خوفِ خدا کی تعریف :
خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر ، آگ سے جل جانے کا خوف، پانی میں ڈوب جانے کا خوف وغیرہ وغیرہ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے
ایٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ)
(الاحزاب)
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِO
(الرحمن)
اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’حکمت کی اصل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف ہے۔
رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا: ’’اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے بہت ڈرتے رہنا
خوفِ خدا تمام نیکیوں اور دنیا وآخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے، خوفِ خدا جہنم سے نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔
حضرت امام محمد غزالیؒ کی تحقیق کی روشنی میں خوف کے تین درجات ہیں۔
(۱) ضعیف:
یہ وہ خوف ہے جو انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سن کر محض جھرجھری لے کر رہ جانا اور پھرسے غفلت ومعصیت (گناہ)میں گرفتار ہوجانا
(۲) متوسط:
یہ وہ خوف ہے جو انسان کو نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو، مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لیے عملی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ربّ تَعَالٰی سے اُمید رحمت بھی رکھنا۔
۳) قوی:
یہ وہ خوف ہے جو انسان کو ناامیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کردے، مثلاً اللہ تَعَالٰی کے عذاب وغیرہ کا سن کر اپنی مغفرت سے ناامید ہوجانا۔
اِن سب میں بہتر درجہ ’’متوسط ‘‘ ہے
ایک روایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے- (الجامع الصغیر للسیوطی)
یہ حدیث انسانی فطرت کی ایک حقیقت کو بتاتی ہے- وه حقیقت کسی کے اندر صرف کتابوں کے مطالعے کے ذریعے نہیں آتی، حکمت کے لیے ایک اور چیز لازمی طور پر ضروری ہے اور وه اللہ کا خوف ہے- خوف خدا کے بغیر آدمی صاحب علم تو بن سکتا ہے، لیکن وه صاحب حکمت نہیں بن سکتا- اس کا سبب یہ ہے کہ حکمت کے لیے معلومات کے علاوه، ایک اور چیز ضروری ہے اور وه کامل حقیقت پسندی ہے- کامل حقیقت پسندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی تواضع کی کامل حد پر پہنچ چکا هو اس تواضع کو وجود میں لانے کا راز صرف ایک ہے اور وه کامل معنوں میں اللہ کا خوف ہے-
کوئی انسان جب دوسرے انسانوں کے درمیان هوتا ہے تو ہر انسان اس کو اپنے ہی جیسا ایک انسان دکهائی دیتا ہے- اس بنا پر کسی انسان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وه دوسرے انسان کو متواضع انسان بنا سکے- یہ صرف قادر مطلق خدا پر کامل ایمان اور خوف کے ذریعے حاصل هوتا ہے- انسان کی اس فطرت کی بنا پر اس معاملے میں صحیح فارمولا یہ ہے کہ قادر مطلق خدا پر کامل یقین اورخوف کا ھونا یعنی انسان کا کٹ ٹو سائز هونا، کٹ ٹو سائز انسان کے اندر کامل درجے میں حقیقت پسندی کا آنا اور کامل حقیقت کی بنا پر چیزوں کو ویسا ہی دیکهنا جیسا کہ وه فی الواقع ہیں- یہی وه حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس کے نتیجے کا نام حکمت ہے- کسی انسان کے اندر یہ صفت ہمیشہ خدا کی نسبت سے پیدا هوتی ہے ، لیکن انسان چونکہ سماج کے اندر رہتا ہے، اس لیے اس صفت کا عملی ظہور انسان کی نسبت سے هوتا ہے- انسان کی نسبت سے اس صفت کے ظہور ہی کا دوسرا نام حکمت ہے-
اللہ تعالی کاخوف ہی دراصل اللہ پرکامل ایمان ہونے کاٹھوس ثبوت اورآخرت کی زندگی میں ملنے والے اجر کی اہم نشانی ہے ۔ آخرت کی زندگی میں خود کو نارِ جہنم سے محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ خوف ِ الٰہی اورپرہیز گار ی کو اختیار کرنے میں ہے ۔روز ِحساب ایک ایسی خوفناک حقیقت ہے جس سےبچنا ناممکن ھے اور جس کے بارے میں خصوصی طور پر غور وفکر کرنالازم ہے۔ تاہم یہ خوف صرف ایمان والوں کونصیب ہوتاہے اور یہ ایک خاص قسم کاخوف ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات اور نبی کریم ﷺ نےاحادیث میں روزِ قیامت پیش آنے والے مختلف واقعات بیان کردیئے ہیں ۔دنیا کی مختصر سی زندگی میں انسان جوکام بھی کرتا ہے اس کے اعمال نامے میں لکھا جارہا ہے ۔ اورہر انسان اس دن کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جب انسان کواللہ کےحضور پیش ہوکر اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چنانچہ اہل ایمان کو یہ امید کرنی چاہیےکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں میں شامل کردے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئےاس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی چیز ہے ۔ جسے یہ دولت حاصل ہوگی وہ بہت بڑا خوش نصیب ہے ۔ جس کےدل میں خوف الٰہی ہوگا وہ گناہوں سے دور رہے گا اوراس کےلیے بڑے بڑے درجات ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ(سورۃ الرحمن:46) یعنی جو شخص قیامت کےدن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کاڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اوراپنے تئیں نفس کی خواہشوں سےپچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا ہے۔ زندگانی کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا ،بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہےاور اسے بہتر اور پائیدار سمجھتا ہے ۔ فرائض بجا لاتا ہے۔محرمات سےرکتا ہے قیامت کےدن اسے ایک نہیں بلکہ دو جنتیں ملیں گی۔اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کواپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ ،پرہیزگاری پیدا کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔
خوفِ خدا کا نہ ہونا یا انتہائی کم ہونا انسان کو بے باکی اور گناہوں پر جری کر دیتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’
اِنَّمَا يَخْشَى اللّـٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَآءُ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ (28)
بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ غالب بخشنے والا ہے
(سورۃ فاطر )
آئیے قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کی تعلیمات کی روشنی میں خوفِ خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آیات قرآنیہ
وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
(سورۃ آلِ عمران )
ترجمہ: اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ
(سورۃ البقرہ)
ترجمہ: اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖجَنَّتٰنِ
(سورۃ الرحمن)
ترجمہ: اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَرَبَّھُمْ بالْغَیْبِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ
(سورۃ الملک)
ترجمہ: بے شک جو لوگ بن دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔
وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ
(سورۃ آل عمران)
ترجمہ: اور اللہ تمہیں اپنی ذات (کے غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (سورۃ الانفال)
ترجمہ: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکل کرتے ہیں۔
ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ (سورۃ الاعراف)
ترجمہ: ہدایت اور رحمت ہے ان کیلئے جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔
آحادیثِ مبارکہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ تم میں سے سب سے بڑھ کر کامل عقل والا وہ ہے جو ربّ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی میں زیادہ غور کرتا ہے۔‘‘
جس مومن کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو نکلے اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان)
جب مومن کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ اس کیلئے دو امن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کر دوں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔‘‘ (شعب الایمان)
یہ ایک حقیقت ھے کہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر شے سے خوف زدہ کردیتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ِتوجہ ہے کہ ایک مسلمان کے اندر اللہ کے خوف کے ساتھ لوگوں کا خوف بھی ہوتا ہے لیکن اس کا گناہوں سے خود کو روکنا صرف اللہ کی ناراضی کے خوف سے ہونا چاہیے نہ کہ لوگوں کی ملامت اور طعن و تشنیع سے بچنے کیلئے۔ اپنے پوشیدہ اعمال (عبادات) ظاہر نہیں کرنے چاہیں یعنی اپنی نیتوں اور اعمال کا دھیان رکھنا چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا ۚ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ (44)سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں
(۔ (المائدہ
اگر ایک بندہ اس سلسلے میں اپنے اعمال کی حفاظت نہیں کرتا تو اس طرح کے لوگوں کیلئے غنیۃ الطالبین میں ایک روایت ھے
حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت کرتے ھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن چند دوزخیوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہوگا۔ یہ دوزخی جب جنت کے قریب پہنچیں گے اور اس کی خوشبوسونگھیں گے، وہاں کے محلات دیکھیں گے اور ان چیزوں کا مشاہدہ کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کیلئے تیار کی ہیں تو یکا یک ندا آئے گی ’’انہیں واپس کردو ان کا یہاں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔ اس وقت وہ ایسی حسر ت و پشیمانی کے ساتھ واپس ہوں گے کہ ایسی حسرت و پشیمانی سے کبھی نہ لوٹے ہوں گے۔ وہ کہیں گے ’’پروردگار! تو نے اپنے دوستوں کیلئے جو نعمتیں فراہم کی ہیں وہ ابھی ہم نے صحیح طرح سے دیکھی بھی نہیں تھیں کہ ہمیں دوزخ میں داخل کر دیا گیا ‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ میری یہی مشیت تھی۔ تم تنہائی میں اور لوگوں کے سامنے اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتے تھے اور ان کے سامنے عاجزی اور تواضع کا اظہار کرتے تھے جبکہ تمہارے دل میں اس کے برعکس ہوتا تھا، تم لوگوں سے تو ڈرتے تھے لیکن میرا خوف تمہیں نہیں آیا۔ تم لوگوں کو بڑا سمجھتے تھے لیکن مجھے بڑا نہیں جانا۔ تم نے لوگوں کی وجہ سے برے کام ترک کر دیے لیکن میرے ڈر سے برے کام ترک نہیں کئے۔ اس لیے آج میں تمہیں ثوابِ عظیم سے محروم رکھوں گا اور تم پر اپنا عذاب مسلط کروں گا۔‘‘(غنیۃ الطالبین)
اقوال بزرگانِ دین
(1)حضرت عبدُاللہ بن عَمْرْو بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہمَا فرماتے ہیں : خوب روؤ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت ہی بنالو۔ اس ذات کی قسم!جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے !اگر تم میں سے کسی شخص کو حقیقتِ حال کا علم ہوجائے تو وہ(خوفِ خدا کے سبب)اس قدر چیخیں مارے کہ اس کی آواز ختم ہوجائے اور نماز کی اتنی کثرت کرے کہ اس کی کمر جواب دے جائے۔ (احیاء العلوم )
(2)حضرت عبدُاﷲ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہمَا فرماتے ہیں : اللہکریم کے خوف سے میرا ایک آنسو بہانا میرے نزدیک پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (احیاء العلوم )
(3)حضرت کعبُ الاَحبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضَۂ قدرت میں میری جان ہے! میں اللہ کریم کے خوف سے روؤں یہاں تک کہ میرے آنسو گالوں پر بہیں یہ میرے نزدیک پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (احیاء العلوم )
4-حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں ’’لوگ اس وقت تک راہِ راست پر ہی ہوتے ہیں جب تک ان کے دل سے خوفِ خدا نہیں نکلتا اور جب نکل جاتا ہے تو وہ راستہ ہی گم کر بیٹھتے ہیں‘‘۔
5- حضرت حاتم الاصمؒ فرماتے ہیں کہ ہر شے کیلئے کوئی چیز خوبصورتی کا باعث ہوتی ہے اور عبادت کی خوبصورتی خوفِ خدا کی بنا پر ہوتی ہے اور پھر خوف کی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان لمبی امیدیں نہ لگائے۔
اللہ کے خوف سے تمام انبیا اور اولیااللہ یوں پگھلتے ہیں جیسے سونا کٹھالی میں پگھلتا ہے۔
درآصل اللہ کا طالب ہی وہ ہے جسے نہ تو جنت کی نعمتوں کا لالچ ہو اور نہ ہی دوزخ کی سزاؤں کا خوف ہو بلکہ وہ اللہ کا قرب چھن جانے سے خوفزدہ ہو۔
حاصل تحریر یہ کہ اللہ کی ذات کا خوف رکھنا اور گناہوں سے بچنا ہی ایمان کی نشانی ہے۔ جو شخص اللہ کی ذات سے بے خوف ہو جائے وہ گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
اللہ کی ذات کا خوف اس وقت تک دل میں نہیں پیدا ہو سکتا جب تک اللہ کی معرفت حاصل نہ کی جائے کیونکہ جس ہستی یا ذات سے آشنائی اور واقفیت ہی نہ ہو اس سے خوف کیسے آ سکتا ہے۔ اسی لیے انبیا و مرسلین اور اولیا ئے کاملین سب سے بڑھ کر اللہ سے خوف رکھنے والے ہوتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی معرفت اور قرب حاصل تھا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں تم سب سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھنے والا ہوں او ر تم میں سب سے زیادہ اس سے خوف کرنے والاہوں‘‘ ( بخاری )
متلاشیانِ حق اور طالبانِ مولیٰ کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے خوف خدا رکھنے والے باعمل علماء کی صحبت اختیار کریں اور بہروپیوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں
اللہ پاک ھم سب کو اللہ پاک پر کامل یقین اور اس بے پرواہ ذات کا صحیح خوف نصیب فرمائے
آمین یا رب العالمین