حلف الفضول کا آمن معاہدہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اس میں شرکت
جنگِ فجار کے بعد اسی حرمت والے مہینے یعنی ذوالقعدہ میں “حلف الفضول “ کا ایک آمن معاہدہ طے پایا ۔ چند قبائل جن میں بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ ، بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ شامل تھے نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے کیونکہ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا ۔ وھاں پر مذکورہ بالا قبائل نے آپس میں عہد وپیمان کیے کہ مکہ مکرمہ میں ھمیں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ وہ مکے کا رہنے والا ھو یا کہیں باھر کا ، یہ سب قبائل اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) فرمایا کرتے تھے۔ میں (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلایا جاتا تو میں بخوشی اس پر لبیک کہتا۔
اس معاہدے کی روح چونکہ عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے خلاف تھی اور اُس وقت معاشرے میں عصبیت اپنے عروج پر تھی اس لئے کچھ قبائل نے جو عصبیت سے دست بردار نہیں ھونا چاھتے تھے، اس کی مخالفت کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن چونکہ اس معاہدے میں شامل قبائل بھی کافی طاقتور اور اثر ورسوخ کے مالک تھے اس لئے بہت سے قبائل کی مخالفت کے باوجود یہ معاہدہ مکہ مکرمہ میں نافذ ھو گیا
اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا رھنے والا ایک شخص تجارت کا سامان لے کر مکہ مکرمہ آیا تھا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ زبیدی کا حق روک لیا بلکہ طاقت کے بل بوتے پر زبردستی اُس کی بیٹی کو کنیز بنا کر اپنے گھر لے گیا ۔ زبیدی نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے بھی اس کی داد رسی نہ کی ۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی مظلومیت کی داستان درد بھرے لہجے میں بیان کی ۔ اس کا فوری نتیجہ برآمد ھوا اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص مکہ مکرمہ میں بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوششوں سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل ایک جگہ جمع ہوگئے ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی ان میں پیش پیش تھے۔ پہلے معاہدہ طے پایا اور بعد میں پھر ان قبائل کے یہ لوگ عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلوانے کے لئے اس زبیدی کو اپنے ساتھ لے کر عاص بن وائل کے دروازے پر پہنچے۔ عاص بن وائل کو باہر بلایا گیا اور سب نے یک زبان ھو کر کہا کہ اس مظلوم پر تم نے کیوں ظلم ڈھایا ہے؟ اس ظالم نے کہا: مَیں نے کوئی ظلم نہیں کیا، وہ لڑکی میری کنیز ہے۔ کیونکہ میں نے جب مال کا سودا کیا تھا تو اس سودے میں یہ لڑکی بھی مَیں نے اِس شخص سے خرید لی تھی۔ عاص بن وائل کا جواب سن کر وفد کے لوگوں نے زبیدی سے وضاحت مانگی تو اس نے کہا: خانہ کعبہ کی عظمت وتقدس کی قسم! مَیں نے اپنی لڑکی نہیں بیچی ہے اور نہ ہی وہ کنیز ہے بلکہ وہ میری بیٹی ہے اور اس شخص نے اپنی قوت کے بل بوتے پر زبردستی اسے اغوا کرکے اپنے گھر میں ڈال لیا ہے۔ اس پر وفد کے لوگوں نے سختی کے ساتھ عاص بن وائل سے بات کی تو اس بدبخت نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور پھر اُسے زبیدی کا حق اور اس کی لڑکی اسے واپس دینا پڑی۔
رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و آصحابہ وسلم کی برکت سے معجزۂ بارانِ رحمت
ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کیا ہے کہ میں مکہ مکرمہ آیا۔ اس زمانے میں عرب کے لوگ شدید قسم کے قحط سے دوچار تھے۔ کیونکہ پورے عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا تھا اہلِ مکہ کے کچھ لوگوں نے بارش کے لئے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردارانِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ اللہ تعالی سے بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور وہ حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ دعا کے درمیان حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا۔ ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط ختم ھو گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا
چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے
وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه
ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ
یعنی وہ (حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانہ اور بیواؤں کے نگہبان ہیں
(زرقانی علی المواهب )
نبوت سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ وسلم کے کاروباری مشاغل
یہ بات تو متواتر روایات سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نبوت سے پہلے بنی سعد کی بکریاں چرائیں اور آپ مکہ مکرمہ میں بھی قریش کی بکریاں اُجرت پر بھی چراتے رہے تاھم یہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا کوئی باقاعدہ معاشی پیشہ نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا آصل خاندانی پیشہ تجارت ھی تھا چونکہ جزیرہٴ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ تھا جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے؛ اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا ویسے بھی جزیرہٴ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا؛ اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سفر کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرہٴ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انھیں کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا تھا اور اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں ھی لگائے رکھتا تھا ۔ قافلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے تھے ۔
یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت زیادہ آسودہ حال تھے، ان میں سے قبیلہٴ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا؛ بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں سورہ قریش میں دی ھے چنانچہ ارشاد فرمایا:
﷽
لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ O
اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ O
فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙO
الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ O
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے
اس لیے کہ قریش کو مانوس کر دیا (1)
ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے باعث (2)
ان کو اس گھرکے مالک کی عبادت کرنی چاہیے (3)
جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور ان کو خوف سے امن دیا (4)
اُس زمانے میں چین و دیگر ممالک کی تجارت جزیرہ عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی قریش عرب کی تجارت پر حاوی رھتے تھے ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں نے تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور رحلةَ الشتاء والصیف کے باعث وہ شمال و جنوب کے قلابے ملاتے رہتے تھے ۔
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خانوادہٴ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی۔ لہٰذا ظاھر ھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے ؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھتے تھے اسی محبت کی بنا پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے ۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بچپن ہی میں ابوطالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے، جس سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تجارت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعہٴ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا تھا اور آپ جناب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تجارت کی غرض سے شام و بصرہ اور بحرین و یمن کے سفر فرمائے اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے شرکاء اور تمام اہل بازار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں، ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر صادق اور امین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ مکرمہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے؛ بلکہ سب سے پہلے انھوں نے ہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تاجرِ امین کے لقب سے نوازا تھا ۔
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا تجارت کا طریقہ کار
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا بھی کرتے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ایک معاملہ کیا ۔ میرے ذمے کچھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دینا باقی تھا میں نے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) یہاں ٹھریں میں ابھی لے کر آتا ہوں ۔ اتفاق سے گھر جانے کے بعد میں اپنا وعدہ بھول گیا، تین روز بعد مجھے یاد آیا کہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فورا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مکان پر پہونچا معلوم ہوا کہ دو روز گذرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے، گھر والے خود پریشان ہیں، میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تلاش کیا لیکن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہیں نہ ملے تو احتیاطا وعدہ گاہ پر پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ”یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا ھٰھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ“
(سنن أبي داؤد)
کہ ارے بھائی! تونے مجھے زحمت دی میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں۔(سیرة المصطفیٰ )
تجارت میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ بالکل صاف رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا شریکِ تجارت تھا، جب ھجرت کے بعد مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! کُنْتُ شَرِیْکِيْ فَنِعْمَ الشَّرِیْکُ لاَتُدَارِيْ وَلاَ تُمَارِيْ
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ (سیرة المصطفیٰ)
قیس بن سائب مخزومی فرماتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میرے شریک تجارت تھے ”وَکَانَ خَیْرَ شَرِیْکٍ لَایُمَارِيْ وَلَایُشَارِيْ“ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا)
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے کاروبار کے ایک اور ساتھی کا نام ابوبکر تھا وہ بھی مکہ مکرمہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔(سیرة النبی)
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضورآکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی اپنا سامانِ تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دیانت داری کی بنا پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بیس اونٹ لائے؛ مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے ۔ فارغ ہوکر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے ۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خریداروں کا پتہ دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دیے ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں، وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا، ہم وہاں تین دن تک محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا بھی ہے، سودا کرتے ہوئے میرا ملازم آپ لوگوں کو بتانا بھول گیا تھا، اب آپ وہ اونٹ مجھے واپس دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انھیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا؛ مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا پہچان لیا اور اُن سے اونٹ لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بیرون تجارت میں بھی بھرپور حصہ لیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مکہ مکرمہ میں بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔ الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے اس کئے ہر قسم کا تجارتی تجربہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو حاصل ہوچکا تھا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا؛ مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے، یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے تھے افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا تھا ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم تھے ، وہ ان سے اپنی بات منواسکتے تھے ، یہی روٴسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ”الصادق یا الامین“ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے، یہ دو لفظ یہاں تک لوگوں کی زبانوں پر چڑھ گئے تھے کہ انھوں نے ایک اعتبار سے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی تھی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نام سے زیادہ انہیں القاب سے مکہ مکرمہ میں پہچانے جانےلگے تھے ۔
جاری ھے