فیصلہ کرنے والوں کی تین آقسام

زندگی میں انسان کو مختلف فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ھے کھبی تو یہ ھوتا ھے کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کر رھا ھوتا ھے اور کھبی یہ خود  دوسروں کے فیصلہ کر رھا ھوتا ھے  اور کھبی یہ خود اپنے لئے فیصلے کر رھا ھوتا ھے لہذا جاننا چاھیے کہ فیصلہ کرنے والوں میں چند  اُمور کا موجود ھونا بہت ضروری ھے:-

فیصلہ کرنے والا واقعی اس ذمہ داری کا اہل ھو اگر اہل نہیں ھو گا تو اس کا فیصلہ قابل اعتماد نہیں ھو سکتا نہ ھی اُس سے انصاف کے فیصلہ کی توقع کی جا سکتی ھے 

فیصلہ کرنے والا اللہ سے ڈرنے والا ھو اور  مکمل تحقیق کے بعد انصاف کی جو صورت سامنے آجائے اس پر بلا خوف و خطر فیصلہ صادر کرنے کا حوصلہ رکھتا ھو 

فیصلہ کرنے والا کسی قسم کی شفارش ، اقربا پروری یا رشوت وغیرہ سے دور ھو یعنی خائن نہ ھو

ضروری نہیں کی فیصلہ دینے والا کسی عدالت کا جج ھی ھو سکتا ھے بلکہ کسی پنچایت کا پنچ ، کسی بستی ، محلہ ، قبیلہ یا خاندان کا سربراہ بھی ھوسکتا ھے اگر کسی معاملے میں کسی کو فیصل تسلیم کر لیا گیا ھو تو وہ بھی فیصلہ کرنے والا ھے اس پر بھی وہ تمام آصول لاگو ھوتے ھیں جو ایک عدالت کےجج پر لاگو ھوتے ھیں  یہاں تک اولاد کے درمیان فیصلہ کرنے والا ایک باپ بھی ھو سکتا ھے یا پھر  بہن بھائیوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ایک بھائی بھی ھو سکتا ھے وغیرہ وغیرہ 

حدیث مبارکہ میں فیصلہ کرنے والوں کی تین آقسام بیان کی گئی ھیں جن میں سے ایک قسم کے فیصل جنت میں جائیں گے بقیہ دو قسموں کے لوگ جہنم میں جائیں گے چنانچہ حدیث مبارکہ ھے


عن ابن بريدة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" القضاة ثلاثة: واحد في الجنة، واثنان في النار، فاما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به، ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار، ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار"،


حضرت بریده رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت  کرتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا- فیصلہ کرنے والے تین قسم کے هوتے ہیں- ان میں ایک جنت میں جائے گا اور دو آگ میں جائیں گے- پس جنت والا وه شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا- اور دوسرا شخص وه ہے جس نے حق کو پہچانا پهر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو وه آگ میں جائے گا- تیسرا شخص وه ہے جو جہالت کی بنیاد پر لوگوں کے لیے فیصلہ کرے تو وه بهی آگ میں جانے والا ہے- 

(  ابوداود و ابن ماجہ )

 

حدیثِ بالا میں واضح طور پر حق کو پہچاننے اور نہ پہچاننے والوں کا فرق بیان کر دیا گیا سو حق کو جاننے کے لیے باطل کے پردوں کو پهاڑنا پڑتا ہے- پهر حق کو جاننے کے بعد اس کو ماننا اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بهی قربانی کے بغیر نہیں هو سکتا- جو لوگ اس معرفت اور اس قربانی کا ثبوت دیں وه اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتے ہیں کہ انهیں جنت میں داخل کیا جائے اور بلاشبہہ یہی وه لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیے جائیں گے-


بقیہ دو قسم کے لوگ جنت میں جگہ پانے کے قابل نہیں- جو شخص حق کو جاننے کے بعد اس سے انحراف کرے وه خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرتا ہے ظاھر سی بات ھے کہ ایسے شخص کو جہنم کے سوا اور کہاں جگہ مل سکتی ہے- اسی طرح تیسرا شخص بهی اللہ تعالی کی سزا کا مستحق ہے کیونکہ وه اللہ تعالی کے معاملہ میں سنجیده ثابت نہ هو سکا- تمام تر کوشش کے باوجود اجتہادی خطا کا سرزد ھو جانا تو بہرحال قابل معافی ہے مگر تیاری اور تحقق کے بغیر شرعی امور میں فیصلے دینا قابل معافی نہیں ھے 


جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ یہاں جس " فیصلہ " کا ذکر ہے، اس کا تعلق صرف عدالتی فیصلوں سے نہیں بلکہ اس سے  ھر طرح کے فیصلے مراد ھیں یہاں تک کہ ھر شخص جو فیصلے اپنے لئے کرتا ھے وہ بھی اس میں شامل ھیں گویا اس کا تعلق  تمام امور سے ہے  یعنی ہر شخص  ہر آن فیصلے کر رہا ہے، ہر  شخص ہر آن اپنے آپ کو یا تو جنت کا مستحق بنا رہا  ھوتا ہے یا  پھر دوزخ کا-

ھمیں زندگی میں آنے والے اُمور میں بھی فیصلہ کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاھیے کہ ھمارے کیے ھوئے یہ فیصلے ھمیں جنت کا مستحق بھی بنا سکتے ھیں  اور دوزخ میں جانے کا سبب بھی بن سکتے ھیں 

اللہ پاک ھم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: