* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1974ء اور قادیانیوں پر آئینی پابندیاں *
قومی اسمبلی میں مسلسل تیرہ دن کی بحث کے بعد جب یہ ثابت ہوگیا کہ احمدیت ، مرزئیت، قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اسلام کی تضحیک کا باعث ہیں تو بالآخر قومی اسمبلی کے متفقہ پاس کردہ بل پر 7 ستمبر 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دستخط کردیے ۔ جس کے تحت یہ بات آئین کا حصہ بن گئی کہ قادیانی، مرزئی ، احمدی ، لاہوری گروپ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک غیر مسلم اقلیت ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب اس بل پر دستخط کیے تو ساتھ میں ایک تاریخی جملہ بھی کہا تھا کہ میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہا ہوں۔
قادیانیوں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس کارروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا۔ حالانہ انہیں آچھی طرح معلوم تھا کہ یہ قدم انہیں کی حفاظت کے پیشِ نظر اٹھایا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اس کارروائی کو خفیہ اس لیے رکھا تھا کہ اس قادیانی فتنے کی وجہ سے قوم میں پہلے ہی شدید طیش پایا جاتا تھا مزید اگر ان کے بھونڈے عقائد اور اسلام کی تضحیک والے پہلو جوکہ مرزا ناصر اور اس کے ساتھیوں نے اسمبلی میں اقرار کیے تھے وہ اگر پوری طرح قوم کے سامنے آجاتے تو قادیانیوں کی زندگیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں جس سے عوام میں مزید طیش آسکتا تھا امن و امان کی صورت حال خراب ہوسکتی تھی ۔چنانچہ اتفاق رائے کے ساتھ اس کو خفیہ رکھا گیا تھا
اس وقت ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے؟ کیونکہ قادیانی ایک جواز یہ بھی تراشتے رھے تھے کہ ریاست کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ قادیانیوں کو اسلام سے قطع تعلق کرےاور غیر مسلم قرار دے۔
قادیانیوں کو معلوم ھونا چاھیے تھا کہ سب سے پہلے جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کو اسلامی ریاست کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غیرمسلم قرار دیا تھا اور اسلامی ریاستی فوجیں ان کا قلع قمع کرنے کے لیے گئی تھیں تو یہ حق اسلامی ریاست ہی کا ہے کہ وہ جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے خلاف ایکشن لے۔
جب متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو ساتھ ہی ان پر آئین میں کچھ پابندیاں بھی عائد کردی گئی تھیں ۔ جن کی رو سے انہیں اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ غیر مسلم اقلیت ہوتے ہوئے پاکستان میں دوسری اقلیتوں کی طرح زندگی بسر کرنے میں تو آزاد ہیں لیکن ان کو مندرجہ زیل حدود میں رہنا لازمی ھوگا ۔
*نمبر : 1*
قادیانی اپنے مذہب کو کوئی بھی نام دیں لیکن اسے اسلام نہیں کہہ سکتے
*نمبر : 2*
قادیانی اپنی عبادت گاہوں کو مسجد نہیں کہہ سکتے
*نمبر: 3*
قادیانی وقتِ نماز آذان نہیں دے سکتے
*نمبر : 4*
قادیانی اپنے مذہب (مرزائیت) کی سرعام تبلیغ نہیں کرسکتے*
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ھے کہ مرزا ناصر کو جرح کے دوران جب یہ پوچھا گیا کہ اگر بالفرض مرزائیوں کو کسی ملک میں حکومت مل جائے تو اس ملک میں موجود مسلمانوں کی آئینی حیثیت کیا ھوگی تو مرزا ناصر نے صاف صاف کہا کی ھماری حکومت میں غیر آحمدی اقلیت ھی تصور ھوں گے اور اُ نہیں اقلیتوں کے ھی حقوق دیئے جائیں گے تو اس کی اپنی ھی بات سے یہ ثابت ھوگیا کہ مسلمان اور مرزائی دو الگ الگ مذھب ھیں اور یہ کہ مرزائیوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں