آجکل کے پرفتن دور میں جہاں اور بہت سی برائیاں اور قباحتیں جنم لے چکی ھیں وھاں ایک بہت بڑی برائی اور قباحت یہ بھی موجود ھے کہ انسان کے اپنے ھی رشتہ دار جن سے پیار و محبت ، عزت و حوصلہ آفزائی اور ھمدردی کی بجا طور پر توقع کی جاتی ھے وہ اپنے ذلالت بھرے سلوک سے اُسے ذھنی پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کر دیتے ھیں یا پھر کم از کم ایسا کرنے کی بھرپور کوشش ضرور کرتے ھیں اور ایسا کرکے دلی خوشی بھی محسوس کرتے ھیں حالانکہ وہ خود نہ صرف اپنے لئے اس دنیاوی زندگی میں نفرت پیدا کر رھے ھوتے ھیں بلکہ اپنے اس مکرہ فعل سے اپنی آخرت بھی برباد کر رھے ھوتے ھیں
آپ نے اکثر اوقات اپنے ھی رشتہ داروں کے ستائے ھوئے مختلف لوگوں سے اس طرح کے الفاظ سنے ھوں گے
مثلاً
رشتے دار بہت ذلیل کرتے ہیں برداشت نہیں ہوتا...
وہ ہمت سے زیادہ امتحان لیتے ہیں...
ان کی باتوں کی اذیت کروٹیں بدلنے پر مجبور کرتی ہے...
ان کی زبان کا زخم دل کو بُری طرح گھائل کرتا ہے...
وہ لوگ انتہا کی پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی دوسروں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ کبھی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہتے ہیں ہم نے تو بچے بیاہ لیے،بچوں کی شادیاں کردیں ہم کامیاب ہیں۔ اور آپ ناکام ہیں. کہتے ہیں کہ ہم نے بڑے تیر مار لیے ھیں تم ابھی پیچھے ہو
غور کرنے کی بات یہ ھے کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اسطرح کے دلخراش کلمات صرف آپ کو ہی کہے جا رھے ہیں.
کیا آپ کو لگتا ہے یہ دلی اذیت صرف آپ ہی سہہ رہے ہیں نہیں نہیں ایسا ھرگز نہیں ھے آپ سے پہلے بلکہ چودہ صدیاں پہلے یہ اذیت، یہ تکلیف یہ مشکلات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی برداشت کرنا پڑی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی کئی ظالم رشتہ دار تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ایک سگا لیکن ظالم چچا تھا،
جو حسن و جمال میں اس قدر خوبصورت تھا کہ اسے ابو لھب یعنی شعلوں کا باپ کہا جاتا تھا یعنی اس کا حسن اسقدر شعلے مارتا تھا کہ اُس کی کنیت ھی ابو لھب مشہور ھوگئی
یہ خوبصورت چہرے والوں کی کہانی ہے،
اکثر ( سب نہیں ) بہت زیادہ خوبصورت چہرے والوں کے منہ میں بد لحاظ زبان اور سینے میں بغض سے بھرا دل ہوتا ہے۔
ابو لھب خوبصورت تو تھا لیکن اُس کے پاس بھی انتہائی بد لحاظ زبان اور کینے سے بھرا ھوا دل تھا اس کی لعنتی زبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دل چیر دینے والے الفاظ کہتی تھی۔
آپ ذرا اندازہ تو کریں کہ ایک باپ اپنے مردہ بیٹے کا وجود گود میں لیے بیٹھا ہے،*
اسے اس وقت میں اپنے دوستوں،چاہنے والوں اور رشتے داروں کے دلاسے، تسلی کی سب سے زیادہ ضرورت ھوتی ہے۔
لیکن وہ باپ اپنے کانوں سے کیا سن رہا ہے...؟؟
کہ اس کی نسل باقی نہیں رہی یہ ہلاک ہوگیا *نعوذباللہ* یہ کتنے اذیت ناک الفاظ ہیں جو بیٹے کی موت کا نقصان اٹھانے والا باپ برداشت کر رھا ہے...؟؟
یہ باپ کون ہے...؟؟
یہ ھمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
یہ بد زبان انسان کون ہے جو اس موقعہ پر اتنے تکلیف دہ الفاظ بول رہا ہے۔
*یہ ابو لھب ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ عبداللہ کا سگا بھائی اور دادا عبدالمطلب کا بیٹا ہے۔*
حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی چچا تھا، عباس رضی اللہ تعالی عنہ بھی چچا تھا اور ابو طالب بھی لیکن ان میں کوئی بھی ظالم نہ تھا جبکہ ابو لھب ایک بد طینت اور ظالم چچا تھا۔۔
یہ صرف زبان ھی سے اذیت نہیں دیتا تھا بلکہ بلکہ اپنے ہاتھوں کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے کے لئے استعمال کرتا تھا
*یہ نماز پڑھتے اپنے بھتیجے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گندگی سے بھری اوجھڑی کچھ اس طرح پھینکتا تھا یا پھنکواتا تھا کہ نبی کریم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کی سانس بند ہونے لگ جاتی تھی اوجھڑی چونکہ مشکیزے کی طرح ہوتی ھے اس لئے ایسی صورت پیش آتی تھی پھر یہ ظالم نبی کریم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے صرف سر مبارک پر ھی نہیں بلکہ پورے چہرے پر وہ اوجھڑی ڈال کر دم گھٹنے کی تکلیف سے گزارتا تھا۔
شاید ایسی اذیت آپ کے رشتے داروں نے آپ کو کھبی بھی نہ دی ہو
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں نے ان کو یہ اذیت بھی دی۔
دور کے نہیں بلکہ قریب کے رشتہ دار اتنے قریب کے اپنے خون کے رشتے داروں نے ان کو اس طرح کی تکلیفیں دیں
آپ کو کوئی خاندان بھر میں حقارت سے مخاطب کرے تو آپ اس تکلیف کو برداشت کرنے کی بجائے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صفا پہاڑ پر چڑھ کر اپنے سب لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کی..تو اسی ظالم چچا نے ان کو
"تبا لک" یعنی
*تیرے لیے ہلاکت ہو،
تم نے ہمیں اس بات کے لیے جمع کیا
کہہ کر نبی کریم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ ڈی گریڈ کرنا چاہا۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو زندگی بھری پڑیھے ان ظالموں کے ظلم، ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کرنے اور مایوسی پھیلانےوالوں سے۔
لیکن سوال یہ ہے....؟؟
*کیا ایسے رشتے دار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”منزل“ کے سفر سے روک پائے...؟؟
ہرگز نہیں۔
اذیتیں دیں، تکالیف دیں، سب کچھ کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل کی طرف آگے بڑھتے ھی چلے گئے۔۔
نبی کریم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ ان رشتے داروں سے بڑھ کر چاہنے والوں کو میری ضرورت ہے،سو وہ ان کے لیے جدوجہد کرتے رھے
پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ قرآن یہ کہتے ھوئے اُترا
*تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ*
*ٹوٹ گئے دونوں ہاتھ ابو لھب کے اور وہ ہلاک ہوگیا*
اگر اذیتیں دینے والوں کی پرواہ کیے بغیر نبی کریم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کا راستہ اپناتے ھوئے ہم اپنا سفر جاری رکھیں تو ہم اپنی منزل تک یعنی اپنے چاھنے والوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ جو ہمارے قدر دان ہوتے ہیں اور جن کو ہماری ضرورت ہوتی ہے جبکہ اذیتیں دینے والوں کا حال ابو لھب جیسا ھی ہوتا ہے ان کے ہاتھ بھی ٹوٹتے ہیں یہ ہلاک بھی ہوتے ہیں ، ضروری نہیں ظاہری طور پر ہاتھ ٹوٹیں۔۔۔۔یہ آخر کار ہاتھ ٹوٹنے جیسے حالات میں مبتلا کردیے جاتے ہیں اور ان کا غرور وتکبر ان کے پیروں کی سیدھ میں پڑا ہوتا ہے۔
سوچیے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لھب جیسے رشتے دار کی باتوں کو دل پر لیکر اپنی منزل کا سفر روک دیا ہوتا تو آج ہم کہاں ہوتے...؟؟
یہ جو اربوں انسان آج صرف ان کے لیے ان کی زندگی گزار رہے ہیں ان کا کیا بنتا...؟؟؟
تو ضرورت اس امر کی ھے کہ آپ بھی اپنی زندگی میں ایسے ظالم رشتے داروں کی بالکل پرواہ نہ کریں جو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار تو ھوتے ہیں مگر ان کی زبان اور ہاتھ ابو لھب جیسے ھوتے ہیں۔
*آگے بڑھیے...!!*
جیسے آپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے۔
*پیچھے مڑ کر ان ظالموں کو مت دیکھیے۔*
جس دن ان ظالموں کے ہاتھ ٹوٹیں گے اس دن آپ کو بھی خبر مل جائے گی آپ صرف اپنا سفر جاری رکھیے۔اور اپنی منزل کی طرف ہر قدم آگے بڑھیے۔ اور زندگی میں کبھی بھی یہ حماقت مت کیجیے*
کہ
*آپ امت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوں*
مگر آپ کے ہاتھ اور زبان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور زبان جیسی خیر کی بجائے ابو لھب لعنہ کے ہاتھ و زبان جیسا شر ہو۔*
زندگی کا یہ سبق ھمیشہ یاد رکھیے کہ نہ تو ہم نے ابو لھب جیسے رشتے داروں کی کوئی پرواہ کرنی ہے اور نہ ھی خود کو ابو لھب جیسا بنانا ہے کہ ہم دوسروں کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔۔۔
ھمیں یہ عہد کرنا چاھیے کہ ہمیں جو پیارے اور کامیاب منزل پر پہنچے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملے ہیں ہم انہی کے نقشِ قدم کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ان شاء اللہ ۔کیوںکہ ہم سب منزلوں کی چاہت دل میں لیکر پیدا ہوئے ہیں۔
یہی تربیت ہے قرآن پاک کی پانچ آیات پر مشتمل سورۃ اللھب کی، جسے *المسد* بھی کہا جاتا ہے۔
*یہ پانچ آیات آپ کو زندگی کا بہت بڑا فلسفہ سکھاتی ہیں اگر آپ سیکھنا چاہیں تو۔ کیا اتنی خوبصورت تربیت دیتے قرآن پاک کو سیکھنے پر آپ کا دل آمادہ نہیں...؟؟
کیا زندگی کے اتنے گہرے بھید سکھاتے اس قرآن پاک میں آپ کا دل نہیں لگتا...؟؟
کیا زندگی سنوار دینے والی اس کتاب سے محبت کرنا آپ کے لیے مشکل ہے... ؟؟
ان سب باتوں کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔
اور پھر قرآن پاک کی محبت کا بیج اپنے دل میں بونے کی کوشش کیجیے۔۔
اسی میں خیر ہے۔۔
ورنہ اُس زندگی کا کوئی لطف ہی نہیں جس میں خیر نہ ھو ۔*