذِهِ لِتُقضٰی لِيْ، اَللّٰهُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِيَ.

8. نمازِ استخارہ كي فضيلت:
اگر کوئی شخص کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو تو دو رکعت نمازِ استخارہ پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَاَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) خَيْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هذَا الْاَمْرَ(یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) شَرٌّ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ بهِ.
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو تمام معاملات میں استخارہ کی اس طرح تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کی سورت تعلیم فرماتے تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’جب تو کسی کام کا ارادہ کرے تو اپنے رب سے اس میں سات (7) بار استخارہ کر پھر جس کی طرف تمہارا دل مائل ہو تو اس کام کے کرنے میں تمہارے لیے خیر ہے۔‘‘

9. نمازِ تحیۃ الوضوء كي فضيلت:
وضو کے فوراً بعد دو رکعت نفل پڑھنا مستحب اور باعثِ خیر و برکت ہے۔
صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اچھی طرح وضو کرنے کے بعد ظاہر و باطن کی کامل توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.‘‘
ابوداؤد، بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

10. نمازِ تحیّۃ المسجد كي فضيلت:
یہ مکروہ اوقات کے علاوہ مسجد میں داخل ہونے پر پڑھی جاتی ہے جو دو رکعت پر مشتمل ہے۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس نماز کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
بخاری نے کتاب الصلوۃ، کتاب التہجد اور مسلم نے کتاب صلوۃ المسافرین میں حضرت قتادہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

11. نمازِ اِستسقاء كي فضيلت:
اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ بے کس پناہ سے بارانِ رحمت کے نزول کے لیے ادا کی جانے والی نماز اِستسقاء کہلاتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو نمازِ اِستسقاء کا بار بار پڑھنا مستحب ہے اور تین دن تک اسے متواتر پڑھا جائے تاکہ اﷲ تعاليٰ اپنا لطف و کرم فرمائے۔ اس کے پڑھنے کا مسنون طریقہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے مگر بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ الاعليٰ اور دوسری میں سورۃ الغاشیہ پڑھی جائے۔ نماز کے بعد امام خطبہ پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی خطبہ پڑھے اور خطبہ میں دُعا اور تسبیح و اِستغفار کرے اور اثنائے خطبہ میں چادر لوٹ دے یعنی اوپر کا کنارہ نیچے اور نیچے کا اوپر کر دے۔ خطبہ سے فارغ ہو کر قبلہ رُخ ہوکر دُعا کرے۔
نماز استسقاء پڑھنے کے لئے کوئی معین وقت نہیں ہے؛ البتہ مکروہ اوقات کے سوا دن کے پہلے حصے میں نمازِ اِستسقاء پڑھنا سنت ہے۔

12-نمازِ کسوف اور خسوف كي فضيلت اور پڑھنے کا طریقہ:
کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا : ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘(مسلم)

نماز کسوف کا طریقہ:
جب سورج گرہن ہو تو چاہئے کہ امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھے جن میں بہت لمبی قرات ہو اور رکوع سجدے بھی خوب دیر تک ہوں، دو رکعتیں پڑھ کر قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور سورج صاف ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔
نمازِ خسوف کا طریقہ:
چاند گرہن کے وقت بھی چاند صاف ہونے تک نماز پڑھتے رہیں، مگر علیحدہ علیحدہ اپنے گھروں میں پڑھیں، اس میں جماعت نہیں۔َََُُْٰ

13- نمازِ جنازه كي فضيلت اور طريقه:
مسلمان میت کی نماز جنازہ زنده مسلمانوں پرفرض کفایہ ہے یعنی اگرچند آدمی بھی پڑھ لیں تو سب کے ذمے سے فرض ساقط ہو جائے گا اگر كسي نے بهي نه پڑهي تو سب گنہگار ہوں گے، اس نماز میں رکوع سجدہ نہیں هوتا بلكه چار تكبيروں كے ساتهـ ادا كي جاتي هے.
يه نماز میت کے لیے اجتماعی دعا کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے؛کیونکہ مومنین کے ایک گروہ کا اکٹھا ہوکر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، عجیب تاثیر رکھتا ہے، میت پر رحمت الہٰی کے نزول میں دیر نہیں لگتی ،یعنی انفرادی دعا کی بہ نسبت اجتماعی دعا میں قبولیت کی شان زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کی صفت کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اوراس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہوگا، جن میں سے ہر قیراط گویا احد پہاڑ کے برابر ہوگا اورجو آدمی صرف نماز جنازہ پڑھ کے واپس آجائے(دفن ہونے تک ساتھ نہ رہے) تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہوگا۔(بخاری)
"حدیث کا مقصد جنازے کے ساتھ جانے اس پر نماز پڑھنے اور دفن میں شرکت کرنے کی ترغیب دینا اور اِس کی فضیلت بیان کرنا ہے، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ اس پر یہ عظیم ثواب تب ہی ملے گا جب کہ یہ عمل ایمان ویقین کی بنیاد پر اور ثواب ہی کی نیت سے کیا گیا ہو ؛یعنی اس عمل کا اصل محرک اللہ اوررسول کی باتوں پر ایمان ویقین اورآخرت کے ثواب کی امید ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص صرف تعلق اوررشتہ داری کے خیال سے یا میت کے گھر والوں کا جی خوش کرنے ہی کی نیت سے یا ایسے ہی کسی دوسرے مقصد سے جنازہ کے ساتھ گیا اورنماز جنازہ اوردفن میں شریک ہوا، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے حکم اورآخرت کا ثواب اس کے پیش نظر تھا ہی نہیں تو وہ اس ثواب کا مستحق نہیں ہوگا، حدیث کے الفاظ "ایمانا واحتسابا" کا یہی مطلب ہے "۔

نمازِ جنازہ کی امامت کا مستحق:
نماز جنازہ امیر المومنین پڑھائیں گے یا پھر نائب امیر یا قاضی شہر یا پھر میت کا ولی یا پھر جو امام مسجد میں مقرر کردہ ہیں وہ پڑھائیں گے۔
نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ:
میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینہ کے سامنے اس طرح رہے کہ میت اس کے اور قبلہ کے درمیان ہو جائے اور لوگ اس امام کے پیچھے تین یا پانچ یا سات صف بنائیں پھر نیت کرکے امام بآواز بلند اور مقتدی آہستہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں پھر "سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ" آخرتک آہستہ پڑھیں؛ پھر امام آواز سے اورمقتدی آہستہ بغیر ہاتھ اٹھائے اور بغیر سر اٹھائے دوسری مرتبہ "اللہُ أَکْبَرْ" کہے اس کے بعد درود شریف پڑھیں جو نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کے بعد دوسری تکبیر کی طرح تیسری تکبیر کہیں اس کے بعد منقول دعا پڑھیں ؛پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں۔

بالغ مرد و عورت کی دعا:
"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا،اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ"۔ (ترمذی)

نابالغ لڑکے کی دعا:
"اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَاجَعَلْہُ لَنَا أَجْرًاوَذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَ مُشَفَّعًا"۔
(لسنن الکبری للبیہقی)

نابالغ لڑکی کی دعا:
"اَللَّھُّمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرْطًا وَاجْعَلْھَالَنَا أَجْرًا وَذُخْرًا وَاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً"۔
(السنن الکبری لبیہقی)

نمازِ جنازہ کے کچھ احکام:
(۱)اگر کئی جنازے ہوں تو امام کے سامنے پہلے مرد کا جنازہ ہو پھر بچے کا پھر عورت کا ہو۔
(۲)نماز جنازہ مسجد میں نہ پڑھی جائے۔
(۳)نماز جنازہ کے بعد متصلا ًکوئی دعا نہیں۔
(۴)جنازہ تیار ہواوروضو نہ ہو تو تیمم کرے۔
(۵)جو تکبیر چھوٹ جائے اس کو کہہ لے۔

جنازہ اٹھانے کا مستحب طریقہ:
جب نماز جنازہ سے فارغ ہوجائیں بلا کسی تاخیر کے تدفین کے لیے میت کو لےجائیں، میت کو اٹھاتے وقت سب سے پہلے میت کی چارپائی کا اگلا داہنا پایہ داہنے کندھے پر رکھ کر چليں مگر جنازے کو تیز قدم لیکر چلیں ؛لیکن اتنی تیز نہ چلیں کہ میت کو حرکت اوراضطراب ہونے لگے اور جو لوگ جنازے کے ساتھ چلنے والے ہوں وہ جنازہ کے پیچھے ذکر جہری کے بغیر پیدل رہیں اور جنازہ کو کندھوں سے نیچے رکھنے سے پہلے نہ بیٹھیں اور قبرستان میں فضول باتیں نہ کریں؛ بلکہ آخرت اورمرنے کے بعد کے حالات کا خیال کریں اور یہ سوچیں کہ ہمیں بھی ایک دن یہاں لایا جائے گا۔

قبر میں میت کو اتارنے کا طریقہ:
جب قبر تیار ہوجائے تو میت کی چار پائی قبلہ کی طرف قبر کے کنارے پر لاکررکھیں اورچارپائی کو زمین پر اچھی طرح جما دیں تاکہ مٹی وغیرہ نہ گرے، ضرورت کے موافق دو تین آدمی قبر میں میت کو اتاریں ،میت اگر عورت ہو تو قبر میں اتارتے وقت قبر کے چاروں طرف پردہ کریں، اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کو قبر میں اٹھاکر رکھدیں اور رکھتے وقت "بِسْمِ اللہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ" پڑھیں اورمیت کو داہنی کروٹ پر لٹا کر قبلہ رو کردیں، اس کے بعد کفن کی بندھی ہوئی ڈوری کھول دیں ،اس کے بعد کچی اینٹ یا بانس وغیرہ سے لحد کو بند کردیں،
جب لحد بند کردی جائے تو قبر کو مٹی سے بند کردیا جائے قبر میں مٹی ڈالتے وقت سرہانے کی طرف سے ابتداء کریں ہر شخص دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر میں ڈالیں پہلی بار "مِنْھَاخَلَقْنَکُمْ "دوسری بار "وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُمْ" اور تیسری بار مٹی ڈالتے وقت "وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَیٰ" پڑھے مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر پانی چھڑکے، قبر کو اونٹ کی کوہان کی طرح بنائیں اور ایک بالشت سے اونچی نہ بنائیں اورپختہ نہ بنائیں۔
جب قبر بن جائے توسرہانے سورۂ بقرہ شروع سے "مُفْلِحُوْنَ" تک اورپیر کی جانب سورۂ بقرہ کا آخری رکوع "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ" سے آخر تک پڑھا جائے اس کے بعد قبلہ رُو ہو کر دعا کریں۔

قبرستان کے آداب:
قبور کی طرف متوجہ ہوکر "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَاأَھْلَ الْقُبُوْرِ، یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ أَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَنَحْنُ لَکُمْ خَلَفٌ" کہے
اكر ممكن هو تو جوتا اتار کر اندر داخل ہو
قبر پر نہ بیٹھے نه ٹيك لگائے اور نه هي قبر پر نہ چلے
قبرستان میں استنجا نہ کرے نه اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے
اس کے احترام میں غلونہ کرے اور قبر پر خیمہ یا سایہ نہ بنائے
قبرپر چراغ نہ جلائے اور قبر پر مسجد کی تعمیر نہ کرے
اہلِ قبور کے لیے کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھ کر ثواب پہنچائے، کچھ سورتیں ہیں "جو عمل مختصر ثواب زیادہ" کے مصداق ہیں:
سورۂ فاتحہ تین بار پڑھنے کا ثواب دو قرآن کے برابر ہے،
آیۃ الکرسی پڑھنےکا ثواب ایک چوتھائی قرآن کے برابرہے،
سورۂ زلزال ایک مرتبہ پڑھنےکا ثواب چوتھائی کے برابرہے،
سورۂ کافرون پڑھنا ایک چوتھائی قرآن کے برابرہے،
سورہ نصر چار مرتبہ کا پڑھنا ایک قرآن کے برابر،
سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھناایک قرآن کے برابرہے،
سورہ ٔیس کا دس قرآن کے برابرثواب ہے
اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی جائے اور إيصال ثواب كا إهتمام كيا جائے

ایصالِ ثواب:
کسی کی موت کے بعد اس کی خدمت اوراس کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اس کی لیے مغفرت اوررحمت کی دعا کی جائے اور رحم و کرم کی بھیک مانگی جائے، نماز جنازہ کی خاص غرض و غایت بھی یہی ہے اور زیارت قبور کے سلسلہ میں جو احادیث آئی ہیں ان میں سلام کے ساتھ دعائے مغفرت کا بھی ذکر ہے ،دعائے خیر کے اس طریقہ کے علاوہ اموات کی خدمت اورنفع رسانی کی ایک دوسری صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی بتائی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ یا اسی طرح کا کوئی دوسرا عمل خیر کر کے اس کا ثواب ان کو ہدیہ کیا جائے "ایصال ثواب" اسی تفصیل کا ایک عنوان ہے ۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے، جب واپس آئے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے لیے نفع مند ہوگا؟(اوران کو اس کا ثواب پہنچے گا) آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ہاں پہنچے گا، انہوں نے عرض کیا، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ اپنا باغ (مخراف) میں نے اپنی مرحومہ والدہ کے لیے صدقہ کردیا ۔ (بخاری)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے:
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے (جن کو اسلام نصیب نہیں ہوا، اپنے بیٹوں کو)وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں ( اس وصیت کے مطابق ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کردیئے،(دوسرے بیٹے) عمروبن العاص نے بھی ارادہ کیا کہ وہ بھی اپنے حصے کے باقی بچاس غلام آزاد کردیں، لیکن انہوں نے طئے کیا کہ میں رسول اللہﷺ سے دریافت کرکے ایسا کروں گا، چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: میرے والد نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور میرے بھائی ہشام نے بچاس اپنی طرف سے آزاد کردئے اور بچاس باقی ہیں تو کیا میں اپنے والد کی طرف سے وہ بچاس غلام آزاد کردوں؟ آپ نے فرمایا: اگر تمہارے والد اسلام و ایمان کے ساتھ دنیا سے گئے ہوتے تو پھر تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب ان کو پہنچ جاتا ۔ (ابوداؤد )
مذکورہ دونوں احادیث ایصال ثواب کے بارے میں بالکل واضح ہیں، اس میں صدقہ کے علاوہ حج وعمره سے ایصال ثواب کا بھی ذکر ہے اوراس کے علاوہ دیگر اوراحادیث ہیں جس میں روزے وغیرہ کا ذکربهي آيا هے
تاهم همارے هاں كسي كے مرنے پر جو رسميں مروج هيں مثلاً قل شريف - دسوان شريف - چاليسواں شريف اور برسي وغيره إن كا كوئى فائده نهيں نه هي ميت كو كچهـ پهنجتا هے اور نه هي خرچ كرنيوالونكو كوئى ثواب ملتا هے بلكه الٹا بدعت اور فضول خرجي كا گناه سر پر آتا هے لهذا إن بدعات سے إجتناب كيا جائے اور إيصال ثواب كا جو مسنون طريقه هے اسے هي أختيار كيا جائے تاكه ميت كو بهي فائده هو اور إيصال ثواب كرنيوالے كو بهي ۔ بہرحال ان احادیث مباركه سے یہ بات اصول اور قاعدے کے طور پر معلوم ہوئی کہ ميت کو سب اعمال خیر کا ثواب پہنچایا جاسکتا هے چاهے وه صدقه وغيره كي صورت ميں هوں يا تلاوت - نفلي نماز ،روزه وغيره هوں يا حج ،عمره اور طواف وغيره هوں لیکن ایمان واسلام شرط ہے، اللہ تعالی ہم سب کواس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین ثم آمين)۔

دوسرا  نمبر : صلوة(نماز)پ

Share: