گذشتہ اقساط میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر نازل ھونے والی پہلی اور دوسری وحی کا ذکر کیا گیا چونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے وحی کا گہرا تعلق ھے اس لئے ایک مسلمان کے لئے وحی کی کچھ تفصیل کا جاننا بہت ضروری ھے سیرت نگاروں نے سیرت کی اکثر کتابوں میں وحی کی تفصیل کسی نہ کسی انداز میں بیان کی ھے ۔
وحی کا مفہوم
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالٰی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ بعض علماء کا قول ھے کہ اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی آنبیاء کرام کے ساتھ ھی مخصوص ہے جو کہ لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجے جاتے رھے ھیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَO
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لیے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)
بنیادی طور پر آنبیاء کرام پر نازل ہو نے والے اللہ کے کلام کو وحی کہتے ھیں ابو اسحاق کا قول ھے کہ وحی کا لغت میں معنی ہے خفیہ طریقے سے خبر دینا، اسی وجہ سے نبی کے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں، ازھری کہتے ھیں کہ اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہا جاتا ہیں۔ اشارہ کے متعلق قرآن پاک کی آیت مبارکہ ہے:
فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًا
پھر (زکریا علیہ السلام) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو
وحی کی لغوی تعریف:
الْإِعْلَام فِي خَفَاء"۔ (پوشیدہ بات کی خبر دینا)۔
لغوی اعتبار سے کسی چیز کی خفیہ طور پر اور جلدی اطلاع دینا "وحی" کہلاتا ہے۔ چونکہ اس میں اخفاء کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ اس لیے آئمہ لغت کے نزدیک کتابت،رمز واشارہ اور خفیہ کلام سب "وحی" کی تعریف میں آتا ہے
وحی کی اِصطلاحی تعریف:
هُوَ كَلَام الله الْمنزل على نَبِي من أنبيائه وَالرَّسُول"۔
“وحی" کا اصطلاحی مفہوم، اس لغوی معنی کی نسبت خاص ہے۔ شرعی اصطلاح میں وحی سے مراد اللہ عزوجل کا اپنے منتخب انبیاء کرام کو اخبار واحکام دینا وحی کہلاتا ھے ۔ اصطلاحی معنی میں "وحی" کا مصدر و ماخذ اللہ عزوجل اور اس کا مورد انبیاء علیھم السلام ہوتے ہیں۔
وحی کی قسمیں :
وحی کی دو قسمیں ھیں
(1) وحی متلو
(2) وحی غیر متلو ۔
وحی متلو:
وحی متلو ایسی وحی ہے جس کے الفاظ و معانی دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوں ۔
آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دو قسم کی تھی، ایک تو قرآن کریم کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے اور جو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ اور شوشہ بھی نہ بدلا جاسکا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے، اس وحی کو علما کی اصطلاح میں "وحی متلو" کہا جاتا ہے یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے
وحی غیر متلو:
وحی غیر متلو ایسی وحی کو کہتے ھیں جو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قلب مبارک پر صرف معانی و مضامین کی شکل میں القا کی گئی ہو ۔اوران معانی کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے کبھی اپنے الفاظ سے اور کبھی اپنے افعال سے اور کبھی دونوں سے بیان فرمایا ہو۔ (مستفاد: امداد الاحکام )
یعنی وحی غیر متلو وہ وحی ہے جو قرآن کریم کا جز نہیں بنی؛ لیکن اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بہت سے احکام عطا فرمائے گئے ہیں اس وحی کو"وحی غیر متلو" کہتے ہیں یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ،عموماً وحی متلو یعنی قرآن کریم میں اسلام کے اصول عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا کیا گیا ہے ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے عطا فرمائے گئے یہ وحی غیر متلو صحیح احادیث مبارکہ کی شکل میں موجود ہے اور اس میں عموماً صرف مضامین وحی کے ذریعے آپ پر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نازل کیے گئے ہیں ان مضامین کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خود فرمایا ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ھے
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى O
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى O
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔
نیز ارشادِ باری تعالی ہے:
اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَىَّ ۖ اِنِّـىٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّىْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ O
میں اسی کی تابعداری کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جائے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ارشاد ہے:
"أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔ (مسند احمد)
"مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی تعلیمات بھی"
تو قرآن کریم سے مراد وحی متلو ہے اور دوسری تعلیمات سے مراد وحی غیر متلو ہے۔
وحی کے نازل ھونے کے طریقے
قرآن پاک میں کسی منتخب نبی پر "وحی" بھیجنے کے تین طریقے مذکور ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا يَشَآءُ
اور کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اللہ اس سے ہمکلام ہو مگر (1) وحی (الہام) کے ذریعے یا (2) حجاب کی آڑ سے یا (3) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ اس کے حکم سے جو اس کو منظور ہو بصورت وحی پیغام دے جائے"
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی "وحی" کی یہ صورت مذکور ہے:
وَاِنَّهٝ لَـتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (192)
اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ (193)
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے۔
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُـوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ (194)
تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو۔
بِلِسَانٍ عَـرَبِـيٍّ مُّبِيْنٍ (195)
صاف عربی زبان میں۔
وَاِنَّهٝ لَفِىْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ (196)
اور البتہ اس کی خبر پہلوں کی کتابوں میں بھی ہے۔
تو گویا بنیادی طور پر وحی کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
۱- وحی قلبی:
اللہ تعالی کسی فرشتے وغیرہ کے واسطے کے بغیر براہِ راست کوئی بات، نبی کے دل میں ڈال دے۔ پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں:
(1) بیداری میں۔
(2) خواب میں۔
۲- کلامِ الہی:
اللہ تعالی براہِ راست نبی کو اپنی ہم کلامی کا شرف عطا فرماتا ہے، اس میں بھی فرشتے یا کسی کا واسطہ نہیں ہوتا، نبی کو مخلوقات کی آواز سے جداگانہ آواز سنائی دیتی ہے، جس کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن نہیں۔ یہ وحی کی سب سے اعلیٰ قسم ہے۔
۳- وحی ملکی:
اللہ تعالی کسی فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ پیغام پہنچاتا ہے۔ پھر اس کی بھی تین صورتیں ہیں:
(1) کبھی فرشتہ نظر نہیں آتا، صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
(2) بعض مرتبہ کسی انسان کی شکل میں آتا ہے۔
(3) کبھی کبھی اپنی اصلی صورت میں بھی نظر آجاتا ہے۔
قرآنِ کریم کی درج بالا آیت وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔ میں اِن ہی تین اقسام کی طرف اشارہ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ھونے کی کچھ صورتیں
آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے:
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاأَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔
(بخاری،باب بدءالوحی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کے ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پوچھا کے آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے، پھر مجھ سے بات کرتا ہے، جو کچھ وہ کہتا ہے میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کو یاد کرلیتا ہوں حضرت عایشہؓ فرماتی ہیں : میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے (ایسی سردی میں بھی)جب وحی کاسلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا سانس رکنے لگتا تھا چہرۂ انور متغیر ہوکر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا تھا ، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:)
وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ: إِنْ كَانَ لَيُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ عَلَى نَاقَته فَيَضْرِب حِزَامهَا مِنْ ثِقَل مَا يُوحَى إِلَيْه۔ (فتح الباری: )
اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی۔
بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔ (بیہقی، ابواب کیفیۃ نزول الوحی،)
وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آکر اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچادیتا تھا، ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔(مصنف بن ابی شیبہ،(
وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ اسلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر، پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہے۔
(فتح الباری)
وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْح۔ (بخاری)
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی کی ابتدا نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی اس وقت جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔
وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء (ڈالنا) فرمادیتے تھے اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں: جیسے حدیث پاک میں ہے:
وَإِنَّ الرُّوْحَ الْأَمِيْنَ قَدْ نَفَثَ فِيْ رَوْعِيْ أَنَّهُ لَنْ تَمُوْتَ نَفْسٌ حَتّٰى تُسْتَوْفٰي رِزْقُهَا فَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ۔ (شعب الایمان)
حضرت جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہو جائے، لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو۔
اس کے علاوہ نزول وحی کی اور بھی صورتیں تھیں لیکن اختصاراً یہاں چند صورتوں کا ذکر کیا گیا ھے۔ مزید تفصیل جاننے کے لئے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی بہت ھی جامع کتاب “ علوم القرآن “سے استفادہ کیا جا سکتا ھے
وحی کی حقیقت اور ضرورت
ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کرکے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کے احکام کو مد نظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تعالٰی کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو علم کی ضرورت ہے ،اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کونسی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا نیز اسے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالٰی کی مرضی کیا ہے؟ وہ کونسے کاموں کو پسند اور کن کاموں کو ناپسند فرماتا ہے؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔ جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالٰی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں، اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالٰی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے خاص منتخب بندوں یعنی آنبیاء کرام پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہی ہو جائے بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کی بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسا کرنا درست نہیں؛ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی اور رسالت ہے، اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے، یہ وحی اللہ تعالٰی نے ان ہزاروں آنبیاء کرام پر نازل فرمائی جنھوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا؛ یہاں تک کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی۔.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ وحی کی حفاظت
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر نازل ھونے والی وحی قرآن پاک کی شکل میں ھمارے پاس آصل حالت میں موجود ھے اور ان شاء اللہ قیامت تک اپنی آصل حالت میں محفوظ و مامون رھے گی اس میں کسی قسم کا کوئی بھی تغیر وتبدل ممکن نہیں کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ پاک نے لی ھوئی ھے چنانچہ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے
"اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَإنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ" (الحجر)
ہم نے ہی اس ذکر (وحی) کو نازل فرمایا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں
جاری ھے ۔۔۔۔۔