* مرزائی ریشہ دوانیاں،سرکاری چشم پوشی اور اربابِ اختیار کی مرزائیوں پر نوازشیں! *
*مرزائی اور عمران حکومت*
جیسا کہ سابقہ حکومتوں نے مرزائیوں کو نوازنے کی پالیسیاں اپنا کر رکھیں عمران حکومت جو ریاستِ مدینہ کی دعویدار تھی نے تو مرزائیوں کو کلیدوں عھدوں پر فائز کرنے اپنے وزیر ومشیر تک مرزائی مقرر کرنے اور مرزائیوں کے لئے کاغذات اور نصابی کتابوں میں ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے طے شدہ مواد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی وہ روایت قائم کی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست بھی شرما گئی شاید مرزائیوں کو بھی اسقدر یہ اُمید نہ تھی کہ عمران حکومت ان کی چاپلوسی میں اسقدر اگے نکل جائے گی کہ جس کے اظہار کے لئے شاید لفظ “بے غیرتی” بھی کفایت کرنے سے قاصر ھوگا
جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، مرزائیت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ مرزائیوں کے مبلغ مسلمان نوجوانوں کو پوری دنیا میں ورغلا رہے ہیں۔یہ اس زندیق کی پیروی کر رھے ھیں جس نے نبوت کا دعوی کیا۔اور انتہائی غلیظ ترین جگہ،لیٹرین میں مرا۔(اللہ اس ملعون پر لعنت فرمائے)جو بدکار اور ٹھرکی تھا۔بے حیاءاور بے شرم تھا۔امام ابو خنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرے اور کوئی اس سے دلیل مانگے گا تو وہ بھی کافر ہے۔کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے، کہ میں نے نبوت پر مہر لگا دی ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ھو سکتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
عمران حکومت کی آشیرباد سے قادیانیوں کی طرف سے اسلام آباد کے نواع میں خریدی گئی زمین کا مسئلہ خصوصی طور پر توجہ طلب ھے ۔ پچاس ہزار قادیانی خاندانوں پر مشتمل نیا شہر اسلام آباد کے نواح میں بسانے کے اجازت نامے پر ،سابق وزیر داخلہ کے طرف سے دستخط ہیں ، شہر یار آفریدی جو ہر بات پر جان اللہ کو دینے کا تذکرہ کرتا ہے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ، کافروں کو زمین خریدنے اور ایک نیا شہر بسانے کی اجازت دیتا ہے۔(شکل مومناں کرتوت کافراں ) یہ جرآت نہ پرویز مشرف کو ہوئی نہ ھی نواز شریف کو،اور نہ زرداری کو ہوسکی۔ مدینہ کی ریاست کے بلند بانگ دعویداروں کو ہوئی۔انکو مرزائی کتوں کی آنکہوں میں آنسو تو نظر آجاتے ہیں لیکن بھوک سے مرتی ہوئی عوام نظر نہیں آتی۔ جس دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت نہیں۔ وہ دل مسلمان کا دل نہیں ہے۔وہ دماغ انسان کا نہیں بلکہ گدھے کا دماغ ہے۔یہ کیسی مدینہ کی ریاست ہے کہ اس ریاست میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف قادیانی متحرک ہیں۔ کیسا مدینہ کی ریاست کا علمبردار وزیراعظم ہے کہ اسکی کابینہ کے پانچ ممبران وزیر قادیانیوں والی شق کو سمری میں ڈال کر اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر قادیانی اور یہودی نواز عناصر مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ ان دونوں فتنوں کا آپس میں اتحاد ہو چکا ہے۔کیسا بے شرم ،بے حیا اور منافقوں کا ٹولہ ہے۔جو عمران کا دفاع کرتے ہوئے تو اسمبلیوں میں لال پیلے ہو جاتے ہیں لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خلاف نئی آئینی شق لانے پر اُن کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ یہ کیسے کلمہ گو ہیں۔ کیسے مسلمان ہیں۔جو اپنی تنخواہوں میں اضافے پر اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھتے ہیں مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش پر ضمیر مردہ، ایمان مردہ۔ جسم مردہ ، آنکھیں بند ، کان بند ، یہی تو ہیں جن کے بارے فرمایا گیا ھے کہ یہ بہرے ہیں ،گونگے ہیں،اندھے ہیں انہیں کچھ سجائی نہیں دیتا
عمران حکومت کے برسرِاقتدار آتے ہی یوں لگتا ہے گویا قادیانی فتنہ پروَر ٹولے کو پر لگ گئے ہیں۔ آئے دن ان کی سازشیں اور شرارتیں اندرون وبیرونِ ملک طشت ازبام ہوتی رہتی ہیں، ان کی سازشوں اور شرارتوں کا یوں بڑھنا کوئی معمولی واقعہ یا کوئی سادہ سی بات نہیں ھے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہے جو خفیہ طورپر کام کررہا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی اقتصادی کمیشن میں جہاں دوسرے ماہرینِ اقتصادیات کے نام شامل کیے‘ وہاں عاطف قادیانی سمیت کچھ اور قادیانیوں کے نام بھی شامل کیے۔ اور یہ عاطف قادیانی وہی ہے جس کے بارے میں جناب عمران خان صاحب کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے: ’’یہ عاطف میاں ہماری حکومت کے وزیرخزانہ ہوں گے۔‘‘ وہ بعض وجوہ کی بناپر وزیر خزانہ تو نہ بن سکا، لیکن جناب عمران خان کی حکومت نے اسے اقتصادی کمیشن میں شامل کرلیا۔ جب اس کے خلاف عوام کا دباؤ بڑھا تواس کا نام اقتصادی کمیشن میں شامل نہ کیے جاسکنے کی وجہ سے وہ کمیشن ہی ختم کردیا گیا
عمران حکومت کے دور میں ایک سزا یافتہ مجرم عبدالشکور نامی قادیانی شخص جو جیل میں تھا اس کی سزا مکمل ہونا ابھی باقی تھی کہ اسے نہ صرف جیل سے رہائی کا پروانہ تھمادیا گیا بلکہ بڑے تکبر وغرور کے نشے میں عزت و افتخار کے ساتھ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈٹرمپ کے دربار میں رسائی بھی دلائی گئی اور پھر وہ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پاکستان پر الزامات لگاکر ہمارے پیارے ملک پاکستان کی توہین کرتا رھا
اس کے بعد اُسی سال جب حج فارم جاری کیا گیا تو اس حج فارم میں موجود ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلف نامہ اُڑادیا گیا علمائے کرام اور عوام کے بھرپور احتجاج کے بعد وزیرمذہبی امور لایعنی سی وضاحتیں پیش کرتے رھے اور پھر انھوں نے خود ہی قائمہ کمیٹی کے سامنے اقرار کیا کہ حلف نامہ اصل فارم سے بھی اُڑادیا گیا تھا، میں نے احتجاج کیا اور اس کے بعد اصل فارم میں اسے بحال کیا گیا، اور وزیر موصوف نے یہ وعدہ کیا کہ میں تحقیقات کراؤں گا، لیکن آج تک تحقیقات نہیں کرائی جاسکیں۔
جب پوری دنیا کی طرح جہاں پاکستان بھی کرونا کی وبا کے خوف میں مبتلا ہوا تو وہاں وزارتِ مذہبی امور کے تحت جب اقلیتی کمیشن کے لیے سمری بنائی گئی تو اس میں دوسری اقلیتوں کے علاوہ قادیانیوں کا نام بھی شامل کر دیا گیا میڈیا میں اس خبر کے آنے کے بعد جب وزیرمذہبی امور سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس کے بارہ میں مشاورت ہوئی تھی، لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا، اور یہ بھی کہا کہ پانچ چھ کابینہ ارکان کی یہ رائے ضرور تھی، لیکن اکثریت نے اسے مسترد کردیا تھا پھر وزیر موصوف سے جب سوال کیا گیا کہ اگر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا، تو سمری میں مرزائیوں کا نام کس نے ڈالا؟ تو وہ کہنے لگے : مجھے پتہ نہیں، میں تحقیقات کراؤں گا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وزیر موصوف صحیح کہہ رہے ہیں تو عین ان کی وزارت کے نیچے کون سے قادیانیوں کے ایسے کارندے ہیں جو قادیانیت نوازی کررہے ہیں، بلکہ اس طرح خلافِ آئین اور خلافِ قانون حرکت کرکے حکومت ، ملک اور قوم کو بھی اضطراب میں مبتلا کررہے ہیں۔ کیا وہ اتنے جری ہوگئے ہیں کہ حکومتی کاموں میں بھی مداخلت کرنے لگے ہیں؟! اسی لیے علمائے کرام اور آئین ساز اسمبلی کے معزز اراکین نے ۱۹۷۴ء میں ان کو غیرمسلم اقلیت میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ ان کو کلیدی عہدوں سے بھی ہٹایا جائے۔ یہ جب تک ان عہدوں پر براجمان رہیں گے ، اس وقت تک ملک اور قوم کو آزمائش کی بھٹی میں ڈالتے رہیں گے، ان حرکتوں اور کرتوتوں کے سامنے آنے سے ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کی بات سو فی صد درست ثابت ہورہی ہے۔
عجیب مذاق ہے کہ ایک گروہ جو ایک ملک کے آئین اور قانون کو نہیں مانتا، لیکن اپنے مفادات سمیٹنے کی خاطر اس ملک کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہے، گویا مسلمانوں کی اکثریت پر ایک اقلیت حکومت کررہی ہے، حالانکہ جسٹس میاں محبوب احمد کی عدالت نے ۲ دسمبر ۱۹۸۱ء میں ایک فیصلہ دیا تھا کہ: ’’کوئی قادیانی مسلم اکثریت والے گاؤں کا نمبردار نہیں بن سکتا۔‘‘ (سی ایل سی ۱۹۸۲ء، ص:۳۵۷)
جب ایک مسلم اکثریت والے گاؤں کا ایک اقلیت سے تعلق رکھنے والا قادیانی نمبردار نہیں بن سکتا، تو مسلم اکثریت والے ملک کے وفاقی محکمے ہوں یا صوبائی اور شہری محکمے ‘ ان کے کلیدی عہدوں پر قادیانی کیسے براجمان ہوسکتے ہیں، یہ حکومت اور اربابِ اقتدار سے عوام کا سوال ہے۔
قادیانیوں کے اقلیتی کمیشن میں شمولیت کے بارہ میں جیسے ہی خبر میڈیا میں آئی تو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب رحمہ اللہ جو امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تھے اور مجلس کے مرکزی راہنماؤں کی طرف سے ۲۹اپریل ۲۰۲۰ء کو یہ بیان جاری کیاگیا کہ: ’’حکومتی حلقہ سے اس خبر کا آنا کہ ایک اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے، یہ محلِ نظر ہے اور مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث ، اس لیے کہ پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے اور دستورِ پاکستان کو نہ ماننے کی بنا پر قادیانی آئینِ پاکستان کے منکر اور باغی ہیں اور آئین کے باغیوں کو کسی کمیشن کا رکن بنانا کسی طور پر درست نہیں۔ پاکستان کا آئین قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور آج تک انہوں نے اپنی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ آئین کے باغی اور آئین شکن گروہ کو حکومت کے کسی کمیشن میں شریک کرنا یہ ان کی آئین شکنی پر حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔
جب سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا ہے، آج تک قادیانیوں کو کسی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا۔ اب وہ اپنی اس آئینی حیثیت کو تسلیم نہ کریں اور آئین کے انکار کے باوجود انہیں کمیشن کا ممبر بنانا گویا ان کے لیے راستہ مہیا کرنا ہے کہ آئندہ وہ امن کمیٹیوں میں، علماء بورڈ میں،مکالمہ بین المذاہب میں اور پاکستان کے تمام پلیٹ فارموں کو وہ استعمال کرسکیں، یہ قادیانیوں کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی اور حکومت کی قادیانیت نوازی کی بدترین مثال ہے۔ ریاستِ مدینہ کی مدعی گورنمنٹ سے ایسے اقدام کی بالکل توقع نہیں تھی۔ انہوں نے یہ اقدام کرکے اسلامیانِ وطن کے ساتھ ناقابلِ تلافی اور ناقابلِ معافی زیادتی کا ارتکاب کیا ہے۔ حکومت انہیں کمیشن میں شامل کرنا چاہے تو یہ خوشی کی بات ہوگی، لیکن پہلے قادیانیوں سے وہ یہ تسلیم کرائے کہ ہم بطورغیر مسلم کے اس اقلیتی کمیشن میں شامل ہورہے ہیں، اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرلیں تو بہت خوشی سے انہیں کمیشن کا ممبر بنادیا جائے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ھو گا لیکن اگر وہ یہ تسلیم نہیں کرتے اور پھر بھی انہیں ممبر بنایا جاتا ہے تو یہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کی بنیادوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا اور مسلمان اسے مسترد کرتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اپنے اس ناروا فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔‘‘
حکومت نے اگرچہ بعد میں قادیانیوں کو اس اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قانون کی رو سے ایسا کرنے کی مجاز بھی ہے یا نہیں؟ وکلاء حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قانونی طور پر بھی قادیانیوں کو حکومت کسی کمیشن میں داخل کرنے کی مجاز نہیں ہے، کیونکہ ہر اقلیت دستور کے آرٹیکل ۳۶ کے تحت پہلے حکومت کو درخواست کرے گی کہ میرا تعلق فلاں اقلیت سے ہے، مجھے ان کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے، اقلیت میں رجسٹرڈ ہونے کے بعد کسی حکومتی ذمہ داری یا کمیشن میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جب قادیانیوں نے اپنے آپ کو اقلیت کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کرایا تو وہ کمیشن میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے میٹرک پاس کیے بغیر کوئی فرسٹ ائیر یا سیکنڈائیر کے امتحان میں شریک ہوجائے۔ جس طرح یہ خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون ہے، اسی طرح وہ بھی خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار اور حکومت کا یہ اقدام پاکستانی قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتاہے۔
قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی ان کوششوں کے ردِ عمل میں موجود پاکستانی قوم میں پائے جانے والے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے معزز رکن جناب حافظ عمار یاسر صاحب کی جانب سے تحفظِ ناموسِ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے تحفظ کے حق میں قرارداد پیش کی گئی، جسے پورے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا، جسے تاریخ نے محفوظ کر لیا
اب ذرا غور کیجیے کہ فرائى ڈے ٹائم کا ایڈیٹر اور عمران کا خالہ زاد بھائى خالد احمد قادیانی ھے ۔
تحریک انصاف کا مرکزی سربراہ شاہد جاوید برکی عمران کا خالہ زاد بھائى بین الاقوامی لیول کا معاشی ماہر قادیانی ھے ۔۔
واجد علی برکی تحریک انصاف کا فائنانس دیکھنے والا کٹر مرزائى ھے ۔
معاملہ تو یہ ھے کہ پھر عمران نیازی کی پارٹی میں جب غلبہ ھی ان لوگوں کا ھے تو پھر ان کی حرکتوں کو عمران حکومت کیسے کنٹرول کر سکتی ھے کسی پر بدگمانی نہیں کرسکتے مگر اس گھتی کو سلجھانا اتنا مشکل بھی نہیں جوڑ سے جوڑ ملاتے جائیے نتیجہ سامنے آجائے گا۔
لندن مئیرکے انتخاب میں مسلمان کےمقابلہ میں یہودی کی حمایت اور پاکستان میں مسلمانوں کی جگہ قادیانی کی حمایت کیا اشارہ دے رھی ھے
عمران خان کا بطور وزیرِ اعظم حلف کے دوران (جان بوجھ ) کر غلطی کرکے ایک معنی خیز مسکراہٹ بکھیرنا جیسے کسی کو اشارہ دے رہا ھو دوسرا اس کی حکومت آتے ھی قادیانیوں کے حمایتی بیان سامنے آنا اور خوشی سے پھولے نہیں سمانا۔پورے یورپ امریکہ کینیڈا سے قادیانیوں کی جانب سے مبارکباد کے پیغام موصول ہونا ۔ قادیانیوں کی بدمعاشی شروع ہوجانا اور فیصل آباد پر مسلمانوں پر حملے کرکے انھیں زخمی کردینا۔ قادیانیوں کا سوشل میڈیا پر مکمل پھیل جانا اور ان کی حمایت میں پی ٹی آئی کے بعض ایم این اے ، ایم پی اے کا ھمدردی کرنا۔ ایک خطرناک صیہونی مرزائى اور قوم یہود کے آئى ایم ایف سے تعلق رکھنے والے میاں عاطف کا عمران خان کا مشیر بنانا مگر عوامی دباؤ پر فیصلہ واپس لیا جانا۔
کیا یہ ایک اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک پر قادیانیوں کا غلبہ کروا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔
یا نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پاکستان کا اسلامی تشخص ختم کرکے اسے ایک لادین ملک بنانے کی تیاری کی جارھی ھے ۔۔۔ہوشیار رہئیے اس پورے منظر نامے پر آدھا نہیں مکمل سوچیے
’’کے پی کے ‘‘ کے سرکاری اسکوں میں چوتھی کلاس کی اسلامیات کے نصاب سے عقیدہ ختمِ نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے متعلق مضمون میں تحریف کی گئیاور یہ کسی قادیانی یا قادیانی نواز کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں کتابیں دستیاب ھیں اور دونوں میں واضح فرق ملاحظہ ھو ۔
2017ء کے چوتھی کے اسلامیات کے نصاب کی کتاب میں صفحہ نمبر:۱۳ پر انبیاء ورسل علیہم السلام پر ایمان کے عنوان کے تحت عبارت ہے:
’’ سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورسیرت ہے۔ ان باتوں پر یقین رکھنا عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کہلاتا ہے،جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور اسلام سے خارج ہے۔‘‘
2019 ء کے چوتھی کے اسلامیات کے نصاب کی کتاب میں یہی عبارت یوں ہے:
’’ سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں، یعنی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا پیغام یعنی قرآن مجید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے سے دنیا وآخرت میں کامیابی اور نجات مل سکتی ہے۔‘‘
دونوں عبارتوں کا موازنہ کرلیجیے
۱- نئے نصاب میں خط کشیدہ عبارت پوری حذف کردی گئی ۔
۲:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’نازل ہونے والی کتاب‘‘ کو بدل کر ’’کا لایا ہوا پیغام یعنی۔۔‘‘ کردیا۔
۳:- سنت اور سیرت ہے کہ بعد عبارت حذف کرکے اس کی جگہ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘‘ آگے عبارت بڑھائی گئی جو قادیانیوں کے منشا ومطلب کو تو پورا کررہی ہے، لیکن مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) پر چھری چلائی گئی ہے۔
۴:- اور پھر صفحہ: ۱۴ پر سوال نمبر:۶ ’’آخری پیغمبر کون ہیں؟ عقیدہ ختمِ نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) سے کیا مراد ہے؟‘‘ پورا اُڑادیا گیا۔
اس جعل سازی پر کے ۔پی ۔کے اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کی معزز ہ رکن محترمہ حمیرا خاتون نے نکتۂ اعتراض اُٹھایا تو اسپیکر مشتاق غنی نے انہیں جواب دیا کہ اسلامیات کی کتاب میں سے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے الفاظ حکومت کی اجازت کے بغیر ختم کیے گئے تھے ، وزیرِتعلیم نے الفاظ کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنے کا حکم دے دیا ہے، جب کہ تبدیلی کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے جماعت چہارم کی اسلامیات کی کتاب سے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا باب نکالنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے اور ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ محکمہ ایجوکیشن کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کی ہے جو معاملے کی مزید تحقیقات کرے گی اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔مشیرِ تعلیم نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہمارے ایمان کاحصہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور جو بھی ذمہ دار ہے اس کو ضرور سزا دیں گے۔ انہوں نے تمام اسکولوں سے مذکورہ جماعت چہارم کی اسلامیات کی کتاب واپس لینے اور صوبے کے تمام اسکولوں کو ۲۰۱۸ء کی اسلامیات کی کتاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے اسٹاک سے مہیا کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
بہرحال اہلیانِ پاکستان کے سوچنے کا مقام ہے کہ حکومتی ذمہ داران کی ناک کے نیچے ہمارے ایمان اور عقیدے پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، لیکن بقول ان کے ان میں سے کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جب مسلمان عوام احتجاج کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ کام ہوا ہے اور آخروہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو اس طرح کی مسلسل کارروائیاں کررہے ہیں، آخر ان کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا اور انہیں کڑی سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟! کیا اس وقت کا انتظار ہے کہ عوام خود ان کے اوپر ہاتھ ڈالیں گے ، تب حکومت کو سمجھ آئے گی؟! خدارا ایسے حالات نہ بنائیں کہ عوام اور ایسی خفیہ کارروائیاں کرنے والے باہم دست وگریباں ہوں اور عوام چن چن کر ایسے افراد کو خود بے نقاب کرکے عبرت کا نشان بنائیں۔
ہمارے ملک میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء کے تحت قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی بالکل اجازت نہیں ھے ، ایسا کرنے والے کو تین سال تک جیل اور مالی جرمانہ عائد ہوتا ہے، لیکن اس حکومت میں پاکستان میں بھی قادیانیوں کے چینل کھولے جارہے ہیں، جن پر حکومتی افراد اور مقتدر طبقہ کو احساس دلانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے مرزا فاروق حیدر چیئرمین فورتھ پلر میڈیا واچ ڈاگ کی درج ذیل درخواست کافی ہے:
’’ جناب عالی پیمرا کے چیئرمین محمد سلیم بیگ اور فخر الدین مغل ایک عرصہ سے قادیانیوں کے چینلز کو غیرقانونی طور پر اور جانتے ہوئے کہ بغیر لائسنس کسی چینل کی سرپرستی کرنا اور خاص طور پر قادیانیوں کو بغیر لائسنس کے ملک میں ڈش اور کیبل پر چلانے کی سرپرستی کرنا قانوناً جرم ہے۔ اس کے باوجود وہ آنکھیں بند کرکے اس تماشہ کو دیکھتے رہے، جناب عالی! مزید یہ کہ فخر الدین مغل قادیانی جو کہ پیمرا آفیسر ہے اور اس نے احمدی جماعت کے ساتھ مل کر پاکستان میں نشریات چلانے کی سازش کی جس کے قادیانی ہونے کا ثبوت درخواست کے ساتھ لف ہے، پیمرا کے دیگر آفیسرز اور ملازمین کو فخر الدین مغل قادیانی کی سازش کے متعلق معلوم ہوا تو دفتر میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا اور فخر الدین مغل کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے چیئرمین سلیم بیگ نے نہ صرف اس معاملے کو دبادیا، بلکہ فخر الدین مغل کو پانچ سال کی چھٹی پر امریکہ بھجوادیا اور اس نے امریکہ میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور وہ ابھی بھی پیمرا کا ملازم ہے۔
جناب عالی! گزارش ہے کہ قادیانی/ احمدیہ چینلز کی نشریات کو فی الفور بند کرتے ہوئے قادیانیوں کے چینلز کا Equipmen\Cable Installation مارکیٹ سے قبضہ میں لی جائے اور ڈسٹری بیوٹرز/ کیبل ڈش آپریٹرز کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے قادیانی / احمدیہ چینلز کی نشریات کے سیٹلائٹ بکس جن گھروں میں لگارکھے ہیں، وہاں سے برآمد کرکے قبضہ میں لیے جائیں اور قادیانی/ احمدیہ چینلز کے سہولت کار فخرالدین مغل قادیانی کو بھی فوری پیمرا سے برطرف کیا جائے۔‘‘
العارض :مرزا فاروق حیدر
چیئرمین فورتھ پلر میڈیا واچ ڈاگ
کا یہ مطالبہ کہ قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے‘ یہ کوئی نیا یا بلاجواز مطالبہ نہیں، بلکہ اس کا محرک یہ ہے کہ ہر قادیانی کسی محکمہ میں ملازم بعد میں ہوتا ہے اور اپنے جھوٹے نبی مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا مبلغ پہلے ہوتا ہے اور وہ اپنے عہدہ اور اسٹیٹس کو استعمال کرتے ہوئے قادیانیت کی تبلیغ کرتا ہے، جیسا کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ:
’’ مذہب کی تبلیغ پر پابندی کا محرک بھی اسی طرح کی سوچ ہے۔ قادیانیوں نے خود کو مسلمان کہنے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دینے کہ احمدیت کو ماننے کا معنی اسلام کو ترک کرنا یا ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرنا نہیں، بلکہ بہتر مسلمان بننے کا موقع ہے، کی حکمت عملی کی بدولت ان میں اور زیادہ تر پنجاب میں کچھ کامیابی حاصل کی۔ اس مقصد کے کے لیے وہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دلوں میں سخت فرقہ واریت اور علماء کی مسلسل شدت کے خلاف موجود نفرت کے روایتی سُروں کو چھیڑتے ہیں اور انہیں اپنی تبلیغ، جسے وہ اسلام میں آزاد خیالی قرار دیتے ہیں، کی جانب راغب کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی‘ جس نے انہیں کچھ فائدہ دیا ہے، اس سوداگر کے اس فراڈ سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو اپنے گھٹیا سامان کو ایک شہرت یافتہ فرم کا اعلیٰ قسم کا معروف سامان ظاہر کرکے چلتا کرتا ہے، قادیانی یہ تسلیم کرلیں کہ ان کی تبلیغ اسلام کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور مذہب کی طرف ہے، تو بے خبر مسلمان بھی اپنے ایمان کو چھوڑ کر کفر قبول کرنے سے نفرت کریں گے، بلکہ اُلٹا قادیانیوں کے دلوں سے احمدیت کا طلسم ٹوٹ جائے گا۔‘‘
(قادیانیت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے تاریخی فیصلے، مرتبہ: فیاض اختر ملک، ص: ۲۳۰-۲۳۱)
افسوس یہ ہے کہ حکومتِ وقت ، اربابِ اقتدار اور ان کے حواریوں کو اب بھی ندامت نہیں، اس لیے کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ ہماری حکومت میں خلافِ دستور وخلافِ قانون کوئی کام ہورہا ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشی بدحالی، اسکینڈل پر اسکینڈل ، وبائی امراض اور ٹڈی دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ دل کے اندھے پن سے محفوظ رکھے، اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یا اللہ! ہمارے اہلِ وطن اور حکومت کے قصور معاف فرما، ہمارے ملک کے اربابِ حل وعقد کو فتنۂ قادیانیت کو سمجھنے، ان سے بچنے اور اپنے ملک کو ان کی سازشوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس ملک پر ، نیک، عادل، دینی حمیت اور ملکی وقار سے سرشار حکمران نصیب فرما، جو ملک، قوم اور مسلمانوں کو نیکی اور شرافت کی راہ پر ڈالیں، مظلوموں کے ساتھ عدل وانصاف کریں اور کمزوروں کی مدد اور اعانت کریں،
آمین یا رب العالمین
*وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین*