* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* ردِ٘ قادیانیت اور 1953ء کی تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم *
آل انڈیا مسلم لیگ نے جب قائداعظم کی قیادت میں ایک الگ ریاست کے لیے جدوجہد شروع کی تو مرزائیوں نے کانگریس کے ہمنوا بن کر اس کی بھرپور مخالفت کی۔دوسری طرف کانگریس نے بھی احمدیت کا بھرپور ساتھ دیا اور جب قادیانیوں نے مکہ ومدینہ کے بجائے مسلمانوں کا رخ قادیان کی طرف موڑنا چاہا تب ہندو لیڈروں نے انہیں جی بھر کر داد دی۔قادیانیوں کے لیے اکھنڈ بھارت اس لیے ضرور ی تھا کہ وہ اپنے آپ کو کسی اسلامی ریاست کے مقابلے میں ایک سیکولر ریاست میں رہنے کو زیادہ مفید سمجھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی،لیکن جب تقسیم کا اعلان ہوگیا تو انہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی اور قادیان کو پاکستان یا بھارت کا علاقہ قرار دینے کے بجائے اسے ویٹیکن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مطالبہ تو نہ مانا گیا، مگر ضلع گورداس پور کو مسلم اقلیت کا صوبہ قرار دے کر اس اہم ترین علاقہ کو بھارت کے حوالے کردیاگیا۔اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بھارت کو کشمیر کے لیے زمینی راستہ مل گیا اور کشمیر پاکستان سے کٹ گیا۔
ہندوستان تقسیم ہو گیا ،خدادداد مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ ظفراللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزرات کے کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز ترکردی، ظفراللہ خان قادیانی نے قادیانیت کو اندرون وبیرونِ ملک متعارف کرانے کے لیے سرکاری ذرائع کا بے دریغ استعمال کیا۔دوسری طرف خواجہ ناظم الدین کے دورِ اقتدار میں دستورِ پاکستان کی تدوین زیر بحث تھی اور اس ضمن میں مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں میں شامل نہ کیا جائے، بلکہ ان کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے۔ لیکن جب دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو اس میں ملک کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب تجویز کیا گیا تھااور اقلیتوں کی نشستیں الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا،مگرمسلمانوں کے لیے حد درجہ دکھ کی بات یہ تھی کہ قادیانیوں کو اقلیت نہیں،بلکہ مسلمانوں میں شمار کیا گیا تھا۔مندرجہ بالا کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے 1952ء میں قادیانیوں کے نام نہاد خلیفہ مرزا محمود نے اعلان کیا کہ یہ ہمارا سال ہے اور ہم اس سال بلوچستان کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم احمدی صوبہ بنا لیں گے۔یہ اعلان مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا۔اس موقع پر اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سید عطا ء اللہ شاہ بخاری میدان میں آئے،انہوں نے علماء کو متحد کیا اور ”مجلس تحفظِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “کے باضابطہ قیام کا اعلان فرمایا۔
دسمبر1952ء کے آخری دنوں میں چنیوٹ میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ُپر جوش تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ” اے مرزا محمود! 1952ء تیرا تھا اور اب1953ء میرا ہو گا“۔ اسی کانفرنس کے موقع پر مجلس تحفظِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راہنماؤں کا ایک خصوصی غیر رسمی اجلاس منعقد ہوا، جس میں طے پایا کہ مرزائیوں کی جارحیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس لیے اس کا سد باب کرنا بے حدضروری ہوگیاہے ۔اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔جنوری 1953ء کے آخر میں علماء کا ایک وفد خواجہ ناظم الدین سے ملا اور چار مطالبات پیش کیے:
مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،
سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے،
ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے ،
مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا جائے۔
خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ظفر اللہ خان کو ہٹانے اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے امریکہ پاکستان سے ناراض ہو جائے گا اور ہر قسم کی امداد بند کر دی جائے گی۔وفد کی طرف سے حکومت کو اتمامِ حجت کے لیے ایک ماہ کا تحریری نوٹس دیا گیا، جس میں لکھا گیا کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کیا جائے، ورنہ ہم قادیانیوں کے خلاف براہِ راست تحریک چلائیں گے۔
ایک ماہ گزر گیا اور حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی تو مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باضابطہ تحریک کاآغاز کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستانی حکمرانوں نے اس تحریک کو اپنے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا۔چناںچہ خواجہ ناظم الدین اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز احمد دولتانہ نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔پاکستانی حکمرانوں اور جنرل اعظم خان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نے ہلاکو خان اورچنگیز خان کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔اسی دوران جنرل اعظم نے پاکستان میں پہلی مرتبہ لاہور میں جزوی مارشل لاء لگایا۔
ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لیے اُٹھنے والی اس تحریک میں دس ہزار سے زائد مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور تقریباً دس لاکھ سے زائد مسلمان اس سے متاثر ہوئے۔مرزائیوں اور ان کے ہم نواوٴں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا اور انہیں یورپین ممالک کی مدد بھی حاصل تھی،مگر مسلمانوں نے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر سامنے آگیا۔اس شکست پر قادیانیوں نے عوامی محاذترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا اور وہ انقلاب کے ذریعے اقتدار کا خواب دیکھنے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل کے عذاب کا کوڑاختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مقدس تحریک کی مخالفت کرنے والوں ،اس کو کچلنے والوں،ظلم کرنے والوں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں پر اس بے دردی سے برسا کہ سب عبرت کا نشان بن گئے۔اس حوالے سے ”کاروانِ تحریک ِختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند نقوش“ نامی کتاب میں تفصیل موجود ہے۔
ان حالات میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امیر کاروان احرار نے پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا پیغام لے کر ملک عزیز کی نامور دینی شخصیت اور ممتاز عالم دین اسلام مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر گئے اور اس تحریک کی قیادت کا فریضہ ان کے سپرد کر دیا سو انہوں نے یہ فریضہ بہت بہتر طریقہ سے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، ماسٹر تاجدین انصاری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اختر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔ بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی اور مرزائی نواز اوباشوں نے سنگینوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے اپنی ایمانی جذبہ سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ تحریک کے ضمن میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم مقصد کے لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔ ان ایام میں شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ، سائیں محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا غلام نبی جانباز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشن سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، چوہدری افضل حق رحمۃ اللہ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِِّ مرزائیت میں غیر فانی کردار ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام کی کامیاب گرفت سے مرزائیت بوکھلا اٹھی، مجلس احراراسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ صدر مجلس احرار نے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا کہ تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں پورے ملک سے دو اکابر اولیاء اللہ ایک حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری رہنمائی کی اور تحریک سے کنارہ کش رہنے کا حکم فرمایا، حضرت اقدس ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ نے یہ پیغام بھجوایا تھاکہ مجلس احرار تحریک مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردیدکا کام رکنے نہ پائے اسے جاری رکھا جائے اس لیے اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیں گی، اگر اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو باقی کون رہنے دے گا؟
مسجد شہید گنج کے ملبہ کے نیچے مجلس احرار کو دفن کرنے والے انگریز اور قادیانی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ انگریز کو ملک چھوڑنا پڑا جبکہ مرزائیت کی تردید کے لئے مستقل ایک جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پاکستان کے نام سے تشکیل پا گئی جو آج تک قادیانیت کو ناکوں چنے چبوارہی ہے۔ ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پاکستان نے مرزائیت کے خلاف ایسا احتسابی شکنجہ تیار کیا کہ مرزائیت مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں میں شکست کھاگئی۔ جگہ جگہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاتر قائم ہونے لگے، مولانا لال حسین اختررحمۃاللہ علیہ اور دیگر علماء کرام نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا اور الحمد للہ آج تک یہ سلسلہ جاری ھے