حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا متبنیٰ یعنی منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب صحابی ہیں۔ سب سے پہلے چار خوش نصیب اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ھیں ۔ آزادہ کردہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف انہیں حاصل ھے اور غزوہ بدر میں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والوں میں سرفہرست ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انہیں حِبُّ الرسول اور ان کے صاحبزادے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حِبّ بن حب کہتے تھے، اصحاب رسول میں سے یہ شرف صرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نام صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی فضیلت کی بناء پر بعض لوگوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو افضل الصحابہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوتے۔
نام و نسب
آپ کا نام نامی: زید، کنیت: ابواسامہ، لقب: حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، والد کا نام حارثہ اور والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ ہے، سلسلہ نسب اس طرح ہے: زید بن حارثہ بن شرحبیل بن کعب بن عبدالعزیٰ بن امرؤالقیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن دبرہ بن ثعلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ۔
خاندانی پس منظر اور حالاتِ زندگی
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ آزاد خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ یمن کے مشہور قبیلے بنو قضاعہ کے سردار حارثہ بن شرحبیل کے لخت جگر تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے۔ زید رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ سُعدیٰ بنت ثعلبہ قبیلہ طے کی شاخ بنی مَعن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال گئے، وہاں دورانِ سفر ان کے پڑاؤ پر قیس بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا، پکڑے جانے والوں میں نوعمر زید رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، ان لوگوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے قبیلے میں ان کو بیچ دیا، ادھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے انہیں خرید لیا اور انہیں اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حوالے کردیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے یہاں دیکھا اور ان کی عادات و صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں، تو آپ نے ان کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مانگ لیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ (طبقات ابن سعد، ج۲، ص27)
دوسری طرف قافلے کے لوٹے جانے کی خبر سے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے گھروالوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور زید رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ زید رضی اللہ تعالی عنہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ وہ بیٹے کی جدائی سے بہت پریشان تھے انہوں نے مسلسل تلاش جاری رکھی۔ اسی دوران ایک مرتبہ حج پر آئے ہوئے لوگوں نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کی حالت زار سے آگاہ کیا۔ زید رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کو جب بیٹے کا سراغ ملا تو وہ اپنے بھائی کے ھمراہ مکہ پہنچے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ زید رضی اللہ تعالی عنہ کو فدیہ لے کر آزاد کردیں، ہم زندگی بھر آپ کے ممنون احسان رہیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر زید رضی اللہ تعالی عنہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں کسی قسم کا فدیہ لیے بغیر ہی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کے لیے تیار ہوں۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر پوچھا گیا: کیا تم انہیں پہچانتے ہو؟ وہ بولے: کیوں نہیں! یہ میرے والد گرامی ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اگر اپنے والد کے ساتھ جانا چاہو تو بخوشی جاسکتے ہو اور اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بھی رہ سکتے ہو۔ یہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کا امتحان تھا، ایک طرف وہ باپ تھا جو مدت سے ان کی تلاش میں سرگرداں تھا، اور زید رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں باپ کی محبت کا سمندر موجزن تھا؛ لیکن انہیں دوسری طرف نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف عظیم بھی حاصل تھا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے قسم کھا کر کہا: واللہ! العبودیۃ عند محمدﷺ أحب الی من أن اکون عندکم، خدا کی قسم! محمد مصطفیﷺ کی غلامی مجھے تمہارے پاس رہنے سے زیادہ مرغوب ہے۔
(تفسیر قرطبی)
والد اور چچا حیران ہوگئے اور کہنے لگے: زید! کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس ہستی کے ساتھ رہ کر میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کے بعد دنیا و مافیہا کو اس کے سامنے ہیچ سمجھتا ہوں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا خاموش ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان کرادیا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں، آج سے زید رضی اللہ تعالی عنہ میرا بیٹا ہے۔ یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ حارثہ نے یہ سنا تو اور بھی خوش ہوئے۔ باپ اور چچا دونوں مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ اب وہ کبھی کبھی مکہ آتے اور حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرلیتے۔ چونکہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا، اس لئے لوگ اب آپ کو زید بن محمد (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )پکارنے لگے یہاں تک کہ اس بارے میں سورہ آحزاب کی آیات نازل ھوئیں جن میں بتلایا گیا کہ متبنی کی حیثیت حقیقی بیٹے کی نہیں ہے؛ بلکہ وہ تمہارے دینی بھائی کے درجے میں ھیں
آیات درج ذیل ھیں
مَّا جَعَلَ اللّـٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِىْ جَوْفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اللَّآئِىْ تُظَاهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللّـٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَـهْدِى السَّبِيْلَ O
اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے، اور نہ اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے، اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے، یہ تمہارے منہ کی بات ہے، اور اللہ سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔
اُدْعُوْهُـمْ لِاٰبَآئِهِـمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوٓا اٰبَآءَهُـمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِى الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُـمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا O
انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے ہاں یہی پورا انصاف ہے، سو اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
قبولِ اسلام
آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جب خلعت نبوت عطا ہوئی تو حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے ابتدا ہی میں شرفِ بیعت حاصل کیا، محققین کا فیصلہ ہے کہ وہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا،ان دونوں میں اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ غزوات میں تشریف لے جاتے تھے تو ان ہی کو اپنا وصی بنا کر جاتے تھے
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں، جنھوں نے کسی تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت سنتے ہی آپ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا۔ ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، دوسرے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ تیسرے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور چوتھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر تیس سال تھی اور وہ حضور کی خدمت میں رہتے ہوئے پندرہ سال گزارچکے تھے۔
محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
جس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے، اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے پدرانہ شفقت کا معاملہ فرماتے اور انہیں اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ جب کسی مشن کے لیے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کرتے تو ان کے لیے دعا کرتے، جب وہ مشن سے واپس لوٹتے تو آپ دلی مسرت کا اظہار فرماتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ملاقات کا منظر بیان فرماتی ہیں کہ: ایک مرتبہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک سفر سے مدینہ واپس آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے، انہوں نے دروازے پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے اٹھے، جب دروازہ کھولا تو سامنے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، انہیں دیکھ کر آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی، فوراً گلے لگالیا، ماتھا چوما اور دعاؤں سے نوازا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ واللہ میں نے پوری زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا اس طرح استقبال و خیرمقدم کرتے نہیں دیکھا۔
حضرت اُم ایمن اور حضرت زینب رضی اللہ عنھما سے نکاح
حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیز تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے، اور اماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ھے تو اس کو ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کرنا چاہئے، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، باوجود ان کی زیادہ عمر کے ان سے نکاح کرلیا، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما جو اپنے والد کے بعد حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور ہوئے، ان ہی کے بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے۔
جب حضرت زید رضی اللہ عنہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ بھی حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مہمان ہوئے، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ انصاری جو قبیلہ عبدالاشہل کے معزز رئیس تھے، ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے، حضرت زید رضی اللہ عنہ اب تک خاندان نبوت کے ایک ممبر کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک علیحدہ مکان مخصوص فرما دیا اور اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کا ان سے نکاح کردیا، اس طرح درحقیقت یہ دوسرا طرہ افتخار تھا جو حضرت زید رضی اللہ عنہ کے دستار فضل پر نصب ہوا؛ لیکن یہ نکاح زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا، نسبی و خاندانی عدم توازن نے دونوں کی سطح مزاج میں نشیب و فراز پیدا کردیے، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے دربار نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں بار بار ناموافقت کی شکایت کی اور بالآخر طلاق دینے پر مجبور ہوگئے، انقضائے عدت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کی معرفت پیام نکاح بھیجا تو انہوں نے کہا، جب تک اللہ تعالی کی طرف سے کچھ حکم نہ آئے میں کچھ نہیں کرسکتی، چنانچہ اس کے بعد ہی قرآن نے ان کو امہات المومنین میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّـذِىٓ اَنْعَمَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّـٰهَ وَتُخْفِىْ فِىْ نَفْسِكَ مَا اللّـٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَۚ وَاللّـٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْـهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَىْ لَا يَكُـوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِىٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِـمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ اَمْرُ اللّـٰهِ مَفْعُوْلًا O
اور جب تو نے اس شخص سے کہا جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید اس سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو جب کہ وہ ان سے حاجت پوری کرلیں، اور اللہ کا حکم ہوکر رہنے والا ہے۔
*غزوات میں شرکت اور متفرق کارنامے*
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ تیر اندازی میں مخصوص کمال رکھتے تھے، ان کا شمار ان مشاہیر صحابہ میں تھا جو اس فن میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے،معرکۂ بدر سے غزوۂ موتہ تک جس قدر اہم وخون ریز معرکے پیش آئے سب میں پامردی وشجاعت کے ساتھ شریکِ کارزار ہوئے،غزوۂ مریسیع میں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو مدینہ میں اپنی جانشینی کا فخر بخشا اس لیے اس مہم میں حصہ نہ لے سکے۔
مشہور معرکوں کے علاوہ اکثر چھوٹی چھوٹی مہمات خاص ان کی سپہ سالاری میں سرہوئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں جس فوج کشی میں زید رضی اللہ تعالی عنہ شریک ہوتے تھے، اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا تھا
]اس طرح نودفعہ سپہ سالاربناکر بھیجے گئے ان مہمات میں سے پہلی مہم سریہ قردہ تھی جس میں انہوں نے غنیم کو نہایت کامیابی کے ساتھ شکست دی،اوربہت سے اونٹ،مال واسباب اوردشمن کے ایک سردار فرات بن حیان عجلی کو گرفتار کر کے لائے۔ ربیع الثانی6ھ میں بنی سلیم کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مقام جموم میں مسکن گزین تھے، اس مہم میں بھی حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی،بہت سے اونٹ بکریاں اورقیدی پکڑ کر لائے۔ اسی سال قریش کے ایک قافلہ کو جو شام سے واپس آرہا تھا روکنے کا حکم ہوا،حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ ایک سوسترسواروں کے ساتھ یکایک مقام عیص میں اس قافلہ پر جا پڑے اورتمام اہل قافلہ کو مع سامان گرفتار کرلائے، مال غنیمت میں چاندی کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا جو صفوان بن امیہ کے لیے شام سے آرہا تھا،قیدیوں میں ابو العباس بن الربیع آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے داماد بھی تھے،جنھوں نے اپنی اہلیہ اورحضرت سرورِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ کی پناہ حاصل کرکے مخلصی پائی۔ اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں مقام طرف پر حملہ آور ہوئے،لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی کیونکہ غنیم پہلے ہی خائف ہوکر بھاگ گیا تھا، اس کے بعد مقام حسمیٰ پر فوج کشی
ہوئی،پانچ سوجانباز مجاہدان کے زیرکمان تھے،حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ احتیاط کے خیال سے دن کو پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے اوررات کو یلغار کرتے ہوئے قطع منازل کرتے تھے،یہاں تک کہ ایک روز یکایک غنیم پر جاپڑے،ھنیذاوراس کے خاندان کو جس نے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ کو قسطنطنیہ کی سفارت سے واپس آتے وقت لوٹ لیا تھا، تہِ تیغ کیا اورایک ہزار اونٹ ،پانچ ہزار بھیڑ بکریاں اوربہت سے قیدی گرفتار کرکے زید بن رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ دربارِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں ارسال کیے، چونکہ اس قوم کے ایک ممبر ابویزید بن عمرو نے دوراندیشی سے پہلے ہی پہنچ کر اسلام قبول کرلیاتھا ،اس لیے ان کی سفارش پر تمام قیدی رہا کردئے گئے، اورمالِ غنیمت واپس کر دیا گیا،پھر اسی سال ماہِ رجب میں وادی قری کی مہم پر بھیجے گئے اورکامیابی کے ساتھ واپس آئے۔ ماہ رمضان المبارک 6ھ میں حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ ایک اسلامی کاروانِ تجارت کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا بہت ساسامانِ تجارت ان کے ساتھ تھا،مدینہ سے سات منزل دوروادیِ قری کے نواح میں پہنچےتو بنی بدر کی ایک رہزن وغارت پیشہ جماعت نے تمام قافلہ کو لوٹ لیا اورکلمہ گویانِ توحید کو سخت اذیتیں پہنچائیں،حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بمشکل جان بچا کر مدینہ واپس آئے اوردربارِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں اس واقعہ کی اطلاع دی،چونکہ اس قسم کے متعدد واقعات پیش آچکے تھے، اس لیے حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ اس قبیلہ کی سرکوبی پر مامورفرمایا، حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کمال احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتے ہوئے ااوررات کو یلغارکرتے ہوئے یکایک ان ڈاکوؤں پر جاپڑے اورقرارواقعی سزادےکر مدینہ واپس آئے،انہوں نے آستانہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر پہنچ کر دستک دی توآنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جس حالت میں تھے اسی حالت میں باہر تشریف لے آئے اورجوشِ مسرت سے گلے لگاکر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا،اوردیر تک مفصل کیفیت دریافت فرماتے رھے
غزوۂ موتہ میں شرکت اور سعادتِ شہادت
صلح حدیبیہ کے بعد ۷ ھ کے بالکل اوائل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رؤساءِ عرب کے نام بھی نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے تھے جو عرب اور شام کے سرحدی علاقوں میں آباد تھے۔ ان میں غسان کا قبیلہ تعداد میں بھی بڑا تھا اور کافی طاقتور بھی تھا۔ اس قبیلہ کے لوگ اگرچہ عرب تھے، لیکن ایک مدت سے عیسائی تھے، یہ قبیلہ قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باج گزار تھا، اس وقت قبیلہ کا رئیس و حکمران شُرَحبیل بن عمرو نامی شخص تھا، اس کے پاس حارث بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ بطور قاصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر گئے تھے۔ اس بدبخت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو شہید کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ؓ کے خون کے قصاص کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کرکے جمادی الاولیٰ ۸ھ میں شام کی طرف بھیجا، اس لشکر کا سپہ سالار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پہلے ہی سے طے کردیا کہ اگر ان کو دولت شہادت نصیب ہو تو حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی) سپہ سالار ہوں گے، اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سپہ سالار ہوں گے جو انصار تھے اور مشہور شاعر تھے۔
اِدھر مدینہ میں مسلمانوں کا لشکر ترتیب پا رہا تھا اور اُدھر جاسوسوں نے شرحبیل کو خبر کردی۔ چنانچہ شرحبیل نے اس لشکر کے مقابلہ کے لئے قریباً ایک لاکھ کی فوجی تیار کی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ معاملہ قصاص اور انتقام کا ہے، لہذا جنگ ضرور ہوگی، پھر خود قیصر روم (ہرقل) ایک بہت بڑی فوج لے کر غسانیوں کے دارالحکومت بصریٰ سے چند میل کے فاصلہ پر آکر بیٹھ گیا تھا کہ اگر غسانی شکست کھائیں تو وہ ان کی مدد کے لئے اپنی فوج لے کر پہنچ جائے۔ اہل ایمان کے لشکر کو جب غسانیوں کی تیاری اور اس کی پشت پر ہرقل کی فوج کی موجودگی کا علم ہوا تو مشورہ ہوا کہ ان حالات میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے، اس سنگین صورت حال میں مقابلہ کا خطرہ مول لینا چاہیے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ہمیں سردست مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ مقابلہ کیا جائے، چنانچہ وہ اٹھے اور انہوں نے تقریر کی کہ مسلمانو! ہم دنیا کے طالب ہو کر نہیں نکلے، فتح اور شکست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہم تو شہادت کے متمنی ہیں، اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے تو ہم تاخیر کیوں کریں۔ اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ فیصلہ ہوگیا کہ اب مقابلہ کیا جائے گا، چنانچہ تصادم ہوا او رزبردست تصادم ہوا۔ کہاں تیں ہزار کی مختصر جماعت اور کہاں ایک لاکھ کا لشکر جرار! لیکن جوش ایمانی اور شوق شہادت سے سرشار یہ مختصر جماعت ایک لاکھ فوج پر حملہ آور ہوئی، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ایسی جواں مردی کے ساتھ جنگ لڑی کہ جنگی کارناموں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، بالاخر دشمن کے نیزوں نے آپ کے جسم کو چھلنی چھلنی کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے، آپ کے بعد جھنڈا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے تھام لیا اور اس کی حفاظت کے لیے بڑی جاں فشانی سے دشمن کے مقابلے میں نبرد آزما رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کے شہید ہوجانے کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور ایسی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے؛ لیکن بالاخر لڑتے لڑتے اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار منتخب کیا گیا ابھی آپ نئے نئے حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے تھے، لیکن آپ نے اپنے تجربات کی بنا پر ایسی جنگی تدبیر اختیار کی کہ لشکر اسلام کو ہزیمت سے بچالیا۔ جب جنگ ‘‘موتہ’’ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور لشکر اسلام کے تین سپہ سالاروں کی شہادت کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اتنے غمگین ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس طرح حالت غم میں نہیں دیکھا گیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خبر سنتے ہی فوری طور پر تعزیت کے لئے ان کے اہل خانہ کے پاس گئے، جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تسلی دینے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے تو آپؓ کی چھوٹی بیٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آب دیدہ ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی رو رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے۔ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقام کے لئے اسلامی لشکر کی تیاری
حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے محبوب ووفاشعارغلام کی مفارقت کا شدید غم تھا،حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ انتقام پر مامور فرمایا؛چونکہ وہ نہایت کمسن تھے اس لیے بعض نے ان کی سیادت پر ناپسندیدگی ظاہر کی آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا، تم لوگ پہلے جس طرح اس کے باپ کی سرداری پر طعن وطنز کرتے تھے اسی طرح اب اس کی امارت کو ناپسند کرتےہو، خدا کی قسم ؛ زید امارت کا اہل ومحبوب ترین شخص تھا،اور اس کے بعد اسامہؓ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ مہم ابھی روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ آفتاب رِسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم غروب ہو گیا؛ لیکن خلیفۂ اول نے ہجوم مصائب وصعوبات گوناگوں کے باوجود کوچ کا حکم دے دیااور حضرت اسامہ ؓ اپنے پدر شفیق کے قاتلوں سے انتقام لے کر غیر معمولی کامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے اخلاق
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے صحیفۂ اخلاق میں وفاشعاری کاباب سب سے نمایاں ہے، آقائے نامدار کی رضامندی ان کا پرلطف مقصدِ حیات تھا ،حضرت ام ایمن ؓ گو ایک معمر عورت تھیں تاہم انہوں نے محض اس لیے ان سے نکاح کر لیا کہ آنحضرت ﷺ ان کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ حضرت رسالت مآب ﷺ اوران کے متعلقین کا بے حدادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے،حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جن کو انہوں نے ناموافقت کے باعث طلاق دے دی تھی، آنحضرت ﷺ کی طرف سے پیام لے کر گئے تومحض اس خیال سے کہ آپ ﷺ نے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی ہے تعظیماً دیکھ نہ سکے اورجو کچھ کہنا تھا منہ پھیر کر کہا۔ گو حضرت زید ؓ کے اخلاقی کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی تاہم درحقیقت ان کےوہ اوصاف حسنہ ومحاسن جمیلہ ہی تھے جس نے ان کو اور اُن کی اولاد کو حضرت رسالت مآب ﷺ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب بنادیا تھا،حضرت عائشہ ؓ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو آپ ان ہی کو اپنا جانشین بناتے،(طبقات ابن سعد )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دفعہ ان کے پوتے محمد بن اسامہ کو مدینہ کی مسجد میں دیکھا تو تعظیم سے گردن جھکالی اوربولے اگر رسول اللہ ﷺ دیکھتے تو اس کو بھی محبوب رکھتے۔
ازواج و اولاد
مختلف اوقات میں حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے متعدد نکاح کیے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ازواج کے نام یہ ہیں: ام ایمن، ام کلثوم بنت عقبہ، درہ بنت لہب، ہند بنت العوام، زینب بنت جحشؓ۔ (اسدالغابہ، تذکرہ زید بن حارثہ)
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں دو لڑکے، اسامہ بن زید، زید بن زید اور ایک لڑکی رقیہ ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سوا دونوں بچے بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول تذکرہ زید بن حارثہ)
جاری ھے ۔۔۔۔