یہ ایک عمومی قاعدہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حلال قرار دیا ہے اورجن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ سب بالکل واضح ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں جن اشیاء کا خوف ہے وہ متشابہ امور ہیں۔ پس جو ان متشابہ امور سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اس کا دین محفوظ ہو جاتا ہے بایں طور کہ وہ حرام میں واقع ہونے سے دور ہو جاتا ہے اور اس مشتبہ چیز کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں نے اس کی کردار کشی کرتے ہوئے اس سے متعلق جو باتیں کی تھیں اس سے بھی وہ اپنی عزت کو بچا لیتا ہے۔ جو شخص متشابہات سے پرہیز نہیں کرتا وہ یا تو اپنے آپ کو حرام میں ڈال لیتا ہے یا پھر لوگوں کو اپنی غیبت کرنے اور اپنی عزت و آبرو پر انگلی اٹھانے کا موقع دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے :-
عن النعمان بن بشير رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الحلال بيِّن وإن الحرام بين، وبينهما أمور مُشْتَبِهَاتٌ لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشُّبُهات فقد اسْتَبْرَأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام، كالراعي يرعى حول الحِمى يوشك أن يَرْتَع فيه، ألا وإن لكل مَلِك حِمى، ألا وإن حِمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مُضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب». - متفق عليه
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ، اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو ان میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا (اور اس کی مثال) اس چرواہے کی سی ہے جو چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چراتا ہے اور قریب ہے کہ اس میں گھس جائے اور سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چرا گاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراہ گاہ وہ چیزیں ہیں جو اس کی حرام کردہ ہیں۔ (لہذا ان سے بچو) یاد رکھو انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح رہے گا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوجائے گا، سن لو! وہ دل ہے“۔
متفق علیہ
۔ جو شخص متشابہات کا ارتکاب کرتا ہے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنے اونٹوں یا بھیڑ بکریوں کو کسی اور کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے۔ امکان ہے کہ اس چرواہے کے مویشی اس چراگاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کے اندر جا کر چرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح وہ شخص بھی ہوتا ہے جو ان اشیاء کا ارتکاب کرتا ہے جن میں شبہ ہوتا ہے۔ وہ اسی طرح سے واضح حرام کے قریب پہنچ جاتا ہے اور امکان ہوتا ہے کہ اس میں پڑ ہی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ پاکیزہ اعمال باطنی اعمال پر دلالت کرتے ہیں کہ آیا وہ اچھے ہیں یا برے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے جو کہ دل ہے اس کے اچھا ہونے پر جسم اچھا رہتا ہے اور اس کے بگڑنے پر جسم بھی بگڑ جاتا ہے۔
مشتبہ چیزیں ایک خاص حکم رکھتی ہیں، جس کی شرعی دلیل ہوتی ہے۔ مگر وہاں تک کچھ ہی لوگوں کی رسائی ہوتی ہے، جب کہ اکثر لوگ وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
جو شخص اپنی کمائی، معاش اور اپنے سارے معاملات میں شبہ سے نہیں بچتا، وہ نہ صرف خود کو لوگوں کی نقطہ چینی کا نشانہ بنا لیتا ھے بلکہ اکثر اوقات حرام کا بھی مرتکب ھو جاتا ہے۔
حدیث بالا میں دل کی قدر و منزلت کی تعظیم اور اس کی اصلاح کی ترغیب دلائی گئی ھے کیوں کہ یہ بدن کا حاکم ہے، اسی کی درستگی سے جسم درست رہتا ہے اور اسی کی خرابی سے تمام جسم خراب ہو جاتا ہے۔
حلال وحرام کے اعتبار سے چیزوں کی تین قسمیں ہیں: واضح حلال، واضح حرام اور مشتبہ چیزیں۔
اموردین کی پابندی کرنا اور مشتبہات سے بچنا ، حرام تک پہنچانے والے ذرائع کا انسداد کرنا ایک مسلمان کے لئے ازحد ضروری ھے ۔ شریعتِ مطہرہ میں اس کی بہت ساری دلیلیں موجود ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم مشتبہ اُمور میں بھی کمال احتیاط برتتے تھے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ حدیث مبارکہ میں بیان ھوا ھے
عن عائشةَ -رضي الله عنها-، قالت: كانَ لأبي بكرٍ الصديق -رضي الله عنه- غُلامٌ يُخرِجُ له الخَرَاجَ، وكانَ أبو بكرٍ يأكلُ من خراجِهِ، فجاءَ يوماً بشيءٍ، فأكلَ منه أبو بكرٍ، فقالَ له الغلامُ: تَدرِي ما هذا؟ فقالَ أبو بكرٍ: وما هُو؟ قالَ: كُنتُ تَكَهَّنْتُ لإنسانٍ في الجاهليةِ وما أحسِنُ الكهانَةَ، إلا أني خدعتُهُ، فلَقِيَني، فأعطَانِي لِذلك، هذا الذي أَكَلْتَ منه، فأدخلَ أبو بكرٍ يدَهُ فقاءَ كلَّ شيءٍ في بطنِهِ.
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو انہیں کچھ خراج دیا کرتا تھا اور آپ اس کا خراج کھانے کے کام میں لاتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کھا لیا۔ ان سے غلام نے کہا: آپ کو معلوم ہے یہ کیا چیز تھی؟ آپ نے فرمایا کیا تھی؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں آئندہ ہونے والی بات (کہانت) ایک آدمی کو بتادی تھی حالانکہ میں کہانت سے کوئی شد بد نہیں رکھتا تھا بلکہ میں نے اسے یونہی دھوکہ دیا تھا۔ تو (آج) وہ مجھ سے ملا اور (یہ چیز) اس نے مجھے اسی کے عوض دی ہے اور اسی کو آپ نے کھایا ہے۔اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی انگلی منہ میں ڈال کر پیٹ کی ہر چیز کو قے کر کے نکال دیا۔
اسی طرح روایتوں میں حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی واقعہ مذکور ھے کہ وہ فجر کی نماز کے فوراَ بعد گھر چلے جاتے تھے جب ان سے اس بارے استفسار کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ھمارے ھمسائے کے درخت سے کھجوریں ٹوٹ کر ھمارے گھر میں گر جاتی ھیں مجھے خوف ھوتا ھے کہیں میرے بچے اُن گری ھوئی کھجوروں میں سے کوئی کھجور کھا نہ لیں جو ان کیلئے جائز نہیں ھے اس لئے میں ان کے اُٹھنے سے پہلے پہلے گری ھوئی کھجوروں کو ھمسائے کے گھر میں رکھ دیتا ھوں
اس طرح ھر دور میں امت میں ایسے لوگ موجود رھے ھیں جنہوں نے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر دکھایا مولانا ذکریا صاحب رحمة اللہ علیہ نے علمائے دیوبند کے تقوی کے کئی واقعات قلمبند کیے ھیں جنہیں پڑھ کر ایسا محسوس ھوتا ھے کہ شاید یہ لوگ صحابہ کرام کے دور میں تھے
مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ اپنے استاد مولانا جمشید رحمہ اللہ کا واقعہ بیان فرماتے ھیں کہ “ میں اپنی زمین سے شہد اُتار کر مولانا جمشید صاحب رحمة اللہ علیہ کے لئے لے کر آیا جب میں نے وہ خالص شہد جو ایک کیلو کے لگ بھگ تھا مولانا رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے پوجھا کہ یہ شہد کہاں سے لائے ھو میں نے جواب دیا اپنی زمینوں سے اور یہ بالکل خالص ھے
(اب مولانا جمشید صاحب رحمة اللہ علیہ کی احتیاط ملاحظہ فرمائیں)
انھوں نے مجھے (مولانا طارق جمیل) سے پوچھا کہ کیا تم نے زمینوں میں سے بہنوں کو حصہ دیا ھے تو میں نے عرض کیا جی حضور دیا ھے پھر انھوں نے سوال کیا کہ کیا تمہاری والد صاحب نے بہنوں کو حصہ دیا تھا تو میں نے عرض کیا کہ ان کی کوئی بہن ھے ھی نہیں تھی پھر مولانا جمشید صاحب رحمة اللہ علیہ نے دادا کے بارے میں بھی یہی سوال کیا” یہ تو ماضی قریب ھی کا واقعہ ھے
زمین کو انسان کے لئے رزق کا مسکن بنایا گیا ہے لیکن اس میں ہم اپنے اہل و عیال کے رازق نہیں ہوتے ھمارا اور ھمارے اھل وعیال کا رازق صرف اللہ کی ذات ھے ھم تو محض محافظ ہوتے ہیں ھماری ذمہ داری تو ان تک رزق حلال کو پہنچانا ممکن بنانا ہوتا ہے ساتھ ھی ان کو حلال و حرام کا فرق سمجھانا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خود باشعور ہو جائیں
آج کل مالِ حرام ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ بن چکا ہے اور اکثر لوگ جواز بھی بچوں کو ھی بناتے ہیں کہ جی کیا کیا جائے بچوں کیلئے کرنا ھی پڑتا ھے یہ دنیاداری ھے اسے بھی تو چلانا ھوتا ھے وغیرہ وغیرہ
اللّٰہ کریم ہم سب پر اپنا رحم فرمائے اور ھمیں حلال و حرام میں فرق کرنے اور مشتبہ اُمور سے دور رھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو فکرِ آخرت نصیب فرمائے
آمین یارب العالمین