قسط نمبر (25) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 اسلام میں نماز کی ابتداء

 اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق  ہے کہ نماز کا حکم ابتدائے اسلام میں  یعنی پہلی یا دوسری وحی کے بعد ھی آگیا تھا، تاہم پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقعہ پر نازل ہوئی، نماز کی فرضیت کے آنے کے بعد اللہ رب العزت نے نماز کا طریقہ اور اوقاتِ نماز کی تعلیم عملی طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام  عطا فرمائی ۔  جس کے بعد رسولِ اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے امت کو تعلیم دی، اور اپنی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔


معراج سے قبل نماز کا طریقہ

معراج سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔ “فتح الباري” میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ھے

نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ابتداء ہی سے نماز اداء کیا کرتے تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نماز کا ذکر کیا ہے۔ کھبی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایذاء  دینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ہنسی اڑاتے،کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے ۔کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقہے لگاتے۔ عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے۔ 

ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میںن نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام)


امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح  میں  ایک روایت  نقل کی ھے  جو حدیثِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان ( جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز بھی تھی:


پنجگانہ نماز کا حکم 

پنجگانہ نماز کا حکم معراج شریف کے موقعہ پر آیا معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے مستقل عمل  یعنی نماز کو حتمی شکل دے دی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:- (پھر طویل حدیث روایت کی ) جس میں سے یہ ہے- (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی۔ انہوں نے مجھے واپس بھیج دیا (اور میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس پھر جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت میں (اتنی نمازوں کی) طاقت نہیں ہے۔ میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک اور حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت میں ان کی بھی طاقت نہیں ہے۔ میں لوٹ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے فرمایا: یہ بظاہر پانچ (نمازیں) ہیں لیکن (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کیجئے)۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ 

(متفق علیہ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر کم کر کے پانچ کر دی گئیں، پھر آواز دی گئی: اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! میرے ہاں بات تبدیلی نہیں ہوتی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے (اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے واسطے سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت کے لئے) ان پانچ میں پچاس نمازوں کا اجر رکھ دیا گیا ہے۔

(اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، عبد الرزاق اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے)


  نماز کی  مختصر تاریخ 

رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام گزرے  ہیں ان کی تعلیمات میں بھی نماز  کا تذکرہ ملتا ہے، اور ان کی نماز بھی رکوع و سجود پر مشتمل تھی، البتہ ان کی نمازوں میں  کیا شرائط ، و ارکان و واجبات تھے، اس کی تفصیل نہیں ملتی، نیز من حیث الامہ ان میں سے ہر ایک کی امت پر کتنی نمازیں فرض تھیں اس کی تفصیل بھی نہیں ملتی، البتہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار میں  ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ:  جب حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ فجر کی وقت قبول کی گئی تو انہوں نے دو رکعات نماز ادا  کی ، تو یہ صبح کی نماز قرار پائی، حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی ظہر  کے وقت پیش کی گئی تو انہوں نے چار رکعات نماز ادا کی  تو یہ ظہر  کی نماز قرار پائی، حضرت عزیر علیہ السلام کو جب دوبارہ اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ موت کی حالت میں سوئے رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن، پھر ان کی نگاہ سورج پر پڑی، تو کہا: دن کا کچھ حصہ، پھر  انہوں نے چار رکعات نماز ادا کی، تو یہ عصر کی نماز قرار پائی، اور حضرت داؤد علیہ السلام کو مغفرت کا پروانہ مغرب کے وقت ملا تو آپ کھڑے ہوئے اور چار رکعات  نماز ادا کرنے کا قصد کیا، مگر تیسری رکعت میں خلافِ اولی کے ارتکاب کی وجہ سے احساسِ ندامت اور رونے  کی شدت کی وجہ سے چوتھی رکعت پڑھنے سے عاجز آگئے، یوں یہ مغرب کی نماز قرار پائی،  اور سب سے پہلے عشاء کی نماز جس مبارک  ھستی  نے ادا فرمائی وہ نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ذات ہے۔

اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآنِ مجید میں نقل فرمائی ہے جس میں بھی نماز کا ذکر ملتا ہے:

{ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ} (إبراهيم ) 

اے رب میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو میدان میں کہ جہاں کھیتی نہیں تیرے محترم گھر کے پاس، اے رب ہمارے تاکہ قائم رکھیں نماز کو ۔۔۔الخ


نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی دعا ہے: 

{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} ( إبراهيم) 

اے رب میرے!  کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی، اے رب میرے! اور قبول کر میری دعا۔

اللہ رب العزت نے حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو جو تشریعی احکامات عطا فرمائے اس میں بھی نماز قائم کرنے کا حکم تھا:

{وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ} (يونس )

 اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو اور اس کے بھائی کو کہ مقرر کرو اپنی قوم کے واسطے مصر میں سے گھر، اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو، اور قائم کرو نماز. اور خوش خبری دے ایمان والوں کو۔ 

 اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ ہونے والے پہلے مکالمہ کا ذکر فرمایا ہے، اس میں بھی نماز کی تعلیم ملتی ہے:

{وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا} ₨مريم ) 

اور بنایا مجھ کو برکت والا جس جگہ میں ہوں اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکات  کی جب تک میں رہوں زندہ۔

حضرت زکریا علیہ السلام  کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

{فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ} (آل عمران )

پھر اس کو آواز دی فرشتوں نے جب وہ کھڑے تھے نماز میں حجرے کے اندر ۔۔۔ الخ

اللہ رب العزت نے تمام انبیاء علیہم ا لسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:

 {أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا} (مريم) 

یہ وہ لوگ ہیں جن پر انعام کیا اللہ نے پیغمبروں میں آدم کی اولاد میں اور ان میں جن کو سوار کرلیا ہم نے نوح کے ساتھ اور ابراہیم کی اولاد میں اور اسرائیل کی اور ان میں جن کو ہم نے ہدایت کی اور پسند کیا جب ان کو سنائے آیتیں رحمن کی گرتے ہیں سجدہ میں اور روتے ہوئے۔

انبیاء علیہم السلام کے گزرجانے کے بعد ان کی امتوں کی بربادی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :

{ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا  إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا} (مريم) 

پھر ان کی جگہ آئے ناخلف، کھو بیٹھے نماز، اور پیچھے پڑگئے مزوں کے، سو آگے دیکھ لیں گے گم راہی کو، مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کی نیکی سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں اور ان کا حق ضائع نہیں ہوگا۔


ارشاد باری تعالی ہے:

{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبیت مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ؕ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهِيْمَ مُصَلًّى‌ ؕ وَعَهِدْنَآ اِلٰى اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ} (البقرة ) 

اور جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی، اور بنایا ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ اور حکم کیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہ پاک رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنے والوں کے اور اعتکاف کرنے والوں کے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے۔


ارشاد الہی  ہے: 

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (آل عمران ) 

اے مریم بندگی کر اپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے۔

إيمان كے بعد سب سے پہلی  چيز جو هر مسلمان كيلئے لازمي هے وه نماز هے - نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے مفهوم ومعني كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-


 نماز کے لغوی معنی:
"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ نماز كي هر ركعت ميں سورة فاتحه كي تلاوت كي جاتي هے جو مكمل دعا هے - صلوٰۃ" کے إيك معنی بہترین ذکر کے بهي ہیں جيسا كه قرآن مجيد ميں نماز كو ذكر فرمايا گيا هے
"صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے بهي ہیں، جب کہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ٓفرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، یعنی برکت کی دعا دیتے ہیں" یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوق یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔

 نماز کے شرعی  معنی:
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے سے اللہ کی عبادت کرنا هے جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" بمعنی دعا کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"
درآصل "صلوٰۃ" دعا ہی کا ایک نام تھا پھر یہ نماز ک) دعا سے مناسبت کی وجہ سے شرعی نماز کا بھی نام ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں آپس میں قریب ہیں۔ پس جب بھی شریعت میں "صلوٰۃ" (نماز) کہا جائے تو اس سے نماز کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی شریعت میں لفظ "صلوٰۃ" اس مخصوص عبادت نماز ہی کے لئے خاص ہوگیا -

"نماز  کا  مفہوم :
نماز الله تعالى كے خزانوں سے براه راست حاصل كرنے كا ذريعه هے - اپني حاجتيں الله تعالى سے مانگنے كے لئے نماز إيك بهترين راسته ھے 

نماز ميں دعا کی اقسام:
1- دعائے مسئلہ:
اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کے لئے مفید ہو مثلاً دنیوی و اخروی نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ نماز اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔
2- دعائے عبادت:
اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے زبانِ حال سے اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔

شریعت میں نماز کا حکم:
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم اور اجماعِ امت سے پنجگانه نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر وقت كي پابندي كے ساتهـ فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے"

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (سورۃ البینہ)
ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی (سچی امت ) کا دین ہے۔"

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآله وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔
"امت مسلمہ کا دن اور رات میں پانچ نمازوں کے وجوب پر اجماع 
ھے

نماز كا مقصد:
نماز كے مقصد سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم الشان عبادت الله تعالى كي طرف سے عنايت هونے كا مقصد كيا هے؟ تو نماز ایک  مسلمان کے لئے  زندگی کو سنوارنے کی ایک  مبارک ایکسرسائز ھے اس كا مقصد يهی هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي صفتِ صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي همارا يهي معمول بن جائے- نماز إيك مشق هے اس مشق کو سامنے رکھ کر ھم اپنی پوری زندگی کو اللہ تعالی کے آحکام اور رسول کریم صلى الله عليه وآله سلم  کے نورانی طریقوں کے مطابق ڈھال سکتے ھیں تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -

نماز کی اَہمیت :
نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ إس كي إهميت كا أنداذه إس بات سے لگايا جا سكتا هے كه الله تعالى نے تمام آحكام بذريعه وحي (بواسطه حضرت جرائيل آمين ) نازل فرمائے ليكن  باقاعدہ پنجگانہ نماز شبِ معراج کے موقعہ پر فرض کی گئی۔ روايات ميں هے كه جب رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم معراج شريف پر تشريف لے گئے تو الله تعالى نے فرمايا ميرے حبيب(صلى الله عليه وآله وسلم) جب كوئى دوست اپنے دوست كو ملنے جاتا هے تو كوئى تحفه ساتهـ لے كر جاتا هے تو (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) ميرے لئے كيا تحفه لے كر آيا هے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نےعرض كيا يا الله ميں تو صرف عاجزى لے كر پيش هوا هوں تو پهر الله تعالى كي جانب سے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كو إيك عظيم تحفه يعني دن رات ميں (50) نمازيں عطا فرمائى گئيں  جو تخفیف کے بعد پانچ رہ گئیں  ۔سو جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم  وہاں سے واپس ہوئے تو ﷲ تبارک و تعالیٰ عزوجل نے آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کو پکارا اور کہا
’’میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی میں ایک نیکی کا بدلہ دس دونگا اسی طرح پانچ نمازیں پچاس کے برابر ہوں گی میری بات تبديل نہیں هوا کرتی( بخاری )
اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بهي بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں سينكڑوں مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ (صریحاً) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :

1. وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَO (سورة البقره)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

2۔ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO (سورہ طٰہٰ)
’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘

3۔ اﷲ عزوجل نے اپنے نہایت برگزیدہ پیغمبر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO (سورة مريم)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)‘‘

اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے شہادت توحید و رسالت کے بعد جس فریضہ کی بجا آوری کا حکم قرآن و سنت میں بهت زياده تاکید کے ساتھ آیا ہے وہ نماز ہی ہے۔ چند درج ذیل احادیث مباركه کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام میں نماز کو کیا إهميت حاصل ہے؟
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ. عَلَی أَنْ يُعْبَدَ اﷲُ وَ يُکْفَرَ بِمَا دُوْنَهُ. وَإِقَامِ الصَّلَاةِ. وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ. وَحَجِّ الْبَيْتِ. وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے سوا سب کی عبادت کا انکار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

2۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اﷲُ عزوجل، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوئَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْد أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
’’ﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان نمازوں کے لئے بہترین وضو کیا اور ان کے وقت پر ان کو ادا کیا، کاملاً ان کے رکوع کئے اور ان کے اندر خشوع سے کام لیا تو اﷲ عزوجل نے اس کی بخشش کا عہد فرمایا ہے، اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں، چاہے تو اسے بخش دے، چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘

3۔ نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حد یثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :
الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اﷲَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ.
’’نماز کو لازم پکڑو اور اپنے غلام، لونڈی کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
سبحان ﷲ - ﷲ تعالیٰ کے انعام و اکرام و احسان پر ذرا انسان غور کرے کہ ﷲ نے ان پانچ نمازوں کے ثواب کو پچاس نمازوں کے برابر فرما دیا يعني بنده نمازيں تو پانچ ادا كرے گا اور اس كا رب اسے ثواب پچاس كا عطا فرمائے گا مسلمان ایسے انعامات کو ضائع کرے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو گی- ﷲ تعالی هم سب مسلمانوں کو پانچ وقت كي نماز ادا کرنے كا إهتمام كرنے کی توفیق عطا فرمائے -آمین

نماز دین کا ستون ہے:
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے"۔ (صحیح مسلم)


جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔،
Share: