پہلی وحی کے موقعہ پر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گھبراہٹ
حدیث مبارکہ میں پہلی مرتبہ نزولِ وحی اور رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی کیفیات کا ذکر آیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر کچھ اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ درآصل نزول وحی کی کیفیت کو آچھی طرح سے سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی ضروری ھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اچانک یہ صورت حال پیش آئی تھی ۔ اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایسا کوئی گمان یا ایسی کوئی اُمید پہلے سے نہیں تھی کہ کوئی فرشتہ اس طرح اللہ تعالی کا پیغام لے کر آ جائے گا۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ایک عرصہ سے خلوت نشینی آختیار کرکے مراقبہ اور عبادت تو ضرور فرما رھے تھے لیکن اس طرح کوئی آچانک صورت حال سے سابقہ پڑ جائے گا یہ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کھبی سوچا بھی نہیں تھا اور رات کی تنہائی میں جب آچانک غار حراء میں ایک فرشتہ نازل ھوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اوپر فطرتاً اس پہلے عظیم اور غیر معمولی تجربے سے وہی گھبراہٹ طاری ہوئی جو بہرحال ایک انسان پر طاری ہوتی ہی ھے اس سے قطع نظر کہ وہ انسان کتنی ھی عظیم الشان ھستی کیوں نہ ہو۔ یہ گھبراہٹ مرکب نوعیت کی تھی کیونکہ طرح طرح کے سوالات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ذہن مبارک میں آرھے تھے جنھوں نے طبیعت مبارک کو سخت اضطراب میں مبتلا کردیا تھا۔ دل ھی دل میں یہ خیالات تسلسل سے پیدا ھو رھے تھے کہ کیا واقعی میں نبی ہی بنایاگیا ہوں ؟ کہیں یہ میرے لئے کوئی سخت آزمائش تو نہیں ہے؟ پھر یہ کہ اگر واقعی میں نبی بنا دیا گیا ھوں تو نبوت کا بار عظیم آخر میں کیسے اٹھاؤں گا؟ لوگوں سے یہ کیسے کہوں گا کہ میں تمھاری طرف نبی بنا کر بیجھا گیا ہوں ؟ لوگ میری بات کیسے مان لیں گے؟آج تک جس معاشرے میں عزت کے ساتھ رہا ہوں ، اب لوگ میری بات کا مذاق اڑائیں گے اور مجھے جادوگر ، دیوانہ اور معلوم نہیں کیا کچھ کہیں گے۔ اس جاہلیت کے ماحول سے آخر میں اکیلا کیسے لڑ سکوں گا؟ غرض اس طرح کے نامعلوم کتنے خیالات ھوں گے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ذھن مبارک میں آ رھے ہوں گے اور جو طبیعت مبارک کو پریشانی میں مبتلا کررہے ہوں گے۔
صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہونے کی کیفیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَي رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَي أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَي خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّي جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّي بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّي بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ} فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَي خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّي ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَي نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَي نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّي أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّي ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً قَدْ تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَكْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَي فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَي فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَي مُوسَي يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ۔۔۔ (صحيح بخاري)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان کرتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ! صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پڑھو، ، میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے دبایا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے دبا دیا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو دبا دیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام (کی مدد ) سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کے لوتھرے سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ اُنہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے آپ نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔
مؤرخین اور محدثین نے آنحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تردد و اضطراب کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں ۔ بعض نے لکھا ہے کہ نبوت کے بار گراں کی عظمت سے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم متردد ہوئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ علیہ السلام کی ہیبت سے خوف لاحق ہوا۔ بعض کا قول ہے کہ جلال الٰہی کا اثر تھا۔ درحقیقت حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جس وجہ سے تردد و اضطراب لاحق ہوا اس کا جواب خود قرآن شریف میں موجود ہے :
اللہ تعالیٰ سورۃ الحشر کے آخر میں فرماتے ہیں :
لَوْ اَنْزَلْنَاَھٰذَا الْقُرْاٰ نَ عَلیٰ جَبَلِِ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعََا مُّتَصَدِّعََا مِّنْ خَشْیَۃِاللّٰہِ
اگر ہم اس قرآن مقدس کو پہاڑ پر اُتارتے تو وہ بھی خدا کے خوف سے ریزہ ریزہ ھو جاتا
سو ایسا ھی معلوم ھوتا ھے کہ پہلی وحی کے موقعہ پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا خوفزدہ ھونا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر گھبراھٹ کا طاری ھونا کلام الہی کی ہیبت کا ھی نتیجہ تھا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حوصلہ افزائی
پہلی وحی کے بعد جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم گھر پہنچے تو کانپ رہے تھے۔ جاتے ہی فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ گھر والوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب ذرا دل کو سکون ھوا تو سیدہ خدیجہ۔ رضی اللہ تعالی عنھا کو سارا واقعہ سنایا اور فرمایا خدیجہ:
لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی
مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ کو تسلی دی اور اطمینان دلاتے ھوئے کہا کہ
کَلاَّ وَ اللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبدًا۔ اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔
’’ ہرگز نہیں ، خدا کی قسم! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اﷲ کبھی رنج نہ دے گا۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تو رشتہ داروں کے کام آتے ہیں ،بے کسوں کی مدد کرتے ہیں ، نادار کی دست گیری کرتے ہیں ،مہمان کی تواضع کرتے ہیں اور تمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔‘‘
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خوب تسلی دی اور فرمایا:’ ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خوش ہو نا چاہیے ۔اللہ پاک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کبھی رسوا نہ کرے گا ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ ہمیشہ سچ بولتے رہے ہیں اور ان کے اخراجات کے کفیل رہے جو نادار تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود ہیں جو دوسر ے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مہمان نواز ہیں اور حق باتوں اور نیک کاموں کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آجائے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کے مددگار بن جاتے ہیں ۔‘‘
اس گفتگو سے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایک گو نہ تسلی ہو گئی ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ھے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شریک حیات تھیں ، ایک بیوی اپنے شوھر کی محرم راز ھوتی ھے کیونکہ وہ شوھر کی ھر آچھی یا بُری عادات سے واقف ھوتی ھے لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خوبیاں کس انداز میں بیان کی ھیں یہ بھی آپ کی نبوت سے پہلے پاکیزہ زندگی کی ایک دلیل ھے
ورقہ بن نوفل سے ملاقات اور نبوت کی خوشخبری
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے خود آپ کو بہت اطمینان دلایا مزید تسلی و تشفی کے لئے وہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے چچیرے بھائی اور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے ، وہ دور ِ جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہو کر عیسائی بن گئے تھے ، ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے سارا واقعہ سنا توکہا یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر اترا تھا ، پھر کہا ! کاش کہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے زمانہ نبوت میں ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو آپ کی قوم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نکال دے گی ، حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پوچھا! کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ، ہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو، اگر میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا زمانہ پایا تو پھر میں بھرپور طریقہ سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مدد کروں گا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے ان سے پوچھا ! مجھے جبریل کے بارے میں کچھ بتائیے ، ورقہ نے کہا !کون قدوس قدوس یا(سبوح ، سبوح)حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا ہاں ! میرے شوہر محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا ھی فرشتہ آیا تھا وہ ان کی کیفیت بھی بتلاتے ہیں،یہ سن کر ورقہ نے کہا کہ اگر جبریل زمین پر اترے ہیں تو اللہ تعالیٰ بہت خیر و برکت نازل کرے گا ، اگر یہ درست ہے تو ان کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت عیسی ؑ کے پاس آیا تھا، خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا ؛ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو ان سے پہلے حضرت موسیٰ ؑ پر بھی نازل ہوا تھا ،( ناموس خیر کی خبر لانے والے کو کہتے ہیں اور شر کی خبر لانے والے کو جاسوس کہتے ہیں، آسمان سے وحی لانے والا فرشتہ بھی ناموس کہلاتا ہے ، بعض مفسرین ناموس کے معنی قابل اعتماد " بتلاتے ہیں اور بعض حضرت جبریل کو ناموس کہتے ہیں، )
جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا ورقہ سے رخصت ہونے لگے تو ورقہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا، اس ملاقات کے بعد ورقہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شان میں ایک نعتیہ قصیدہ بھی لکھا،قصیدہ کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے :
۱- خدیجہؓ سے مختلف اوصاف معلوم کرنے کے بعد مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا مجھے عرصہ دراز سے انتظار تھا،
۲- مجھے یہی امید تھی کہ یہ نبی مکہ یا مدینہ میں مبعوث ہوں گے ، اب تمہاری بات سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے،
۳- بات یہ ہے کہ محمد ﷺ اپنی قوم کا سر براہ ہوگا اور اپنے مخالفین پر محبت سے غالب آئے گا،
۴- شہرو ں میں ہدایت کا نور اور روشنی پھیل جائے گی اور مخلوق کو اضطراب کے بجائے سکون
نصیب ہو گا،
۵- ان سے لڑائی کرنے والے خائب و خاسر اور صلح و صفائی رکھنے والے فوز و فلاح سے ہمکنار
ہوں گے،
۶- ائے کاش ! مجھے وہ وقت نصیب ہو جب ان کی قوم ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گی تو میں انھیں ان کے مقام سے آگاہ کروں گا اور معتمد علیہ ثابت ہوں گا،
۷- میں ضرور اس دین میں داخل ہو جاؤں گا جسے قریش خواہ پسند نہ کریں اور چیخ چیخ کر مکہ سر پر اٹھالیں،
۸- جس بات کو تمام قریش نا پسند کرتے ہوئے پستی میں گِر جائیں گے مجھے امید ہے اسے اختیار کر کے عرش والے تک رسائی حاصل کی جا سکے گی،
۹- اگر یہ باقی رہے اور میں بھی باقی رہا تو ہم یقینا ایسے امور ملاحظہ کریں گے جن کی وجہ سے
کافروں کو نالہ و شیون کرنا پڑے گا،
۱۰- اور اگر میں چل بسا تو ہر نوجوان کو بالآخر ایسے امور کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کی وفات پر منتج ہوں گے،
،ورقہ جو کہ اہل کتاب میں سے تھے، توریت اور انجیل کا عالم تھے اور انبیائے سابقین کے حالات سے باخبر تھے۔ انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کیفیت سن کر بلا تامل تصدیق کی کہ ’’یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر آیا تھا۔‘‘ اس لیے کہ وہ بچپن سے لے کر جوانی تک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی انتہائی پاکیزہ سیرت سے خوب واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہاں پہلے سے نبوت کے دعوے کی کسی تیاری کا شائبہ تک نہیں پایا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کو جب انھوں نے اس واقعہ سے ملایا کہ یکایک غیب سے ایک ہستی آکر ایسے شخص کو ان حالات میں وہ پیغام دیتی ہے جو عین تعلیماتِ انبیاء کے مطابق ہے تو یہ ضرور سچی نبوت ہے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ھوتا ھے کہ یہ سارا قصہ ایسا فطری اور معقول ہے کہ اس صورت حال میں یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے نبی صادق ہونے کے اہم ترین دلائل میں سے ایک ہے۔اگر یہ معاملہ اس طرح پیش نہ آتا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یکایک غارِ حرا سے آتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ فرشتے کی آمد کا واقعہ مجمع عام میں سنا کر اپنی نبوت کا دعویٰ پیش فرماتے تو کوئی بھی یہ شک کرسکتا تھا کہ “ حضرت تو پہلے سے اپنے آپ کو نبوت کا اہل سمجھے بیٹھے تھے اور دور ایک غار میں بیٹھ بیٹھ کر اس کا انتظار کررہے تھے کہ کب کوئی کشف والہام ہوتا ہے۔آخر شدت مراقبہ نے ذہن کے سامنے ایک فرشتے کا نقشہ پیش کرہی دیا اور کانوں میں آوازیں بھی آنے لگیں ۔معاذ اﷲ۔ “
لیکن خدا کے فضل سے وہاں نبوت کا ارادہ اور اس کی خواہش اور کوشش تو درکنار،جب بالفعل وہ مل بھی گئی تب بھی چند ساعتوں تک عالم حیرت ہی طاری رہا۔ دوسرے الفاظ میں یو ں سمجھیے کہ بے نظیر شخصیت کے مالک ہونے پر بھی وہ ذات عجب وخود پسندی سے اس درجے تک خالی تھی کہ جب نبوت کے منصب عظیم پر یکایک مامور کردیے گئے اس وقت بھی کافی دیر تک یہ اطمینان نہ ہوتا تھا کہ دنیا کے کروڑوں انسانوں میں سے تنہا ایک میں ہی اس قابل ہوں کہ اس منصب کے لیے ربّ کائنات کی نگاہ انتخاب میرے اوپر پڑے۔ بہرحال ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی نہ صرف یہ کہ خوشخبری رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی بلکہ اُس نے خود بھی کھل کر رسول کریم صلی اللہ تعالی عنہ کی نبوت کی تصدیق کی تھی اور آپ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا عزم ظاھر کیا تھا
جاری ھے ۔۔۔۔