* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* امتناع قادیانیت آرڈینینس ۔مرزائیوں کی عدالتی چارہ جوئی اور عدالتی کاروائی اور فیصلے *
26اپریل 1984ء کو صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آرڈیننس نمبر 20 موسومہ امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت مرزائیوں کے ہر دو گروپ لاہوری و قادیانی کو ان کی خلافِ اسلام سرگرمیوں سے روک دیا گیا۔ آرڈیننس کے ذریعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298بی اور سی کا اضافہ کیا گیا ۔اس آرڈیننس کے تحت پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963ء کی دفعہ 24 میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے‘ جس کی رو سے صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ ایسے پریس کو بند کر دے جو تعزیرات پاکستان کی اس نئی اضافہ شدہ دفعہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی کتاب یا اخبار چھاپتا ہے‘ اس اخبار کاڈیکلریشن منسوخ کر دے جو متذکرہ دفعہ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ہر اس کتاب یا اخبار پر قبضہ کرے جس کی چھپائی یا اشاعت پر اس دفعہ کی رُو سے پابندی ہے۔
*آرڈیننس کے نفاذ کے بعد:*
1۔ قادیانی گروپ کا لیڈر مرزا طاہر پاکستان سے مجرمانہ فرار اختیار کرکے یکم مئی 1984ء کو انگلستان بھاگ گیا جو تادمِ مرگ وہاں پر ھی قیام پذیر رہا اور وھیں سے یہ ملعون ابدی جہنم کو سدھار گیا
2۔ قادیانی جماعت کے سالانہ جلسہ پر (جسے وہ نعوذ باللہ ظلی حج کا درجہ دیتے ہیں) پابندی لگ گئی۔
3۔ قادیانیوں کے اخبار الفضل پر پابندی لگ گئی۔
قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں نے فوری طور پر اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ آرڈیننس قرآن و سنت کے منافی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ بنچ جسٹس آفتاب احمد، جسٹس فخر عالم، جسٹس چودھری محمد صدیق، جسٹس مولانا ملک غلام علی ، جسٹس مولانا عبدالقدوس قاسمی پر مشتمل تھا۔قادیانیوں کی طرف سے مجیب الرحمن ایڈووکیٹ قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کی طرف سے کیپٹن ریٹائرڈ عبدالواجد لاہوری مرزائی پیش ہوئے، جب کہ مدعا علیہ حکومت پاکستان کی طرف سے حاجی شیخ غیاث محمد ایڈووکیٹ، جناب ایم۔ بی زمان ایڈووکیٹ اور سید ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے پیروی کی۔15 جولائی 1984ء سے 12اگست 1984ء (سوائے چھٹیوں) کے روزانہ سماعت جاری رہی۔کیس کی سماعت کے سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرکزی امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد کے حکم پر مفکر اسلام حضرت مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ جو ان دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناظم اعلیٰ تھے نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے:-
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائبریری ملتان سے بیسیوں بکسوں پر مشتمل ضروری کتب و رسائل و ریکارڈ لاہور منگوا لیا۔
کراچی سے عالمِ اسلام کے معروف سکالر اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناظم نشریات حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ اور ملتان سے مناظر اسلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناظم تبلیغ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر اور ربوہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبلغ حضرت مولانا اللہ وسایا کو لاہور طلب کر لیا۔
ایک فوٹو سٹیٹ مشین کرایہ پر حاصل کر لی گئی تاکہ مطلوبہ حوالہ جات کی کاپی کرنے میں دشواری اور تاخیر نہ ھو
جامعہ اشرفیہ ، لاہور کے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن اشرفی اور مولانا عبیداللہ صاحب مہتمم جامعہ نے جامعہ کی لائبریری ان حضرات کے لیے کھول دی۔
تقریباً مہینہ بھر میں اکیس دن سماعت ہوئی۔
عدالت نے مولانا صدر الدین الرفاعی، پرفیسر محمود احمد غازی، علامہ تاج الدین حیدری، پروفیسر محمد اشرف، علامہ مرزا محمد یوسف ، پروفیسر مولانا طاہر القادری اور قاضی مجیب الرحمن کو اپنی معاونت کے لیے بلایا جن کے عدالت میں تفصیلی بیانات ہوئے۔ مفکرِ اسلام مولانا علامہ خالد محمود نے مناظرِ اسلام علامہ منظور احمد چنیوٹی کی معاونت سے ایک تحریری بیان مرتب کیا جو عدالت میں پڑھا تو نہ جا سکا البتہ عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔ (بعد میں اسے جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے ترجمان “الرشید” میں ’’قادیانیوں کی قانونی حیثیت‘‘ کے نام سے شائع بھی کر دیا گیا)
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرکزی آمیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب اور حضرت سید انور حسین نفیس کی سربراہی میں لاہور کے علماء عدالت میں ہر روز تشریف لاتے رہے۔
دورانِ سماعت عدالت میں اتنا رش ہوتا کہ عدالت کا وسیع و عریض ہال اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ناکافی ہو جاتا تھا آخر میں عدالت کو پاس جاری کرنے پڑے۔
ہر روز کی کارروائی کے بعد شام کو مولانا محمد شریف جالندھری، مولانا محمد يوسف لدھیانوی، مولانا عبدالرحیم اشعر کے ساتھ مسلمان وکلاء کی جامعہ اشرفیہ فیروز پور لاہور کی لائبریری میں گھنٹوں ملاقات ہوتی رھی متعلقہ امور پر مشاورت‘ حوالہ جات کی تلاش ہوتی۔ ان کے فوٹو سٹیٹ حاصل کیے جاتے‘ بیانات لکھے جاتے‘ قادیانی وساوس و دجل و فریب کے جواب تیار کیے جاتے اور یوں حق تعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ توفیق و کرم سے مہینہ بھر یہ محنت جاری رہی۔
جب مسلمان وکلاء کے بیانات و بحث شروع ہوئی تو عدالت کے سامنے وکلاء کے ساتھ پہلی لائن میں وسیع و عریض دو میز رکھے جاتے جن پر اسلامی اور قادیانی کتب کا ذخیرہ سلیقہ سے رکھا جاتا۔ وکلاء کو پہلے سے تیار شدہ حوالہ جات و کتب دینے کی ذمہ داری مناظر اسلام مولانا عبدالرحیم اشعر اور مولانا اللہ وسایا نے نبھائی۔
قادیانیوں کے وکلاء جب پیش ہوتے اور لا یعنی تاویلیں کرتے تو مسلمانوں میں اشتعال اور قادیانی حاضرین پر اوس پڑ جاتی۔
جب مسلمان وکلاء نے اپنے دلائل و براہین کے انبار لگاتے تو مسلمانوں کے چہرے ہشاش بشاش اور قادیانیوں پر شرمندگی کے آثار قابلِ دید ہوتے۔
مسلمان وکلاء کے دلائل سے متاثر ہو کر کچھ قادیانیوں نے حضرت مولانا عبدالقادر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
قومی پریس نے ہر روز کی کارروائی شہ سرخیوں سے شائع کی‘ جس سے اندرون و بیرون ملک تمام مسلمانوں کی نگاہیں اس کیس کی طرف لگ گئیں۔
اللہ رب العزت کی رحمت و کرم اوررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہاتِ عالیہ امت مسلمہ کے لیے واحد سہارا تھیں۔ قادیانی اپنے طور پر اندرون و بیرون ملک سے دباؤ بڑھا رہے تھے۔ ملک کی تمام بے دین لابیاں اسے اپنے لیے موت و حیات کا مسئلہ بنائے کھڑی تھیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم ایک مارشل لاء کے ذریعہ برسر اقتدار آئے تھے۔ ان کی آمریت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے بعض جمہوری بچوں اور سیکولر جماعتوں کے بعض کارکنوں کو قادیانیوں نے خوب خوب استعمال کیا۔غرضیکہ یہ کفر اور اسلام کا معرکہ تھا ، حق و باطل کی جنگ تھی‘ مسلمان اور قادیانی آپس میں برسرِ پیکار تھے۔ قادیانی اپنے طور پر خوش تھے کہ جسٹس آفتاب جو پہلے بھی ڈیرہ غازی خان کی ایک مسجد کے کیس میں قادیانیوں کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے زمانہ میں یہودیوں کی ایک تنظیم فری میسن پر پابندی لگا دی تھی۔ یہودیوں اور ان کے آلہ کاروں نے لاہور ہائیکورٹ میں اس پابندی کو چیلنج کیا تو اسی جسٹس آفتاب نے یہودی تنظیم سے پابندی ختم کر دی تھی۔ ایسے ڈھب کے جج صاحب کے قادیانی نواز ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔
آخر حق تعالیٰ کی شانِ کریمی کا اظہار ہوا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں امت کے کام آگئیں اور 12جولائی 1984ء کو اس جسٹس آفتاب صاحب کے قلم سے قادیانیوں کی اپیلیں خارج کر دی گئیں۔ قادیانیوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور امت مسلمہ کو ایک بار پھر قادیانیت پر فتح حاصل ہو گئی۔ 12جولائی کو پہلے وقت جب بحث سمیٹی گئی تو تمام حاضرین ہال کے باہر آگئے۔ جج صاحبان فیصلہ لکھنے کے لیے عدالت سے ملحقہ ریٹرننگ روم میں چلے گئے۔ عدالت کے لان میں ایک پیپل کے درخت کے زیر سایہ علماء و مشائخ جمع تھے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب اور قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز سید حضرت انور حسین نفیس نے زمین پر بیٹھتے ہی سر جھکائے اور مراقبہ میں چلے گئے۔ اس منظر کی آسان تعبیر یہ ہو گی کہ عدالت کے اندر جج صاحبان فیصلہ کے لیے قلم تول رہے تھے اور عدالت سے باہر یہ بزرگ اپنے رب کی رحمتوں کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ اللہ رب العزت کا کرم و فضل ہوا کہ جسٹس آفتاب نے دو صفحاتی اجمالی فیصلہ لکھا۔باقی تمام جج صاحبان نے دستخط کیے۔ متفقہ طور پر فیصلہ ہوا۔ وکلاء کو اندر بلا لیا گیا۔ اہلِ اسلام کے وکیل اور عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحفظ کی سعادت حاصل کرنے والے ایڈووکیٹ جناب سید ریاض الحسن گیلانی جب فیصلہ سن کر عدالت کے کمرے سے وکٹری کا نشان بنائے باہر آئے تو مسلمانوں نے عشق نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرشار ہو کر صدائے اللہ اکبر بلند کی۔ نعرۂ تکبیر کی آواز پر حضرت خواجہ خان محمد صاحب اور سید انور حسین نفیس رقم نے مراقبہ سے سر اٹھایا تو دونوں بزرگوں کے چہرہ پر خوشی کے آنسوؤں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور حضرت مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ فیصلہ سنتے ہی سر بسجود ہو گئے۔
یہ منظر بھی کبھی فراموش نہ ھو گا کہ فیصلہ کے بعد قادیانی وکیل تو کسی عقبی دروازہ سے کھسک گئے اور باقی قادیانی ایسے گم ہوئے جیسے مرزا قادیانی کے دل سے حیاء گم ہو گئی تھی۔ اس دو صفحاتی فیصلہ میں لکھا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ جسٹس آفتاب ریٹائرڈ ہو گئے تو اس کے بعد جسٹس فخر عالم صاحب چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت بنے۔ وہ بنچ کے بھی سینئر رکن تھے۔ انہوں نے اس مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ 29 اکتوبر 1984ء کو سنایا۔ یہ فیصلہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے آرڈیننس کو قرآن و سنت کے مطابق قرار دے دیا۔اس امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعہ پریس آرڈیننس میں بھی ترمیم کر دی گئی تھی‘ جس کے تحت الفضل ربوہ بند ہو گیا تھا۔
امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کو قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے اسے قرآن و سنت کی تعلیمات اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دینے کی درخواست کی۔ فاضل عدالت کے پانچ جج صاحبان نے اپنے مفصل اور متفقہ فیصلہ کے ذریعے قادیانیوں کی اپیلوں کو خارج کر دیا اور آرڈیننس کو قرآن و سنت اور بنیادی حقوق کے مطابق قرار دیا۔قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے وفاقی شرعی اپیل بنچ میں کالعدم قرار دینے کی اپیل کی۔سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے اس کی سماعت کی۔ جناب جسٹس محمد افضل ظلہ اس کے چیئر مین تھے۔ اراکین میں جسٹس نسیم حسن شاہ ، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی شامل تھے‘ سماعت کے لیے جونہی کوئی تاریخ نکلتی‘ قادیانی درخواست دے کر سماعت رکوا دیتے۔ اڑھائی سال تک اسی طرح ہوتا رہا۔ بالاخر 10جنوری 1988ء کو اس کی راولپنڈی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں نے پھر روائتی دجل سے کام لیا‘ عدالت کے کام میں روڑے اٹکائے۔ غیر ضروری طوالت دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال میں لائے اور بالآخر ایک درخواست کے ذریعہ عدالت سے اپنی اپیلوں کو واپس لینے کی استدعا کی۔ قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کی واپسی اپیلوں کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ فیصلہ تحریر فرمایا۔ یہ فیصلہ مسٹر جسٹس محمد افضل ظلہ نے جو اس وقت اپیل بنچ کے چیئرمین تھے اور بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بنے نے تحریر فرمایا اور باقی جج صاحبان نے اس سے اتفاق کیا۔ فیصلہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وفاقی شرعی عدالت اپیل بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو بحال رکھا۔
حق تعالیٰ شانہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دفعہ پھر دستگیری فرمائی۔ اسلام جیت گیا‘ کفر ہار گیا۔
بعد میں قادیانیوں نے عالمی عدالت سے بھی رجوع کیا لیکن یہ مردود وھاں بھی مقدمہ ہار گئے
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ مقدس فریضہ بھی ہے اور سعادتِ ابدی بھی۔ کفر و اسلام کی یہ جنگ جاری ہے۔ قادیانی اپنا کام کر رہے ہیں تو مسلمان بھی اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
ان شاء اللہ آخری فتح مسلمانوں ھی کی ھوگی باطل نے آخر ایک دن مٹنا ھی ھے اور ان شاء اللہ مٹ کر ھی رھے گا