* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1984ء قادیانی مسئلہ اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی وضاحت اور اس کے عملی تقاضے *
گذشتہ سے پیوستہ
*1973 کے آئین کی حذف شدہ دفعات*
ماشل لاء حکومت نے مبینہ طور پر بعض آئینی و قانونی تقاضوں کے پیش نظر 1973ء کے آئین کی بعض دفعات کو آئین سے حذف کرنے کا اعلان کیا تو اس کی زد میں وہ دفعات بھی آگئیں جو 1974ء میں تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عوامی قربانیوں کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی شکل میں آئین میں شامل کی گئی تھیں۔ اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا، لمبی چوڑی آئینی بحث ہوئی بالآخر حکومت کو مذکورہ بالا دفعات کے حذف کرنے کے بارے میں اپنے حکم نامے میں ترمیم کرنی پڑی۔ جس سے عام حلقوں میں تو کچھ اطمینان پیدا ہوا لیکن بعض آئینی ماہرین اس سے مطمئن نہیں تھے ان کی رائے تھی کہ فوجی حکومت نے نظام مملکت کو چلانے کے لیے جس عبوری آئین کا اعلان کیا ہے۔ اس آئین میں مسلمان کی تعریف کے حوالے سے عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر تو آگیا لیکن 1973ء کے آئین کی جن دفعات میں قادیانیوں کا بطور غیر مسلم اقلیت ذکر تھا انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ اس پر دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج ہوا اور مسلسل مطالبات پر بعد میں ان دفعات کو آئین میں شامل کیا گیا۔
*پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ*
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے تقاضوں میں ایک تقاضہ یہ بھی تھا کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بڑھایا جائے تاکہ ہر شہری کا مذہب اس میں درج ہو اور کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ سعودی عرب اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں قادیانیوں کے داخلہ پر پابندی تھی لیکن پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر مذہب کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے قادیانی امت کے افراد دھوکہ دہی کے ذریعے وہاں جانے اور ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور جب اس ملک کے حکام سے رابطہ کیا جاتا تو وہ برملا کہہ دیتے تھے کہ یہ قصور آپ کی اپنی حکومت کا ہے کہ اس نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ نہیں رکھا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ ہزاروں قادیانی مشرق وسطیٰ میں ملازمت کر رہے تھے اور ان کی ملازمت سے ہمیں سب سے زیادہ یہ خطرہ اور خدشہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے تیل کے چشمے اس وقت عالمی طاقتوں کی کشمکش کی زد میں تھے اور خطرات دن بدن بڑھتے جا رہے تھے ۔ ایسے حالات میں قادیانی گروہ جیسے انگریزوں کے پیدا کردہ جاسوس گروہ کے افراد کا اس علاقے میں ملازمتوں پر فائز ہونا اور مسلمانوں کے روپ میں وہاں موجود ہونا مسلمان ممالک اور حکومت کے لیے خطرہ ہی خطرہ تھا حکومت پاکستان کو اس طرف متعدد بار توجہ دلائی گئی اور دینی حلقے اس پر مسلسل زور دے رہے تھے لیکن حکومت کو اس خطرہ کی سنگینی کا احساس تک نہیں تھا اور نہ ہی وہ اقدامات کے لیے تیار تھی
*ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کی پذیرائی*
ڈاکٹر عبد السلام معروف قادیانی سائنسدان تھا، اسے سائنسی تحقیق پر نوبل انعام ملا تھا لیکن حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر اس کی پذیرائی کا جس طرح اہتمام کیا اس سے مسلمانوں کا ماتھا ٹھنکا کہ آخر اس کا پس منظر کیا ہے۔ اسے مسلمان سائنسدان کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا اس واقعہ نے تو دردمند مسلمانوں کو خون کے آنسو رلا دیا کہ اسی ہال میں ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کا مسلمان سائنسدان کے طور پر تعارف کرا کے ان کے اعزاز و تکریم کی محفل سجائی گئی جس ہال میں بیٹھ کر قوم کے منتخب نمائندوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ صدر مملکت کی موجودگی میں ہوا۔ ملتِ اسلامیہ نے اسے اپنے جذبات اور قومی فیصلہ کی توہین سمجھا، جذبات بھڑکے، احتجاج ہوا اور ملتِ اسلامیہ کے دینی جذبات کی نمائندگی کرنے والے پرجوش نوجوانوں نے مقدس خون سے وطن کی سڑکوں کو رنگ کر دردمند مسلمانوں کے دلوں کے گھاؤ کو اور زیادہ گہرا کر دیا ۔
ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کو نوبل انعام ملنے اور پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر پذیرائی ملنے پر دل میں یہ بات کھٹکی کہ آخر قصہ کیا ہے؟ مگر جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ مسلمانوں کی بین الاقوامی سائنس فاؤنڈیشن کا سربراہ ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو سارے عقدے کھل گئے اور کوئی راز راز نہ رہا۔ یہ سامراجی طاقتوں کی مخصوص حکمت عملی کا ایک حصہ تھا جس کے تحت انہوں نے اپنی مرضی اور اعتماد کے ایک شخص کو نوبل انعام کی منزل تک پہنچایا اور پھر اس کے بہانے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اس کی پذیرائی اور اس کا امیج بڑھانے کا اہتمام کیا گیا تاکہ اسے اسلامک عالمی سائنس فاؤنڈیشن کا سربراہ بنانے کی راہ ہموار ہو۔ اور جب عالمی اسلامک سائنس فاؤنڈیشن کا سربراہ سامراجی قوتوں کے اعتماد اور مرضی کا شخص ہوگا تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی ترقی کا رخ اپنی مرضی سے متعین کرنا کونسا مشکل رہے گا۔ مگر ہمارے حکمران یا تو اس بین الاقوامی چال کو سمجھ نہ سکے اور یا پھر وہ عالمی مصلحتوں کے حصار میں خود کو بے بس پا رہے تھے
*ربوہ کی حیثیت*
ربوہ کو قادیانیوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر آباد کیا اور اس کا نام جان بوجھ کر ’’ربوہ‘‘ رکھا کیونکہ مرزا غلام قادیانی لعنتی ’’مسیح‘‘ ہونے کا دعویدار تھا اور قرآن کریم نے جس ذات گرامی کو مسیح قرار دیا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے حوالے سے قرآن کریم میں یہ ذکر ہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترم کو ’’ربوہ‘‘ میں جگہ دی۔ ربوہ کا معنٰی ہے اونچی جگہ۔ قادیانیوں نے عمدًا اپنے نئے ہیڈکوارٹر کا نام ربوہ رکھا تاکہ عام لوگ ایک طرف مرزا غلام قادیانی کی کتابوں میں اپنے بارے میں ’’مسیح ثانی‘‘ ہونے کا دعویٰ پڑھیں اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن کریم میں ربوہ کا نام دیکھیں تو ان کے ذہنوں میں التباس پیدا ہو اور اس التباس کو دھوکہ دہی کے جال کے طور پر استعمال کر کے انہیں قادیانیت کے لیے شکار کیا جائے۔ اور پھر اس ربوہ کی آباد کاری اس طرح کی گئی کہ وہ صرف قادیانیوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا اور کسی مسلمان کے لیے ربوہ میں آباد ہونے کی گنجائش نہ رہی۔
1974 ء کی تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوران مرکزی مجلس عمل کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور اس میں مسلمانوں کو آباد ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چنانچہ تحریک کی کامیابی کے بعد ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کے لیے مندرجہ ذیل عملی اقدامات کیے گئے تھے
ٹاؤن کمیٹی کی حدود کو وسعت دے کر اردگرد کے مسلمان دیہات کو اس میں شامل کیا گیا۔
پولیس چوکی ربوہ کو تھانہ کی حیثیت دی گئی اور اس میں تھانہ چنیوٹ اور تھانہ لالیاں کے مسلمان دیہات کو شامل کیا گیا
ربوہ میں مستقل ریزیڈنٹ مجسٹریٹ کی تقرری عمل میں لائی گئی۔
لالیاں کی سب تحصیل ربوہ میں منتقل کی گئی اور سب تحصیل کا عملہ وہاں متعین کیا گیا۔
قادیانیوں کی الاٹمنٹ میں سے تیس ایکڑ زمین واپس لے کر اور بیس ایکڑ مزید زمین خرید کر ربوہ کے اندر مسلم کالونی بنائی گئی اور ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا کام فیصل آباد ہاؤسنگ سوسائٹی کی سپرد کیا گیا۔
ظاہر ہے یہ اقدامات قادیانیوں کے مفاد میں نہیں تھے۔ سازش اور جاسوسی جس گروہ کے ضمیر میں ہو اسے بہرحال الگ تھلگ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور تحصیل اور تھانہ کے واسطے سے ہزاروں مسلمانوں کی ربوہ میں آمد و رفت یقیناً قادیانیوں کی مخصوص سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ یہ اقدامات بھٹو حکومت کے تھے جنہیں اسلام کے نفاذ کا دعویٰ نہیں تھا۔ ضیاء حکومت سے توقع تو یہ تھی کہ اس کے دور میں ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کے فیصلوں پر نہ صرف عمل ہوگا بلکہ مزید اقدامات بھی ہوں گے۔ مگر اس احساس کو دکھ کے سوا اور کیا عنوان دیا جا سکتا تھا کہ پہلے سے طے شدہ فیصلے بھی تشنۂ تکمیل رھے اور اس وقت صورتحال یہ تھی کہ:
لالیاں سب تحصیل کے ہیڈکوارٹر کو ایک سازش کے تحت ربوہ سے دوبارہ لالیاں منتقل کرا دیا گیا جس سے انتشار کی کیفیت پیدا ھوئی اور مسلمان عوام کے شدید احتجاج پر حکومت کو دوبارہ پھر سب تحصیل کو ربوہ لانا پڑا ۔مسلم کالونی کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا کام ایک عرصہ سے معطل پڑا تھا اور اس تعطل کو دور کرنے کے لیے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی تھی
*قادیانی کلیدی اسامیوں پر*
1953ء اور 1974 ء کی تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنیادی مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فوج اور سول محکموں کی کلیدی اسامیوں پر فائز قادیانی افسران کو ان کے عہدوں سے الگ کیا جائے کیونکہ:
ایک مسلمان ملک میں کلیدی عہدوں پر غیر مسلموں کو فائز نہیں کیا جا سکتا۔
قادیانی اپنے مخصوص جاسوسی کردار اور عالمی سامراجی طاقتوں کا گماشتہ ہونے کے باعث اس اعتماد کے اہل نہیں کہ انہیں کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے۔
مرزا غلام قادیانی نے جہاد کی حرمت اور منسوخی کا اعلان کیا تھا جبکہ پاکستانی فوج کی بنیاد ہی جذبۂ جہاد پر ہے۔ اس لیے فوج میں قادیانی امت کے افراد کی بھرتی اور قادیانی آفیسرز کا تقرر بلاجواز اور خود ان کے عقیدے کے خلاف بلکہ پاکستان کے مجموعی مفاد کے بھی خلاف ہے۔
ملتِ اسلامیہ کے اس مطالبے پر 1974ء میں ان قادیانیوں کو سامنے سے ہٹا لیا گیا تھا جو نمایاں کلیدی عہدوں پر فوج اور سول میں نظر آرہے تھے۔ لیکن فوجی حکومت کے دور میں فوج اور سول دونوں شعبوں میں قادیانی افسران دوبارہ کلیدی اسامیوں پر فائز ہو چکے تھے اور ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ وہ حکومت کی مجموعی پالیسیوں کا رخ اپنے مفادات کی طرف موڑنے پر دسترس رکھتے تھے جیسا کہ مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہے۔ یہ بات ملت اسلامیہ کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن تھی اور باخبر حلقے فوج اور سول میں کلیدی اسامیوں پر قادیانیوں کی واپسی کو جنوبی ایشیا کی موجودہ علاقائی صورتحال، اس خطہ میں عالمی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور پاکستان کی سلامتی کو درپیش خدشات کے پس منظر میں بھی شدید خطرات کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔