فتح مکہ جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے
درآصل اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو صبر آزما آزمائشوں سے گزارتے ہیں تاکہ ان کے درجات میں مزید ترقیات اور بلندیاں عطاء فرمائیں، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی انہی آزمائشوں میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے گزری۔ پیدائشی یتیمی ،بچپن میں ممتا کی جدائی کا صدمہ، معاشی تنگ دستی، اعلان نبوت کے وقت قومی اور علاقائی مخالفت کا سامنا،بیٹیوں کو طلاقیں، شعب ابی طالب کی قید و بند، ہجرت کا پرخطر سفر، رفیقہ حیات پرتہمت کا طوفان،آل واصحاب پرمصائب وتکالیف اور ان کی مظلومانہ شہادتیں۔ الغرض ہر پریشانی ، ستم ، ظلم اور مصیبت کو صبر وتحمل سے برداشت کیا اور اپنی امت کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل۔ دنیاوی تکالیف سے گھبراؤ نہیں کیونکہ اس میں انسانوں پر سب سے زیادہ تکالیف انبیاء پر آتی ہیں پھر درجہ بدرجہ انبیاء کے ماننے والوں پر۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک آزمائش ہجرت کے چھٹے سال ذوالقعدہ کے مہینے میں آئی ، آپ 1400 جانثاروں کی ہمرکابی میں عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ،شہر مکہ سے 9 میل پہلے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفار مکہ نے رسول مکی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عمرہ کرنے سے روک دیا، بالآخر فریقین کی رضا مندی کے ساتھ درج ذیل شرائط پر ایک ’’عہد نامہ‘‘مرتب ہوا۔
1: دس سال تک فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔
2: اگر کوئی شخص اپنے وارثوں کی اجازت کے بغیر مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا آپ اسے واپس کریں گے۔
3: جو شخص مسلمانوں میں سے قریش کے پاس آئے گا اسے نہیں لوٹایا جائے گا۔
4: اس سال آپ عمرہ کیے بغیر ہی واپس جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں۔
5: مسلمان صرف تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں کو نیاموں میں بند رکھنے کے پابند ہوں گے۔
:6 قبائل متحدہ کو اختیار ہے کہ جس معاہدہ اور صلح میں شریک ہونا چاہیں ، ہو جائیں ۔
چنانچہ مسلمانوں نے قربانی کے جانوروں کو اسی مقام پر ذبح کیا اور احرام کھول دیا۔ مسلمان کچھ اور سوچ کر سفر کے لیے نکلنے تھے لیکن معاملہ بالکل برعکس ظاہر ہوا تو بے انتہاء صدمے سے دوچار ہوئے،حدیبیہ سے واپسی پر سورۃ فتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھلی اور واضح فتح عطاء فرمائی۔ حالات کے تناظر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ تعجب عرض کی : او فتح ھو؟ کیا یہ بھی فتح کہلاتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ فتح ہے۔
چونکہ جس وقت یہ عہد نامہ مرتب ہوا اس وقت دوسرے قبیلوں کو مکمل طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس کسی کے عہد میں شامل ہونا چاہیں ہوجائیں۔ قبیلہ بنو خزاعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں جبکہ قبیلہ بنو بکر قریش کے عہد میں شامل ہوا۔شروع میں معاہدہ صلح ہوجانے کے بعد فریقین ایک دوسرے سے بے خطر ہوگئے ، لیکن بنو بکر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش کے لوگ بھی اپنے چہروں پر نقاب ڈالے اس میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کے گھروں میں گھس گھس کر اْن کو قتل کیا اور اْن کا مال و اسباب لوٹ لیا۔دوسرے دن عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینہ منورہ بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور صورتحال سے آگاہ کیا ، بنوبکر کے اس عہدخلافی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ کو سخت دکھ پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کے حل کے لیے تین شرائط پیش کیں:
1: مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔
2: قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں۔
3: اعلان کرا دیا جائے کہ حدیبیہ کی صلح ختم گئی ہے۔
متکبرانہ مزاج ہمیشہ غلط فیصلوں پر اکساتا اور بعد میں ندامت سے دوچار کرتا ہے یہی حال قریش کا ہوا ، پہلے تو کہہ دیا کہ ہمیں تیسری شرط قبول ہے لیکن بعد میں اس کے برے نتائج سوچے تو فوراً ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو سفیر بنا کر مدینہ منورہ روانہ کیا کہ وہ سابقہ عہد کی تجدید کرا لائیں۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور مدعا سے آگاہ کیا ، تجدید عہد کی بات کی ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے ، ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت کوشش کی لیکن بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی جواب نہ ملا، بالآخر ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جاکر یہ اعلان کیا کہ میں نے ’’معاہدہ حدیبیہ‘‘ کی تجدید کرالی ہے۔مکہ مکرمہ واپس پہنچ کر جب ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے قریش کو سارا ماجرا بتلایا تو اْنہوں نے کہا کہ یہ نہ تو صلح ہے اور نہ ہی جنگ ،لہٰذا اب ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے اب جنگ کی تیاری کی جائے۔
دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ جانے کی تیاریاں مکمل کرلیں اور اپنے اتحادی قبائل کو مکہ کی طرف ہمراہ جانے کا پیغام بھیج دیا، یہاں اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ قریش مکہ کو ہماری آمد کی اطلاع کسی صورت نہ ہونے پائے۔ اسی دوران ایک ایسا معاملہ پیش آیا جس سے کافی تشویش پیدا ہوئی ، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ(غزوہ بدر کے شرکاء میں سے ہیں) اْنہوں نے خفیہ طور پر قریش کو ایک خط لکھ کر روانہ کردیا ،جس میں انہوں نے لکھا :’’ اے قریش کے گروہ ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی مانند تم پر ایک بہت بڑا لشکر لے کر آنے والے ہیں جو سیلاب کی طرح بہتا ہوا ہوگا۔ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کے بغیر تن تنہا بھی تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد فرمائے گا۔ اور فتح و نصرت کا جو وعدہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیاہے وہ ضرور پورا ہوگا تم اپنے انجام کو اچھی طرح سوچ لو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً چند صحابہ کو روانہ فرمایاکہ وہ خط چھین کر لے آئیں، ایسا ہی ہوا، خط لایا گیا،دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا خط ہے ، صحابہ کرام کو غیر معمولی حیرت ہوئی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اجازت ہو تو میں اِس کی گردن اْڑادوں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب رضی اللہ تعالی عنہ بدری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے جو چاہو کرو میں نے تمہاری بخشش کردی۔حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو بلایا انہوں نے آکر عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں ، میری مجبوری سن لیں! قریش سے میری کوئی رقابت نہیں فقط حلیفانہ تعلقات ہیں ، میرے اہل و عیال آج کل مکہ میں ہیں، جن کا دوسرے مہاجرین کی طرح وہاں کوئی حامی و مدد گار نہیں، میں نے یہ سوچ کر خط لکھا کہ میں قریش کے ساتھ یہ احسان کروں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کو وہاں کسی قسم کی کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچائیں۔صحیح بخاری میں ہے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، میں نے ایسا خط لکھا ہے جس میں میرا فائدہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی نقصان نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بات سن کر فرمایا: یقیناً اس نے تم سے سچ ہی بیان کیا ہے۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو اپنے دامن رحمت میں لے لیا۔
اس میں حکمت یہ پوشیدہ تھی کہ اگرصحابہ بالخصوص بدری صحابہ کی کوئی ایسی بات سامنے آ بھی جائے جو بظاہر نامناسب معلوم ہوتی ہو پھر بھی ان کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی کیونکہ بارگاہ ایزدی میں انہیں ابدی سرفرازی نصیب ہو چکی ہے۔
10رمضان آٹھ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ھزار کا لشکر اسلام لے کر جانب مکہ روانہ ہوئے، راستے میں مقام ذوالحلیفہ یا حجفہ پہنچے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ملے ،آپ صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ہجرت آخری ہجرت ہے اور میری نبوت آخری نبوت ہے۔حکم دیا کہ سامان مدینہ بھیج دو اور آپ ہمارے ساتھ رہیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابواء پر پہنچے تو ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ملے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حارث کے بیٹے ہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ اور ہیں)اور عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ قبول اسلام کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملے ، یہ ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھی ہیں اور رضاعی بھائی بھی ہیں ، انہوں نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا دودھ پیا تھا ، اہل اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے، اپنی اہلیہ اور بیٹے جعفر کے ہمراہ راستے میں ملے ، خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہونا چاہا ، پہلے پہل تو اجازت نہ ملی یہاں تک کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی سفارش پر بھی اجازت نہ ملی ، جس پر ابوسفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اگر خدمت اقدس میں حاضری کی اجازت نہ ملی تو بیوی بچوں کو لے کر بہت دور چلا جاؤں گا اور بھوکا پیاسا مر جاؤں گا۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو دریائے رحمت جوش میں آیا ، اجازت عطاء فرمائی ، ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی اہلیہ دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تقریباً ایک ہفتہ کی مسافت طے کرنے کے بعد لشکر اسلام نے مکہ سے کچھ پہلے مقام ’’مر الظہران‘‘پر عشاء کے وقت پڑاؤ ڈالا ، عسکری حکمت عملی کا تحت لوگوں کو دور دور تک پھیلادیا گیا اور کہا گیا تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر آگ روشن کردیں۔
قریش کو اس کی خبر ہوئی تو اْنہوں نے ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ اور کچھ لوگوں کو بغرض تجسس بھیجا۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک شخص نے کہا کہ شاید یہ بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہانہیں ان کے پاس اتنے لوگ کہاں؟ جبکہ ادھر دوسرا معاملہ یہ تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں مسلمانوں اور ان کے لشکر کی حالت کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو قریش کی خیر نہیں۔ ہاں اگر کسی طریقہ سے قریش کو خبر ہو جائے اور وہ آکر امن میں داخل ہوجائیں تو بہتر ہے۔ اسی فکر میں نکلا کہ چند آدمیوں کی آوازیں میرے کانوں میں پڑیں ،یہ لوگ تجسس کی غرض سے آئے ہوئے تھے ،جن میں ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے ، میں ان کو پہچان لیا ،ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے لشکر کا حال معلوم کرنا چاہا تو میں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ میں نے کہا کہ خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر امن حاصل کر لو۔ چنانچہ میں ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو سواری پر بٹھا کرلے چلا ، راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا تو فرمانے لگے : الحمد للہ آج ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کسی معاہدہ کے بغیر ہی قابو میں آگئے ، مگر میں نے بہت جلدی سے ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر کیا ، پیچھے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اجازت دیجیے! میں ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی گردن مار دوں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امن عطا فرمایا۔ دوسرے دن ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ حاضر خدمت ہوئے اور صدق دل سے ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ تاکہ وہ مجاہدین اسلام کے جاہ و جلال کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کر سکیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑی کی چوٹی پر لا کھڑا کردیا۔ انہوں نے لشکر اسلام کی جاہ و جلال اور عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ یہ جنگی حکمت عملی تھی کہ اپنی افرادی قوت کا پوری قوت سے اظہار کرو۔اس سے ابو سفیان رضی اللہ عنہ خوب سمجھ گئے قریش اس لشکر اسلام کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سردارانِ مکہ میں سے ہیں، فخر کو پسند کرتے ہیں ، لہٰذا اِن کے لئے کوئی قابل فخر اعلان ہونا چاہیے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اعلان کرادو کہ جو شخص ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں داخل ہوگا اسے امن ہے۔اسی طرح اسے بھی امن دیا جاتا ہے جو ہمارا مقابلہ نہ کرے اور اپنا گھر بند کر لے۔ اسے بھی امن دیا جاتا ہے جو مسجد میں داخل ہو جائے۔اسے بھی امن دیا جاتا ہے جو ہتھیار ڈال دے۔ اسے بھی امن دیا جاتا ہے جو حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں داخل ہو جائے۔ اسے بھی امن دیا جاتا ہے جو ابو رْویحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے جھنڈے تلے آ جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ہمارے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے قریش کو لشکر اسلام کی خبر کر دواور معافی کا اعلان بھی سنا دو۔ چنانچہ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قریشیوں کو خطاب کیا : لشکر اسلام آ گیا ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ قریشیوں نے کہا : پھر کیا کریں؟ تو ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے معافی کا اعلان بھی ساتھ ہی سنا دیا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرم کعبہ میں داخل ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک کمان تھی ، وہی بیت اللہ جو ساری دنیا میں اللہ کی وحدانیت کا مرکز تھا اسی کے گرد اور چھت پر 360 بت رکھے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک بت کو کمان مارتے اور فرماتے:’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام بت حرم سے نکال دینے کا حکم فرمایا۔ اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی پر بیٹھ کر ہی طواف کیا ، حجر اسود کا بوسہ لیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر خانہ کعبہ کھولا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں داخل ہوئے تو تصویریں نظر آئیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں بھی تھیں ان کی تصویروں کے ہاتھ میں فال کے تیر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ مشرکین کو ہلاک کرے خدا کی قسم اِن دونو ں پیغمبروں نے کبھی بھی فال کے تیر استعمال نہیں کئے۔ملائکہ کی تصویروں پر نظر پڑی تو فرمایا اللہ کا غضب ہو۔ فرشتے نہ تو مرد ہیں اور نہ ہی عورت پھر ان کو مٹا دینے کا حکم فرمایا پھر جب کعبہ کی چھت پر نظر ڈالی تو ہر طرف بت ہی بت نظر آئے جنہیں دیوار کے ساتھ چونے کے ساتھ لگا یا گیا تھا ہبل نامی کعبہ کے بالکل وسط میں رکھاہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے جاتے اور بت خود ہی گرتے جاتے پھر کعبہ شریف کو زم زم سے دھویاگیا یہ رمضان المبارک کی بیس تاریخ تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں کعبۃ اللہ کی چابی تھی ،قریش مسجدِ حرام میں گردنیں جھکائے کھڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے مخاطب ہو ئے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔ اے قریش! اللہ نے تم سے جہالت کی نخوت اور باپ دادے پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ الحجرات کی آیت تلاوت فرمائی۔جس کا ترجمہ یہ ہے : اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ تو قریش مکہ بیک زبان بول اٹھے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریم بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے وہی بات کہتا ہوں میرے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی لا تثریب علیکم الیوم آج تم پر کو ئی عتاب نہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کراذان دیں ، اذان ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
عام اہل مکہ کو تو معافی مل گئی البتہ نو مرد اور چار خواتین کو اس معافی سے دور رکھا گیا۔ ان کے بارے میں حکم دیا کہ جہاں بھی ملیں قتل کر دیں۔ مگر ان میں بھی سوائے چند کے باقی لوگ اسلام لے آئے اور انہیں بھی معافی دی گئی۔
1: عکرمہ بن ابی جہہل رضی اللہ تعالی عنہ اہل اسلام کا سخت دشمن ، بالکل اپنے باپ ابوجہل جیسا۔ فتح مکہ کے دن اہل اسلام کے ہیبت کی وجہ سے مکہ سے بھاگ نکلا ، ان کی بیوی ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا مسلمان ہو گئیں ، وہ اپنے شوہر کی تلاش میں نکلیں ، بالآخر ان سے ملیں اور کہا: میں ایسے شخص کے پاس سے آئی ہوں جو دنیا بھر کے تمام انسانوں سے زیادہ حلم والا ، کرم والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہے اور اس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجھے امن دے دیا ہے۔ چنانچہ عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عکرمہ سے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن گئے۔
2: صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے بھی حکم تھا جہاں ملے قتل کر دیا جائے ، یہ مکہ سے جدہ بھاگ گیا ، حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے امن کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ،اور امن کی علامت کے طور پر اپنا عمامہ مبارکہ جو فتح مکہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باندھا ہوا تھا حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمایا، حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے جدہ جا کر صفوان رضی اللہ تعالی عنہ کو امن کی اطلاع دی ، جدہ سے واپس مکہ آئے ، خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے دو مہینوں کا اختیار دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ماہ کا اختیار دیا ، بالآخر یہ بھی مسلمان ہو گئے۔
3: عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ تعالی عنہ بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہیں معافی سے دور رکھا گیا تھا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کو لے کرحاضر ہوئے اور امن کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی۔
4: عبداللہ بن زبعری رضی اللہ تعالی عنہ بھی انہی لوگوں میں تھے ، بھاگ کر نجران چلے گئے ، کچھ عرصہ بعد وہاں سے لوٹ کر واپس آئے اسلام قبول کر لیا۔
5:وحشی بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ بھی ان لوگوں میں تھے ، بلکہ غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ، فتح مکہ کے دن یہ بھاگ کر طائف چلے گئے ، بعد میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے حاضر خدمت ہوئے آپ نے ان کا اسلام قبول فرمایا۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے بعد جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو اسی آلے سے قتل کیا جس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔
6: ہندہ بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ، جس نے غزوہ احد کے موقع پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا ، وہ بھی اسلام لے آئیں آپ نے ان کے اسلام کو بھی قبول فرمایا۔
فتح مکہ کے بعد ایک سال کے اندر اندر اس کے مثبت اثرات اور نتائج یہ مرتب ہوئے کہ تقریباً عرب کے تمام قبائل وفود کی صورت میں یا ان کے نمائندے حاضر خدمت ہوئے اور اسلام قبول کیا۔اسی لیے اس سال کو ’’سنۃ الوفود‘‘ کہا جاتا ہے۔
فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا بہت دشوار تھا جبکہ فتح مکہ کے بعدبالخصوص جب قبائل عرب فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تو یہ دشواری کم ہو گئی ، اس لیے فتح مکہ سے پہلے جو راہ خدا میں خرچ کا اجر تھا فتح مکہ کے بعد کم ہو گیا۔ قرآن کریم میں ہے : تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور راہ خدا میں جہاد کیا وہ اور جو فتح مکہ کے بعد خرچ کرنے والے ہیں دونوں برابر نہیں۔ بلکہ فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والے بعد میں خرچ کرنے والوں کی نسبت سے بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔
دین اسلام سے وابستہ لوگوں بالخصوص اس کی اشاعت و تحفظ کرنے والوں کے لیے فتح مکہ کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام پر عمل کرنے اور اس کے لیے سختیاں برداشت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ضرور سرخرو فرماتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ذاتی رنجشیں ، قومی علاقائی اور خاندانی دشمنیاں یہاں تک کہ اپنے جان و مال کے دشمنوں کو اللہ کے دین کیلیے معاف کرنا اسوہ پیغمبری ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔