* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1984ء اور جنرل ضیاء الحق شھید رحمہ اللہ کی وضاحت*
بعض غیر محتاط علماء نے حکومتی پالیسیوں کو جو بھٹو دور کا ھی تسلسل تھیں سامنے رکھ کر جوشِ خطابت میں صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم جیسے سچے پکے مسلمان پر قادیانی یا قادیانیت نوازی کا الزام لگا دیا تھا مرکزی مجلس عمل ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشکیل اور کل جماعتی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانفرنس کے انتظامات کے سلسلہ میں گفت و شنید اور اقدامات کا سلسلہ جاری تھا کہ 16 نومبر کو کراچی میں مولانا ولی رازی کی تصنیف ’’ہادیٔ عالمؐ‘‘ کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق رحمہ اللہ نے اپنے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے قادیانی ہونے کے پراپیگنڈے کا نوٹس لیا اور قادیانیت کے بارے میں اپنے جذبات و اعتقادات کا پہلی بار کھل کر اظہار کیا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ:
’’میرے والد محترم کا نام محمد اکبر علی تھا، ان کی تمام زندگی قادیانیوں کے ساتھ مخالفت میں گزری۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ فتنہ انگریزوں نے کھڑا کیا تھا۔ میں انہی کا بیٹا ہوں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اسے کافر نہ کہوں۔ میرے نزدیک اگر کافر سے بھی بڑی کوئی چیز ہے تو نبوت کے جھوٹے دعویدار کو وہ بھی کہنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
صدر نے یہ بھی کہا کہ:
’’اگرچہ میں گنہگار ہوں لیکن مسلمان ہوں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی آخر الزماں سمجھتا ہوں، ان کے بعد جو شخص بھی دعوائے نبوت کرے یا کہے کہ میں مہدی ہوں وہ میرے نزدیک کافر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
صدر نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ:
’’ایک دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ ایک بیان دے کر اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیوں نہیں کر دیتے۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ مجھے یقین دلا دیں کہ اس بیان کے بعد یہ سوال نہیں اٹھے گا تو میں مشرق، نوائے وقت اور جنگ اخبارات میں ایک صفحے کا اشتہار اپنے خرچ پر چھپوانے کو تیار ہوں کہ میں قادیانیوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
(بحوالہ روزنامہ جسارت کراچی ۔ ۱۷ نومبر ۱۹۸۳ء)
صدر جنرل محمد ضیاء الحق رحمہ اللہ کی اس دوٹوک اور پرجوش وضاحت کے بعد ان کی ذات کے بارے میں شکوک و شبہات کی وہ دھند چھٹ گئی
جو بعض حلقوں کے مسلسل پراپیگنڈے کی وجہ سے فضا پر اثر انداز ہوگئی تھی۔ اور اب کسی شخص یا طبقے کے پاس اس امر کی کوئی قانونی، شرعی یا اخلاقی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی کہ وہ صدر موصوف کی ذات کا تذکرہ قادیانیت کے حوالے سے کرے یا شکوک و شبہات کے نت نئے نکتے پیدا کرنے کا تکلف روا رکھے۔ لیکن صدر ضیاء الحق رحمہ اللہ کی اس وضاحت کا قادیانی مسئلہ کی مجموعی صورتحال پر کیا اثر پڑا اور مرکزی مجلس عمل ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صف بندی اور طریق عمل کے تعین کے لیے کیا رخ اختیار کیا یہ ایک الگ مسئلہ تھا
مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاکستان کے ایک اھم رھنما اور گوجرانوالہ شہر کی ایک بڑی علمی شخصیت حضرت مولانا ابو عمار زاھد راشدی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ھیں کہ ہم نے صدر ضیاء مرحوم کو ذاتی طور پر نہ کبھی قادیانی سمجھا اور نہ انہیں قادیانی کہا بلکہ ہمارے کسی مخدوم و محترم بزرگ نے کسی مرحلہ میں اگر اپنی ذاتی رائے کے طور پر اس امر کا اظہار بھی کیا تو ہم نے اس بات سے بلاجھجھک اختلاف کیا ۔ ہمارا موقف شروع سے یہ رہا ہے کہ کسی مسلمان کو محض ظاہری قرائن و شواہد کے حوالے سے قادیانی قرار دینا درست نہیں ہے۔ البتہ ہم نے یہ ضرور کہا کہ جب ایک مسلمان ملک کے سربراہ کے بارے میں کھلے بندوں اس قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہو تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے۔ ہمارے نزدیک قادیانی مسئلہ کی بات کو صدر کی ذات کے حوالے سے کرنا ہی غلط تھا۔ بات سرکاری پالیسیوں اور اصولوں کی تھی اور اسے اسی حوالے سے سامنے آنا چاہیے تھا تاکہ ذات کا مسئلہ وضاحت کے عمل سے گزر جانے پر اصول اور پالیسی کی بات کمزور نہ پڑ جائے۔ مگر ہمارے بعض پرجوش علماء نے صدر کی ذات کو ہدف بنانا ضروری سمجھا اور اس موقف پر اس قدر شدت اختیار کی کہ یہ ہدف سامنے سے ہٹ جانے پر بھی ان کا ذہن صورتحال کی اس تبدیلی کو قبول نہیں کر رہا تھا
جہاں تک قادیانی مسئلہ کی مجموعی صورتحال اور صدر ضیاء الحق رحمہ اللہ کی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ملتِ اسلامیہ اور قادیانی امت کے تقابل میں حکومت کی مجموعی پالیسیوں کا وزن قادیانیوں کے پلڑے میں ھی جاتا رھا اور چھ برس میں قادیانیت کے حوالے سے مسلسل ایسے واقعات ہوئے جن سے قادیانی گروہ کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے، ان کے حوصلے بڑھے ہیں جس سے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ اور یہی شکوک و شبہات بالآخر اس مفروضے کی تخلیق کی بنیاد بنے جس کی تردید و وضاحت میں صدر ضیاء الحق رحمہ اللہ کو مذکورہ بالا بیان دینا پڑا . صدر موصوف کو قادیانی قرار دینے میں ایسا کرنے والوں کے ذہنوں کی شدت اور سیاسی عوامل بھی یقیناً کارفرما ہوں گے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس میں صدر موصوف کی حکومت کی ان پالیسیوں کا دخل تھا جو چھ برس سے قادیانیت کے حوالے سے سامنے آئی تھیں اور اگر ان پالیسیوں اور اقدامات کے تسلسل کو خود صدر محترم ایک عام شہری کی نظر سے دیکھتے تو ان کا راہوارِ فکر بھی یقیناً اسی راہ پر دوڑنے لگتا جو تھوڑی دور چل کر انسان کو شکوک و شبہات کی دلدل سے دوچار کر دیتا ہے۔
اس مرحلہ پر ہم یہ مناسب سمجھتے تھے کہ قادیانیت کے سلسلہ میں ضیاء حکومت کی مجموعی پالیسی پر ایک نظر ڈال لی جائے اور قادیانیت کے حوالے سے سرکاری اقدامات کے تسلسل کو سامنے رکھ لیا جائے تاکہ قادیانی مسئلہ کے بارے میں مرکزی مجلس عمل کے موقف، ہدف اور طریق کار کے تعین میں کوئی الجھاؤ باقی نہ رہے۔
جہاں تک صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کی ذات کا تعلق ھے وہ ایک سچے پکے مسلمان تھے اور بلا شبہہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کا کامل ایمان تھا لیکن چونکہ اُن کے ابتدائی چھہ سالہ دور میں بھی بھٹو دور کی ھی پالیسیاں جاری رھیں اور اس طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کا فائدہ مرزائیوں کو پہنچتا رھا اس لئے تشویش کی فضا پیدا ھوئی جو اس الزام کا باعث بنی لیکن امتناع قادیانیت آرڈینس کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ھوگئی