عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 31)


*ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*علمائے لدھیانہ کا  مرزا  قادیانی پر سب سے پہلے کفر کا  فتوی *


عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فلسفہ رسالت و ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری امت کے مسلمانوں کے لیے اتحاد اور وحدت کی علامت ہے اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر  قادیانیوں کے کافر ہونے پر متحد و متفق ہیں یہ عقیدہ وہ عظیم مقصد ہے جسے آپ دین اسلام کی بنیاد اور روح قرار دے سکتے ہیں اس عقیدہ کی تائید قرآن مجید فرقان حمید کی ایک سو سے زائد آیات سے ہوتی ہے اور اس کی تائید کے لیے 210احادیث مبارک بھی موجود ہیں ۔ہمارے خلیفہ اول جناب ابو بکر صدیق ؓ کے دور میں صحابہ کرام  کا اجماع عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لیے ہوا تھا اور جنگ یمامہ میں اس کے تحفظ کے لیے 12سو صحابہ کرام نے خون کے نذرانے پیش کیے جس میں سات سو حفاظ کرام اور قرآعظام شامل تھے اس میں ستر بدری صحابہ بھی شامل تھے 


پھر 1953میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں ،صحابہ کے غلاموں اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار تقریباً 16تا18ہزار مسلمانوں نے لاہور مال روڈ پر جام شہادت نوش کیا ۔جس میں 70سال سے زائد عمر کے بوڑھے اور پانچ سال کی عمر کے بچے بھی شامل تھے پوری ملت اسلامیہ کا اس عقیدہ پر اجماع موجود ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔علمائے لدھیانہ نے1884میں ہی سب سے پہلے قادیانی عقیدہ پرکفر کا فتو یٰ دے دیا تھا پھر علمائے دیو بند و دیگر مسالک نے بھی ان کے کفریہ عقائد پر کفر کے فتاویٰ جاری فرمائے۔  علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا اور اُمت کو آنے والے خوفناک فتنہ سے آگاہ کیا۔ ان حضرات کاخدشہ صحیح ثابت ہوا اور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید علی الحائری رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے تمام علماء  کو اپنے سب و شتم کانشانہ بنایا کیونکہ  یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے تحریر و تقریر و مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو چاروں شانے چت کیا اور یوں اپنے فرض کی تکمیل کر کے پوری امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرارپائے۔


تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں قادیان، پنجاب سے مرزا غلام قادیانی  کی جھوٹی نبوت کا فتنہ پیدا ہوا تو علماء حق نے تحریر وتقریر کے ذریعے سے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ کم وبیش پون صدی کی محنت کے بعد ۱۹۷۴ء میں آئینی سطح پر مرزا غلام قادیانی  اور ان کے پیروکاروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس جدوجہد میں یوں تو برصغیر کے طول وعرض میں تمام مکاتب فکر  کے علماء کرام  اور اہل حق شریک رہے، لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا علماء لدھیانہ کی خدمات اس ضمن میں خاص طور پر ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتنہ کی نشان دہی کی۔ ۱۸۸۴ء میں جب مرزا قادیانی نے ’’ براہین احمدیہ ‘‘ تحریر کی تو تحریک آزادی کے عظیم جرنیل فخر المجاھدین  حضرت مولانا عبدالقادر لدھیانوی رحمة اللہ علیہ  کے جلیل القدر صاحبزدگان : مولانا محمد  لدھیانوی رحمة اللہ علیہ ،  مولانا عبداللہ لدھیانوی رحمة اللہ علیہ ، مولانا اسمائیل لدھیانوی رحمة اللہ علیہ اور مولانا عبد العزیز لدھیانوی رحمة اللہ علیہ نے  اس کتاب میں مرزا  کے فاسد عقائد کی نشاندہی کی اور دور اندیشی سے کا م لیتے ہوئے بر وقت ان کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا۔ بعض دوسرے علماء کرام نے مرزا قادیانی کے نظریات سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتداءً فتواے تکفیر سے گریز کیا لیکن بعد میں یہ حضرات بھی مرزا ئیوں کے کفر پر متفق ہو گئے۔ 

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قادیانیوں کے خلاف کفر کا فتوی سب سے پہلے علماء لدھیانہ نے دیا تھا گویا یہ پہلی آواز تھی جو لعنتی مرزا اور اس کی جھوٹی نبوت کے خلاف بلند ھوئی اسے فتنۂ قادیانیت کے خلاف پہلی تحریک بھی کہا جا سکتا ھے علماے لدھیانہ کے تاریخی کردار کی وضاحت کے لیے اسی خاندان کے چشم وچراغ جناب انیس حبیب الرحمن صاحب نے ۱۹۹۷ء میں ایک کتاب ’’*سب سے پہلا فتوی تکفیر علماء لدھیانہ نے دیا* ‘‘تحریر کی جس میں فتواے تکفیر اور علماء لدھیانہ کی جدوجہد کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے یہ کتاب اب بھی مارکیٹ میں دستیاب ھے نہایت ھی قابل مطالعہ کتاب ھے ۔ تاہم کچھ لوگوں نے خوامخوہ اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی ناکام کوشش کی اور مذکورہ کتاب کے جواب میں بھی ایک کتاب سامنے لائی گئی جس کی وجہ سے اُمت کے متفقہ مسئلہ پر جواب  در  جواب کا ناپسندیدہ سلسلہ شروع ھوا  تاھم علماءِ دیوبند نے محققانہ انداز میں دلائل کے ساتھ اس کتاب کے دعووں کا رد کیا اس حوالہ سے  ایک اور کتاب بھی منظر عام پر آئی کتاب کا اسلوبِ تحریر مناظرانہ طرز کا ھے اور کہیں کہیں کافی سخت کلامی سے بھی کام لیا گیا ھے  جس سے  بہرحال گریز  کرنا ھی مناسب تھا ۔ تاہم تاریخی ریکارڈ کی درستگی  کے لیے یہ مجموعی طور پر ایک مفید کاوش ہے جس کے لیے مولف  یقینا داد کے مستحق ہیں۔

بہرحال علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کے متعلق  1884 میں جو رائے سب سے پہلے قائم کی تھی بعد میں علماء دیوبند اور پھر اُمت کے تمام طبقات اس پر متفق ھو گئے اس سے علمائے لدھیانہ کی علمی بصیرت اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کے والہانہ عشق کا پتہ چلتا ھے اللہ پاک ان کو اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے اور عالم آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے - آمین یا رب العالمین

Share: