عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 110 )


*قادیانیت سے اسلام کا سفر*


*ملعون مرزا طاہر کی دعوت مباہلہ

اور حسن محمود عودہ کا قبول اسلام*


ملعون مرزا قادیانی کی طرح قادیانی پنڈتوں  کا بھی ھمیشہ سے یہ دستور رھا ھے کہ جب ان کو زیادہ الجھن ھوتی اور اس کا کوئی حل نظر نہ آتا تو وقت گزارنے کے لئے اور اپنے عقیدت مندوں کو منحرف ھونے سے بچانے کے لئے اپنے مخالفین کو مناظرہ / مباھلہ کی دعوت دے دیتے لیکن مباھلہ کے لئے ان پنڈتوں کو کھبی بھی سامنے آنے کی جرات نہ ھو سکی

مرزا طاہر  کے دور میں قادیانی قیادت کی یہ ذہنی الجھن اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی کہ دلائل و براہین اور منطق و استدلال کے تمام مصنوعی حربوں کی مکمل ناکامی کے بعد جھوٹی نبوت کے خاندان کے ساتھ قادیانی افراد کی ذہنی وابستگی کو نفسیاتی چالوں کے ذریعے برقرار رکھنا حقیقت شناسی کے اس دور میں زیادہ دیر تک ممکن نہیں رہا تھا یہ الجھن خود مرزا غلام  قادیانی کو بھی درپیش تھی۔ چنانچہ مناظرہ و مباہلہ کے چیلنج، اشتہار بازی اور تعلّی و شیخی کے جو مراحل مرزا غلام قادیانی کی زندگی میں جابجا دکھائی دیتے ہیں وہ اسی ذہنی الجھن کا کرشمہ ہیں لیکن مرزا طاہر تک بات پہنچی تو یہ ذہنی الجھن جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوگئی اور قادیانی سربراہ کو اپنے پیروکاروں کی وابستگی برقرار رکھنے میں جس شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اس کا ایک اظہار ’’مباہلہ‘‘ کی وہ کھلی دعوت ہے جو مرزا طاہر  نے ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کو انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام تحریری چیلنج کی صورت میں جاری کی لیکن اس مباہلہ اور اس کے نتائج کا سامنا کرنا مرزا طاہر  کے بس میں نہیں تھا


مرزا طاہر  کی اس دعوت مباہلہ کو دنیا کے مختلف ممالک کے مسلم راہنماؤں نے قبول کیا اور تحریک ختم نبوت کے متعدد راہنما مباہلہ کے لیے مرزا موصوف کی جائے قیام لندن تک بھی پہنچے لیکن مرزا طاہر نے یہ خود ساختہ تاویل کر کے سامنے آنے سے گریز کیا کہ مباہلہ کے لیے دونوں فریقوں کا آمنے سامنے آنا ضروری نہیں ہوتا مرزا طاھر  کا خیال یہ تھا کہ اس من گھڑت تاویل کے سہارے آمنے سامنے مباہلہ سے بچنا آسان رہے گا اور انتہائی جوش و تعلّی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دی گئی یہ دعوتِ مباہلہ قادیانی امت کے افراد کو ذہنی طور پر مطمئن رکھنے کے لیے ایک نفسیاتی حربے کا کام دیتی رہے گی۔ لیکن اللہ رب العزت کا قانون بے نیازی حرکت میں آیا اور ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کی دعوت مباہلہ میں دی گئی ایک سالہ مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے مرزا طاہر  کے ایک دست راست حسن محمود عودہ نے قادیانیوں کے خود ساختہ اسلام آباد (ٹل فورڈ لندن) میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ مرزا غلام  قادیانی کو سچا ماننے سے انکار کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کہ ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء کو ٹل فورڈ لندن میں جب مرزا طاہر  اپنے خطاب کے دوران مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمة اللہ علیہ  کو موضوعِ گفتگو بنا کر مباہلہ کے نتیجے میں ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء سے قبل ان کی ہلاکت و رسوائی کا اعلان کر رہا تھا تو جناب حسن محمود عودہ پہلی صف میں بیٹھے مرزا طاہر  کی تقریر کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اور مولانا چنیوٹی رحمة اللہ علیہ جب یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ویمبلے ہال لندن کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں اپنی زندہ و سلامت موجودگی اور مرزا طاہر  کے جھوٹا ثابت ہونے کا اعلان کر رہے تھے تو حسن محمود عودہ ان کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے اپنے تائب ہونے کو مباہلہ کا نتیجہ قرار دے کر مرزا طاہر  کے جھوٹ پر مہر تصدیق ثبت کر رہے تھے۔


حسن محمود احمد عودہ ایک فلسطینی نوجوان ہیں جن کا خاندان فلسطین میں سب سے پہلے قادیانیت قبول کرنے والا خاندان ہے۔ فلسطین کے مشہور شہر ’’حیفہ‘‘ کے عودہ خاندان میں سب سے پہلے ۱۹۲۴ء میں حسن محمود عودہ کے نانا نے قادیانیت قبول کی، پھر ان کے دادا قادیانی ہوئے اور رفتہ رفتہ پورا خاندان قادیانیت کی آغوش میں چلا گیا اور اس خاندان نے قادیانیت کے لیے ایسی خدمات سرانجام دیں کہ آج حیفہ کا قادیانی مرکز پورے مشرقِ وسطٰی کے سب سے بڑے قادیانی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حسن عودہ کی ولادت ۱۹۵۵ء میں حیفہ میں ہوئی، والدین قادیانی تھے، اسی ماحول میں پرورش پائی اور تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ والدین کا خیال تھا کہ حسن کو قادیانی مذہب کا بہترین مبلغ بنایا جائے، اس مقصد کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کی غرض سے حسن کو ۱۹۷۹ء میں قادیان بھیجا گیا جہاں اس نے مرزا غلام قادیانی کے گھر میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے قیام کیا، بیت الریاضہ میں چھ ماہ کے قیام کے دوران حسن عودہ کو اردو زبان اور مرزا غلام  قادیانی کی کتابوں کی سبقاً سبقاً تعلیم دی گئی، ایک استاذ اردو زبان کے لیے اور ایک استاذ مرزا قادیانی کی کتابیں پڑھانے پر مامور رہا۔ قادیانیت کا یکطرفہ چہرہ سامنے تھا، اسی ماحول میں ذہن و فکر کی تشکیل ہوئی تھی، جب قادیان میں نام نہاد مسجد اقصٰی، مینارۃ المسیح، بہشتی مقبرہ، مسجد مبارک اور دیگر مقامات دیکھے بلکہ ایک خاص انداز سے دکھائے گئے تو قادیانی مذہب اور خاندانِ مرزا کے ساتھ عقیدت دو آتشہ ہوگئی۔ حسن عودہ کو سری نگر کشمیر میں وہ قبر بھی دکھائی گئی جس کے بارے میں قادیانیوں کا دعوٰی ہے کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر ہے لیکن بھارتی پارلیمنٹ اور ایک جرمن تحقیقاتی کمیٹی نے اس دعوٰی کو مسترد کر دیا تھا


الغرض جب چھ سات ماہ کا خصوصی کورس مکمل کرنے کے بعد حسن عودہ فلسطین واپس پہنچا تو اس کی جوانی قادیانی مذہب کی تبلیغ و اشاعت اور قادیانیوں کو منظم و فعال بنانے کے جذبہ سے سرشار ہو چکی تھی۔ چنانچہ اسے خدام الاحمدیہ کا سربراہ بنا دیا گیا اور اس حیثیت سے اس نوجوان نے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ فلسطین بھر میں سرگرمیوں کا جال پھیلا دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ قادیان آیا جہاں اس کی شادی کی گئی اور نکاح مرزا غلام  قادیانی کے گھر پر پڑھایا گیا۔ حسن عودہ کے جوش و جذبہ اور سرگرمیوں کی اطلاع اُس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا طاہر  کو ملی تو اسے فلسطین سے لندن طلب کر لیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں حسن عودہ لندن پہنچا جہاں مرزا طاہر  نے ٹل فورڈ میں ’’اسلام آباد‘‘ کے نام سے اپنا مرکز قائم کر رکھا تھا حسن عودہ کو اس مرکز میں شعبۂ عربی کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور عربوں میں قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دی گئیں۔


حسن عودہ کا کہنا ہے کہ فلسطین اور قادیان میں تو فضا یکطرفہ تھی اور ہمیں مرزا غلام  قادیانی اور قادیانیت کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا تھا اسے مانے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں تھا بلکہ ہمیں اس بات سے ڈرایا جاتا تھا کہ مسلمان علماء قادیانیوں کے بارے میں جو باتیں کرتے ہیں وہ عناد اور حسد پر مبنی ہیں اور درست نہیں ہیں، اس لیے کسی تردد اور شبہ کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن جب لندن کی کھلی فضا میں آیا اور غیر قادیانی حضرات کی باتیں سننے اور ان سے ملنے کا موقع ملا تو دال میں کچھ کالا کالا محسوس ہونے لگا۔ خاندانِ مرزا اور قادیانی قیادت کے بارے میں تصورات اور عقیدت کی دنیا بہت حسین تھی لیکن جب عملاً واسطہ پڑا اور قریب سے دیکھا تو عقیدت کا یہ محل لرزنے لگا، دل نے گواہی دی کہ جو لوگ دنیا بھر کی دینی اور روحانی قیادت کے دعویدار ہیں ان کی اپنی زندگی اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ اس دوران حسن محمود احمد عودہ کو قادیانی مرکز کے عربی جریدہ ’’التقوٰی‘‘ کے اجراء  اور ادارت کی ذمہ داری سونپی جا چکی تھی اور مرزا طاہر  نے نہ صرف حسن کو اپنے عربی ترجمان کی حیثیت دے دی تھی بلکہ سالانہ اجتماعات اور دیگر تقاریب میں مرزا طاہر  کی طرف سے حسن عودہ کی خدمات کا تذکرہ کھلم کھلا ہونے لگا تھا۔


حسن عودہ کا کہنا ہے کہ جہاں قادیانی مرکز میں کام کرنے والے افراد کا عالمی قیادت کے معیار پر پورا نہ اترنے کا احساس میرے جذباتِ عقیدت کی جڑوں کو کرید رہا تھا وہاں مرزا قادیانی کے بارے میں مسلم علماء کے بیانات سن کر یہ خیال دل و دماغ میں جگہ پکڑنے لگا تھا کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے جو اب تک ہم سے مخفی رکھی گئی ہے اور جسے جان بوجھ کر ہم سے چھپایا گیا ہے۔ جب اس پہلو پر تجسس کچھ آگے بڑھا تو بات کھل کر سامنے آگئی کہ یہ مرزا قادیانی کی تصویر کا وہ دوسرا رخ ہے جسے آج تک ہم سے اوجھل رکھا گیا تھا لیکن مسلمان علماء نے اس رخ پر ڈالے گئے تقدس کے نقاب کو کچھ اس طرح نوچ ڈالا کہ تصویر کے اس رخ کو حقیقی اور اصلی رخ تسلیم کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ رہا اور اس حقیقت نے دل میں گرہ باندھ دی کہ اگر مرزا قادیانی سچا ہوتا تو اس کی تصویر کا یہ رخ ہم سے اس اہتمام کے ساتھ چھپایا نہ جاتا اور اس کے بارے میں حقائق کے اظہار سے خوف نہ محسوس کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی شبہ کی ایک اور بنیاد بھی ذہن کی گہرائیوں میں جگہ پکڑنے لگی کہ دنیا بھر کے مسلمان جب کلمہ پڑھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے احکام بجا لاتے ہیں اور ان میں بے شمار لوگ بہت زیادہ اچھی زندگی بسر کرنے والے بھی ہیں تو یہ سب لوگ قادیانیوں کے نزدیک کافر کیوں ہیں؟ اور مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو ساری دنیا کے مسلمانوں پر کفر کا فتوٰی لگانے کا کیا حق ہے؟ حقائق کے پے در پے انکشاف نے حسن عودہ کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی لیکن یہ طوفان سمندر کی پرسکون سطح کے پردے میں اندر ہی اندر انگڑائی لے رہا تھا اور اس وقت تک حسن عودہ قادیانی مرکز کے عربی جریدہ ’’التقوٰی‘‘ کے رئیس التحریر کی حیثیت سے ۹ شمارے شائع کر چکا تھا۔


جون ۱۹۸۹ء کی بات ہے کہ حسن عودہ کے دل کے جذبات و احساسات نے سطح سمندر کا سکون توڑ دیا اور دل کی باتیں دوستوں کے سامنے زبان پر آنے لگیں۔ بات مرزا طاہر  تک پہنچی تو خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی اور خوف نے دامن پکڑ لیا کہ یہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے کی طرف کیوں چل پڑا ہے۔ حسن عودہ کی طلبی ہوئی اور ’’واللہ خیر الماکرین‘‘ کی حقیقت کا یہ خوبصورت اظہار ایک بار پھر اہل ایمان کے ایمان کی تازگی کا عنوان بن گیا کہ یہ طلبی ۹ جون ۱۹۸۹ء کو ہوئی جو مرزا طاہر  کی طرف سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو دی گئی دعوتِ مباہلہ کی ایک سالہ میعاد کا آخری دن تھا۔ حسن محمود عودہ نے مرزا طاہر  کے سامنے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جن کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا اور بالآخر حسن عودہ نے مرزا طاہر  کی دعوتِ مباہلہ کو اس کی طرف سے دی گئی ایک سالہ میعاد کے آخری دن اس کے سامنے یہ اعلان کر کے منطقی انجام تک پہنچا دیا کہ ’’میں مرزا غلام  قادیانی کو سچا نہیں مانتا‘‘۔ مرزا طاہر  کے لیے یہ اعلان ایٹم بم کے دھماکے سے کم نہیں تھا مگر یہ ربوہ نہیں تھا کہ کسی تہہ خانے کا دروازہ کھلتا اور پھر عودہ خاندان دنیا بھر میں تلاش کرتا پھرتا کہ اس خاندان کا حسن نامی نوجوان جو مرز اطاہر  کے پہلو میں بیٹھا کرتا تھا اسے کونسی زمین نگل گئی ہے اور کس آسمان نے اچک لیا ہے۔ یہ لندن تھا اور یہاں مرزا طاہر  کے بس میں صرف یہی تھا کہ حسن عودہ پر ٹل فورڈ کے قادیانی مرکز کی زمین تنگ کر دی جاتی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اسے ۹ جون کی شام سے پہلے مرکز سے نکال دیا گیا اور حکم ملا کہ فورًا برطانیہ چھوڑ دو ورنہ سپانسرشپ منسوخ کر دی جائے گی۔


حسن عودہ ایمانِ حقیقی کی لذت سے آشنا ہو چکا تھا اور اب اس کے لیے ان دھمکیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی، اس نے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا حتٰی کہ اسے مسلمان دوستوں نے سنبھال لیا اور وہ ٹل فورڈ سے ۱۷ جولائی کو سلاؤ کے علاقہ میں منتقل ہوگیا۔ حسن عودہ کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اسے سب سے زیادہ اشتیاق مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ سے ملاقات کا تھا کیونکہ وہ مولانا چنیوٹی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں قادیانی قیادت اور مرزا طاہر  کے جذبات سے آگاہ تھا اور خود اس کی ادارت میں شائع ہونے والے عربی ماہنامہ التقوٰی میں مولانا چنیوٹی رحمة اللہ علیہ  کو ’’اشد اعداء جماعتنا‘‘ (ہماری جماعت کا سخت ترین دشمن) کے خطاب سے نوازا جا چکا تھا۔ چنانچہ اسے اس کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا اور مولانا چنیوٹی رحمة اللہ علیہ سے، جو سلمان رشدی کے خلاف انٹرنیشنل اسلامک مشن کے زیر اہتمام ۱۳ اگست کو ویمبلے ہال لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے، ۱۵ اگست کو ساؤتھال میں مولانا محمد طیب عباسی کی رہائش گاہ پر اسے ملاقات کا موقع مل گیا۔ اس ملاقات میں مولانا چنیوٹی رحمة اللہ علیہ نے حسن عودہ کو مرزا قادیانی اور قادیانیت کے بہت سے مخفی گوشوں سے آگاہ کیا اور کئی حقائق اس کے سامنے بے نقاب کیے۔


حسن عودہ اس کے بعد سے مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ عام قادیانیوں بالخصوص عرب نوجوانوں کو ان حقائق سے آگاہ کر کے اسلام کے دامن میں لائیں۔ ان کی اہلیہ مسلمان ہو چکی ہیں اور بہت سے عرب نوجوان بھی دامنِ اسلام میں آ چکے ہیں۔ حسن عودہ کا پہلا ہدف عرب قادیانی ہیں اور وہ بڑی تیزی اور شوق و ذوق کے ساتھ اس کام میں مگن ہیں۔ حسن عودہ نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ویمبلے کانفرنس سینٹر لندن میں منعقد ہونے والی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ قادیانیت کے خلاف ملتِ اسلامیہ اور علماء اسلام کی جدوجہد میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔


 حسن محمود عودہ نے  6 اکتوبر کو ساؤتھال لندن میں جناب حاجی محمد اسلم کی رہائش گاہ پر  ممتاز عالمِ دین اور ختم نبوت موومنٹ کے ایک اھم رھنما  علامہ زاھد راشدی صاحب سے بھی ملاقات کی جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمة اللہ علیہ اور حاجی محمد اسلم صاحب بھی شریک تھے۔ اس ملاقات میں حسن عودہ نے مذکورہ بالا واقعات اور حقائق کا اظہار کیا۔ اس موقع پر  ممتاز عالمِ دین اور ختم نبوت موومنٹ کے اھم رھنما  علامہ زاھد راشدی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں حسن عودہ نے اسرائیل کے ساتھ قادیانیوں کے تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ قادیانی جماعت کے مرکز حیفہ کے بہت خوشگوار مراسم ہیں، اسرائیلی پولیس اور رضاکار فورس میں سینکڑوں قادیانی نوجوان کام کرتے ہیں البتہ فوج میں قادیانی نہیں ہیں۔ حیفہ کا قادیانی مرکز اسرائیلی حکومت کا وفادار ہے، تنظیم آزادیٔ فلسطین کے ساتھ قادیانیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے دشمنوں اور مخالفوں میں شمار کیا جاتا ہے، قادیانی مراکز اور عبادت گاہوں کی تعمیر میں اسرائیلی حکومت فنڈز بھی فراہم کرتی ہے اور ہر طرح کا تعاون میسر آتا ہے۔


حسن عودہ جیسے قادیانیت کے لئے سر گرم تھے اسی طرح بلکہ اس بھی زیادہ اب ختم نبوت کے لئے سرگرم ھیں اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو ثابت قدم رکھیں اور اس کی ھر طرح سے حفاظت فرمائیں ۔ جس طرح اس کا خاندان فلسطین میں قادیانیت کے فروغ کا ذریعہ بنا تھا اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو تمام عرب قادیانیوں کی توبہ اور قبول اسلام کا ذریعہ بنائیں، 

آمین یا الٰہ العالمین۔

Share: