اس میں کوئی شک نہیں کہ مہمان کا اکرام کرنا آچھے اعمال میں سے ایک ھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بہت تاکید فرمائی ھے
مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت احادیث میں مہمان نواز ہونے کی بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍO
(ھود)
ترجمہ:اور البتہ آچکے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر ،بولے سلام ،وہ بولا سلام ہے ،پھر دیر نہ کی لے آیا ایک بچھڑا تلا ہوا
اس آیت کے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے وہ انسان ہیں جنہوں نے دنیا میں مہان نوازی کی رسم جاری فرمائی ( قرطبی )۔
ان کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے، بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں ۔ قرطبی نے بعض اسرائیلی روایات سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک روز کھانے کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان کی تلاش شروع کی تو ایک اجنبی آدمی ملا جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ بسم اللہ کہو، اس نے کہا کہ میں جانتا نہیں اللہ کون اور کیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے اس کو دسترخوان سے اٹھا دیا، جب وہ باہر چلا گیا تو جبریل امین آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو اس کو کفر کے باوجود ساری عمر رزق دیا اور آپ نے ایک لقمہ دینے میں بھی بخل کیا، یہ سنتے ہی ابراہیم علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا، اس نے کہا کہ جب تک آپ اس کی وجہ نہ بتلائیں گے کہ پہلے کیوں مجھے نکالا تھا اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں، میں اس وقت تک آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واقعہ بتلا دیا تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا، اس نے کہا کہ وہ رب جس نے یہ حکم بھیجا ہے بڑا کریم ہے، میں اس پر ایمان لاتا ہوں، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ گیا اور مؤ من ہو کر باقاعدہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عادت مہمان نوازی کے مطابق بشکل انسان آنے والے فرشتوں کو انسان اور مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی اور فوراً ہی ایک تلا ہوا بچھڑا سامنے لا کر رکھ دیا ...اس سے معلوم ہوا کہ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے، انبیاء و صلحاء کی عادت ہے، اس میں علماء کا اختلا ف ہے کہ مہمانی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ واجب نہیں بلکہ سنت اور مستحسن ہے۔ بعض نے فرمایا کہ گاؤں والوں پر یہ واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں؛ کیوں کہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے، اس لیے شہر والوں پر واجب نہیں۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس بارے مختلف اقوال نقل کیے ہیں ۔"
فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، فقال: "زملوني زملوني" فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر: "لقد خشيت على نفسي" فقالت خديجة: كلا و الله ما يخزيك الله أبدًا، إنك لتصل الرحم، و تحمل الكل، و تكسب المعدوم، و تقري الضيف، و تعين على نوائب الحق.
(صحيح البخاري)
ترجمہ : چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو انہوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ :مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ہرگز نہیں! اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں فرمائیں گے! آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلايؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت.
(مشكاة المصابيح)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے، جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے ۔"
"و عن أبي شريح الكعبي أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كان يؤمن بالله و اليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوم و ليلة، و الضيافة ثلاثة أيام، فما بعد ذلك فهو صدقة، و لايحلّ له أن يثوي عنده حتى يحرجه."(مشكاة المصابيح)
ترجمہ: اور حضرت شریح کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے، مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن و ایک رات ہے، اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے، اس (تین دن) کے بعد جو دیا جائے گا وہ ہدیہ و خیرات ہو گا اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہو جائے ۔"
مہمان نوازی کے فضائل اپنی جگہ لیکن مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتهہ منع فرمایا ہے- چنانچہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے هم کو اس بات سے منع فرمایا کہ مہمان" کے لیے تکلف کریں-(الجامع الصغیر)
اسی طرح، ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیاده دور رہنے والے ہیں-( کشف الحنفاء،جلد 1،صفحہ 236)
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح هو گا کہ مہمان کی آمد پر جو تکلف کیا جاتا ہے، وه حقیقتاً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت هوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت- حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقوی کی صفت موجود هو، وه کبهی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کر سکتا کیونکہ نمود ونمائش اسلام کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ھے