اسلام میں نماز کی ابتداء
اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز کا حکم ابتدائے اسلام میں یعنی پہلی یا دوسری وحی کے بعد ھی آگیا تھا، تاہم پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقعہ پر نازل ہوئی، نماز کی فرضیت کے آنے کے بعد اللہ رب العزت نے نماز کا طریقہ اور اوقاتِ نماز کی تعلیم عملی طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام عطا فرمائی ۔ جس کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے امت کو تعلیم دی، اور اپنی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔
معراج سے قبل نماز کا طریقہ
معراج سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔ “فتح الباري” میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ھے
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ابتداء ہی سے نماز اداء کیا کرتے تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نماز کا ذکر کیا ہے۔ کھبی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایذاء دینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہنسی اڑاتے،کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے ۔کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقہے لگاتے۔ عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے۔
ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میںن نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ھے جو حدیثِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان ( جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز بھی تھی:
پنجگانہ نماز کا حکم
پنجگانہ نماز کا حکم معراج شریف کے موقعہ پر آیا معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے مستقل عمل یعنی نماز کو حتمی شکل دے دی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:- (پھر طویل حدیث روایت کی ) جس میں سے یہ ہے- (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی۔ انہوں نے مجھے واپس بھیج دیا (اور میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس پھر جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت میں (اتنی نمازوں کی) طاقت نہیں ہے۔ میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک اور حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائیے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت میں ان کی بھی طاقت نہیں ہے۔ میں لوٹ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے فرمایا: یہ بظاہر پانچ (نمازیں) ہیں لیکن (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کیجئے)۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔
(متفق علیہ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر کم کر کے پانچ کر دی گئیں، پھر آواز دی گئی: اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! میرے ہاں بات تبدیلی نہیں ہوتی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے (اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے واسطے سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت کے لئے) ان پانچ میں پچاس نمازوں کا اجر رکھ دیا گیا ہے۔
(اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، عبد الرزاق اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے)
نماز کی مختصر تاریخ
رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ان کی تعلیمات میں بھی نماز کا تذکرہ ملتا ہے، اور ان کی نماز بھی رکوع و سجود پر مشتمل تھی، البتہ ان کی نمازوں میں کیا شرائط ، و ارکان و واجبات تھے، اس کی تفصیل نہیں ملتی، نیز من حیث الامہ ان میں سے ہر ایک کی امت پر کتنی نمازیں فرض تھیں اس کی تفصیل بھی نہیں ملتی، البتہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار میں ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ: جب حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ فجر کی وقت قبول کی گئی تو انہوں نے دو رکعات نماز ادا کی ، تو یہ صبح کی نماز قرار پائی، حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی ظہر کے وقت پیش کی گئی تو انہوں نے چار رکعات نماز ادا کی تو یہ ظہر کی نماز قرار پائی، حضرت عزیر علیہ السلام کو جب دوبارہ اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ موت کی حالت میں سوئے رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن، پھر ان کی نگاہ سورج پر پڑی، تو کہا: دن کا کچھ حصہ، پھر انہوں نے چار رکعات نماز ادا کی، تو یہ عصر کی نماز قرار پائی، اور حضرت داؤد علیہ السلام کو مغفرت کا پروانہ مغرب کے وقت ملا تو آپ کھڑے ہوئے اور چار رکعات نماز ادا کرنے کا قصد کیا، مگر تیسری رکعت میں خلافِ اولی کے ارتکاب کی وجہ سے احساسِ ندامت اور رونے کی شدت کی وجہ سے چوتھی رکعت پڑھنے سے عاجز آگئے، یوں یہ مغرب کی نماز قرار پائی، اور سب سے پہلے عشاء کی نماز جس مبارک ھستی نے ادا فرمائی وہ نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ذات ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآنِ مجید میں نقل فرمائی ہے جس میں بھی نماز کا ذکر ملتا ہے:
{ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ} (إبراهيم )
اے رب میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو میدان میں کہ جہاں کھیتی نہیں تیرے محترم گھر کے پاس، اے رب ہمارے تاکہ قائم رکھیں نماز کو ۔۔۔الخ
نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی دعا ہے:
{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} ( إبراهيم)
اے رب میرے! کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی، اے رب میرے! اور قبول کر میری دعا۔
اللہ رب العزت نے حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو جو تشریعی احکامات عطا فرمائے اس میں بھی نماز قائم کرنے کا حکم تھا:
{وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ} (يونس )
اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو اور اس کے بھائی کو کہ مقرر کرو اپنی قوم کے واسطے مصر میں سے گھر، اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو، اور قائم کرو نماز. اور خوش خبری دے ایمان والوں کو۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ ہونے والے پہلے مکالمہ کا ذکر فرمایا ہے، اس میں بھی نماز کی تعلیم ملتی ہے:
{وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا} ₨مريم )
اور بنایا مجھ کو برکت والا جس جگہ میں ہوں اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکات کی جب تک میں رہوں زندہ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ} (آل عمران )
پھر اس کو آواز دی فرشتوں نے جب وہ کھڑے تھے نماز میں حجرے کے اندر ۔۔۔ الخ
اللہ رب العزت نے تمام انبیاء علیہم ا لسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
{أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا} (مريم)
یہ وہ لوگ ہیں جن پر انعام کیا اللہ نے پیغمبروں میں آدم کی اولاد میں اور ان میں جن کو سوار کرلیا ہم نے نوح کے ساتھ اور ابراہیم کی اولاد میں اور اسرائیل کی اور ان میں جن کو ہم نے ہدایت کی اور پسند کیا جب ان کو سنائے آیتیں رحمن کی گرتے ہیں سجدہ میں اور روتے ہوئے۔
انبیاء علیہم السلام کے گزرجانے کے بعد ان کی امتوں کی بربادی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
{ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا} (مريم)
پھر ان کی جگہ آئے ناخلف، کھو بیٹھے نماز، اور پیچھے پڑگئے مزوں کے، سو آگے دیکھ لیں گے گم راہی کو، مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کی نیکی سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں اور ان کا حق ضائع نہیں ہوگا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبیت مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ؕ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهِيْمَ مُصَلًّى ؕ وَعَهِدْنَآ اِلٰى اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ} (البقرة )
اور جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی، اور بنایا ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ اور حکم کیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہ پاک رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنے والوں کے اور اعتکاف کرنے والوں کے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے۔
ارشاد الہی ہے:
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (آل عمران )
اے مریم بندگی کر اپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے۔
إيمان كے بعد سب سے پہلی چيز جو هر مسلمان كيلئے لازمي هے وه نماز هے - نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے مفهوم ومعني كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-