قسط نمبر (18) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 بعثت سے  پہلے  سچے خواب ، ارہاصات و اشاراتِ نبوت 

خواب اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اور مسلمان  کو اس کے ذریعے بشارتیں ملتی ہیں اور نبی  کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا خواب بھی وحی ھی کی حیثیت رکھتا ھے حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

لم يبق من النبوة إلا المبشرات، قالوا: وما المبشرات؟، قال: الرؤيا الصالحة".

نبوت میں اب مبشرات  کے علاوہ کچھ نہیں  رھا ، صحابہ نے پوچھا کہ مبشرات کیا ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے خواب۔

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشرات ہوتے ہیں اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 

أَنَّ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘ 

(صحیح بخاری)

صحیح بخاری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

الرويا الصالحه من اﷲ

’’نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔‘‘

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر  مبارک کا چالیسواں  سال  تھا ، کہا جاتا ھے کہ انسانی زندگی کا یہی سنِ کمال  ھوتا ہے، یہی عموماً نبیوں  کی بعثت کی عمر ھوتی  ہے. تو  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی  مبارک زندگی کے اُفق پر آثارِ نبوت و رسالت چمکنا اور دمکنا شروع ہوئے۔ یہ آثار خواب کی صورت میں  بھی تھے اور کچھ ارباصات اور اشارات  بھی تھے  جن سے  یہ اندازہ ھو رھا تھا کہ ختمِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کے چاند  کے  پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگانے کا وقت قریب آن پہنچا ھے 

جب اللہ تعالی کسی کو کوئی امتیازی چیز یا مقام دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں چاہے وہ نبوت کا مقام ہو یا وہ دنیا میں کسی انسان سے کوئی خاص کام لینا چاہتے ہوں تو اللہ تعالی اس انسان کے لیے کچھ خاص چیزیں تیار کرتے ہیں اور کچھ خاص فیصلے اس کیلیے کرتے ہیں جو کہ شاید انسان خود بھی نہیں جانتا۔ بی بی مریم  بنت عمران  کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہاں بغیر شوہر کے بیٹا پیدا ہوگا جو کہ نبی بھی ہوگا مگر اللہ تعالی کی پلاننگ دیکھیے کہ بی بی مریم  کی پرورش بچپن سے ہی بالکل الگ طریقے سے کی گئی۔ ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ میرا بیٹا ہوا تو اس کو اللہ کی خاطر وقف کردوں گی لیکن ان کو اللہ تعالی نے بیٹی سے نوازا جنہوں نے اپنی زندگی مسجد کے حجرے میں خلوت میں گزاردی اور نبی کی ماں بنیں۔ ان کے اندر فطرتاً پاکدامنی اور تقوی موجود تھا۔ غرضیکہ جب اللہ تعالی کو کسی سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے پہلے سے خاص انتظامات فرماتے ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔

اسی طرح جب اللہ تعالی کسی کو نبوت عطا کرنے کا لرادہ فرماتے ہیں تو اس کو بچپن سے ہی کچھ امتیازی صفات عطا فرماتے ہیں اور صغیرہ گناہوں سے بھی باز رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بچپن میں کبھی کسی شادی میں نہیں گئے حالانکہ شادیوں میں جانا کوئی گناہ کا کام تو نہیں ہے۔ اسی طرح تب تو شراب حلال تھی لیکن آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کبھی شراب نہیں پی بلکہ ہمیشہ دودھ کو پسند فرمایا۔ اسی طرح قبل نبوت سود بالکل عام تھا لیکن آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے کبھی سود نہیں لیا، ظلم کا نظام عام تھا لیکن آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے کبھی اس میں حصہ نہیں لیا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ایک شادی میں جانے کا سوچا کہ میں دیکھوں گا کہ قریش کی شادیاں کیسی ہوتی ہیں مگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ایسی نیند آگئی کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نہیں جا پائے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ کوئی کھیل تماشہ والے آئے ہوئے تھے تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے کھیل تماشہ دیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر اللہ تعالی نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر نیند طاری فرمادی اور آپ وہ کھیل تماشہ نہیں دیکھ سکے۔

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنه (آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے غلام) بتاتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں دو بت لات اور عزی نصب ہوئے تھے اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  خانہ کعبہ میں عبادت کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ زید بن حارثہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سوچا کہ میں لات اور عزیٰ کو ہاتھ لگا کر دیکھتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے۔ ظاہر ہے وہ بچے تھے اور بچوں کو مختلف اشیاء کو ہاتھ لگا کر محسوس کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ تو انہوں نے کوشش کی کہ اس کو ہاتھ لگائیں مگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کو منع کیا۔ پھر انہوں نے دوسری بار ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دوبارہ منع کیا اور تیسری بار بھی یہی ہوا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی لات اورعزیٰ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اسی طرح ہم نے گذشتہ کسی قسط  میں پڑھا تھا کہ کسی نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کو کہا تو انہوں نے فرمایا کہ میں لات اور عزیٰ کو مانتا ہی نہیں ہوں۔ غرضیکہ نبوت سے پہلے بھی نبی پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بتوں سے بہت دور رہا کرتے تھے اور اللہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو گناہوں اور شرک سے پاک رکھا۔

نبوت سے متعلق  عموماً  اللہ تعالی کی  یہ ایک سنت  رہی ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے نبوت نہیں ملی سوائے چند کے جیسے حضرت عیسی علیه السلام کہ انہوں نے پیدا ہوتے ہی اپنی نبوت کا اظہار کردیا تھا۔ اسی طرح حضرت یحیٰ علیه السلام کو بھی چالیس سال سے پہلے نبوت دی گئی۔ مگر ایک عام روٹین  یہی رہی ہے کہ اکثر انبیاء کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت دی گئی۔ جب اللہ تعالی نے نبوت کیلیے اس خاص عمر کا انتخاب کیا ہے تو ضرور اس میں کوئی حکمت ہوگی۔ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں کہ اس چالیس کے ہندسے میں کیا حکمت ہے مگر یہ بات مسلّم ہے کہ چالیس سال کی عمر انسان  کی میچوریٹی کی انتہا ہوتی ہے۔ انسان کی میچوریٹی اس عمر تک حد کامل کو پہنچ جاتی ہے۔

 کچھ دلائل سے اس چالیس کے ہندسے کی خاصیت کو محسوس کیا گیا ہے  جیسے کہ اگر کوئی چالیس احادیث یاد کر لے تو وہ عالموں میں شمار کیا جائے گا۔ اسی طرح انسان کی تخلیق کا پورا بائیولوجیکل پروسیس بھی چالیس چالیس دن کے فاصلے پر منحصر ہے۔ 

نبی پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو بھی چالیس سال کی عمر میں نبوت سے نوازا گیا۔ نبوت کی ایک نشانی سچے خواب آنا بھی ہے جن کو رؤیہ صالحہ کہا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ سچے خواب آنا نبوت کا چالیسواں حصہ ہے سو جب  رسول کریم۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بعثت کا وقت  قریب آ گیا تو ابتدا میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لگ بھگ چھ ماہ تک سچے خواب نظر آتے رہے۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کوئی خواب دیکھتے تو جو واقعہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم رات کو خواب میں  نیند کی حالت میں دیکھتے وہی واقعہ اپنی پوری جزئیات کے ساتھ بیداری میں پیش آجاتا۔ اور آپ۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا خواب سچا ہو جاتا۔ اس طرح چھ ماہ تک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سچے خواب نظر آتے رہے اس کے بعد وحی کا سلسلہ شروع ہوا

      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے فرماتی ھیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ روز روشن کی طرح پیش آجاتا ،

(صحیح البخاری، صحیح مسلم)

سچے خوابوں کے ساتھ ساتھ  اُس زمانے میں رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کچھ ارباصات بھی پیش آئے اور کچھ نبوت کے اشارات بھی ملے  چنانچہ  روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا:

(إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ، كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الآنَ) 

:میں مکہ میں ایک پتھر کو جانتا ہوں ، وہ میری بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اب بھی اُسے پہچانتا  ہوں۔" 

(صحيح بخاری) 


ایک روایت  میں یہ بھی ہے کہ  ایک مرتبہ دو فرشتے رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مکہ مکرمہ کی ایک وادی میں تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا: "اسے (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ایک آدمی کے وزن سے تولو۔" آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تولا گیا تو حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس سے بھاری رہے حتی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی امت کے ایک ہزار افراد کے مقابلے میں تولا گیا تب بھی  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان سب سے وزنی نکلے۔ اس فرشتے نے کہا: "اگر تم انھیں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ساری  امت کے مقابلے میں بھی  تولو گے تب بھی یہی بھاری رہیں گے۔" پھر ایک نے دوسرے سے کہا: "اس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا پیٹ چیرو۔" اس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا پیٹ  چیرا اور شیطان کا حصہ نکال پھینکا جو خون کے ایک لوتھڑے کی شکل میں تھا، پھر ایک  فرشتے نے دوسرے سے کہا: "ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا پیٹ اچھی طرح دھو ڈالو جیسے برتن دھویا جاتا ہے۔" اس نے خوب دھویا، پھر "سکینت" منگوائی اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دل میں بھردی، پھر ایک فرشتے نے دوسرے سے کہا: "اب پیٹ سی دو۔" اس نے سی دیا، پھر دونوں نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے کندھوں کے درمیان مہر لگادی۔  بعد ازاں وہ دونوں چلے آئے۔ اس دوران آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو یوں محسوس ہوتا رہا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ سارا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ 

(یہ ابن عساکر کی روایت ہے جسے ابن کثیر اور بزار نے روایت کیا ہے)

یہ بھی روایت  ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے رخصت ہوئے، پھر واپس آئے اور انھیں بتایا کہ میرا پیٹ چیرا گیا ہے۔ اسے بڑی صفائی سے دھویا گیا ہے، پھر سی کر حسب سابق بند کردیا گیا ہے۔  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (فرطِ مسرت سے جگمگا کر) کہنے لگیں: "واللہ !  یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ خوش ہوجائیے (کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نبوت ملنے والی ہے۔)"  

(اس روایت کو بیہقی نے اپنی کتاب میں دو سندوں سے نقل کیا ہے)

یہ بھی روایت ھے کہ نبئ کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "مجھے روشنی سی نظر آتی ہے اور میں ایک آواز بھی سنتا ہوں، کبھی کبھی مجھے خیال گزرتا ہے کہ کہیں مجھے جنون تو نہیں؟"  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : "ابن عبد اللہ! ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ آپ سے ایسا سلوک نہیں کرے گا


رسول  اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خواب میں دیکھنا

عن أبي ھریرہ رضی اللہ عنہ قال: قال الرسول الله صلى الله عليه وسلم :منْ رآني في المنامِ فقدْ رآني ، فإنَّ الشَّيطانَ لا يتَمثَّلُ بي

(بخاری ، مسلم )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا ،کیونکہ شیطان میری مثال نہیں بنا سکتا ۔ بخاری کے الفاظ ہیں "لا يتمثَّلُ في صورَتي" میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔


عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ رَّآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَتَخَيَّلُ بِي وَقَالَ : وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ.-  

(صحیح المسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے میری ہی زیارت کی کیونکہ شیطان میری شکل و صورت میں ظاہر نہیں ہوسکتا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس اجزا ء میں سے ایک جزء ہوتا ہے۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ رَّآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَتَمَثَّلُ بِي.

(شمائل ترمزی)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل و صورت نہیں بنا سکتا۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔۔

Share: