*قسط نمبر (15) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


بیت اللہ کی تعمیر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرِ اسود کی تنصیب میں جھگڑے کا فیصلہ

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی  عمر مبارک کا پینتسواں سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع  کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کعبہ پہلے دن سے صرف انسانی قد سے کچھ اونچی چار دیواری کی شکل میں تھا، حضرت اسماعیل علیہ سلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی 9 ھاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ بھی چرا لیا تھا اس کے علاوہ اس کی تعمیر کو ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا عمارت خستگی کا شکار ہو چکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں ایک مرتبہ آچانک آگ لگنے کی وجہ سے بھی دیواریں بہت خستہ حال ھو چکی تھیں ادھر اسی سال مکہ میں ایک زوردار سیلاب آیا جس کا رخ خانہ کعبہ کی جانب تھا اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور یہ خدشہ پیدا ھوگیا کہ بیت اللہ کی عمارت کسی بھی لمحے زمین بوس ھو سکتی ھے  اس لئےقریش مجبور ہو گئے کہ بیت اللہ کا مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لئے اسے از سر نو تعمیرکریں ۔ اس مقصد کے لئے قریش کے بڑے بڑے سردار جمع ھوئے اور مشورے کے بعد یہ طے ھوا کی بیت اللہ کی تعمیر بہت ضروری ھے ان سرداروں نے اس موقعہ پر بیت اللہ کے احترام میں یہ متفقہ فیصلہ بھی کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال مال ہی استعمال کیا جائے گا  ۔ زانیہ کی اجرت، سود و جوا کی آمدنی ، کسی سےناحق لیا ہوا مال  یا کسی طرح کا بھی حرام مال  تعمیر کعبہ میں استعمال نہیں کیا جائے گا  سرداروں نے جب حلال مال اکٹھا کیا تو جمع شدہ وہ مال اتنا نہیں تھا کہ جس سے بیت اللہ کو اس کی اصل بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جا سکے تو  پھر فیصلہ یہ ھوا کہ تعمیرِ کعبہ میں مال تو صرف حلال ھی استعمال ھو لہذا جتنا حلال مال دستیاب ھے اتنا کعبہ کا حصہ تعمیر کر لیا جائے اور باقی حصہ کھلا ھی چھوڑ دیا جائے  سو اسی  فیصلے پر عمل کیا گیا

 نئی  عمارت کی تعمیر کے لیے ظاھر ھے پرانی عمارت کو گرانا  ضروری تھا لیکن کسی کو اسے گرانے  کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ھر کوئی اس بات سے خوفزدہ تھا کہ کہیں  اللہ تعالی کی طرف سے کوئی  عذاب نہ ٹوٹ پڑے بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے اس کی ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا کہ اے اللہ ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ گرا دیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن گرانا  شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک گرا چکے  تو نئی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا 

تعمیرِ کعبہ کے لیے الگ الگ ہر قبیلے کا حصہ مقرر کر دیا گیا  تھا اور ہر قبیلے نے اپنے حصے کی تعمیر کے لئے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگا رکھے تھے، اس طرح تعمیر شروع ہوئی کہ تمام قبائل بیک وقت اس میں شریک تھے ۔  اس تمام کام کی نگرانی باقوم نامی ایک رومی معمار  کر رھا تھا بہرحال قریش  نے مال کی کمی کی وجہ سے شمال کی طرف سے کچھ حصّہ کو تعمیر میں شامل نہیں کیا بلکہ اس پر ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر چھوڑ دی جیسا کہ اب بھی یہ اسی شکل میں موجود ھے خانہ کعبہ کا یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا ہے جو بلا شبہہ بیت اللہ کا ھی حصہ ھے 

جب خانہ کعبہ کی عمارت  کی تعمیر مقامِ حجراسود تک بلند ہوچکی  اور حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے  کا وقت آ گیا تو اس کی تبصیب کے بارے میں قریش کے درمیان جھگڑا ھوگیا۔ہرقبیلہ کا سردار یہ چاھتا تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے ھی حاصل ہو۔یہ جھگڑا پانچ دن تک چلتا رھا اور اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ قریب تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر کرنے والوں  کی تلواریں ایک دوسرے کے ھی خلاف چل پڑتیں اور حرم میں خون خرابہ ہوجاتا۔اتنے میں ایک عمر رسیّدہ شخص ابوامیہ مخزومی نے یہ قریش کے سرداروں کو یہ تجویز پیش کی کہ کل مسجد حرام کے دروازہ سے جو شخص سب  سے پہلے حرم میں  داخل ہو اسے منصف (فیصلہ کرنے والا) مان لیا جائے اور جو وہ فیصلہ کرے اس من و عن عمل کیا جائے سب سرداروں  نے اس تجویز کو پسند کیا اور منظور کرلیا۔ اﷲ تعالیٰ کی مشیت  کہ دوسرے دن سب سے پہلے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھتے ہی پکار اُٹھے۔

ھٰذَا الْاَمِیْنُ رَضِیْنَاہُ ھٰذَا محمّد ( ﷺ)–

یہ امین محمّد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہیں ، ہم ان سے راضی ہیں۔

ذرا سوچنے اور غور کرنے کا مقام ھے کہ جس عزت اورشرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اور خون  سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر اُس زمانے کی رسم کے موافق مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکا تھا اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب پوری طرح مطمئن  تھے 

آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو معاملہ کی تفصیل بتائی گئی تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ایک چادر منگوائی جس میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے دست مبارک سے حجرِ اسود کو  رکھا  پھر تمام قبائل کے سرداروں سے کہا: تم لوگ اس چادرکو کناروں سے پکڑ کر اسے حجر اسود کے مقام تک لے چلو۔ جب وہ  اسے مقامِ حجرِ اسود تک  لے گئے تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔یہ نہایت دانشمندانہ فیصلہ تھا کہ جس پر تمام لوگ راضی ہو گئے اور خون خرابہ ھونے سے بچ گیا۔ اورتمام بوڑھے اورتجربہ کار سردارانِ قریش  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ کی ذہانت، قوتِ فیصلہ اورمنصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں  اس واقعہ میں عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس، اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزٰی، ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عمر بن مخزوم، اور قیس بن عدی السہمی چار اشخاص بہت زیادہ پیش پیش تھے اور کسی طرح بھی دوسرے کے حق میں معاملہ کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے اس فیصلہ سے اب یہ چاروں بھی بہت خوش اور مسرور تھے کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ اگر  خدانخواستہ ملک عرب میں یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقیناً یہ تمام اُن لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اورتباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانہ جاہلیت میں ہوچکی تھیں، رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اس فیصلہ کو  لوگوں میں بہت زیادہ شہرت ملی مکہ شہر اور اس کے قریب وجوار کے لوگ ایک دوسرے کو یہ کہتے ھوئے سنے گئے کہ “بھئ یہ نوجوان محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جسے ھم صرف صادق اور امین ھی سمجھتے تھے وہ تو بہت بڑا معاملہ فہم اور دانشور نکلا ، دیکھا حجر آسود کا معاملہ اس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کیسی خوبی سے نمٹایا ورنہ تو بہت لوگوں کے قتل ھونے کا شدید خطرہ پیدا ھو گیا تھا” ۔

تعمیرِ ابراھیمی میں بیت اللہ کے دو دروازے بنائے گئے تھے جو زمین کے برابر رکھے گئے تھے تاکہ لوگ ایک دروازے سے اندر داخل ھوں اور دوسرے دروازے سے باھر نکلیں اور اب تک ایسا ھی ھوتا تھا  لیکن قریش نے بیت اللہ کی اس تعمیر میں تین بنیادی تبدیلیاں کر دیں  ایک تو یہ کہ دو کی بجائے ایک ھی دروازہ بنایا اور دوسری تبدیلی یہ کہ  خانہ کعبہ کا شمالی حصہ بیت اللہ سے باہر کر دیا  جس کی وجہ حلال مال کی عدم دستیابی تھی  تیسری  اور اھم تبدیلی یہ کہ دروازہ تقریباً دو میٹر اُونچا رکھا گیا  تاکہ کوئی بھی شخص ان کی اجازت کے بغیر بیت اللہ میں داخل نہ ہو سکے۔ چنانچہ اس بارے  حدیثِ مبارکہ ھے

عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن الجدر امن البيت؟ , هو قال: نعم، قلت: فما لهم لم يدخلوه في البيت؟ , قال: إن قومك قصرت بهم النفقة، قلت: فما شان بابه مرتفعا؟ , قال: فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا، ولولا ان قومك حديث عهدهم بالجاهلية فاخاف ان تنكر قلوبهم ان ادخل الجدر في البيت، وان الصق بابه  بالارض

 ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کر دیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا۔

(صحیح بخاری)


تعمیرِ خانہ کعبہ کی مختصر تاریخ 

تفاسیر و تواریخ کی کتابوں کی مطابق  بیت اللہ کی تعمیر  کم و بیش دس مرتبہ ہوئی۔


پہلی تعمیر:

 سب سے پہلے خانۂ کعبہ فِرِشتوں نے تعمیر کیا۔


دوسری تعمیر:

دوسری مرتبہ بحکم الٰہی حضرت سیدنا آدم علیہ  السَّلَام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی، حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے خط کھینچ کر جگہ کی نشاندہی کی، 


تیسری تعمیر:

 تیسری مرتبہ خانۂ کعبہ کو حضرت شیث بن آدم عَلَیْہِمَا السَّلَام نے  تعمیر فرمایا۔ (بعض روایات کے مطابق آپ نے صرف خانہ ٔکعبہ کی مَرمَّت  کا کام کیا تھا)


چوتھی تعمیر :

طوفانِ نوح کے  وقت خانۂ کعبہ کی عمارت منھدم  ھو گئی تھی  اوریہ جگہ ایک اونچے ٹِیلے کی مانند رہ گئی تھی، پھراُسی بنیاد پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ ٔکعبہ کو تعمیر فرمایا جس  میں پتھر اٹھاکر لانے کا کام حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام نے سرانجام دیا،


 پانچویں تعمیر :

 خانۂ کعبہ کو پانچویں بار قوم عمالقہ نے تعمیر کیا 


چھٹی تعمیر: 

 چھٹی مرتبہ بیت اللہ کو قبیلہ جُرْہُم نے تعمیر کیا۔ قبیلہ جُرْہُم میں  سے جس شخص نے یہ کام کیا اُس کا نام حرث بن مُضاض اصغر تھا۔ 


ساتویں تعمیر: 

ساتویں دفعہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سلسلۂ نسب کے ایک بزرگ حضرت قُصَی بن کِلاب نے  خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اَز سرنو  بے مثال عمارت بنائی۔ 


آٹھویں تعمیر

سیلاب کی وجہ سے خانۂ کعبہ کی دیواریں کمزور ہوگئیں تومکۂ مُکرّمہ کے معززقبیلے قریش نے اِسے دوبارہ تعمیر کیاجس میں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی شریک  ہوئے۔ (حلال سرمایہ  کم ہونے کے باعث قریش کی تعمیر میں حطیم  کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ 


نویں تعمیر :

یزیدی فوج کی سَنگ باری سے  جب خانۂ کعبہ کی دیواریں شِکستہ ہوگئیں توحضرت عبداللہ  بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حطیم (جو کہ قریش کی تعمیر میں شامل نہ کیا گیا تھا)  اس کو  خانہ کعبہ میں شامل کر کے بنیادِ ابراہیمی پر نئے سِرے سے تعمیرکیا اور اس کیے دو دروازے رکھے گئے۔


دسویں تعمیر:

عبدُالمَلِک بن مروان کے حکم پر اس کے گورنر حجاج بن یوسف نے 74ہجری میں پھر سے  خانۂ کعبہ کو قریش والی تعمیر کے مطابق بنادیا جیسا کہ یہ آج موجود  ھے

قرآن پاک  میں اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر کا ذکر  فرمایا چنانچہ  فرمان الٰہی ہے :

وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُO

اور جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں بلند کررہے تھے(یہ دعا کرتے ہوئے) اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔


اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّـذِىْ بِبَكَّـةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ O

بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے۔


فِيْهِ اٰيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ اِبْـرَاهِـيْمَ ۖ وَمَنْ دَخَلَـهٝ كَانَ اٰمِنًا ۗ وَلِلّـٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّـٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعَالَمِيْنَ O 

اس میں ظاہر نشانیاں ہیں (اور) مقام ابراھیم ہے، اور جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے، اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو، اور جو انکار کرے تو پھر اللہ جہان والوں سے بے پرواہ ھے

جاری  ھے ۔۔۔

Share: