عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 29 )


*عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلئے جدوجہد*


یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ھے کہ دنیا میں انسان کے پاس سب سے زیادہ قیمتی چیز ایمان ھے اس کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ جو شخص اس دنیا سے رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان لے کر گیا ھوگا وہ بھی ایک نہ ایک دن جنت میں ضرور  داخل ھو جائے گا اور جو شخص ایمان سے محروم ھو کر  یعنی ایمان کے بغیر کفر وشرک کی حالت میں اس دنیا سے گیا ھو گا وہ ھمیشہ ھمیشہ جہنم میں رھےگا  ایمان جتنا قیمتی اثاثہ ھے اتنا ھی اس کی حفاظت کا اھتمام کرنا بھی ضروری ھے کیونکہ اس فانی دنیا سے تو بالاخر جانا ھی ھو گا اور اگلے جہان میں فیصلے مال پر نہیں بلکہ ایمان پر ھونگے

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ فتنوں کے ہجوم اور یلغار کے دور میں دو اشخاص اپنا ایمان بچانے میں کامیاب رہیں گے، ایک وہ شخص جو شہری آبادی اور سوسائٹی سے الگ تھلگ دور دراز علاقے میں بکریوں کے دودھ پر گزارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی میں زندگی گزار دے 

بقول ایک پنجابی شاعر

جے  تو رکھنا ای قائم ایمان نوں

بکریاں دو لے کے ٹر جا کوھستان نوں

اور دوسرا وہ شخص جو گھوڑے کی لگام پکڑے دین کے دشمنوں کے خلاف مسلسل برسرِ پیکار رہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ھیں  کہ  علماء کے نزدیک بکریاں لے کر کوھستان میں گوشہ نشین ھونے کا وقت ابھی نہیں آیا چنانچہ فتنوں کے خلاف سرگرم عمل رہنا، ان کے مقابلہ اور سدّباب کے ساتھ ساتھ  اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی نہ کسی محاذ پر دینی عقائد و روایات اور اسلامی ثقافت و تمدن کے تحفظ کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔

دورِ حاضر کے فتنوں کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع ہے اور اہلِ حق کو جن جن محاذوں پر محنت کرنا پڑ رہی ہے اس کے لیے اب ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ بھی کمزور پڑنے لگا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق ایسے لوگ پیدا کر کے انہیں کام پر لگا دیتے ہیں جو دین کے حوالہ سے جنم لینے والے فتنوں کا کھوج لگاتے ہیں، ان کی نشان دہی کرتے ہیں، لوگوں کو ان سے متعارف کراتے ہیں اور ان سے بچنے کے اسباب اور طریق کار کے بارے میں راہ نمائی کرتے ہیں۔

موجودہ دور کے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انکار اور نبوت کے ٹائٹل کے ساتھ نئے مذہبی گروہ متعارف کرانے کا فتنہ ہے جس نے دورِ حاضر میں مختلف حوالوں سے عالمِ اسلام میں اپنا جال پھیلا رکھا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی سینکڑوں روایات میں موجود ہے کہ وہ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد قیامت تک کسی اور کو نبوت کا منصب نہیں ملے گا، اور قیامت تک کا زمانہ ان کی نبوت کا زمانہ ہے اس لیے کوئی اور نیا نبی اس منصب پر فائز نہیں ہوگا جس کی ایک وجہ علامہ اقبالؒ نے یہ بیان کی ہے کہ نبوت کا منصب چونکہ دین میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اور اس کے بدلنے سے مرکز وفاداری اور اتھارٹی دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں اس لیے قیامت تک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت جاری رہنے کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ کوئی اور نبی نہ آئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی اتھارٹی اور امت کے مرکز وفاداری میں کوئی شریک پیدا نہ ہو۔ مگر اس کے باوجود ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعویدار سامنے آتے رہے ہیں جنہیں امت مسلمہ نے قبول نہیں کیا اور وہ اپنے الگ گروہوں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر تاریخ کا حصہ بن جاتے رہے ہیں۔

خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد اور سجاح جیسے مدّعیان نبوت پیدا ہوئے، انہوں نے اپنے اپنے گروہ بنائے اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے، مگر امت کے اجتماعی دھارے میں ضم نہیں ہو پائے اور رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔ موجودہ دور میں بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مدعیان نبوت کے متعدد گروہ موجود ہیں اور ان کے حلقے بھی قائم ہیں جن سے امت کو آگاہ کرنے اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لیے دینی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔

ایران کے بہائی مرزا بہاء اللہ شیرازی کی نبوت و رسالت کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں بلوچستان کے ذکری ملا نور محمد مہدی کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور امریکہ کا گروہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ آلیج محمد کی نبوت کا علمبردار ہے جو لوئیس فرخان کی قیادت میں کام کر رہا ہے، جبکہ مرزا غلام قادیانی کی نبوت کے ٹائٹل کے ساتھ قادیانی گروہ مختلف ممالک میں سرگرم عمل ہے اور جنوبی ایشیا کے مسلمان ان کا بطور خاص ہدف ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد سے ہی قادیانیوں کی معاشرتی حیثیت کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کی جدوجہد کا آغاز ہوگیا تھا اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز کے مطابق یہ متفقہ موقف اختیار کیا تھا کہ مرزا غلام  قادیانی کے پیروکار چونکہ مسلّمہ اسلامی عقائد کی رو سے ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اس لیے انہیں دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے اور ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح انہیں بنیادی شہری اور مذہبی حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد ۱۹۷۴ء میں کامیاب ہوئی جب منتخب پارلیمنٹ نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا، مگر اسے قبول کرنے سے قادیانیوں نے انکار کر دیا اور اس انکار پر ان کے اصرار نے اب تک یہ مسئلہ نہ صرف باقی رکھا ہوا ہے بلکہ اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ پورا عالم اسلام قادیانیوں کو اپنے وجود کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری فیصلے کے ذریعہ انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کر دیا ہے، اسے قبول نہ کرنے کا قادیانیوں کے پاس کوئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود قادیانی گروہ نہ صرف اپنے انکار پر بضد ہے بلکہ پاکستان کے دستور و قانون اور مسلمانوں کے اجتماعی موقف کے خلاف عالمی سیکولر لابیوں کے ساتھ مل کر محاذ آرائی کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔

اس پس منظر میں عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ اور مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور دستوری فیصلوں کی بالادستی کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں بیداری اور آگاہی کا ماحول تازہ رہے اور قادیانیوں کی حمایت میں عالمی سیکولر لابیاں کوئی شبخون مارنے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔

اس مقصد کے لیے  تمام مکتب فکر کی دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ بھرپور کوششوں میں مشغول و مصروف ھیں ، خاص طور پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزشتہ چھ عشروں سے جدوجہد کے اس میدان میں پوری مستعدی سے کام کر رھی ہے، مختلف شعبوں میں اس کی سرگرمیاں جاری ہیں اور وقتاً فوقتاً عالمی مجلس کے زیر اہتمام عوامی اجتماعات کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اللہ پاک ان لوگوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے

آمین یا الہ العالمین

Share: