عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 54 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*آئینِ  پاکستان میں قادیانیت کے کفر کا  اندراج کیسے ھوا ؟*



مفکرِ اسلام  حضرت مولانا مفتی محمود  رحمہ اللہ کی مرزا ناصر لعنتی پر  طویل محققانہ ، عالمانہ و فاضلانہ  جرح و تنقید نے قادیانیوں کے بھیانک چہروں  کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اللہ پاک نے انہیں پوری اسمبلی کے سامنے ذلیل ورسوا کر دیا  جو لوگ ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انھیں نیک و پارسا لوگ سمجھتے تھے انہیں بھی ان کی اصلیت کا علم ھو گیا ارکانِ اسمبلی کو جب یہ معلوم ھوا کہ یہ تمام مسلمانوں کو کافر، کنجریوں کی اولاد اور جہنمی سمجھتے ھیں تو وہ بھی اس بات کے قائل ھو گئے کہ مرزائیوں کے کفر میں شک کرنا سراسر نادانی ھے بلکہ صحیح بات یہی ھے کہ مرزائی مرتد، زندیق اور کافر ھیں جو انہیں مسلمان سمجھے وہ بھی ایمان سے فارغ ھے   

اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کے ساتھ شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز“ کیسے لکھا جائے۔؟مسلسل بحث مباحثہ کے بعد 22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلے پر ہوا۔ حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔ اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔ ایک بلوچستان میں۔ ایک سرحد میں۔ دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ عیسائی۔ہندو پارسی۔ بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تھے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ تاکہ کوئی ’’شبہ‘‘ باقی نہ رہے۔ اس کے لیے بھٹو حکومت تیار نہ تھی۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔ پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تھا کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے دے رہے ہیں ۔


اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔ چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بھٹو نے مفتی محمود  رحمہ اللہ سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔ لیکن یہاں بھی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسئلہ رہنے دیا جائے۔ جب کہ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔ بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بھٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب رحمہ اللہ اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ اور کمیٹی نے وہاں بھی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکھا اور اس کی تصریح کی جائے۔ اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکھا جائے۔پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔ پھر کہا کہ چلو مرزا غلام قادیانی کے پیرو کار لکھ دو۔ وزیرقانون نے نکتہ اٹھایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا اور پھر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ شیطان۔ ابلیس۔ خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔ کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟ اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔ مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہٰذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔ لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔ اور پھر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔



*تاریخی فیصلہ*


7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھا جب 1953 اور 1974 کے شہیدانِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ 

دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔ ”جو شخص خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔ وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔


اور دفعہ 106 کی ترمیم کے بعد یہ قرار پایا کہ بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ ہندو - سکھ۔ بدھ مت اور پارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد(جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔ سرحد میں ایک۔ پنجاب میں تین۔ اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ اس موقع پر مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا کہ  اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔ انھوں نے فرمایا کہ میرے خیال میں مرزائیوں کو بھی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔کیونکہ اب انہیں پاکستان میں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے لیکن مرزائی ابھی تک بھی اس سے انکاری ھیں

Share: