ماہِ شوال آٹھ ھجری - غزوۂ حنین کا واقعہ

غزوۂ حنین کا پس منظر

 حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ اسی مقام پر  شوال آٹھ ھجری  630ء کو تاریخ اسلام کا اھم معرکہ غزوۂ حنین لڑا گیا  جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ھے اس غزوہ کا دوسرا نام غزوہ ہوازن بھی ہے۔ اس لیے کہ اس لڑائی میں بنی ہوازن سے مقابلہ تھا۔ مکہ اور طائف کی درمیان اس وادی میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر، جنگجو اور فنون جنگ سے واقف سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا  تھا بلکہ ان لوگوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کر دیا جائے

 فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور آکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا ۔  ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کی غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال  ۸ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو ان  حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے

 *اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔


 اس وقت ابو سفیان بن حارثؓ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اور حضرت عباسؓ نے رکاب تھام لی تھی۔ دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ اس کے بعد رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اتر پڑے اپنے رب سے مدد کی دعا فرمائی : اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔

حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ، کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلمانوں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضور رَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔


مسلمانوں کا غرور، پسپائی اور اللہ تعالی کی غیبی امداد

رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کردیکھا تو گھمسان کا رن پڑرہا تھا۔ فرمایا :’’اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔‘‘پھر آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا : شاھت الوجوہ ’’چہرے بگڑ جائیں۔‘‘یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس مٹی سے بھر نہ گئی ھو

قرآن کریم نے بھی مسلمانوں کے غرور، پسپائی اور اللہ کی غیبی امداد کی طرف اشارہ فرمایا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئاً وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ (25)

ثُمَّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُوداً لَّمْ تَرَوْهَا وَعذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَذَلِكَ جَزَاء الْكَافِرِينَ (26)

 اللہ نے تمہاری مدد کی ہے بہت سے مقامات پر اور حنین کے دن جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں غرور پیدا کر دیا تو اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا اور تم پر زمین اپنی وسعت کے ساتھ تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ پھرا کے پسپا ہوئے (25) 

پھر اللہ نے اپنی طرف کا سکون و اطمینان اتارا اپنے رسول  اور (سچے) ایمان والوں پر اور ایسی فوجیں اتاریں جنہیں تم نے دیکھا نہیں اور سزا دی انہیں جنہوں نے کفر کیا اور یہی سزا ہوتی ہے کافروں کی (26)

(سورہ التوبہ)

احادیث مبارکہ میں بھی اس بات پر تصریح موجود  ہے کہ  غزوۂ  حنین  میں اللہ تعالی کے مامور فرشتے مسلمانوں کی امداد کے لئے اترے اور ان کے ساتھ مل کر دشمن کو شکست دینے میں کردار ادا کیا؛ نیز یہ بھی روایت ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مٹھی بھر خاک اٹھا کر دشمن کی طرف پھینک دی اور فرمایا: "وہ کامیاب نہ ہوں"، اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے اس اقدام بھی دشمن کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔

خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(نور:۲۱)

اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔


دشمن کی شکست فاش

مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گذری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی۔ ثقیف کے تقریباً ستر آدمی قتل کیے گئے اور ان کے پا س جوکچھ مال، ہتھیار ، عورتیں اور بچے تھے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔

یہی وہ تغیر ہے جس کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس قول میں ارشادفرمایا ہے :

''اور(اللہ نے ) حنین کے دن (تمہاری مدد کی ) جب تمہیں تمہاری کثرت نے غرور میں ڈال دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کچھ کا م نہ آئی۔ اور زمین کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل کی۔ اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نے نہیں دیکھا۔ اور کفر کرنے والوں کو سزادی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔'


جنگ کے بعد مشرکین کا انجام

مشرکین مالک بن عوف کے ساتھ طائف چلے گئے۔ بعض دوسروں نے اوطاس میں پڑاؤ ڈالا اور بعض دیگر منجملہ ثقیف سے تعلق رکھنے والے ابن وُغِیرَہ نخلہ پہنچ گئے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ایک گروہ کو نخلہ کی طرف بھاگنے والے مشرکین کی سرکوبی کے لئے اور ابو عامر اشعری کو اوطاس میں پڑاؤ ڈالنے والے مشرکین کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ ابو عامر اس جنگ میں شہید ہوگئے اور ان کے چچا زاد بھائی ابو موسی اشعری نے مشرکین کے ساتھ جنگ جاری رکھی اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔


رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضاعی بہن شَیما بنت حارث بن عبد العُزّی


اس جنگ میں بعض مشرکین کو قید کرلیا گیا جن میں رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضاعی بہن شَیما بنت حارث بن عبد العُزّی، بھی شامل تھیں۔ قیدیوں کو رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت میں لایا گیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے شیما کا بہت احترام کیا اور ان کی خواہش پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے انہیں ان کی قوم کے پاس پلٹا دیا۔

منقول ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ شیما کی بات چیت اور ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ان کی شفاعت ہی قیدیوں کی رہائی کا سبب ہوئی۔


جنگ کے بعد مسلمانوں  کے اقدامات

رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جنگ کے بعد اجازت دے دی کہ جس مسلمان نے ایک مشرک کو مارا ہو اس کے جنگی لباس اور ہتھیار کو بطور غنیمت اپنے لئے اٹھائے۔ بعدازاں رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے غنائم اور قیدیوں کو رسول خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ جب غنائم اور قیدیوں کو اکٹھا کرلیا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قیدیوں اور غنائم کو درہ حنین کے شمال مشرق میں واقع علاقے "جِعْرانہ" میں منتقل کرکے وہیں رکھا جائے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اس جنگ کے بعد، بروز پنج شنبہ کو جعرانہ تشریف فرما ھوئے 


*

*تقسیمِ غنائم

طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور آکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ’’جعرانہ‘‘ تشریف لائے۔ روایات کے مطابق یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں ، کئی من چاندی، اور چھ ہزار قیدی۔  اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا مکہ اور اس کے اطراف کے نومسلم رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا (سیرت ابن ہشام )

رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے ابتداء میں قریش کے اشراف اور عرب قبائل کو ان کا حصہ دیا تا کہ (مؤلفۃ قلوبہم) کے تحت انہیں اسلام کی طرف مائل کردیں۔ بعدازاں ابو سفیان جیسوں کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 یا 40 اونٹ دیئے۔ بعد ازاں حکم دیا کہ مردم شماری کی جائے اور ہر فرد کو کچھ حصہ عطا کیا۔ انصار کے ایک گروہ نے اعتراض  کیا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے انصار سے خطاب کیا اور انہیں راضی کرلیا  اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔


قیدیوں کی رہائی 

جعرانہ میں ہوازن کا وفد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیدیوں کے ساتھ  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے رضاعی رشتے کا واسطہ دے کر ان کی رہائی کی درخواست کی۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے قیدیوں میں اپنے اور بنو عبد المطلب کا حصہ انہیں بخش دیا، مہاجرین اور انصار نے بھی اپنا حصہ بخش دیا اور انہیں رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے سپرد کیا۔ بعض افراد نے ابتداء میں اپنے حصے کے قیدی بخشنے سے انکار کیا لیکن بعد میں سب نے انہیں رہا کردیا


*مدینہ منورہ واپسی کا سفر

رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جعرانہ میں 13 راتوں تک قیام کے بعد چہار شنبہ کی شب بتاریخ 18 ذوالقعدہ، کو عمرہ ادا کیا اور پنج شنبہ کے روز مدینہ  منورہ واپس تشریف لے گئے ۔

Share: