* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* فتنۂ قادیانیت اور لاھور کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شاہ فیصل مرحوم کی کوششیں *
1971 میں پاکستان دو لخت ھو گیا تھا یہ واقعہ پورے عالم اسلام کے لئے نہایت صدمے کا باعث تھا، چونکہ اس دور کے پاکستانی حکمران قادیانیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور قادیانی بحیثیت مسلمان حج کے موقع پر آدائیگئ حج کےلئے سر زمین مقدس میں پہنچ جاتے تھے اور طرح طرح کی سازشیں کرتے رھتے تھے اس سلسلہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکابرین اور دیگر علماء عرب علماء کے ساتھ رابطے میں تھے اور مسلسل انھیں فتنۂ قادیانیت کے بارے آگاہ کر رھے تھے چنانچہ عرب علماء و مشائخ نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل مرحوم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا علماء ومشائخ کے توجہ دلانے پر شاہ فیصل مرحوم نے وہاں کے کچھ مشائخ کوقادیانیت کی بابت معلومات فراہم کرنے پر مامور کیا تو انھوں نے پاکستانی علماء سے رابطہ کیا اور قادیانیوں کے متعلق معلومات چاھیں نامور دینی و علمی شخصیت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے ’’القادیانیہ‘‘کے زیر عنوان اور اھلحدیث عالم علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے بھی قادیانیت کی بابت کتاب تحریر کر کے عربوں کو اس فتنے سے تفصیل سے آگاہ کیا تھا، چنانچہ شاہ فیصل مرحوم ہی کی تجویز پر لاہور میں عالم اسلام کا تاریخی اجتماع منعقد ہوا جس میں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کو آمادہ کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کو ایک اسلامی ملک قرار دیں۔ اسی طرح پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا کہ وہ جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے قادیانیوں کو علامہ اقبالؒ کے مطالبے کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا اقدام کریں تاکہ قادیانی اسلام دشمن طاقتوں کے جاسوس بن کر حدودِ حرم میں داخل نہ ہو سکیں
یہ حکومتی سطح پر بڑی اھم آواز تھی جو شاہ فیصل مرحوم کی جانب سے بلند کی گئی اور پاکستان کے وزیر آعظم کو قانونی طور پر مرزائیوں کو کافر قرار دینے کی تاکید کی گئی چنانچہ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے فیصلے کے مطابق رابطہ عالم اسلامی - مکہ معظمہ میں تمام اسلامی ملکوں کے علماء و مشائخ اور مفتی حضرات کے ماہ اپریل 1974ء کی ابتدائی تاریخوں میں اہم اجلاس منعقد ہوئے جن میں مفتی اعظم فلسطین مفتی سید امین الحسینی کے علاوہ مصر، اردن، شام، لیبیا، الجزائر، نائجیریا وغیرہ اسلامی ملکوں کے ڈیڑھ سو سے زائد علماء و مفتیان عظام شریک ہوئے تھے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے سیکرٹری وزارت مذہبی امور نے مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنسز میں شرکت کی تھی
ان کانفرنسوں میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی بات ھوتی رھی جو بعد میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے پر منتج ھوئی گویا کہ ۱۹۷۴ کی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی تحریک کی یہ شروعات تھیں جنہوں نے قادیانیوں کی نیندیں اُڑا دیں اور اس کے بعد ھر آنے والا دن ان لعنتیوں کے لئے بدبختی کا پیغام لے کر ھی آیا اور آخرکار پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر انہیں کافر قرار دے دیا اور قادیانیوں کا نام نہاد خلیفہ پاکستان سے فرار ھوگیا پھر سعودی عرب نے بھی سرکاری طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا اور حرمین شریفین میں ان کا داخلہ بند کر دیا گیا