وحی کی بندش اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِضطراب
ابتداء میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیتیں اُس وقت نازل ہوئیں جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم غارِ حراء میں ریاضت وعبادت میں مصروف تھے اس کے بعد کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ بند رھا اسے ’’ فترۃ الوحی‘‘ یا “انقطاع الوحی” کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ وحی کا سلسلہ کتنا عرصہ بند رھا ؟ اس میں علماء کا اختلاف ھے
بعض علماء کے نزدیک وحی کا سلسلہ دو یا ڈھائی یا تین سال تک بند رھا
بعض علماء کے نزدیک وحی کی بندش چھ ماہ تک رھی
اور بعض کے نزدیک وحی کی یہ بندش سالوں یا مہینوں نہیں بلکہ کچھ دنوں تک ھی رھی تھی جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ھے
( قرائن سے تو یہی لگتا ھے کہ “ فترة الوحی “ کا زمانہ دنوں میں نہیں بلکہ شاید خاصا طویل ھی رھا ھو گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اس قدر شدید اضطراب چند دنوں کی بندش سے تو ممکن نہیں تھا دوسرا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اپنا بیان ہے کہ. "میں نے حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا.. جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں اترا” .۔۔ (اگے دوبارہ وحی کا پورا واقعہ ) اس سے بھی یہی پتہ چلتا ھے کہ وحی کی بندش کا زمانہ طویل ھی رھا تھا کیونکہ “فترة الوحی “كے زمانہ میں ھی تو ایک ماہ کا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے غارِ حراء میں اعتکاف فرمایا تھا اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پہاڑ پر جڑھ کر اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دینے کے جو واقعات ذکر کیے گئے ھیں وہ تو اعتکاف سے بھی پہلے کے ھیں - واللہ عالم )
پھر بعد میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر سورہ المدثر کی ابتدائی آیات نازل ھوئیں وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حزین وغمگین رہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر حیرت واستعجاب طاری رہا۔ چنانچہ روایت ہے کہ :''وحی بند ہوگئی جس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار ایسا ھوا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے نیچے لڑھک جائیں، لیکن جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل ؑ علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ کے رسولِ برحق ہیں اور اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اضطراب تھم جاتا، نفس کو قرار آجاتا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم واپس آجاتے ، پھر جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پھر اسی جیسے کام کے لیے نکلتے لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے توحضرت جبریل علیہ السلام ؑ نمودار ہوکر پھر وہی بات دہراتے۔''
(صحیح بخاری -کتاب التعبیر)
پہلی وحی نازل ہونے کے بعد کچھ مدت کے لیے جب وحی کا نزول بند ہوگیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غمگین ہوئے ۔ اس دوران ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی دل جوئی کی اورآپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کرتیں کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بڑی بھلائی اور بہتری کا ہی معاملہ فرمائے گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس انداز سے دل جوئی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک وفا شعار اور مخلص بیوی کی حیثیت سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ہر موڑ پر ساتھ دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی وحی کی چند روزہ بندش ) اس لیے تھی تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ رخصت ہوجائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے۔( فتح الباری) چنانچہ جب یہ بات حاصل ہوگئی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم وحی کی آمد کے منتظر رہنے لگے تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دوبارہ وحی سے مشرف فرمایا
ایک روایت میں ھے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم وحی کی بندش کے زمانہ میں بھی بدستور غارِ حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے تھے ۔ ایک روز آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حسبِ معمول عبادت و ریاضت میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔ آنحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کے ساتھ چل پڑے ۔
جب کوہ صفا اور کوہ مروہ کے درمیان پہنچے تو ان کے گلے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایک تختی لٹکتی نظر آئی جس پہ لکھا تھا :
لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ۔
یعنی سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام پھر غائب ہوگئے اور آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پھر مضطرب حالت میں گھر پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تمام واقعہ سنایا ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھی شبہ گزرا ۔ وہ پھر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور ان سے کہا :کہ ’’محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہتے ہیں کہ ان کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے ہیں ۔‘‘ورقہ نے کہا’’ضرور آتے ھوں گے کیونکہ وحی الٰہی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔‘‘حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا ’’یہ جبرائیل علیہ السلام ؑکون ہیں ؟‘‘ ورقہ نے جواب دیا جبرائیل علیہ السلام وہ مقدس فرشتے ہیں جو انبیاء کرام پر اللہ کا پیغام لے کر آتے ہیں ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، مجھے شبہ ہے کہ یہ کہیں جن وغیرہ نہ ہو۔ ورقہ نے کہا، یہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر تم کو شبہ ہے تو میں انجیل مقدس تمھیں دیتا ہوں ۔ جب ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی نازل ہو ، یہ کتاب ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے کر دینا ۔ اگر جن کا اثر ہو گا تو محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو جائے گااور اگر واقعی جبرائیل علیہ السلام آتے ہیں تو کوئی اثر نہ ہوگا۔
چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا انجیل کو چھپا کے لے آئیں ۔ ایک روز آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم غار حرا سے مکان کو تشریف لا رہے تھے کہ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ہراس طاری ہو گیااور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم گھر آکر کپڑا اوڑھ کر لیٹے رہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ھو گیا اور سورہ المدثر کی ابتدائی آیات نازل ھوئیں ۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پھر تمام کیفیت بیان کی۔ وہ جلدی سے انجیل اٹھا لائیں اور اس کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے کر دیا۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اسے دیکھ کر پوچھا :یہ کیا ہے ؟
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنا ورقہ کے پاس جانے کاحال بیان کر کے کہا کہ آج مجھے اطمینان ہو گیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر جن کا اثر نہیں ہے ۔ ضرور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نبی مبعوث ہوئے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد وحی کا سلسلہ برابر جاری رہا
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ایک مرتبہ وحی کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کی مخلوق میں میرے (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) نزدیک شاعر اور پاگل سے بڑھ کر کوئی قابلِ نفرت نہ تھا۔ {میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم شدتِ نفرت سے} ان کی طرف دیکھنے کی بھی تاب نہ رکھتا تھا۔ (اب جو وحی آئی تو) میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے (اپنے دل میں) کہا کہ یہ ناکارہ.... یعنی “میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اب خود شاعر یا پاگل ھوں “ لیکن میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے بارے قریش کو ایسی بات کہنے کا موقعہ کبھی نہ دوں گا اس لئے میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہوں وہاں سے اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دوں گا اور اپنا خاتمہ کر لوں گا اور ہمیشہ کے لیے راحت پا جاؤں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں یہی سوچ کر نکلا۔ جب بیچ پہاڑ پر پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سنائی دی، اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف اپنا سر اُٹھایا۔ دیکھا تو جبریل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں اُفق کے اندر پاؤں جمائے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں وہیں ٹھہر کر جبریل علیہ السلام کو دیکھنے لگا اور اس شغل نے مجھے میرے ارادے سے غافل کر دیا۔ اب میں نہ آگے جا رہا تھا نہ پیچھے۔ البتہ اپنا چہرہ آسمان کے افق میں گھما رہا تھا اور اس کے جس گوشے پر بھی میری نظر پڑتی تھی جبریل اسی طرح دکھائی دیتے تھے۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مسلسل کھڑا رہا۔ نہ آگے بڑھ رہا تھا نہ پیچھے یہاں تک کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میری تلاش میں اپنے قاصد بھیجےاور مکہ تک جا کر پلٹ آئے۔ لیکن میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر جبریل علیہ السلام چلے گئے اور میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی اپنے اہلِ خانہ کی طرف پلٹ آیا اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر ان کی ران کے پاس انہیں پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہا، ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے؟ واللہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آدمی بھیجے اور وہ مکہ تک جا کر واپس آگئے (اس کے جواب میں) میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا انھیں بتا دیا۔ انھوں نے کہا: چچا کے بیٹے! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خوش ہو جائیے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ثابت قدم رہیے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں اُمید کرتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمت کے نبی ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ انھیں ماجرا سنایا۔ انھوں نے کہا قدوس، قدوس، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ورقہ کی جان ہے، ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔ یہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس اُمت کے نبی ہیں۔ ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کہو ثابت قدم رہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کی بات بتائی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حراء میں اپنا قیام پورا کر لیا اور (مکہ) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ نے ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تفصیلات سن کر کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس اُمت کے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دوبارہ وحی کا نزول
'' رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرماتے ھیں کہ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے غارِ حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا۔ جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم غارِ حراء سے نیچے اترا۔ جب وادئ بطحاء کے درمیان میں پہنچا تو مجھے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی مجھے پکار رھا ھے ۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دائیں دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا ، بائیں دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ آگے دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا، پیچھے دیکھا۔ کچھ نظر نہ آیا، پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غارِ حِراء میں آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس سے خوف زدہ ہوکر زمین کی طرف جاجھکا، پھر میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنے گھر اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آکر کہا : مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دو، انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی اور مجھ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسی حالت میں تھا کہ اللہ پاک کی طرف سے وحی کا نزول ھوا اور یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں:
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ (1)
اے کپڑے میں لپٹنے والے۔
قُمْ فَاَنْذِرْ (2)
اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ۔
وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ (3)
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4)
اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5)
اور میل کچیل دور کرو۔
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْـثِرُ (6)
اور بدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو۔
وَلِرَبِّكَ فَاصْبِـرْ (7)
اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔
یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد وحی میں تیزی آگئی اور یہ تسلسل سے نازل ہونے لگی۔ '
صحیح بخاری کتاب التفسیر)
یہی آیات مبارکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی رسالت ونبوت کی شروعات ہیں۔ ان آیات مبارکہ کا مطلع اللہ رحمن ورحیم کی آواز میں ایک عظیم الشان آسمانی حکم پر مشتمل ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس عظیم الشان کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جہاد اور سعی مشقت کے میدان میں آنے کا حکم دیا گیا ہے: اے چادر پوش! اٹھ اور ڈرا۔ گویا اللہ تعالی کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ اس فانی دنیا میں جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے لیکن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو اس زبر دست ذمہ داری کا بوجھ اٹھا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اب نیند سے کیا تعلق ؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو راحت سے کیا سروکار؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو گرم بستر سے کیا مطلب ؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سکونِ زندگی سے کیا نسبت ؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اب راحت بخش سازوسامان سے بھلا کیا واسطہ ؟
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اٹھ جایئے !اس کار عظیم کے لیے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا منتظر ہے۔ ا س بار گراں کے لیے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر تیار ہے۔ اٹھ جایئے جہد ومشقت کے لیے۔ تکان اور محنت کے لیے۔ اٹھ جایئے ! کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا۔ اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل پر مشقت جہاد ہے۔ اٹھ جایئے ! اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہوجایئے۔
یہ بڑا عظیم ، پر ہیبت اور بابرکت کلمہ ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پر سکون گھر ، گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے اتھاہ سمندر میں پھینک دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشمکش کے منجدھار میں لاکھڑا کیا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس بارِ گراں کی ذمہ داری سے سبکدوش ھونے کے لئے اٹھ گئے اور بیس سال زندگی کے آخری لمہے تک اٹھے ھی رہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آپنا ھر قسم کا راحت وسکون اللہ تعالی کے راستہ میں قربان کر دیا۔ زندگی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے نہیں بلکہ صرف اسی مقدس کام کے لئے مختص ھو گئی گویا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس مقدس کام کے لئے اٹھے تو پھر اٹھے ہی رہے ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا کام لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دینا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے یہ کمر توڑ بارگراں اپنے شانے پر بخوشی کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا۔ یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کبریٰ کا بوجھ ، ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد و دفاع کا بوجھ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بیس سال سے زیادہ عرصے تک پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور اس پورے عرصے میں ، یعنی جب سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے وہ آسمانی ندائے جلیل سنی تھی اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی تھی ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کوئی بھی ایک حالت دوسری حالت سے غافل نہ کرسکی۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ہماری سب کی طرف سے بلکہ پوری انسانیت کی طرف سے اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین
جاری ھے ۔۔۔۔