دوسروں کی شکایت نہایت آسان اور اُن کا اعتراف بے حد مشکل

اسلام میں مسلم بھائی اور ہمسائے کے لئے وہی چیز پسند کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ھے جو آدمی خود اپنے لیے پسند کرتا ہو چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے 

عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ - أَوْ قَالَ لأَخِيهِ - مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ » [متفق علیه]

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنے ہمسائے کےلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘


[بخاری:13، مسلم: 72] یہ حدیث مسلم میں :

« حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ أَوْ قَالَ لأَخِيهِ »

’’ شک کے ساتھ ہے یعنی بھائی کے لئے یا فرمایا کہ ہمسائے کے لئے۔ 

صحیح بخاری میں شک کے بغیر 

’’ حتى يحب لأخيه‘‘ 

کے الفاظ ہیں۔ 

یعنی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے۔‘‘


ابن الصلاح فرماتے ہیں:

کہ بعض اوقات یہ چیز مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتی ہے، حالانکہ اگر آدمی اس بات کو محبوب رکھے کہ  جس طرح اللہ تعالی نے مجھ پر فضل کیا ہے میرے بھائی پر بھی فضل کر دے تو یہ چیز کچھ مشکل نہیں ہے مگر یہ مقام انہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو قلب سلیم رکھتے ہیں، دھوکے ، حسد اور کینے سے بھرے ہوئے نہیں ہیں یعنی  یہ مقام متواضع لوگ حاصل کرتے ہیں، ہر چیز میں دوسروں پر اونچا رہنے کے خواہش مند لوگ یہ مقام حاصل نہیں کر سکتے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

(القصص)

’’ یہ آخری گھر ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ بلندی کا ارادہ رکھتے ہیں نہ فساد کا اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔‘‘


نفسیات کے اعتبار سے کسی انسان کے لیے سب سے زیاده آسان کام دوسروں  پر تنقید اور دوسروں کی شکایت ہے، اور سب سے زیاده مشکل کام دوسروں کی تعریف اور اُن  کا اعتراف ہے- یہ بات انسان کی نسبت سے ہے- لیکن جہاں تک فطرت کے قانون کا تعلق ہے، فطرت کے قانون کے مطابق دوسروں کی شکایت کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے- اس کے برعکس، دوسروں کا اعتراف کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر میں سب سے زیاده معاون عنصر کی حیثیت رکهتا ہے-

ایسا آخر کیوں  ہے کہ دوسروں کی شکایت نہایت آسان ہے اور دوسروں کا اعتراف بےحد مشکل- اس کا سبب یہ ہے کہ شکایت کا مطلب دوسروں کی نفی ہے، اور اعتراف کا مطلب خود اپنی نفی ہے- دوسرے معنوں میں یہ کہا جا سکتا ھے کہ انسان کے لئے دوسروں پر تنقید کرنا  شکایت کرنا یا ملامت کرنا بہت آسان ھے اور دوسروں کی خوبیوں کا اور اپنے عیبوں کا اعتراف کھلے دل سے کرنا بہت ھی مشکل ھے کسی شاعر نے خوب کہا ھے کہ

اتنی ھی مشکل اپنے عیب کی پہچان ھے

ملامت کرنا  جتنا اوروں کو آسان ھے


جب آدمی کسی دوسرے کی شکایت کرتا ہے تو اس کو ایسا کرتے هوئے یہ احساس هوتا ہے کہ دوسرا شخص برا ہے اور میں اچها هوں- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرنے کا مطلب یہ هوتا ہے کہ میں اچها نہیں هوں بلکہ دوسرا شخص اچها ہے-

  یہ ایک حقیقت ھے کہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری خود پسندی ہے شکایت کرتے هوئے آدمی کو اپنی خود پسندی کے جذبے کی تسکین حاصل هوتی ہے- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرتے هوئے آدمی کی خودی کو ٹهیس پہنچتی ہے- یہی فرق ہے جس کی بنا پر لوگوں کے لیے شکایت کرنا سب سے زیاده آسان کام بن گیا ہے، اور اعتراف کرنا سب سے زیاده مشکل کام-

حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں آدمی کے لئے امتحان کے پرچے ہیں- شکایت کا موقع بهی امتحان ہے، اور اعتراف کا موقع بهی امتحان- جس آدمی کا یہ حال هو کہ وه دوسروں کی شکایت تو کرے مگر وه دوسروں کا کهلا اعتراف نہ کرے، ایسا آدمی آزمائش میں ناکام هو گیا ھے گویا ایسا آدمی اللہ پاک کی رحمت کا مستحق نہیں بن سکتا

اللہ پاک ھمیں بہتریں اخلاقی عادات اپنانے کی توفیق عبایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: