* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1984ء قادیانی مسئلہ اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی وضاحت اور اس کے عملی تقاضے *
گذشتہ سے پیوستہ
*ربوہ میں قادیانی کالج کی زمین*
بھٹو مرحوم کے دور میں جب صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تھا تو ملک میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی قومی ملکیت میں لے لیے گئے تھے اور ان کے ساتھ ان اداروں کی جائیدادیں بھی قومیا لی گئی تھیں اگے چل کر اس کے کیا نتائج برآمد ھوئے یہ ایک الگ بحث ھے لیکن یہاں بھی مرزائیوں کے ساتھ خوب ھمدردی کا برتاؤ کیا گیا اور ربوہ کے (تعلیم الاسلام ) قادیانی کالج کو قومیاتے وقت اس کے ساتھ ملحقہ کروڑوں روپے کی جائیداد کو سرکاری تحویل میں نہیں لیا گیا بلکہ قادیانیوں کو خصوصی انعام کے طور پر اس قیمتی جائیداد کو قادیانیوں کے ھی تصرف میں رہنے دیا گیا جس سے بھٹو حکومت کی مرزائیوں سے ھمدردیاں واضح طور پر ظاھر ھو گئی تھیں اور ملک میں مسلمانوں کے مسلسل مطالبے کے باوجود ربوہ قادیانی کالج کی زمین کو قومیانے سے عملاً گریز کیا گیا عوام میں بہت زیادہ بےچینی پھیلی اور عوام نے زور وشور سے یہ مطالبہ کیا کہ اس زمین کو بھی سرکاری تحویل میں لیا جائے لیکن ایسا نہ ھو سکا ابھی یہ سب کچھ جاری تھا کہ ملک میں الیکشن کا انعقاد ھوا اور الیکشن میں دھاندلی ھوئی جس کے نتیجہ میں ایک اور تحریک شروع ھوگئی جو تحریک نظام مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے مشہور ھوئی اور بالآخر یہ تحریک بھٹو حکومت کے خاتمے پر منتج ھوئی تحریکِ نظام مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نتیجے میں فوجی حکومت آگئی ۔ فوجی حکومت کو عوام نے خوش آمدید کہا فوجی حکومت کے آنے پر عوام کو یہ اُمید ھو گئی تھی کہ یہ حکومت اس زمین کو سرکاری تحویل میں ضرور لے لے گی لہذا عوام کا یہ مطالبہ زیادہ زور پکڑ گیا ایک مرحلہ میں عوامی مطالبہ پر فوجی حکومت کے سربراہ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اس کے احکام بھی جاری کر دیے تھے مگر خدا جانے وہ احکام کونسے سرد خانے میں چلے گئے اور وہ زمین مرزائیوں کے ھی تصرف میں رھی اور حکومت کیطرف سے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا اور پھر بعد میں آنے والی حکومتوں بشمول موجودہ حکومت کا رویہ بھی لعنتی مرزائیوں کے ساتھ بے حد نرم ، عاجزانہ اور مشفقانہ ھی رھا سو وہ زمین بھی قادیانیوں کے ھی تصرف میں رھی۔
یہ تھے وہ چند واقعات اور مارشل لاء حکومت کے اقدامات اور پالیسیوں کا تسلسل، جس نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا اور وہ شبہات بڑھتے بڑھتے اس موڑ پر آ پہنچے کہ بعض حلقے خود صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کو ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا منکر اور قادیانی قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچائے اور صدر ضیاء الحق مرحوم کو اپنے عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا پڑا۔ صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کی وضاحت سے عوام کو خوشی تو ہوئی اور اس کا خیرمقدم بھی کیا گیا لیکن ظاھر ھے یہ وضاحت ان کی اپنی ذات کی حد تک ھی محدود تھی ویسے بھی عوام اور علماء کی اکثریت ان کو قادیانی نہیں بلکہ سچا مسلمان ھی سمجھتی تھی جہاں تک ان کی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق تھا وہ جوں کی توں ھی تھیں ان میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہ آئی تھی یہ بیرونی طاقتوں کے دباؤ کا نتیجہ تھا یا کلیدی عہدوں پر فائز مرزائیوں کی اندرون خانہ سازشیں تھیں یہ اللہ ھی کو معلوم ھے چونکہ صدر کے ذاتی عقائد و جذبات کی واضح جھلک ان کی حکومت کی پالیسیوں میں کہیں نظر نہیں آئی تھی لہذا تمام مذہبی مکاتب فکر کے اکابر نے مرکزی مجلس عمل ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ قادیانی فتنہ کو نہ صرف ناموس ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ ملک و ملت کے لیے بھی تباہ کن سمجھتے تھے اس گروہ کی اندرون ملک اور بیرون ملک سرگرمیوں کو ملک و قوم کے لیے شدید خطرات کا باعث سمجھتے تھے کلیدی اسامیوں پر قادیانیوں کی واپسی کو ملک و ملت کے مفاد کے خلاف گردانتے تھے ، ان کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سرگرمیوں اور مولانا محمد اسلم قریشی کے اغواء کو ملت اسلامیہ کے خلاف چیلنج خیال کرتے تھے اور ملت اسلامیہ کے اکابر دیانت داری کے ساتھ یہ محسوس کرتے تھے کہ اس وسعت پذیر فتنہ کی سرکوبی کے لیے فوری اور مشترکہ جدوجہد نہ کی گئی اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ فتنہ تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ملک و قوم کے لیے شدید نقصانات کا باعث بنے گا۔ وہ چاھتے تھے کہ صدر محمد ضیاء الحق مرحوم اور ان کے رفقاء کو اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور ملت اسلامیہ کی شکایات پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ قادیانی جارحیت کے خلاف ملت اسلامیہ کی متحدہ جدوجہد ناگزیر ھو چکی تھی اس جدوجہد میں حکومت کو اپنا مقام خود متعین کرنا تھا کہ وہ کہاں کھڑی ھے اسے ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانیوں کا فریق بننے سے بہرحال گریز کرنا چاہیے تھا اور اگر خدانخواستہ حکمرانوں نے اپنے لیے یہی رول پسند کر لیا تھا تو پھر عوامی اور دینی بیداری کی راہ تو بہرحال کسی طرح بھی نہیں روکی جا سکتی تھی البتہ اس کے نتائج و نقصانات کا اندازہ حکمران گروہ جتنی جلدی کر لیتا وہ خود ان کے لئے بہتر ہوتا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مضبوط سے مضبوط ھوتی چلی گئی اور آخرکار حکومت کو مجبور ھو کر امتناعِ قادیانیت آرڈینس جاری کرنا پڑا جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا