قرآن پاک میں اللہ پاک نے کئی قوموں کا ذکر فرمایا ھے جن کی سرکشی اور اپنی پہلی قوموں کی تباھی و بربادی سے عبرت نہ پکڑنے کی وجہ سے اُنھیں تباہ و برباد کر دیا گیا چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنَاهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَاۖ وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَـةٍ وَّّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ O
اَفَلَمْ يَسِيْـرُوْا فِى الْاَرْضِ فَتَكُـوْنَ لَـهُـمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْـمَعُوْنَ بِـهَا ۖ فَاِنَّـهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِى الصُّدُوْرِ O
(سورہ الحج)
پس کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا اور وه ظالم تهیں- پس اب وه اپنی چهتوں پر الٹی پڑی ہیں اور کتنے ہی بیکار کنوئیں اور کتنے پختہ محل جو ویران پڑے هوئے ہیں- کیا یہ لوگ زمین میں چلے پهرے نہیں کہ ان کے دل ایسے هو جاتے کہ وه ان سے سمجهتے یا ان کے کان ایسے هو جاتے کہ وه ان سے سنتے- کیونکہ آنکهیں اندهی نہیں هوتیں بلکہ وه دل اندهے هو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں-
اللہ تعالی کے نزدیک دیکهنے والے وه لوگ ہیں جو عبرت اور نصیحت کی نظر سے چیزوں کو دیکهیں- جن لوگوں کا حال یہ هو کہ وه واقعات کو دیکهیں مگر اس سے نصیحت نہ لے سکیں وه اللہ تعالی کے نزدیک اندهے ہیں- ان کا دیکهنا جانوروں کا دیکهنا ہے نہ کہ انسان کا دیکهنا-
اللہ تعالی نے زمین پر نصیحت کے بے شمار سامان پهیلا دئے ہیں- انهیں میں سے ایک وه قدیم یادگاریں ہیں جو پچهلی قوموں نے دنیا میں چهوڑی ہیں- یہ قومیں کبهی عظمت و اقتدار کا مقام حاصل کئے هوئے تهیں- مگر آج ان کا نشان ٹوٹے هوئے کهنڈروں کے سوا اور کچهہ نہیں-
یہ واقعات ہر انسان کو اس کا انجام یاد دلا رھے ھیں مگر جب لوگ دل والی آنکھ کهو دیں تو سر کی آنکھ انهیں کوئی بهی بامعنی چیز نہیں دکهاتی-
ان گزری ہوئی قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر تھوڑا غور کر لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ ایسی کون سی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے، اب بھی طوفان، زلزلے، سیلاب آتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی سائنسی تحقیقات پر غور کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوں ان کا تماشا دیکھا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا، توبہ کی طرف راغب ہونا، بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنا، برے اعمال چھوڑ دینا، نیک اعمال میں مشغول ہوجانا، ظلم و ستم ، دھوکہ اور بددیانتی کو چھوڑ دینا یہ سب کچھ پھر بھی نہیں کیا جاتا بلکہ افسوس !ہمارے دل کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ طوفان کا سن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے خوشی خوشی ساحل سمندر کی طرف طوفان کا نظارہ کرنے دوڑتے ہیں ،گویا آنے والے طوفان جوممکن تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ہوں اسے بھی اپنی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ،زلزلہ یا سیلاب کی تباہی دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے ان مصیبت زدوں کی جان و مال اور عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالنے لگ جاتے ھیں ۔ ان مصیبت کے ماروں کے لئے جو امداد اکٹھی کی جاتیھے وہ بھی رقص و سُرور کی محفلیں سجا کر، بے حیاء عورتوں کے ڈانس دکھا کر ، فحش اور گندے گانے سنا کر جمع کی جاتی ھے اللہ تعالیٰ ہمیں پوری قوم کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ بادل، آندھی وغیرہ کو دیکھ کر سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک کیا تھا اسے اِس حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز آندھی کو ملاحظہ فرماتے اور جب بادل آسمان پر چھا جاتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیَّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے ، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’ اے عائشہ رضی اللہُ تَعَالٰی عَنْھا! مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔
شعب الایمان
عبرت حاصل کرنا اور سبق آموزی روشن ذہنوں کا خاصہ ہے، عبرت حاصل کرنا تجربہ کاری اور بصیرت کی علامت ہوتی ہے، دوسروں سے سبق حاصل کرنے کا عمل انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور تباہی سے نجات دلاتا ہے، اس کی وجہ سے عبرت پکڑنے والا شخص مثبت اقدامات کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ نیز اس سے انسان کو نیک اور باصلاحیت لوگوں کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے، اور اس کے لیے نتائج مثبت برآمد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو سبق حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تو اس کو سمجھانا بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا، آخر کار وہ تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے اور ہوس پرست بن جاتا ہے، ایسا شخص منفی سوچ کے حاملین کے پیچھے چلتا ہے اور اپنے آپ کو پشیمان ہونے والوں میں شامل کر لیتا ہے۔
عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: حالیہ یا ماضی کی اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر، اِن کے اسباب سے بچتے ہوئے بہتری کی جانب بڑھنا، یا پھر صالحین کی سیرت اور اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والے انعامات دیکھ کر ان کے طور طریقے کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دینے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔ یا پھر مخلوقات کی ماہیت، پر اسرار رازوں اور صفات کو معلوم کر کے انہیں ایک خالق کی بندگی پر کار بند کرنے کی حکمت معلوم کرنا اور اسی کی اطاعت اور بندگی پر کاربند رہنے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے انبیائے کرام، رسولوں اور اہل ایمان کے قصے بیان کیے ہیں، ان میں ہمارے لیے بہت زیادہ اسباق اور بعد میں آنے والوں کے لیے عملی نمونے ہیں، ان کے باعث عذاب سے نجات مل سکتی ہے اور کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، انجام بھی اچھا ہو سکتا ہے اور درجات بھی بلند ہو سکتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے
لَقَدْ كَانَ فِىْ قَصَصِهِـمْ عِبْـرَةٌ لِّاُولِى الْاَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَـرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَىْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْـمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُـوْنَ O
ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ سابقہ کتابوں کی تصدیق ہے ، یہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
سورہ یوسف)(
جبکہ جھٹلانے والوں کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِـمْ اَنَّا دَمَّرْنَاهُـمْ وَقَوْمَهُـمْ اَجْـمَعِيْنَ O
فَتِلْكَ بُيُوتُهُـمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوْا ۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُوْنَ O
وَاَنْجَيْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَكَانُـوْا يَتَّقُوْنَ O
دیکھ! ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم سمیت سب کو غارت کر دیا، یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ جانتے ہیں ان کے لیے اس میں بڑی نشانی ہے۔ اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور متقی تھے۔
النجم
اس لیے تاریخی واقعات اور حالات سے وہی لوگ عبرت اور سبق حاصل کرتے ہیں جو نیک لوگوں کی راہ پر گامزن ہوں اور بہتری چاہتے ہوں، نیز برائی اور برے لوگوں سے دور ہوں۔ جبکہ ایسے لوگ جو عبرت حاصل نہ کریں، نصیحت نہ پکڑیں، محاسبہِ نفس نہ کریں، اپنی آخرت سنوارنے کیلیے کوئی اقدامات نہ کریں، ان کی عقل یا ان کا دین قبیح کاموں اور گناہوں سے نہ روکے تو وہ جانوروں جیسے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُـمْ يَسْـمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ ۚ اِنْ هُـمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ ۖ بَلْ هُـمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا O
کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو بالکل چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ [الفرقان: ]
جس طرح اللہ تعالی نے ہمیں انبیائے کرام اور اہل ایمان کے واقعات بتلائے کہ ہم ان کے راستے پر چلیں اور نجات کا راستہ اپنائیں، ان کی سیرت سے سیکھیں اور ان کے حالات و واقعات کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں، تو اسی طرح اللہ تعالی نے حق جھٹلانے والوں، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم لوگوں کے حالات بھی بیان کیے ہیں، جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، ہوس پرستی میں مگن رہے ان کا تذکرہ اس لیے کیا کہ ہم ان کو ملنے والی سزاؤں سے عبرت حاصل کریں، انہیں دنیا اور آخرت میں جو عذاب جھیلنے پڑیں گے، ان سے سبق حاصل کریں، ان پر پڑنے والی پھٹکار سے بچنے کی کوشش کریں۔
مخلوقات کی فطرت سے سبق حاصل کرنا، ان کی صفات اور رنگ ڈھنگ سے نصیحت لینا، ان کی بےمثال تخلیق پر غور و فکر کرنا، ان تمام امور کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار مزید پختہ ہو، عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالی کی ہو؛ کیونکہ جو پیدا کرتے وقت اکیلا تھا وہی تنہا معبودِ برحق بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاِنَّ لَكُمْ فِى الْاَنْعَامِ لَعِبْـرَةً ۖ نُّسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِىْ بُطُوْنِهٖ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّـبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّارِبِيْنَ O
تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ میں موجود گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتا پچتا ہے. [النحل: 66]
اسی طرح فرمایا:
يُقَلِّبُ اللّـٰهُ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَعِبْـرَةً لِّاُولِى الْاَبْصَارِO
اللہ تعالی ہی دن اور رات کو رد و بدل کرتا رہتا ہے، آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔ [النور: 44]
غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے متردد دل بھی ثابت قدم ہو جاتا ہے اور دل کو جِلا ملتی ہے، بصر و بصیرت منور ہو جاتی ہیں، نیز رہن سہن صحیح ہو جاتا ہے۔
جبکہ غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے روگردانی پر دل سخت ہوتے ہیں، غفلت پیدا ہوتی ہے، انسان پشیمانی کی جانب گھسٹتا چلا جاتا ہے اور گناہ سر زد ہوتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غفلت شیطانی راہ ہے۔
اللہ پاک ھمیں جنت کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق عنایت فرمائے اور اپنی رحمت کے صدقے جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل سے ھماری حفاظت فرمائے
آمین یا ارحم الراحمین