دعوت و تبلیغ کا آغاز:
سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات (یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ سے وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ) تک دوسری وحی کی شکل میں نازل ھوئیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بظاہر تو بہت مختصر اور سادہ لیکن حقیقتا بڑے دُور رَس مقاصد پر مشتمل آحکامات دیے گئے اور بعد میں حقائق پر ان کے گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے چنانچہ حکم ھوا کہ اللہ کی مرضی کے خلاف جو بھی چل رہا ہو لوگوں کو اس کے پُرخطر انجام یعنی عذابِ الہیٰ کے خوف سے ڈرایا جائے۔ رَب کی بڑائی و کبریائی اس طرح بجا لائی جائے کہ رُوئے زمین پر کسی اور کی کبریائی برقرار نہ رھے بلکہ صرف اور صرف اللہ کی بڑائی باقی رہے۔ ظاھری اور باطنی پاکی کا اھتمام کیا جائے اور ھر قسم کی گندگی سے دُوری اختیار کی جائے یہاں تک کہ آپ معاشرے کا ایسا اعلیٰ ترین نمونہ بن جائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تمام قلبِ سلیم کھنچتے چلے جائیں ۔ اپنی جدوجہد اور کارناموں کو بڑائی اور اہمیت نہ دیں بلکہ ایک کے بعد دوسرے عمل کے لیے جددوجہد کرتے جائیں۔ اور بڑے پیمانے پر قربانی اور جہد و مشقت کر کے اسے اس معنی میں فراموش کرتے جائیں کہ یہ ہمارا کوئی کارنامہ نہیں ہے یعنی اللہ کی یاد اور اس کے سامنے جوابدہی کا احساس اپنی جُہد و مشقت کے احساس پر غالب رہے۔ اور پھر آخری آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے کا کام جب شروع ھو گا تو معاندین کی جانب سے مخالفت، استہزا، ہنسی اور ٹھٹھے کی شکلوں میں ایذا رسانی بھی لازمی ھو گی تو اس پر محض اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے صبر کیا جائے
تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد رحمة للعالمین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا جو پاؤں سے سر تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کا شکار تھا معاشرے میں انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ہر طاقتور فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا کہ صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ ”یآ ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ اے لوگو! لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔
ایک روایت میں ھے کہ رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ میں اسی کلمہ ( لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ) کے ساتھ مبعوث ھوا ھوں اور اسی کی طرف لوگوں کو بلاتا ھوں . یہی کلمہ تمام سابقہ نبیوں کی دعوت کا بنیادی نقطہ رھا ھے اور وہ بھی اسی کلمۂ توحید کی دعوت دیتے رھے
بعض روایات میں آیا ھے کہ رسول کریم ایک دن مکہ مکرمہ کے کسی بلند مقام پر تشریف رکھتے تھے جبرائیل آپ کے پاس آحسن صورت میں پاکیزہ تر خوشبو کے ساتھ حاضر ھوئے اور کہا
یا محمد ان اللہ یقرئک السلام ویقول لک انت رسولی الی الجن والانس فادعھم الی قول لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ۔
کہ اے محمد اللہ پاک آپ کو سلام کہتا ھے اور کہتا ھے کہ تم تمام جن و انس کے لئے اللہ کے رسول ھو سو انہیں کلمہ طیبہ یعنی لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ۔ کی دعوت دو تو گویا اللہ پاک کی جانب سے رسول پاک کی دعوت دینے کا بنیادی عنوان کلمہ طیبہ لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ۔ مقرر ھوا
جو کلمہ تمام نبیوں کی دعوت کی بنیاد رھا ھو وہ کسقدر قیمتی کلمہ ھو گا پھر آخرت میں نجات کا دارومدار بھی اسی کلمہ پر ھو گا جو اس کلمہ کے ساتھ اس دنیا سے گیا وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں داخل ھو گا اور جو اس کلمہ کے بغیر اس دنیا سے گیا خواہ اُس نے دنیا میں بہت آچھے آچھے کام کیےھوں لیکن اسے کھبی بھی جنت نصیب نہیں ھو گی تو اس کلمہ کے بارے میں تمام اُمور کو جاننا ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ
"لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" وه مبارك اور قيمتي كلمه هے كه جس پر تمام تر كاميابيوں كا دارومدار هے جو شخص يه كلمه لے كر إس دنيا سے جائے گا اگر خدانخواسته اپنے گناهوں كي وجه سے جهنم ميں چلا بهي گيا تو اس كلمه كي بركت سے ايك نه ايك دن ضرور جنت ميں چلا جائے گا ليكن اگر خدانخواسته إس كلمه سے محروم هوكر إس دنيا سے چلا گيا تو وه كهبي بهي جنت ميں نهيں جائے گا اب سوال يه هے كه هم إس كلمه كے بارے ميں كس طرح كي كوشش كريں كه الله تعالى هميں كامياب فرما دے :-
1- إس كلمه كے حواله سے جو سب سے پہلا كام جس كي كوشش همارے ذمه هے وه إس كلمه كے الفاظ كو صحيح طريقه سے ادا كرنا هے - زير - زبر - پیش كا خيال ركهنا اور حروف كي آدائیگی صحيح طرح كرنا - آج كل دين سے دورى كي يه حالت هے كه بہت سے لوگوں كو يه كلمه بهي صحيح ياد نهيں هے كهيں زير كي غلطي كهيں زبر اور پيش كي غلطي تلفظ كي غلطي كى تو إنتها يه هے كه بهت سے لوگ محمد كو بهي (مهمد) ادا كرتے هيں جو بالكل درست نهيں هے تو سب سے پهلے تو هميں كسي أستاد كے پاس جا كر إس كلمه كو صحيح طريقه سے سيكهنا چاهيے تاكه هم إس عظيم كلمه كے الفاظ كو صحيح پڑهنے والے بن جائيں۔
2- إس كلمه كے حواله سے دوسرا إهم كام يه هے كه هم إس كے ترجمه كو سيكهيں كيونكه يه كلمه عربي ميں هے إس لئے جب تك هم اپني زيان ميں إس كا ترجمه نهيں سيكهيں گے تب تک كلمه كو سمجهنا ممكن نهيں هوگا إس كلمه كا اردو ترجمه يه هے " الله كے سوا كوئى عبادت كے لائق نهيں اور (حضرت) محمد (صلى الله عليه وآله وسلم) الله كے رسول هيں "
3- تيسرا اور بہت هي إهم كام جو إس كلمه كے حواله سے همارے ذمه هے كه هم يه بات سيكهنے اور سمجهنے كي كوشش كريں كه إس عظيم كلمه كا مقصد كيا هے تاكه يه كلمه هماري زندگيوں ميں آ سكے۔
يه كلمه دو حصوں پر مشتمل هے
پهلا حصه يعني لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
دوسرا حصه يعني مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ
پهلا حصه يعني لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ كا مقصد:
جيسا كه إس كلمه كے ألفاظ سے ظاهر هے كه إس كلمه كا تعلق دل كے إيمان ويقين سے هے - يه كلمه تمام مخلوق كي نفي كركے إيك الله كي دعوت ديتا هے يعي الله تعالى سے سب كچھ هونے اور الله تعالى كے غير سے الله تعالى كي مشيت كے بغير كچھ بهي نه هونے كا يقين همارے دلوں ميں آجائے يعني يه كه همارے دل كا يقين درست هوجائے حديث مباركه كا مفهوم هے كه تمهارے بدن ميں گوشت كا إيک لوتهڑا هے اگر وه صحيح رها تو تمام بدن صحيح رهے گا اور اگر وه خراب هوگيا تو تمام بدن خراب هو جائے گا گوشت كا وه لوتهڑا دل هے تو اگر دل كا يقين درست هو جائے تو پهر بدن كے أعمال بهي درست هوجائيں گے اور اگر دل كا يقين درست نه هوا تو پهرأعمال كا درست هونا بهي ناممكن هوگا
تو همارا دل كا يه يقين هو كه اگر تمام مخلوقات مل كر بھی هميں كوئى نفع دينا چاهيے ليكن اگر الله تعالى نه چاهيے تو وه إيسا كرنے كي قدرت نهيں ركهتي - إسي طرح اگر تمام مخلوقات هميں نقصان پهنچانے پر آكٹهي هوجائيں اور الله تعالى نه چاهيے تو وه نقصان نهيں پہنچا سكتيں تو إس كلمه كا مقصد بھی يهي هے كه هرقسم كي مخلوق كي نفي كركے صرف الله تعالى پر يقين آجائے كه وهي همارا خالق هے وهي همارا مالك هے وهي همارا رازق هے وه سب كچھ كے بغير سب كچھ كرنے پر قادر هے اور مخلوق اس كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں كرسكتي زندگي اور موت كا مالك وه تنها الله هے عزت اور ذلت صرف وهي ديتا هے نفع و نقصان اس كے هاتھ ميں هے وه جب چاهے عزت كے نقشوں ميں ذليل كردے اور ذلالت كے نقشوں ميں عزت دے دے وه چاهے تو نمرود كو تخت پر بٹها كر جوتے مروا دے اور وه چاهے تو حضرت إبراهيم عليه السلام كے لئے آگ كو گلزار بنا دے
وه جب چاهے تو دريا ميں سے حضرت موسى عليه السلام اور ان كي قوم كو راسته بنا دے اور وه جب چاهے تو اسي دريا ميں فرعون اوراس كي فوج كو غرق كر دے وه جب چاهے لاٹهي كو سانپ بنا دے اور جب چاهے سانپ كو لاٹهي بنا دے يه سب كچهـ الله كے هاتهـ ميں هے الله تعالى جو چاهے جب چاهے جيسے چاهے كرنے پر قدرت ركهتا هے كوئى بهي دوسرا اس كي قدرت ميں شريك نهيں وہ * كن* كهتا هے تو *فيكون* هوجاتا هے كائنات كا سارا نظام صرف إيك الله كے هاتهـ ميں هے
الله تعالى صمد هيں صمد أس ذات كو كهتے هيں جو كسي بهي كام كے لئے كسي كا محتاج نه هو اور باقي تمام هر كام ميں اس كے محتاج هوں اور مخلوق كا مطلب يه هے كه وه هر كام ميں اپنے خالق و مالك ( يعني الله تعالى ) كي محتاج هے۔ يه كلمه هميں دل كے يقين كو درست كرنے كي دعوت ديتا هے اور مخلوق كے آستانوں سے هٹا كر إيك خالق كے سامنے سجده ريز هونے كي تعليم ديتا هے تو إس كلمه كا مقصد يه هے كه همارے دل كا يقين درست هو جائے كه جو كچھ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں هوتا يعني مخلوق كے چاهنے سے كچھ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هر صورت هوكر رهتا هے ذرا غور كريں كه
حضرت آدم عليه السلام جنت ميں رهنا چاهتے تهے ليكن الله تعالى ان كو زمين پر بيجهنا چاهتے تهے آخر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے -
حضرت نوح عليه السلام چاهتے تهے كه أن كا بيٹا مسلمان هوجائے ليكن چونكه الله تعالى كي مرضي يه نهيں تهي إس لئےالله نے جو چاها وهي هوا .
حضرت إبراهيم عليه السلام كي خواهش تهي كه ان كے والد إيمان والے بن جائيں ليكن الله تعالى كي مشيت كچھ اور تهي اور پهر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
حضرت موسى عليه السلام نے قبطي كو مُکہ مارا تها ليكن وه يه نهيں چاهتے تهے كه اس مُکہ سے قبطي مرجائے ليكن چونكه الله تعالى كي مشيت قبطي كي موت هي تهي إس لئے وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
مختصراً يه كه مخلوق جو مرضي چاهت ركهے وه پورى هونا ضروري نهيں اور الله تعالى جو چاهيں وه هر صورت ميں پورا هوگا إسي طرح يه جو تمام چيزوں ميں صلاحيت موجود هے وه بهي الله تعالى كے حكم اور چاهت سے هے الله تعالى جب چاهيں وه صلاحيت ان سے واپس لے ليں انهيں كوئى روكنے والا نهيں مثلاً الله تعالى نے آگ كو پيدا فرمايا اور آگ كو جلانے كي صلاحيت عطا فرمائى ليكن نمرود نے بهت بڑى آگ جلا كر حضرت إبراهيم عليه السلام كو أس ميں ڈالا ليكن الله تعالى نے أس وقت آگ سے جلانے كي خاصيت ختم فرما كر گلزار هونے كى صلاحيت عطا فرمادي إسي طرح چُھری كا كام كاٹ دينا هے ليكن حضرت إبراهيم عليه السلام حضرت إسماعيل عليه اسلام كي گردن بر چُھری چلا رهے هيں ليكن الله تعالى نے اس وقت چُھری سے وه صلاحيت هي ختم فرمادي اور چُھری حضرت إسماعيل عليه السلام كو ذرا بهي نقصان نه پہنچا سكي سو جتني بهي آشياء دنيا ميں هيں ان ميں جو صلاحيتيں موجود هيں وه اسي وقت كام آئيں گى جب الله تعالى چاهيں گے
آج كے دور ميں إيٹم بم كو إيك بهت هي تباه كن هتهيار مانا جاتا هے ليكن مسلمان كا يه يقين هونا ضرورى هے كه يه هتهيار بهي اسي وقت تباهي لا سكتا هے جب الله تعالى كي مشيت هو ورنه تمام دنيا ميں موجود تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي اگر چلا ديے جائيں اور الله تعالى كسي كو تباه نه كرنا چاهيں تو يه تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي كچهـ نهيں كرسكتے .
زمانه قديم سے حضرت إنسان جادو كے نقصانات سے خوفزده هے باوجود إس كے كه جادو إيك حقيقت هے ليكن يه جادو بهي كسي كو أس وقت تک نقصان نهيں پہنچا سكتا جب تك الله تعالى نه چاهيں جيسا كه قرآن مجيد ميں بهت واضح الفاظ ميں إسكو بيان فرما ديا گيا
وَمَا هُـمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّـٰهِ
اور حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے،
اسی طرح هر هر إنسان كے جسم ميں بهي الله تعالی كا حكم هے جسے روح كهتے هيں جب تك يه روح (حكم ربي) إنسان ميں موجود رهتا هے يه إنسان حركت كرتا رهتا هے ليكن جب الله تعالى كا حكم إنسان ميں سے نكال ليا جاتا هے تو باوجود تمام جسم كے موجود هونے كے يه ذرا بهي حركت كرنے پر قدرت نهيں ركهتا إسي طرح إنسان كے تمام أعضاء ميں الله تعالى كا حكم رهتا هے الله تعالى جب تك چاهتے هيں وه أعضاء صحيح كام كرتے هيں ليكن جب الله نهيں چاهتے تو وه كام كرنے سے عاجز هو جاتے هيں مثلاً كسي كو فالج هوگيا اب بازو كام نهيں كررها يا ٹانگ يا جسم كا كوئى متاثره حصه تو يه درآصل الله تعالى كا حكم جو حركت كرنے كا تها وه ختم هوگيا إسي طرح يه جو هم سانس ليتے هيں يه بهي الله تعالى كے حكم سے هے الله تعالى جب چاهيں اپنے إس حكم كو نكال ليں - إسي طرح يه كائنات كا سارا نظام صرف اور صرف الله تعالى كي چاهت سے چل رها هے- آسمان - زمين - سورج - چاند - ستارے اور كائنات كا ذرا ذرا اپنے چلنے ميں الله تعالى كا محتاج هے
صحابه كرام رضوان الله عليهم نے اپنا يقين بهت مضبوط بنايا تها يهي وجه هے دنيا كي كوئى بهي چيز ان كے راسته كي ركاوٹ نه بن سكي اگر دريا سے راسته چاها تو مل گيا اگر جنگل سے خونخوار جانوروں كو نكالنا چاها تو صرف إيك إعلان كرنے سے جنگل خالى هوگيا إسي طرح الله تعالى كا غيبي نظام ان كے ساتھ تها كيونكه وه الله تعالى پر كامل يقين ركهتے تهے آج كا مسلمان بهي اگر یہ يقين پیدا كرلے تو الله تعالى كي وعدے آج بهي وهي هيں آج بهي الله تعالى كا غيبي نظام مسلمان كي مدد كرسكتا هے بشرطيكه مسلمان الله كا بن كر رهے اور الله تعالى كے وعدوں اور وعيدوں پر يقين ركهنے والا بن جائے بس إيك هي بات پهر دهراني هے كه هم اپنے دلوں كا يقين درست كرليں اور مخلوق سے يقين هٹا كر الله تعالى پر مكمل يقين كرليں تو هم دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں گے ليكن إس كے برعكس اگر يقيں غير الله پر رها تو دنيا ميں بهي ذليل خوار هوں گے اور آخرت ميں بهي ناكامي كا سامنا كرنا پڑے گا ۔
بقول شاعر:
نه خدا هي ملا - نه راه صنم
نه إدهر كے رهے نه أدهر كے
آخرت كي منزلوں ميں پہلی منزل قبر هے جس كے بارے ميں ارشادِ نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے كه قبر يا تو جنت كا إيك ٹكڑا هے يا جهنم كا إيك گڑها - يه بهي حقيقت هے جو قبر كے إمتحان ميں كامياب هوگيا وه إن شاء الله باقي منزلوں ميں بهي كامياب هوتا چلا جائے گا . قبر ميں منكر ونكير كے سوالات كا سامنا هر شخص كو كرنا هے ان كے سوالات ميں پہلا سوال إسي يقين كے بارے ميں هوگا
سوال: من ربك - تيرا رب كون هے؟
جواب: ربي الله - ميرا رب الله هے
تو جس شخص نے إيك الله كا يقين إس دنيا ميں جمايا هوگا وه فوراً جواب دے گا " ربي الله " يعني ميرا رب إيك الله هے اور جس شخص كا يقين الله كي بجائے دكان پر هوگا يا كاروبار پر هوگا يا ملازمت يا زمينداري پر هوگا يا سياست پر هوگا يا وزارت پر هوگا يا صدارت پر هوگا تو يه شخص "من ربك" كا جواب "ربي الله " دينے پر قادر نهيں هوگا كيونكه وهاں پر تو صرف اسي بات كو هي قبول كيا جائے گا جس كا يقين وه لے كر آيا هے تو إس كلمه كا صحيح يقين لے كر إس دنيا سے جانا هميشه هميشه كي كاميابي كي دليل هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ O
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآَخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ *
نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ O
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے
ہم دنيا كي زندگانی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں یہاں جنّت میں تمہارے لئے وہ تمام چیزیں فراہم ہیں جن کے لئے تمہارا دل چاہتا ہے اور جنہیں تم طلب کرو گے
یہ بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پروردگار کی طرف سے تمہاری ضیافت کا سامان ہے
ايك دوسرے مقام پر ارشاد خداوندي هے
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 0
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے تو انهيں (قيامت كے دن) نه كوئي خوف هوگا اور نه هي وه غمگين هوں گے
دوسرا حصه يعني مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ كا مقصد:
كلمه طيبه " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" كا مقصد يه هے كه دلوں كا يقين درست هو جائے اور كلمه كے پہلے حصه (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) كا مقصد بیان ھو گیا
كلمه كے دوسرے حصه (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ) كا مقصد يه هے كه حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم كے نوراني طريقوں ميں 100% كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين همارے دلوں ميں آجائے يه يقين بن جائے كه إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقوں ميں يقيني ناكامي هے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی دونوں جہاں میں کامیابی مل جائے گی اور اگر زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صلی اللی علیہ وسلم کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے. صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي
4- إس كلمه كے حواله سے چوتها اور بهت هي إهم كام يه هے كه هم إس كے فضائل كو سيكهيں تاكه همارے اندر فضائل سن كر يا پڑهـ كر إسے صحيح معنوں ميں اپنانے كا ذوق وشوق پيدا هوجائے
کلمہ طیبہ کے فضائل:
كلمه طييه كے فضائل قرآن و حديث ميں بہت كثرت سے وارد هوئے هيں علماء كرام نے إس موضوع پر بهت سی كتابيں تصنيف فرمائي هيں یہاں چند فضائل كا ذكر كرنے پر هي إكتفا كيا جائے گا :
(أ) حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آگ سے ہر وہ شخص نکالا جائے گا جس نے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) کہا ہو اور اس کے دل میں ’جو‘ کے برابر بھی کوئی بھلائی ہو۔اور آگ سے ہر وہ شخص نکالا جائے گا جس نے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) کہا ہو اور اس کے دل میں ایک گہیوں کے برابر بھی کوئی خیر ہو۔اور آگ سے نکالا جائے گا ہر وہ شخص بھی جس نے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) کہا ہو اور اس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی خیر ہو۔‘‘ ۔۔۔(بخاری)
تشریح: اگر ایمان کا ذرا سا حصہ بھی ہے تو جہنم سے کسی نہ کسی وقت نکالا جائے گا،ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) پڑھا وہ ا س کو کسی نہ کسی دن ضرور نفع دے گا گو اس کو اپنے بد اعمال کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سزا بهگتنا پڑے۔(فضائل ذکر)
(ب) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا: كه إيك مرتبه موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب! مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تیرا ذکر کروں اور تیرے قریب تر ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) کہا كرو، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! یہ کلمہ تو تیرے تمام بندے کہتے ہیں۔ اللہ تعالى نے فرمایا: موسیٰ! اگر سات آسمان اور میرے سوا ان کے رہائشی اور ساتوں زمینیں اور جو كچهـ أس ميں هے ایک پلڑے میں ہو ں اور (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) ایک پلڑے میں ہو تو (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) والا پلڑا جھک جائے گا۔
(اخرجہ الحاکم وابن حبان و صحہ)
(ج) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله تعالى عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وآله وسلم- " مَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ " .
حضرت معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه روايت كرتے هيں كه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا كه جس كا آخرى كلام لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ هوگا وه جنت مين داخل هوگا
( صحيح البخاري )
(د) عن أَبَي سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ رضي الله تعالى عنه يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وآله وسلم- « لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ».
حضرت أَبَي سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ رضي الله تعالى عنه روايت كرتے هيں كه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا كه كه اپنے مرنے والوں كو" لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " كى تلقين كرو
(صحيح مسلم )
(هـ ) إيك حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: افضل ذکر (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) ہے اور افضل دعا “الحمدللہ” ہے۔(جامع الترمذی)
(هـ) ایک دوسری حدیث میں ہے : بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے اور بہترین بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبيوں نے کہی وہ "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(جامع الترمذی)
(و) إيك اور حدیث جس کا تعلق قیامت کے دن حساب کتاب سے ہے اس سے بھی اس کلمہ طیبہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے ایک امتی کو برسرخلائق نجات عطا فرمائے گا۔اللہ ننانوے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا ہر رجسٹر کا طول و عرض حد نگاہ تک ہو گا۔پھر اللہ تعالیٰ کہے گا!کیا تو اس میں درج باتوں میں سے کسی کا انکار کرتا ہے ؟یا تیرے خیال میں میرے لکھنے والے محافظین نے تجھ پر ظلم کیا ہے ؟وہ امتی کہے گا!نہیں، اے میرے رب! اللہ فرمائے گا :کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟وہ کہے گا:نہیں، اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا :کیوں نہیں، ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے بلاشبہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر یہ درج ہو گا۔میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآله وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ کہے گا:دونوں کا وزن کیا جانا ہے ، تو دیکھ! امتی کہے گا: اے میرے رب! اس ٹکڑے کی ان رجسٹروں کے سامنے کیا حیثیت ہے ؟ اللہ فرمائے گا!تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔پس سارے رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کلمہ شہادت والا کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔لیکن قطعہ کاغذ والا پلڑا بھاری اور تمام رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔(اس لیے کہ )اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔(ترمذی)
(ز) ایک اور حدیث میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دو باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں تجھے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ)کا حکم دیتا ہوں۔پھر اس کی درج ذیل فضیلت بیان فرمائی: “ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اگر ایک پلڑے میں اور (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) دوسرے پلڑے میں رکھا جائے ، تو یہ دوسرا پلڑا اس کلمے کی وجہ سے بھاری ہو جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک بند حلقہ ہوں تو (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) ان کو توڑ دے گا۔(مسند احمد)
5- کلمہ طیبہ کی حقیقت اور مطالبه :
إس كلمه يعني " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ "كے حواله سے همارے ذمه پانچواں إهم كام يه هے كه هم إس كلمه كي حقيقت سے آگاهي حاصل كريں تاكه هميں معلوم هو كه يه كلمه هم سے كيا مطالبه كرتا هے کلمہ طيبه ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ” کے دونوں اجزاء یعنی ”توحید الہی” اور ”رسالت محمدی صلى الله عليه وآله وسلم” کی تشریح و توضیح کے بعد يه معلوم ھوتا هے کہ كلمه کا مطالبه یہ هے كه هم من چاهي زندگي كو چهوڑ كر رب چاهي زندگي إختيار كريں يعني همارى (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق هو هم جو بهي كام كررهے هوں اس ميں يه ديكهيں كه إس كام ميں الله تعالى كا حكم كيا هے اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا طريقه كيا هے (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق هوجائے يهي إنسان اور جن كي بيدائش كا آصل مقصد هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 0 مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ 0 إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ 0
ميں(الله تعالى) نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔
اللہ تبارک تعالی کی تخلیق کردہ کائنات اور اس کی ہرہر چیز بامعنی ،بامقصد هے اور الله تعالى کے متعین کردہ اپنےکام میں مصروف نظر آتی ہے۔ اور یہ تخلیق فضول ہرگز نہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے خود فرمایا ہے تو ہمیں زندگي کا کیا مقصد رکھنا چاہیے اور ہم اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ إسكا هميں هر وقت جائزه ليتے رهنا چاهيے . اپنے خالق کی بندگی و اطاعت ہی ہمارا مقصد تخلیق ہے۔ رزق کا حصول اور اس کی دوڑ دھوپ ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ تمام چیزیں ضروریات ہیں اور ہمیں ان کے حصول کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ (جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو رزق دیتا ہے، پرورش کرتا ہے اور ہماری زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے ) اسی کی عبادت وپرستش اور اطاعت و بندگی کی جائے۔ يهي كلمه طيبه كا هم سے مطالبه هے
الله تعالى تو فرما رهے هيں كه "میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔" تو إس كا مطلب تو صاف ظاهر هے كه هميں (24 ) گهنٹه هي عبادت ميں رهنا ضرورى هے تب هم إس مطالبه كو پورا كرسكتے هيں تو (24) گهنٹه عبادت ميں رهنا كيسے ممكن هوسكتا هے أكثر لوگوں كے نزدیک عبادت كا مفهوم شايد يه هو كه كه إنسان سب كچهـ چهوڑ كر دنيا سے لا تعلق هوكر كسي إيك كونے ميں بيٹهـ كر بس الله الله كرے اگر صرف يه هي عبادت هے تو يقيناً يه تو (24) گهنٹه ممكن نهيں . درآصل يه رهبانيت كي إيك شكل هے جو عيسائيوں اور دوسرے مذاهب ميں رائج هے ۔ إسلام ميں رهبانيت كي قطعاً آجازت نهيں بلكه حديث مباركه هے
لا رهبانية في الإسلام" -
إسلام ميں رهبانيت نهيں هے
يعني رهبانيت سے منع فرمايا گيا هے تو إسلام ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق (24) گهنٹه كي زندگي گزارنا عبادت كهلاتا هے " تو يه نه تو ناممكن هے نه هي مشكل بس اپني زندگي كي ترتيب كو تبديل كرنے كي ضرورت هے
( 24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق كيسے ممكن هو سکتی ھے یہ بھی ناممکن نہیں همارى زندگي كے هر روز (24) گهنٹه ميں كچهـ
"رات كا وقت سونے كے لئے هوتا هے تو هم سنت كے مطابق ليٹ جائيں اور سونے كي دعا اور مسنون أذكار كرليں صبح تهجد يا كم ازكم فجر كي نماز كي نيت كرليں تو لو بهائى اب آب سوئيں ابني طبعي نيند جتنے گهنٹه كي هو مكمل كريں آب سو رهے هوں گے ليكن آپ كا شمار عبادت ميں هوگا
صبح نيند سے بيدار هوں تو أٹهنے كي دعا پڑه ليں اور بيت الخلا كى دعا پڑهتے هوئے سنت كے مطابق بيت الخلا ميں داخل هو جائيں آپ جب تك بيت الخلا ميں هونگے عبادت ميں هي شمار هوں گے بيت الخلا سے باهر نكلتے هوئے پهر مسنون دعا پڑهـ كر سنت طريقه سے نكليں تو يه بهي عبادت هوگي إسي طرح نماز تلاوت وغيره تو خير الحمد لله هے هي عبادت تو پهر ناشته كريں تو سنت كے مطابق بيٹهـ كر اور مسنون دعا پڑهـ كر كهائيں اوركهانے كو مكمل كرنے كے بعد مسنون دعا پڑهـ ليں تو يه بهي آپ كي عبادت هوگي
اب رزق حلال كے لئے گهر سے نكليں اور گهر سے نكلنے كي مسنون دعا كا إهتمام كرتے هوئے اور سواري إستعمال كرنے كي صورت ميں سواري كي دعا كا إهتمام كريں اور اپنے روزگار كي جگه آجائيں اور وهاں ديانتدارى سے اپنا كام كريں تو وه تمام وقت بهي عبادت ميں شمار هو جائے گا واپس گهر آئيں تو گهر ميں داخل هونے كي دعا پڑهيں اور گهر ميں كوئي هو يا نه هو اونچي آواز سے " السلام عليكم " كهيں إسي طرح بيوى بچوں ميں وقت سنت كے مطابق گزاريں تو إس طرح سے آپ (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق گزاريں گے تو يه سب آپ كي عبادت هوگي
إسي طرح اگر هم غمي اور خوشي كے مواقع پر الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق عمل كرليں تو يه إهم مواقع بهي همارے لئے عبادت بن جائيں گے تو حاصل مطالعه يه كه مسلمان (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق گزار كر (24) گهنٹه عبادت ميں ره سكتا هے يه بالكل ممكن هے آج بهي إس زمانه ميں سينكڑوں نهيں هزاروں نهيں بلكه لاكهوں الله كے بندے موجود هيں جو (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق گزار كر عبادت ميں رهنے كا شرف حاصل كرتے هيں قرآن حکیم میں اللہ تعالى کے خالق اور رازق ہونے کو توحید کی دلیل کے طور پر یوں بیان کیا گیا ہے:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَلِكُم مِّن شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {سورة الروم }
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
تو کسی دوسرے کو شریک کیے بغیر اپنے خالق ، مالک، رب ،رازق اور حقیقی معبود کی بندگي ہی ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد ہے۔اور ہمارےانسان ہونے کے مقام کی حقیقی عزت ورفعت اور شرف اسی میں ہے کہ ہم بس اپنے رب ہی کی بندگی کریں۔ ورنہ ہمارا جسمانی وجود توایک وقت مقرره تک زندہ رہے گا لیکن ہمارا حقیقی وجود اپنا مقصد پورا نہ کرنے کی بنا پر بے کار ہوجائے گا اورجسمانی موت سے بہت پہلے ہی جیتے جی مر جائے گا۔اس طرح اللہ کی نشانیوں پر توجہ نہ کر کے توحید سے غافل رہنے اور اپنے رب کی بندگی کا یہ مقصد پورا نہ کرنے پر ہماری زندگي حقیقی علم کی روشنی سے محروم ہو کراندھیروں میں بھٹکتی ایسی حیوانی زندگی رہ جائے گي کہ جس کا مقصد پیٹ کے پیچھے ہی دوڑتے رہنا، کھانا پینا، افزائش نسل اور آسائشوں کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہ رہ جائےگا، دیکھیے کہ ایسے غافل لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے:-
لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (سورة الأعراف )
ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوغافل ہیں۔
یعنی اللہ سے غافل لوگوں کا دیکھنا، سننا اور سوچنا بالکل حیوانوں کے جیسا ہے انہیں جانوروں کی طرح وہ سب کچھ سنائی دیتا،نظر آتا اور سجھائی دیتا ہے جس کا تعلق لذت کام ودہن سے ہو لیکن ایک خدا ہی کی نشانیوں کی طرف انہیں کوئي توجہ نہیں ہوتی۔چیزوں کے ظاہری پہلو پر ہی سوچتے ہیں مگرجس حقیقت کی طرف یہ چیزیں نشاندہی کرتی ہیں اس طرف ان لوگوں کا کوئي خیال نہیں جاتا۔جانور کے لیے تو ایسا دیکھنا ، سننا اور سوچنا قابل مذمت نہیں ہے کیونکہ وہ تو اسی کا مکلف ہے لیکن صاحب عقل و شعور انسان جب حیوانوں کی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہےتو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اسے تو یہ صلاحیتیں اسی لیے دی گئیں اورپیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر کر کےوہ اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے گا، اس کے بھیجے پیغامات سے نصیحت حاصل کرے گااور اسی کی بندگی کرے گا۔ الله تعالى سے دعا ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اسے سمجھنے کی اور اس کے مطابق عمل كرنے كي توفیق عطا فرمائے۔ اور (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں كے مطابق گزارنے كي توفيق عطا فرما دے - آمين ثم آمين
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم إيک مربتہ ابو طالب سمیت عتبہ،شیبہ،ابو جہل اور ابو سفیان وغیرہ سے یوں مخاطب ہوئے: ’’ لوگو ! میں صرف ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اگر تم اسے مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارا مطیعِ فرمان ہوگا۔ـ‘‘ اس حدیث شریف میں جس کلمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہ کلمہ طیبہ " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ " ہے، یہ توحید کا کلمہ ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی غلامی کا کلمہ ہے، یہ تسخیر کائنات کا کلمہ ہے، یہ دین کی اساس ہے اور ایمان کا اثاثہ البیت ہے ۔چنانچہ اس کلمہ طیبہ کو پڑھنے کا مطالبہ اس اعتبار سے نہیں ہے جس طرح ہم بازار میں دکانوں کے نام پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔اگر اس کو پڑھنے سے ایسا ہی مقصود ہو تا تو عرب کے مشرکین اس کلمہ کو ضرور بآسانی پڑھ لیتے مگر وہ جانتے تھے کہ من چاہی اور رب چاہی زندگی ضدین ہیں اوریہ بیک وقت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا کلمہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں من چاہی چھوڑکر رب چاہی زندگی اختیا ر کرنا ہوگی اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔
حقيقت یہ ہے كه سرداران ِ قریش نے خوب سمجھا تھا کہ یہ کلمہ ایک محنت چاہتا ہے جس کی بناء پر انسان کی زندگی میں ایمان و یقین اور نیک اعمال کی بہار آتی ہے۔ اس کلمہ کا زبان سے اقرار اوردل سے تصدیق کرنے کے بعد ایمان و اعمال کو مرتبۂکمال تک پہنچانے کے لئے جدوجہد اور سعی ومشقت درکار ہے۔ کسی بندہ کو ہدایت ِدین عطا کرنے کی اللہ کی سنت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی طرف انابت اور رجوع کرے، اس کی بار گاہ میں گڑگڑائے، بلبلائے اور آہ و زاری کرے ،غرض یہ کہ اللہ سے ہدایت اس طرح طلب کرے جیسے کوئی بھکاری کسی کے درپربھیک مانگتا ہے ۔ یہاں رجوع الی االلہ کے بعد ایمان کی محنت اور جد وجہد کا اختیار کرنا لازم وملزوم ہے کہ یہی چیزیں انسان کو ہدایت و تائید الہٰی سے قریب کرنے والی ہیں۔ اکثر گمراہ انسان ہدایت کے معاملہ میں کفر و ضلالت اور گمراہی کی گھاٹیوں میں یہ سوچ کر پڑے رہ جاتے ہیں کہ جب ہدایت کا دینا نہ دینا بھی اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے تو وہ ہمیں ہدایت کیوں نہیں دے دیتا۔ٹھیک اسی طرح بعض کمزور علم و ایمان والے کلمہ خواں ، شیطان کے وساوس اور بہکاوے میں آکر یہ ہانکتے ہیں کہ جب اللہ توفیق دے گا تو عمل کریں گے۔واضح ہونا چاہیے کہ ایمان کی ہدایت اور اعمال صالحہ کی توفیق صرف اسی بندہ کو ملتی ہے یا ملے گی جو خود اس کے لئے طالب اور کوشاں ہو ۔یہی سنت الہیٰہ ہے ۔ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اللہ پاک بندوں سے بے نیاز ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف چلتا ہے تو اس کی رحمت بندہ کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔ گویا دیر بندہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے، ورنہ اس کے الطاف وانعام تو بہت عام ہیں ۔ وہ بس کسی انسان کو رحمت عطا کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں بے شمار انسان محنت کر رہے ہیں تاہم یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اسی انسان کی محنت کامیاب و با مراد ہوگی جس کی محنت رسول كريم صلى الله عليه آله وسلم کی محنت کے اسلوب و نہج سے میل کھاتی ہو۔ اس محنت کے اسلوب کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا هے
هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ 0
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےO
اس آیت مباركه کی روشنی میں ایمان کو راسخ کرنے اورثابت قدمی کے لئے ضروری ہے کہ کلمہ خواں اس آیت شریفہ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں یعنی قرآن مجید کی آیتوں میں تدبر ، تفکر کرنا اور اللہ کی آیتیں کو پڑھ کر سنانا کہ یہ دعوت اللہ ہے ، دینی مجالس میں شرکت کرنا، ایمان کے مذاکرے کرنا، اپنا تزکیۂ نفس کرنا، کتاب و حکمت سیکھنا۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان کی بار بار تجدید کرنا ، ذکر و فکر کی عادت ڈالنا ،اللہ کے اوامر اور رسول اللہ ؐ کی سنتوں پر عمل آوری کرنا، مخلوقات الہٰیہ میں غور و فکر کرنا کہ یہ معرفت کی کنجی اور بہترین عبادت ہے تاکہ مخلوق کے ذریعے سے اس کے خالق کو پہچانا جاسکے ۔ اہلِ علم و اہلِ دل کی صحبت اختیارکرنا کیوں کہ اس صحبت کے اثر سے اللہ تعالی حکمت کے نور سے مردہ دل کو ایسا زندہ فرماتا ہے جیسے مردہ زمین زوردار بارش سے زندہ ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ شیطان و نفس کے وساوس سے بچنا، شک کو یقین سے بدلنا،آخرت کا تذکرہ تاکہ اس کا استحضار نصیب ہو ، وغیرہ امور سے ایمان وعمل راسخ ہوتا ہے۔
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں کلمہ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے حق میں ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے جس کا کوئی ذی فہم انسان انکار نہیں کرسکتا۔حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه ایک مرتبہ کتان کے کپڑے سے ناک صاف کر کے فرمانے لگے :کیا کہنے ابو ہریرہ کے آج کتان کے کپڑے میں ناک صاف کرتا ہے حالاں کہ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے منبر اور حجرہ کے درمیان بے ہوش پڑا ہوا ہوتا تھا اور لوگ مجنون سمجھ کر پاؤں سے گردن دباتے تھے۔ حالانکہ وہ جنون نہیں تھا بلکہ بھوک ہوتی تھی۔ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے لئے جدو جہد کا راستہ اختیار کر نا از حد ضروری ہے۔ دعوت اسلامی کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اپنے عزیزو اقارب و دیگر افراد خاندان کے تعلق سے انتہائی متفکر ہو نے کے علی الرغم ان کے حق میں ایمانی ہدایت کا فیصلہ صرف اس لئے نہیں کیا گیا کہ یہ لوگ از خود اس کے طلب کرنے کا مصمم ارادہ نہیں رکھتے تھے، جب کہ اس کے بر عکس سیاہ فام حضرت بلال حبشی رضي الله تعالى عنه کو اللہ تعالی نے ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ اللہ نے ہدایت ِ دین کو طلب ، تڑپ اور جدو جہد کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے جس پر یہ آیت دلالت کر تی ہے:
وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ 0 ’’
جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘(العنکبوت )
مزید برآں جس طرح کسی شخص کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ بلوغت کے آثا ر کو روک سکے، ٹھیک اسی طرح ایمان ا ور نیک عملی کے بعد کوئی شخص تقویٰ ، احسان و مروت ، جود و سخا ، ایثار و قربانی ، صبرو برداشت ، تسلیم و رضاء ،استقامت، فراست ،حلم و بردباری، اطاعت و فرمانبرداری، بلند عزائم، معرفت و آگہی، قلبی طہارت، اخوت ومحبت، ہمدردی و ایثار، خلوص ، احسان، عاجزی و انکساری وغیرہ اعلیٰ و ارفع صفات سے خالی نہیں رہ سکتا۔
قراآن کریم میں ہے
فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا 0 "
پھر اس کو سمجھ دی ، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔(سورہ شمس)
گویا اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر ہدایت کا بیج ودیعت کر دیا ہے اور اب بندہ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کی طاقت ، قوت اور قدرت کو کس طرح استعمال کرتا ہے،آیا وہ اسے ضائع کرکے ’’شجر خبیثہ‘‘ تیا ر کرتا ہے یا محنت کرکے ’’ شجر طیبہ‘‘، تاہم اہل ایمان کے یہ مناسب حال نہیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جدو جہد کا واسطہ اور وسیلہ اختیار نہ کرے۔ چنانچہ ایسی صورت میں ان کے بارے میں بھی وہی بات کہی جائے گی جیسا کہ دور نبویؐ میں بعض بدوؤں کے تعلق سے یہ بات کہی گئی تھی:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۖ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُـوْا وَلٰكِنْ قُـوْلُـوٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۖ
وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ 0
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے ۔
6)کلمہ طیبہ کی محنت : -
إس كلمه كے حواله سے چهٹا اور يهت هي إهم كام يه هے كه هم إس كي محنت كو سيكهيں تاكه صحيح طريقه سے محنت كرسكيں اور إس كلمه كي صفات همارے اندر آسكيں۔ کلمہ طيبه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کے متعلق أهم سوال يه هے كه هم كس طرح محنت كريں كه إس مبارك كلمه كے حقوق پورے كرسكيں اس کے لئے ضروری ھے کہ اس كي محنت مندرجہ ذیل تين طريقوں سے كي جائے :
دعوت - مشق - دعا
1- پہلا كام ــ كلمه طيبه كي دعوت دينا:
یعنی اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے بالكل پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلمے کا دوسرا جز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے - اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب خوب دعوت دی جائے. اس سے دوسرے کو دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپنی اصلاح ہو جائے گی. اکابرين اس ضمن میں کہتے ہیں “غیر اللہ سے ہونے کا یقین دل سے نکالو اور ’’اللہ ہی سے ہونے کا یقین دل میں ڈالو اور اس کا راستہ ہے’’ كلمه كي دعوت‘‘۔ ’’ ۔مكه مكرمه ميں تو راستہ ہی ایک تھا ۔جو آتا تھا وہ ’’دعوت‘‘کے راستے سے آتا تھا اور دعوت کے راستے سے آنے کے بعد اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا ۔یہ محنت (مکہ مكرمه میں )دس سال تک کرائی گئي ہے ہمارا اور صحابہ کا فرق یہی ہے کہ انہوں نے دس سال تک کوئی چیز دیکھی نہیں،سوائے ’’دعوت‘‘کے ،اس لئے ان کو کوئی اشکال نہیں ہوا۔ہمارا حال یہ ھے کہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے تو مسلمان ہیں ،وہاں مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ ’’صاحبِ دعوت‘‘نہ ہو‘‘۔ ’’کلمہ کی دعوت‘‘کا شرعی مفہوم کیا ہے؟
قُلْ اَىُّ شَىْءٍ اَكْبَـرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللّـٰهُ ۖ شَهِيْدٌ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ ۚ وَاُوْحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَـغَ ۚ اَئِنَّكُمْ لَـتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّـٰهِ اٰلِـهَةً اُخْرٰى ۚ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىْ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُـوْنَ 0
تو پوچھ کہ سب سے بڑا گواہ کون ہے، کہہ دو اللہ، میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور مجھ پر یہ قرآن اتارا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے ڈراؤں اور اس کو بھی جس تک یہ قرآن پہنچے، کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہیں، کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا، کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
سورۃ الانعام کی آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے : ’’رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں تین کافر حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اے محمد صلى الله عليه وآله وسلم ! تم ا للہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں جانتے ؟(تو ان کے جواب میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ) "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ " نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘‘(اور جان لو کہ )میں اسی کلمہ کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں اور اسی کلمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہوں۔پس اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
’’اے نبی صلى الله عليه وآله وسلم! ان سے پوچھئے کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟‘‘۔ اسی طرح نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اوصاف حمیدہ سے متعلق سورۃ الاحزاب کی اس آیت مباركه ميں ذكر هے
وَدَاعِيًا اِلَى اللّـٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْـرًا 0
اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چراغ روشن بنایا ہے۔
اس کی تفسیرحضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت قتادہ رضي الله تعالى عنهم یوں فرماتے ہیں : ’’وداعیاً الی شھادة لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘ ’’یعنی آپ صلى الله عليه وآله وسلم اس بات کی طرف دعوت دینے والے تھے کہ گواہی دو اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نےحضرت معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه کودعوت دینے کا طریقہ سکھایا جبکہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم ان کو یمن کی طر ف روانہ کررہے تھے: ((فَادْعُھُمْ الی شھادة أن لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ )) ’’سب سے پہلے ان کو’’ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘کی طرف دعوت دو‘‘ ۔ پس ثابت ہواکہ شریعت اسلامی میں ’’کلمہ کی دعوت‘‘ایک اہم دینی و شرعی اصطلاح ہے ،جس کا سمجھنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ کلمہ طیبہ سے کیا مراد ہے؟ إس كا ذكر آ چكا هے يهاں پر تو صرف إتنا هي بتانا ضرورى هے كه كلمه كي دعوت دينا تمام آنبياء كرام عليه السلام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا طريقه رها هے اور پهر إسي پر صحابه كرام رضوان الله عليهم عمل پيرا رهے اور پهر إسي پر تمام آكابرين أمت كا عمل رها هے سو يه هر مسلمان كي ذمه دارى هے كه وه إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دينے كي سعى كرے اور يه إيك حقيقت هے كه جتني إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دي جائے گى اتنا هي إس كلمه كا يقين دعوت دينے والوں كے دلوں ميں آتا چلا جائے گا بے شمار لوگوں كي زندگياں إس بات كي شاهد هيں كه جب أنهوں نے إس محنت كو اپنا مقصد بنايا اور كلمه كي دعوت دوسروں كو دينى شروع كي تو الله تعالى نے ان كے دلوں ميں إس كلمه كے يقين كو مضبوط بنا ديا الله تعالى هم سبكو إسكي توفيق عطا فرمائيں- آمين
دوسرا كام --كلمه طيبه كي عملي مشق كرنا:
کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" جو کہ الله تعالى کی ألوهيت کا اقرار نامہ ہے، اپنے اندر اس كلمه کے یقین كو لانے كے لئے دوسرا كام إس كي مشق كرنا هے جو مندرجه زيل طريقوں سے ممكن هے :-
(أ) - اللہ تعالی کی قدرتوں پر غور و فكر كرنا :
هميں چاهيے كه هم تنهائيوں ميں بيٹهـ كر إس كلمه پر غوروفكر كريں يعني الله تعالى كي قدرتوں پر غور كريں الله تعالى كي پيدا كي هوئى چيزوں پر غور كريں يعني الله تعالى نے يه زمين بنائى إس ميں طرح طرح كي چيزيں پيدا فرمائيں كهيں باني هے كهيں خشكي هے كهيں درخت هيں كهيں صحرا هے تو إس پر غور كريں الله تعالى نے دن رات بنائے چاند ستارے اور سورج بنائے الله تعالى نے بغير كسي ستون كے آسمان بنايا پهلا آسمان إتنا بڑا هے كه اس كے سامنے زمين إس طرح هے جيسے إيك بهت بڑے ميدان ميں كوئى گيند پڑى هو إسي طرح دوسرا - تيسرا - چوتها - پانچواں - چهٹا اور ساتواں آسمان هے هر آسمان كي پوزيشن اوپر والے آسمان كے سامنے إيسي هي هے جيسے زمين كي پهلے آسمان كے سامنے پهر الله تعالى نے جنت اور دوزخ بنائے إتني بڑى جنت بنائى كه جو سب سے ادنى درجه كا جنتي هوگا اسے بهي إس دنيا سے دس گنا بڑى جنت عطا كي جائے گى اب آپ اندازه كرليں كه جنت كتني بڑى هوگى- بڑے بڑے عظيم فرشتے پيدا فرمائے عرش معلى بنايا پهر الله تعالى كي كرسى هے تو إن چيزوں پر غور و فكر كرے كه جس الله نے إتنى بڑى بڑى مخلوق پيدا فرمائى وه الله خود كتنا بڑا هوگا إس طرح جتنا إس كلمه پر غور وفكر كريں گے أتنا هي إس كا يقين همارے دل ميں آئے گا- إسي غور و فكر كا نام مراقبه هے مراقبه ميں بهي يهي هوتا هے كه إنسان هر طرف سے كٹ كر صرف الله تعالى كي طرف متوجه هوتا ھے قرآن مجيد ميں كئى مقامات پر حضرت إنسان كو غور وفكر كي دعوت گئى هے لہذا همارے شب و روز ميں كـچهـ وقت إس كام كے لئے بهي مختص هونا چاهيے تاكه همارے دل كا يقين مخلوق سے هٹ كر خالق پر آجائے أسباب سے هٹ كر مسبب الأسباب پر آجائے
(ب) - زیادہ سے زیادہ كلمه كا ذكر كرنا:
إس مبارك كلمه كا زیادہ سے زیادہ ذكر كرنا دل كے يقين كو مضبوط كرنے كا إيك وسيله هے جتنا ذكر زیادہ كريں گے أتنا هي دل كي صفائى هوگي دل نرم هوگا اور الله تعالى كے غير كا يقين دل سے نكلے گا اور الله تعالى كا يقين آئے گا يه إيك كامن سينس كي بات هے كه جس چيز كا زیادہ ذكر كيا جائے أس چيز كي محبت أتنا هي دل ميں گهر كرتي هے هم كثرت سے دنيا كا ذكر كرتے هيں تو هروقت دنيا كي محبت دل ميں بسي رهتي هے تو هميں چاهيے كه هم إس كلمه كا زیادہ سے زیادہ ذكر كريں حديث مباركه كا مفهوم هے كه جس شخص نے هر روز 100 مرتبه كلمه كا ذكر كيا وه كل قيامت والے دن إس طرح أٹهايا جائے گا كه اس كا چہرہ چودھویں كے چاند كي طرح چمكتا هوگا إس طرح مختلف تعداد پر مختلف فضائل وارد هوئے هيں تصوف ميں يهى كلمه مركزى ذكر كي حيثيت ركهتا هے دل كي صفائى كے لئے مشائخ حضرات مريدوں كو مخصوص تعداد ميں پڑهنا تجويز كرتے هيں تو إسي طرح إس كلمه كا يقين بنانے كے لئے بهي إس كا زیادہ سے زیادہ ذكر بهت هي مفيد ثابت هوتا هے
ذكر دو طرح سے هوتا هے ذكر خفي اور ذكر جہری- جس طرح طبيعت مائل هواسي طرح كرليا جائے ليكن ذكر جهرى كيلئے يه ضروري هے كه كسي كو تكليف نه هو كسي كي نيند وغيره ميں خلل نه پڑے اور دكهلاوے كا عنصر بهي شامل نه هو - ذكر خفي بهرحال ذكر جہری سے أفضل هے - الله تعالى سے تعلق مضبوط بنانے كے لئے كلمه طيبه كا ذكر أكسير كا درجه ركهتا هے
(ج) - ذكر كي مجالس ميں شركت:
اگر كسي شخص كو إيسي مجالس تك رسائى حاصل هوجائے جس مييں الله تعالى كا ذكر هوتا هو تو إيسي مجالس كو اپنے لئے إيك نعمت سمجهـے اور إن ميں ضرور شركت كرے --- ليكن آج كل ذکر كے نام پر إيسي مجالس كي بهي كثرت هے جس ميں إيك تو بهت ساري بدعات شامل كر لي گئى هيں دوسرا مقصد بهي دنياوي فوائد يعني سياسي و مالي فوائد وغيره حاصل كرنا يا اپني مشهورى كرنا يا يه كوشش كرنا كه هم بزرگ مشهور هوجائيں يا پيرى مريدي چلانے كے لئے إيسى مجالس كو برپا كرنا وغيره هوتے هيں إيسي مجالس ميں چونكه سرے سے إخلاص نهيں هوتا إس لئے إن ميں حاضري سے بهي إحتراز كرنا زياده مناسب هے- ليكن جهاں پر رضائے إلهى كے لئے ذکر كي مجالس هوں انكي معاونت كرنا ان ميں شركت كرنا يقيناً دل ميں كلمه كا يقين جمنے اور آجر عظيم كا سبب هوگا - إخلاص كے ساتھ إس طرح كي مجالس قائم كرنا يقيناً بهت بڑے أخروي آجر كا سبب ھے
(د) سونے سے پہلے اپنا محاسبه كرنا:
مشق كے حواله سے إيك بهت إهم كام إنسان كا اپنا محاسبه كرنا بهي هے جو كلمه طيبه كا يقين بنانے كيلئے بهت هي مفيد هے إس كا طريقه يه هے كه إنسان جب سونے كيلئے بستر پر جائے تو اپنے رب كي طرف رجوع كرے اور اپنا محاسبه كرے كه گزرے هوئے (24) گهنٹه ميں كلمه طيبه كي دعوت كتنے لوگوں كو دى هے ذكر كتنا كيا هے ذكر كي مجلس ميں شركت هوئى يا نهيں الله تعالى كے كتنے آحكام پورے كيے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي كتني سنتوں پر عمل كيا اور جو كچهـ كيا هے اس ميں الله تعالى كي رضا كي نيت كتني تهي اگر دكهلاوه وغيره تها تو" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" كهے اور اس سے سچي توبه كرے تو إس طرح هرروز اپنا محاسبه كرتا رهے اور جو جو كمي اپنے اندر موجود هو اس كي تلافي كي كوشش بهي كرے اور دعا بهي كرے - إن شاء الله اگر إس عمل كو اپنے لئے لازمي كرليا تو بإذن الله أهسته آهسته خامياں ختم هوتي چلي جائيں گي اور إن شاء الله دل ميں كلمه كا يقين مضبوط سے مضبوط بنتا چلا جائے گا
(هـ) كسي باعمل عالمِ دين بزرگ سے روحاني تعلق قائم كرنا:
إس كلمه كا يقين دل ميں بنانے كے لئے إيك طريقه يه بهي هے كه كسي باعمل عالم دين کی صحبت اختیار کی جائے اس كي نگراني ميں اپنا روحاني سفر طے کیا جائے ۔ كسي بهي باشرح عالم دين سے اپنا تعلق قائم ركهے اور اپني كوتاهيوں كي إصلاح كرتا رهے إن شاء الله إصلاح ضرور هوجائے گي بشرطيكه نيت إصلاح كي هي هو جس شخص سے اپنا روحاني تعلق قائم كرے اسكے بارے ميں پہلے اچهي طرح إطمينان كرلے
تيسرا كام -----كلمه طيبه كے يقين كے لئے الله تعالى سے دعا مانگنا:
کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کی دعوت اور مشق كے بعد بھی كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى ھی كي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنے كے بعد الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر كلمه كے يقين كي دعا مانگني بهت ضرورى هے. دُعا ﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہوں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کر تا ہے ، جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ،دعا در اصل فقير اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہوتی ہے، تمام إنسان الله تعالى كے سامنے فقير هي هيں جيسا كه الله تعالى نے فرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا:
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّـٰهِ ۖ وَاللّـٰهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ 0
اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز تعریف کیا ہوا ہے۔
سو فقير هونے كي حيثيت سے اپنے رب سے براه راست رابطه كرنيكا وسيله صرف اور صرف دعا هے دعا كرنا همارے لئے كيوں ضروري هے- ﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے دُعا کی عظمت ، اس کی بر کتیں ، دُعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدا یات دی ہیں ۔ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا’’ ﷲ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں ﷲ تعالیٰ رحیم ہے، کریم ہے، مہربان ہے، سننے والا ہے، دینے والا ہے، مانگنے والے بندے پر اسے پیار آتا ہے ، بندے کا اپنے رب سے مانگنے کا عمل اسے عزیز ہے، بندہ اپنے رب سے خاموشی کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ، اطاعت کے ساتھ ،فر ما بر داری کے ساتھ، فقیری کے ساتھ ، گدائی کے ساتھ ،چپکے چپکے، دھیمی آواز کے ساتھ، خشو ع و خضوع کے ساتھ، اعتراف گناہ اور احساس ندامت کے ساتھ ، گڑ گڑا کردعا کرے ، یہ افضل ہے اور ﷲ کو بے حد پسند بھی ہے ۔ اس کے بر عکس وہ اپنے اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اس سے نہ مانگے، اس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ الله کے پیارے نبی صلی ﷲ علیہ و آله وسلم نے فرمایا ’’ جو ﷲ سے نہ مانگے اس پر ﷲ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ ﷲ سے اس کا فضل طلب کرنے، دعا مانگنے اور دعا کا اہتمام کرنے کی خاص ہدایت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم سے ثابت ہے ۔ حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ’’دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے‘ پس اے خدا کے بندوں دعا کا اہتمام کرو‘‘۔ایک اور حدیث حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مردی ہے کہ رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ﷲ سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فرمائے، کیونکہ ﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ‘‘ اور فرما یا کہ ’’ ﷲ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے ‘ جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کوخالی هاتهـ واپس کرے ( کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فر ماتا ہے) - حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے ۔ فرمایا آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے کہ ’’جب ﷲ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فرمائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ ﷲ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت) ﷲ سے غافل اور بے پرواہ ہو‘‘۔حدیث مبارکہ ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دعَا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۃ ’المؤمن كي آیت نمبر ( 60 ) کی تلاوت فرمائی
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَسْتَكْبِـرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِىْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّـمَ دَاخِرِيْنَ ()
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے جس میں آپ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔
حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے ﷲ سے دُعا کیا کرو رات میں اور دن میں ‘ کیو نکہ دُعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے‘‘
دُعا کے بارے میں قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایت دی ان آیات مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ ٰإيك مقام پر ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:
’’وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِباَدِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاِع اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَستَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ 0
’’ اور( اے نبی) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہُوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہُوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں‘‘۔
قرآن مجید میں إيك اور مقام پر ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
اُدْعُوْ ارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ - وَلَاتُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَا حِھَا وَدْعُوْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا - اِنَّ رَحْمَتَ اﷲِ قَرِیْبُٗ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ 0
لوگوں اپنے پرور دگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ ’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خداسے خوف کرتے ہوئے اور اُمید رکھ کر دعا ئیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے‘‘۔
دعا بندے کی جانب سے اپنے رب کے حضور ايك درخواست اور التجا ہے، وہ اپنے بندے کی سنتا ہے ، بندے کا کام اس کے حضور اپنی خواہش کا مسلسل اظہار کرتے رہنا ہے لیکن انسان جلد بازواقع ہوا ہے، وہ نہ صرف یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی خواہش جوں کی توں پوری ہو بلکہ وہ یہ بھی چاھتا ھے کہ اُسے فوری وہ کچھ مل جائے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔ بسا اوقات جب اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتا ہے، اپنے عمل سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، دعا کا عمل ترک کردیتا ہے ۔ یہ سخت غلطی ہے کہ مایوس ہو کر دعا کے عمل کو جی ترک کر دیا جائے معلوم ہونا چاہیے کہ دعا کو ترک کرنے کا عمل ہی محرومی کا سبب ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ تماری دعائیں اس وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ جلد بازی یہ ہے کہ بندہ کہنے لگے کہ میں نے دُعا مانگی تھی مگر وہ قبول نہیں ہوئی‘‘۔دُعا و استغفار تین مرتبہ کرنی چاہیے۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تین بار دعا فرماتے تھے
كلمه كا يقين بہت قيمتي چيز هے إسكے حصول كيلئے جہاں إسكي محنت ضروري هے وهاں الله تعالى سے راتوں کو اُٹھ کر رو رو كر دعا مانگنا بهي ازحد ضروري هے ۔ صحابہ کرام دن كو خوب خوب محنت كرتے تهے اور رات كو اپنے رب كے سامنے رورو كر مانگتے تهے لیکن اب رات كو الله تعالى سے مانگنے والا عمل بہت كمزور هوگيا هے تو صرف محنت پر بهروسه کرنے کی بجائے كلمه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" كے يقين كو الله تعالى سے رو رو كر مانگا جائے ۔ الله تعالى توفيق عنايت فرمائے -
( آمين ثم آمين يا رب العلمين )
جاری ھے ۔۔۔۔۔