قسط نمبر (19) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 غارِ حراء میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی کا نزول


جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کی عمر مبارک  چالیس برس ہو گئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سچے خواب آنا شروع ھو گئے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا. جو مدتِ نبوت کا چھیالسواں حصہ بنتا  ہے کیونکہ کل مدتِ نبوت تیئس برس ہے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم گذشتہ چند سالوں سے غار حراء میں  آ کر کئی کئی دن گوشہ نشین  ھو جاتے تھے۔  اس طرح یہ سلسلہ چلتا رھا اور  جب  غارِ حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ روئے زمین کے باشندوں پر اُن کے رب  کا ابرِ رحمت خوب خوب برسے اور نزدیک و دور اس کا فیضان  پہنچے ۔  چنانچہ باری تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  منصبِ نبوت سے سرفراز فرما دیا اور حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی سورہ علق کی چند آیات لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  غارِ حراء میں تشریف لائے۔ 

 مختلف دلائل و قرائن کے مطابق  پہلی وحی کے نزول کا یہ واقعہ رمضان المبارک  کے مہینے میں پیش آیا  البتہ تاریخ کےبارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ھے تاھم جمہور سیرت نگاروں کی تحقیق یہی ھے کہ نزولِ وحی کا واقعہ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کی کسی طاق رات میں پیش آیا  ۔ عیسوی تقویم کے حساب سے یہ اگست کا مہینہ تھا البتہ اس بات پر  تقریباً  سبھی  سیرت نگاروں کا اتفاق ھے کہ یہ واقعہ سوموار  کی رات میں پیش آیا 

اس کی تائید ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار  کے دن روزے کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں میں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پیدا ہوا۔ اور جس میں مجھے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نبی  بنایا گیا۔ یا جس میں مجھ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر وحی نازل کی گئی۔ (صحیح مسلم ، مسند احمد، بیہقی ،حاکم) 

تحقیق کے مطابق  نزولِ وحی کے وقت قمری حساب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے ۳۹ سال تین مہینے ۲۲ دن تھی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  اس واقعے کی تفصیلات  کچھ یوں بیان فرماتی ھیں  کہ یہ انوارِ لاہوت کا ایک ایسا شعلہ تھا جس سے کفر و ضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں، یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروفِ عبادت رہتے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم توشہ لے جاتے۔ پھر {توشہ ختم ہونے پر} حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت عطا کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت  غارِ حراء  میں تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو! ۔ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ جکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو!۔ میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ کر کہا 


O اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ

آپ اپنے رب کے نام سے  پڑھیے جس نے پیدا کیا 


O خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

جس نے آنسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا


O اِقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ

آپ پڑھیے اور آپ کا رب نہایت کریم ہے وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ 


O عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم

وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہیں تھیں


حافظ  ابن حجر عسقلانی  رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’ جبریلِ امین علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ سے کہا :’’ اقرأ‘‘- ’’پڑھیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَیں پڑھا ھوا نہیں ہوں۔‘‘ اور جب تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تو جبریل امین علیہ السلام نے کہا :’’ اقرأ باسمِ ربک( پڑھو! اپنے رب کے نام سے ) یعنی مطلب یہ تھا کہ  اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی قوت اور معرفت سے نہ پڑھیں بلکہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے رب کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اعانت سے پڑھیں۔  اُس نے جس طرح پیدا کیا ہے وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پڑھنا بھی سکھائے گا۔ تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اُمّی ہیں کہ وہ کسی کے پڑھانے سے نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات جل شانہٗ نے ( جیسا اُس کی شان کے لائق ہے ) پڑھایا ہے ویسا ہی پڑھیں گے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔

حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام سے یہ آیات سننے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ جل شانہٗ کی مقدس بارگاہ کے پیغام  کے لئے آپنے آپ کو تیار کر لیا  اور جو کچھ حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے تھے اُسے یاد فرمالیا ۔ جب یہ مجلس ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے جانے کے لیے غار سے باھر نکلے ، کہا جاتا ھے کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  باھر تشریف لائے تو راستے میں جس قدر پتھر اوردرخت تھے وہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سلام کرتے تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جب اپنے گھر میں داخل ہوئے تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو یقین تھا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حقیقت میں کوئی بہت بڑی کامیابی اور بلندی سے مشرف ہوچکے ھیں تاھم ایک انجانا سا خوف بھی طبیعت مبارک میں موجود تھا  کلام ربانی کی جلالت اور تمکنت سے وہ لرزہ براندام تھے اور اس واقعے کے ایک ایک پہلو پر غور کرکے اسے اپنے دائرہ فہم میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر گتھی تھی کہ کسی طرح سلجھنے میں نہیں آرہی تھے مکہ میں وہ حسن اخلاق کا اعلی وافضل ترین نمونہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس متنانت ، سنجیدگی اور شائستگی سے گزارے تھے کہ کسی سے تلخ کلامی تک کی نوبت نہیں آئی تھی چہ جائیکہ کسی کا اس سختی سے بھینچنا! یہ تجریہ ان  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کیلئے قطعی ناقابل توجیح تھا اور کلام اس کی سطوت نزول کی تناظر میں ، جو خود  اپنی جگہ ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ یہ نامانوس سلوک انہیں ناروا معلوم ہوا،  انکے ذہن میں سوچ کی ایک یہ لہر بھی اٹھتی تھی کہ یہ عقدہ جتنا حیرت انگیز اور ناقابل فہم تھا ہوسکتا ہے کہ اس کا حل بھی انہونا اور خلاف معمول ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں تشویش کی کوئی بات ہی نہ ہو بلکہ سب کچھ جو بظاہر جتنا پریشان کن اور تکلیف دہ محسوس ہورہا ہے اتنا ہی خوش آئند اور نیک انجام  بھی ہو۔پھربھی اس محیر العقول تجربے کے انجانے مضمرات سے ان کا سارا بدن لرزاں تھا

غور کیا جائے تو یہ قصہ خود  اس بات کی گواھی دے رہا ہے کہ فرشتے کی آمد سے ایک لمحہ پہلے تک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بات سے خالی الذہن تھے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اس چیز کا طالب یا متوقع ہونا تو درکنار، آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا کوئی معاملہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ پیش آئے گا۔ وحی کا نزول اور فرشتے کا اس طرح سامنے آنا آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے لیے اچانک ایک حادثہ تھا جس کا تاثر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اوپر وہی ہوا جو ایک  بشر پر اتنے بڑے ایک حادثہ کے پیش آنے سے فطری طور پر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو مکہ کے لوگوں نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر اور تو طرح طرح کے اعتراضات کیے، مگر ان میں کوئی یہ اعتراض کرنے والا  ھرگز نہ تھا کہ ہم کو تو پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں کیونکہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ایک مدت سے نبی بننے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس قصے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زندگي کیسی پاکیزہ تھی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کردار کتنا بلند تھا۔ حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کوئی کم سن خاتون نہ تھیں بلکہ اس واقعہ کے وقت ان کی عمر 55 سال تھی اور پندرہ سال سے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریک حیات تھیں۔ بیوی سے شوہر کی کوئی کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اس طویل ازدواجی زندگی میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو غار حراء میں پیش آنے والا واقعہ سنایا تو بلا تامل انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ فی الواقع اللہ کا فرشتہ ہی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس وحی لے کر آیا ہے ۔ پھر ورقہ بن نوفل بھی  ایک عمر رسیدہ ، جہاں دیدہ اور انجیل کے  عالم تھے۔  انہوں نے بھی واقعہ سنتے ھی  بغیر کسی اور توجیح کے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نبوت کی خوشخبری سنا دی 

جب آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نبوت کا وقت قریب آیا تو پھر دنیا میں عجیب باتوں کا ظہور ہونے لگا۔ ستاروں کی روشنی بڑھ گئی ، آسمان پر شہاب ثاقب کثرت سے نمودار ہونے لگے۔شبِ ظلمات میں عجیب قسم کی روشنی نظر آنے لگی ۔ کاہنوں نے کہنا شروع کر دیاکہ دنیا میں انقلابِ عظیم آ نے والا ہے اور وہ ہستی جو آج سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئی ہے ظاہر ہو کر دنیا کا تمدن بدلنے والی ہے ۔ نئی نئی پیشین گوئیاں کی جانے لگیں ۔ لوگوں میں ہل چل مچ گئی ۔

بت پرستوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ یہودی اور عیسائی جو ایک عرصے سے نبی آخرالزماں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا انتظار کر رہے تھے ، اپنی آسمانی کتابیں دیکھ دیکھ کر کہنے لگے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں ۔ آمد سحر کی خبر دی جا چکی تھی۔ سپیدۂ سحر نمودار ہو چکا تھا۔ اب آفتابِ رسالت طلوع ہو رہا تھااور دنیا کی تیرگئ کفر آفتاب رسالت کے نور سے سمٹنے لگی تھی

جاری ھے ۔۔۔۔


Share: