رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والدین کریمین
حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ وہ انتہائی خوش قسمت ھستیاں تھیں جنہیں جناب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والدین بننے کا شرف حاصل ھوا ، حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد محترم جناب عبد المطلب کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ننھیال سے آپ کا تعلق بنو نجار سے تھا جو کہ یثرب (مدینہ منورہ ) شہر کا ایک معزز قبیلہ تھا
حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب
یہ خوش قسمت انسان ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے اُن کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن تقیظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں ۔ یہ حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔
حضرت عبداللہ کی ولادت با سعادت
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت بی بی آمنہ جن دنوں حضرت عبداللہ کے حمل سے مشرف ہوئیں ان دنوں آسمانی کتابوں کے عالم مسلسل اس تلاش و جستجو میں مشغول رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح ان علامتوں کو معلوم کر لیں جو نبی آخرالزمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تشریف آوری اور ولادت کا اظہار کرتی ہوں۔ ان لوگوں کے پاس وہ جبہ مبارک موجود تھا جس کو پہنے ہوئے حضرت یحیی علیہ اسلام نے جام شہادت نوش فرمایا تھا اور انہوں نے کتب سماوی میں دیکھا تھا جس دن اس جبہ کے خون کے دھبے تازہ ہو جائیں گے وہ نبی آخرالزمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت کا قریبی زمانہ ہو گا۔ جب انہوں نے اس جبہ پر خون کے نشانات کو تازہ پایا تو یقین کر لیا اب نبی آخرالزمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ جب وہ ساعت آ گئی جس رات جناب حضرت عبداللہ کی ولادت مبارک ہوئی ملک شام کے اہل کتاب علماء نے ایک دوسرے کو متنبہ کیا کہ پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد بزرگوار ام القری مکہ میں تولد ہو چکے ہیں۔ حضرت عبداللہ کی ولادت ایک روایت کے مطابق (اندازً) 554ء میں ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق آپ کی ولادت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت مبارک سے 25 برس قبل 546ء مکہ مکرمہ میں ہوئی
حضرت عبداللہ کا سلسلۂ نسب
والد ماجد کی طرف سے
عبد المطلب (شیبۃ الحمد) بن ہاشم (عمرو) بن عبد مناف (المغیرہ) بن قصی (زید) بن مرہ بن کعب
والدہ ماجدہ کی جانب سے
فاطمہ بنت عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب
دادی جان کی جانب سے
سلمی بنت عمرو ابن عمرو بن زید بن لبید بن خداش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار
نانی جان کی جانب سے
صخرہ بنت عبد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب
عبدالمطلب کی نذر ، حضرت عبداللہ کے نام قرعہ اور سو اُونٹوں کی قربانی
حضرت عبد المطلب نے زمزم کے کھودنے کے وقت جب قریش کی جانب سے رکاوٹیں دیکھیں تو منت مانی تھی کہ اگر انہیں دس لڑکے ہوں گے اور وہ سن بلوغ کوپہنچ کر قریش کے مقابلے میں ان کی حفاظت کریں گے تو ان میں سے ایک لڑکے کو کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالی (کی خوشنودی) کے لیے ذبح کر دیں گے۔ جب انہیں پورے دس لڑکے ہوئے اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے تو ان سب کو جمع کیا اور اپنی نذر کی انہیں خبر دی اور انہیں اللہ تعالی کی نذر پوری کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے والد ماجد کی بات مانی اور دریافت کیا کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ حضرت عبد المطلب نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص ایک ایک تیر لے اور اس پر اپنے نام لکھ کر میرے پاس لائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور عبد المطلب کے پاس آئے۔ حضرت عبد المطلب انہیں لے کعبۃ اللہ کے اندر ہبل کے پاس آئے اور ہبل ایک باولی پر تھا اور یہ باولی وہ تھی جس پر بیت اللہ کی نذر و نیاز میں جو چیزیں آئیں وہاں جمع رہتی تھی اور ہبل کے پاس سات تیر رکھے تھے اور ہر تیر پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ ایک پر خون بہا دوسرے پر ہاں تیسرے پرنہیں چوتھے پر تمہیں میں سے پانچویں پر تم میں ملا ہوا چھٹے پر تم میں سے نہیں ساتویں پر پانیوں کے متعلق کچھ لکھا تھا۔ حضرت عبد المطلب اس تیروں والے کے پاس آ کر کہا کہ میرے ان بچوں کے یہ تیر ہلا کر نکالو اور جو نذر انہوں نے مانی تھی اس کی کیفیت بھی اسے سنا دی۔ ان میں سے ہر ایک لڑکے نے اپنا تیر اس کو دیا جس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ ابن اسحاق نے کہا کہ لوگوں کے خیال کے موافق عبداللہ عبدالمطلب کے بہت چہیتے فرزند تھے اور یہی دیکھ رہے تھے کہ اگر تیر ان پر سے نکل گیا تو گویا وہ خود بچ گئے۔ جب تیر والے نے تیر لیے تا کہ انہیں حرکت دے کر نکالے تو عبد المطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے۔ جب تیروں والے نے تیر چلائے تو حضرت عبداللہ کا نام نکلا۔ پھر تو عبدالمطلب نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور چھری لی اور انہیں لے کر لے اساف و نائلہ کے پاس آئے تا کہ انہیں ذبح کریں۔ جب قریش نے دیکھا تو وہ اپنی مجلس چھوڑ کر ان کے پاس آئے اور کہا عبدالمطلب تم کیا کرنا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا میں اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ جب قریش اور آپ کے دوسرے لڑکوں نے دیکھا تو سب نے کہا خدا کی قسم اس کو ہرگز ذبح نہ کیجئے جب تک آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہر ایک شخص ہمیشہ اپنے بچے کو لایا کرے گا کہ اس کو ذبح کرے۔ اس طرح انسانی نسل باقی نہ رہے گی۔ مغیرہ بن عبداللہ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہرگز نہ کیجئے جب تک کہ آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر ان کا عوض ہمارے مال سے ہو سکے تو ہم ان کا فدیہ اپنے مال سے دیں گے۔ قریش اور ان کے دوسرے بچوں نے کہا ان کو ذبح نہ کیجئے بلکہ انہیں حجاز لے چلئے وہاں ایک عرفہ (غیب کی باتیں بتانے والی) ہے جس کا کوئی (موکل یا شیطان یا کوئی روح) تابع ہے اس سے آپ دریافت کیجئے۔ اگر اس نے بھی ان کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو آپ کو ان کے ذبح کر ڈالنے کا پورا اختیار ہو گا اور اگر اس نے کوئی ایسا حکم دیا جس میں آپ کے اور اس لڑکے کے لیے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی شکل ہو تو آپ اس کو قبول کر لیں۔ پھر وہ سب کے سب وہاں سے چلے اور مدینہ منورہ پہنچے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ وہ خیبر میں ہے تو پھر وہاں سے سوار ہو کر خیبر آئے۔ عبدالمطلب نے اس عورت کو اپنے اور اپنے لڑکے کے حالات سنائے اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس عورت نے کہا آج تو میرے پاس سے تم لوگ واپس جاؤ یہاں تک کہ میرا تابع میرے پاس آئے اور میں اس سے دریافت کر لوں۔ پس سب کے سب اس کے پاس سے لوٹ آئے اور عبدالمطلب اس کے پاس سے آ کر کھڑے اللہ تعالی سے دعا مانگتے رہے۔ دوسرے روز سویرے سب اس کے پاس گئے۔ اس عورت نے کہا ہاں مجھے تمہارے متعلق کچھ معلومات ہوئی ہے۔ تم لوگوں میں دیت کی مقدار کیا ہے۔ سب نے کہا دس اونٹ اور واقعتا یہی مقدار تھی۔ اس عورت نے کہا تم لوگ اپنی بستیوں کی جانب لوٹ جاؤ اور تم اپنے اس آدمی کو (اپنے لڑکے کو) اور دس اونٹوں کو پاس پاس رکھو اور ان دونوں پر تیروں کے ذریعے قرعہ ڈالو اگر تیر تمہارے اس لڑکے پر تو اونٹوں کو اور بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ تمہارا پروردگار راضی ہو جائے (اور) اونٹوں پر تیر نکل آئے تو اس کی بجائے اونٹ ذبح کر دو۔ اس طرح تمہارا رب بھی تم سے راضی ہو گیا اور تمہارا لڑکا بھی بچ جائے گا۔ (یہ سن کر) وہ وہاں سے نکل کر مکہ مکرمہ پہنچے۔ جب سب اس رائے پر متفق ہو گئے تو عبدالمطلب اللہ تعالی سے دعا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت عبداللہ کو اور دس اونٹوں کو وہاں لے آئے۔ اس حالت میں کہ عبدالمطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عزوجل سے دعا کر رہے تھے۔ پھر تیر نکالا گیا تو حضرت عبد اللہ پر نکلا۔ تو دس اونٹ زیادہ کیے اور اونٹوں کی تعداد بیس ہو گئی اس طرح بڑھتی بڑھتی جب اونٹوں کی تعداد سو ہو گئی تو تب جا کر تیر اونٹوں پر نکلا۔ وہاں پر موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے کہا اے عبدالمطلب اب تم اپنے رب کی رضامندی کو پہنچ گئے۔ عبدالمطلب نے کہا اللہ قسم ایسا نہیں یہاں تک کہ تین وقت اونٹوں پر ہی تیر نکلے۔ پھر یہ عمل تین بار کیا گیا اور ہر بار ہی تیر اونٹوں پر نکلا۔ [عبدالمطلب نے اللہ اکبر کی تکبیر کہی۔ عبدالمطلب کی لڑکیاں اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کو لے گئیں۔ حضرت عبدالمطلب نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹوں کو لے جا کر قربانی کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب نے جب ان اونٹوں کی قربانی کی تو ہر ایک کے لیے ان کو چھوڑ دیا (جو چاہیے گوشت کھائے روک نہ رکھی)۔ انسان یا درندہ یا طیور کوئی بھی ہو کسی کی ممانعت نہ کی البتہ خود نہ کچھ کھایا نہ آپ کی اولاد میں سے کسی نے کوئی فائدہ اٹھایا۔ عکرمہ عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ان دنوں دس اونٹوں کی دیت (خون بہا) ہوتی تھی (دستور تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیے جائیں) عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کا بدلہ سو اونٹ قرار دیا۔ جس کے بعد قریش اور عرب میں بھی یہی دستور ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بھی اس کو بحال و برقرار رکھا
حضرت عبداللہ کے بہن بھائی
آپ کے حقیقی بھائیوں میں حضرت ابو طالب (عبد مناف) ، عبد الکعبہ بن عبد المطلب اور زبیر بن عبد المطلب شامل ہیں۔ آپ کی حقیقی بہنوں میں ام حکیم بیضاء بنت عبد المطلب ، عاتکہ بنت عبد المطلب ، امیمہ بنت عبد المطلب ، ارویٰ بنت عبد المطلب اور برہ بنت عبد المطلب شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کے بہن بھائیوں میں حارث بن عبد المطلب ، ابو لہب (عبد العزی) ، مقوم ، حجل ، مغیرہ ، ضرار ، قثم ، غیداق ، مصعب ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب ، حضرت عباس بن عبد المطلب اور حضرت صفیہ بنت عبد المطلب شامل ہیں۔ یہ تمام اولاد حضرت عبد المطلب کی چھ بیویوں سے ہے۔ سیرت ابن ہشام میں حضرت عبد المطلب کے دس بیٹوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں قثم ، عبد الکعبہ ، مغیرہ اور معصب کا ذکر شامل نہیں اور اس میں حجل اور غیداق کو ایک شمار گیا ہے اور اس میں عبد المطلب کی پانچ بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ علامہ ابن سعد نے بارہ بیٹوں کا ذکر کیا ہے اُنہوں نے مصعب اور غیداق کو اور حجل اور مغیرہ کو ایک ہی شمار کیا ہے۔
حضرت عبداللہ کا ذوقِ شاعری
حضرت عبد اللہ شعر گوئی کا بھی ذوق رکھتے تھے ، بعض کتب سیرت و متراجم میں آپ کے چند اشعار بھی نقل کیے گئے ہیں جو ادبی چاشنی اور فصاحت کی رونق سے مزین ہیں۔ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب مسالک الحنفاء فی والدی المصطفی میں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار نقل کیے ہیں۔
لقد حکم السارون فی کل بلدة
بان لنا فضلاً علی سادة الارض
یعنی ہر شہر میں یہ اطلاع ہے کہ ہمیں تمام زمین کے سرداروں پر فضیلت ہے۔
وأن أبی ذوالمجد والسود والذی
یشار به ما بین بسر الی حفض
یعنی میرے والد (عبدالمطلب) صاحب بزرگی اور ایسے سردار تھے کہ بسر سے حفض تک انہی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔
” وجدی و آباء له ابلوا العلی
قدیماً لطلب العرف والحسب المحض
یعنی اور میرے دادا (ہاشم) اور ان کے آباء کے لیے بلندیاں پرانی ہو گئیں سب لوگ نے ایسا تعارف اور حسب و نسب کی بہت کوششیں بھی کی
حضرت عبداللہ کو قتل کرنے کی یہودی سازش اور حفاظتِ الہی
اہل کتاب بعض علامتوں اور نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخزالزماں سرور کون و مکاں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا وجود گرامی حضرت عبد اللہ کے صلب میں ودیعت ہے اس لیے اطراف و اکناف سے وہ آپ کو ہلاک کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں آنے لگے تھے یہود کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی ملک شام سے مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ جب تک حضرت عبد اللہ کو قتل نہ کر دیں واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان بد نہاد یہودیوں نے اپنے فاسد ارادے کی تکمیل کے لیے اس طرح سفر اختیار کیا کہ یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کو کسی جگہ چھپ کر آرام کرتے اس طرح سفر کرتے ہوئے یہ لوگ مکہ مکرمہ پہنچے اور کسی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ حضرت عبد اللہ کو تنہا پا کر اپنے مقصد کو پورا کر لیں۔ حسن اتفاق سے ایک دن حضرت عبد اللہ تنہا شکار کے لیے مکہ مکرمہ سے باہر تشریف لائے اور ان بد بختوں نے موقع غنیمت جان کر حملہ کے لیے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔ یہود کی بدقسمتی کہ اس دن حضرت آمنہ کے والد ماجد حضرت وہب بن عبد مناف زہری بھی شکار کے ارادہ سے نکلے اور ابھی حضرت عبد اللہ سے دور ہی تھے کہ انہوں نے تلواروں کی چمک اور کھنک کی آواز سنی۔ عربوں کی روایتی غیرت و حمیت نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ ان کا ایک فرد کس مپرسی کے عالم میں دشمنوں کے ہاتھوں مارا جائے۔ جب انہوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ چند آدمی ہیں اور دشمنوں کی تعداد کافی ہے۔ ابھی اسی سوچ میں تھے کہ آپ نے دیکھا کہ آسمانی مخلوق ابلق گھوڑوں پر سوار چرخ اطلس فرش زمیں پر اتری اور ان کی انسانی مخلوق سے کوئی مشابہت نہ تھی۔ ان بہادر سواروں نے آتے ہی بدکردار یہودیوں پر حملہ کر کے چھکے چھڑا دیے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
حضرت عبداللہ سے شادی کی خواہش مند خواتین
ذبح کے واقعہ کے بعد حضرت عبد اللہ کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا ۔ مکہ مکرمہ کی بہت سی نوجوان خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں نے آپ کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر آپ کو شادی کی پیشکشیں کیں حتی کہ بعض نے شادی کے لئے بڑی بڑی دولت کی بھی پیشکش کی۔ ان میں سے چند بہت مشہور ہیں ام قتال ، فاطمہ بنت مراء الخثیمہ، فاطمہ شامیہ وغیرہ
حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی
قریش اور قریش کے باھر بہت سے معزز گھرانوں سے حضرت عبداللہ کے لئے رشتوں کی پیشکشیں ھو رھی تھیں لیکن عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی لڑکی کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے،ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ کو بحفاظت ان کے مکان تک پہنچا دیا۔ ’’ وہب بن مناف ‘‘ بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کو حضرت عبداللہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ کی شادی حضرت عبداللہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔ خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظر حضرت عبداللہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ بنت وہب میں موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ کا حضرت بی بی آمنہ سے نکاح ھو گیا
حضرت عبداللہ کی وفات کا عظیم سانحہ
حضرت عبد اللہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام گئے۔ دوران سفر بیمار ہو گئے۔ واپسی پر یہ قافلہ مدینہ منورہ کے پاس سے گزرا تو حضرت عبد اللہ بیمار ہونے کی وجہ سے مدینہ منورہ ہی میں اپنے والد عبد المطلب کے ننھیال بنو عدی بن نجار کے ہاں ٹھہر گئے۔ قافلہ مکہ پہنچا تو حضرت عبد المطلب نے اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ قافلے والوں نے بتایا وہ بیمار تھے اس لیے واپسی پر مدینہ ٹھہر گئے۔ حضرت عبد المطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو عبد اللہ کی خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن حضرت حارث بن عبد المطلب کے پہنچنے سے پہلے حضرت عبد اللہ فوت ہو چکے تھے اور انہیں دارالنابغہ میں دفن کر دیا گیا تھا۔ حارث نے واپس آ کر یہ افسوس ناک خبر سنائی تو حضرت عبد المطلب ، ان کے بھائی ، بیٹے ، بھتیجے غرض کہ سارا خاندان انتہائی غم زدہ ہو گیا۔ وفات کے وقت حضرت عبد اللہ کی عمر پچیس سال تھی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس وقت شکم مادر میں تھے۔ واقدی کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ کی وفات اور ان کی عمر کے بارے میں یہی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔
حضرت عبداللہ کی وفات پر حضرت آمنہ کا مرثیہ
حضرت سیدہ آمنہ کے لیے شوہر نامدار کا سانحہ ارتحال ناقابل برداشت تھا کہ ابھی شادی خانہ آبادی کو آخر عرصہ ہی کتنا گزرا تھا۔ آپ کے قلب انور پر اس صدمہ کا کس قدر اثر ہوا اس کا اندازہ آپ کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں:
عفا جانب البطحاء من ابن ھاشم
وجاور لحذا خارجا فی الغمام
ہاشم کا ایک فرزند بطحا (مدینہ منورہ) کی جانب جا کر چاند کی طرح چھپ گیا۔ وہ لحد میں بہادر جوانوں کے شوروغل (یعنی آہ و بکا) کے ساتھ جا کر سو گیا۔ (مراد یہ کہ لوگوں کو روتا چھوڑ کر
دعته المنایا دعوة فاجابھا
وما ترکت فی الناس مثل ابن ھاشم
موت نے جوں ہی اس کو پکارا ، اس نے فوراً لبیک کہہ دیا۔ افسوس کہ ہاشم کے اس فرزند کی نظیر ، موت نے اب دنیا میں نہیں چھوڑی۔
غشیه راحوا یحملون سریره
تعاریه اصحابه فی استراحم
اس کے دوست شام کے وقت اس کی لاش کو اٹھائے جا رہے تھے اور وہ ازراہ محبت و عقیدت کاندھا بدلتے اور اس کے اوصاف بیان کرتے چلے جا رہے تھے۔
فان یك غالیة المسایا وریبھا
فقد کان معطاء کثیراً التراحم
اگرچہ موت نے ان کو ہم سے دور کر دیا ہے مگر اس میں تو شک نہیں کہ وہ بہت زیادہ سخی اور غریبوں کے ازحد ہمدرد تھے (یعنی ان کے دلوں سے ان کی یاد تو نہیں نکل سکتی
مدینہ منورہ ( دارالنابغہ) میں حضرت عبداللہ کی تدفین
حضرت عبداللہ ایک قافلے کے ساتھ غزہ سے تجارت کا مال لے کر واپس مکہ مکرمہ آ رہے تھے۔ راستے میں بیمار ھو گئے مدینہ منورہ میں بیماری کی حالت ھی میں داخل ہوئے۔ اپنے والد کے نھنیال بنو نجار کے پاس ٹھہرے اور وھیں وفات ہو گئی۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر پچیس یا اٹھائیس سال تھی اور انہیں مدینہ منورہ میں دارالنابغہ میں دفن کیا گیا۔ (نساب الاشرف البلاذری ج 1 صفحہ 92۔)
حضرت عبداللہ کا ترکہ
حضرت عبداللہ کا کل ترکہ یہ تھا: پانچ اونٹ، بکریون کا ایک ریوڑ، ایک حبشی لونڈی جنکا نام برکت تھا اور کنیت ام ایمن،یہی اُم ایمن ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو گود کھلایا تھا
قبر کشائی اور جنت البقیع میں حضرت عبداللہ کی دوبارہ تدفین
مورخہ 21 جنوری 1978ء کو دنیا بھر کے بہت سے اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی توسیع کے لئے کچھ قبروں کو جنت البقیع میں منتقل کیا گیا ھے اُن میں ایک قبر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ کی بھی تھی چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اُن کا نہ صرف جسم مبارک تروتازہ تھا بلکہ ان کا کفن بھی بالکل آصلی حالت میں تھا اس دن پاکستان کے معروف اخبار “ روزنامہ نوائے وقت “ میں بھی یہ خبر شائع ہوئی تھی جس کا متن درج ذیل ہے۔
“کراچی 20 جنوری (ج ، ک) یہاں پہنچنے والی ایک اطلاع کے مطابق مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی توسیع کے سلسلہ میں کی جانے والی کھدائی کے دوران آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کا جسد مبارک جس کو دفن ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، بالکل صحیح و سالم حالت میں برآمد ہوا۔ علاوہ ازیں صحابی رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت مالک بن سونائی اور دیگر صحابہ کرام کے جسد ہائے مبارک بھی اصلی حالت میں پائے گئے جنہیں جنت البقیع میں نہایت عزت و احترام کے ساتھ دفنایا گیا ، جن لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ، ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ صحابہ کرام کے جسم نہایت تروتازہ اور اصلی حالت میں تھے۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد اس کی تائید میں کچھ مضامین بھی شائع ھوئے
جاری ھے ۔۔۔۔۔