*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر قربانیاں *
اللہ رب العزت کی رحیم و کریم ذات نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی رھنمائی و ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، سنۃ اللہ کے مطابق اس سلسلۃ الذہب کو نبی کریمﷺ پر ختم کیا؛ کیوںکہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدأ بھی لازم ہے اور منتہاء بھی ، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے سلسلۂ نبوت کا آغاز ہوا، اور حبیبِ کبریائ، احمد مصطفی محمد مجتبیٰﷺ پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا۔
نبی کریمﷺ کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپﷺ کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں، دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی،جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قیامت تک یہ اثرات محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر میں بھی اور میزان وحساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوںگی۔ انشاء اللہ!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعدعظیم فتنوں نے سراٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی، حمیت اسلامی، بلند حوصلگی اور حکمت عملی نے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین!
یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچائی تھی وہ تھی عقیدۂ ختم نبوتﷺ پر کاری ضرب؛ اس لیے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد جن پانچ افراد نے دعوئے نبوت کیے ، الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ استاد نے تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ’’*أثر أہل الکتاب فی الحروب والفتن الداخلیۃ فی القرن الأول*‘‘ میں اس کو ثابت کیا ہے۔ دوسری جانب حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا تھا خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ’’أ ینقص الدین وأنا حي‘‘ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابۂ کرام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدۂ ختم نبوتﷺ کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کے رُخ پھیردینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکرؓ کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہؓ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدۂ ختم نبوتﷺ کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح یہ صحابہؓ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعد دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے اور اس سے جہاد کرنا فرض ہے۔
بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ منورہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم پر میدان کارزار میں کودپڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں، یا توبہ وانابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ’’واللّٰہِ الذي لاَ الٰہَ إلّا ہو لَولاَ أنَّ أبا بکرٍ استَخْلَفَ مَا عُبِدَ اللّٰہ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگر ابوبکر آپﷺ کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالۃ الخفائ، ج:۱،ص:۳)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: لَقَدْ قُمْنا بعدَ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہُ علیہ وسلم مقاماً کِدنَا نُہلَکُ فیہ لَولاَ أنَّ اللّٰہ مَنَّ علینا بأبي بکر أجْمَعْنا علی أنْ لا نقاتلَ علی ابنۃ مخاض وابنۃ لبون وان نأکل قریٰ عربیۃ ونَعْبُدَ اللّٰہَ حتی یأتینا الیقینُ نَعْزِمُ اللّٰہَ لأبي بکر علی قِتالِہم۔ (التاریخ الکامل لابن اثیر، ج:۲،ص:۲۰۵)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے؛ مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے؛ مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین ذکوة کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔
مؤرخ کبیر، مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ’’رِدَّۃٌ ولا أبا بکرٍ لہا‘‘ کہ فتنۂ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سراٹھایا ہے؛ مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر جیسا حوصلہ نہیں، ان جیسی حمیت وغیرت نہیں، اس موضوع پر آپؒ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعتا حضرت نے بالکل درست کہا کیونکہ جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے؛ مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشر عشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے، آمین!
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر ہزاروں صحابہؓ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’جولوگ تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں جہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔‘‘ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہٗ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش وجذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہورہے ہیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جولوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی، ان کے خون کا ذمہ دار ہوںگا؛ کیوںکہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی ایک بڑی تعداد میں حفاظ قرآن، تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر شہید کروادئیے تھے۔ (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے بھی تقریباً دوگنی تھی )۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں، جب بھی کسی نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا، یا حرف زنی کی، مسلمان خلفاء وامراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا، جس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں، مدعیان نبوت اور منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدترین انجام کی ایک لمبی فہرست ھے جو تاریخ کی کتابوں میں مفصل موجود ھے
منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مدعیان نبوت نے جب بھی کسی اسلامی دور میں سراٹھایا، ہمارے خلفاء اور امراء نے ان کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا، یا انھوں نے مجبوراً خودکشی کی، یا توبہ کرنے پر آمادہ ہوگئے؛ اسی لیے اہل کتاب حضور اقدسﷺ کی وفات ہی سے خلافت کے عدم قیام یا قیام کے بعد سقوط کی بھرپور کوشش کرتے رہے؛ مگر تیرہ سوسال بعد انھیں اس میں کچھ حد تک مسلمانوں کی اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اور کتاب وسنت سے ُبعد کی بنا پر کامیابی ملی، مگر انشاء اللہ ایک بار پھر خلافت ضرور قائم ہوگی۔
وَمَا تَشَاؤنَ إلاَّ أنْ یَشاء اللّٰہُ واللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہٖ ولو کَرِہَ الکَافِرُون!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سقوط خلافت سے قبل اس کے ضعف کے زمانہ ہی سے ایک بار پھر انکار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فتنے نے سراٹھایا اور انیسویں صدی کے اواخر میں مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا پچھلے دوسو سال میں جتنے مدعیان نبوت ومہدیت کھڑے ہوئے وہ بارہ سو سال کے مقابلہ میں اضعافاً مضاعفہ ہے؛ گویا دشمن کی یہ ایک منظم سازش ہے کہ وہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں؛ مگر انشاء اللہ وہ قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہوںگے۔
جیساکہ اوپر تاریخ کے حوالے سے واضح کیاگیا کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیاگیا؛ مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے اسرٹھایا، تو علماء قلم وکاغذ لے کر میدان کارزار میں کودپڑے اور الحمدللہ انھوں نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام قادیانی ملعون کے رد میں ایک اندازے کے مطابق ۲۰؍ہزار صفحات اردو میں تحریر کیے گئے، احتساب قادیانیت کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۲۳ جلد پر مشتمل چالیس کے قریب علماء کے بارہ ہزار صفحات کی طباعت کی ہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے،
تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنا اہم ترین مسئلہ ہے، اس کا اندازہ آپ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے اس واقعہ سے کرسکتے ہیں:
۲۶؍اگست ۱۹۳۲ء کو یوم جمعتہ المبارک تھا، جامع مسجد الصادق بھاول پور میں آپ کو جمعہ کی نماز ادا فرمانا تھی، مسجد کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، قرب وجوار کے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے، نماز کے بعد آپ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
میں بواسیرخونی کے مرض کے غلبہ سے نیم جاں تھا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈابھیل کے لیے پابہ رکاب کہ اچانک شیخ الجامعہ صاحب کا مکتوب مجھے ملا، جس میں مجھے بھاول پور آکر مقدمہ میں شہادت دینے کے لیے لکھا گیا تھا، میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی اور زادِ راہ تو ھے نہیں شاید یہی چیز میرے لئےذریعۂ نجات بن جائے کہ حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانبدار بن کر یہاں آیا ہوں۔
یہ سن کر مجمع بے قرار ہوگیا، آپ کے ایک شاگرد مولانا عبدالحنان ہزاروی آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں تو پھر اس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی؟ اس کے علاوہ کچھ اور بلند کلمات حضرت کی تعریف و توصیف میں عرض کیے، جب وہ بیٹھ گئے تو پھر مولانا نے مجمع کو خطاب کرکے فرمایاکہ:
’’ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا؛ حالاںکہ ہم پریہ بات کھل گئی ہے کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرسکیں‘‘۔ (کمالات انوری)
اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ایسا جلیل القدر محدث و فقیہ ایسا کہہ رہے ہیں، جن کے بارے میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ فرماتے تھے ’’انور شاہ کشمیری صحابہؓ کی جماعت کے بچھڑے ہوئے فرد ہیں‘‘ ان کے اخلاق، ان کا علم، ان کا تقویٰ، ان کی دینی غیرت وحمیت کو دیکھ کر یہ جملہ آپؒ نے کہا۔
قرآن کریم نے مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تقریباً سو مقامات پر ذکر کیا ہے، کہیں صراحتاً، کہیں کنایتہ، کہیں عبارت النص سے، کہیں اقتضاء النص سے، کہیں اشارۃ النص سے تو کہیں دلالت النص سے، جس کو پوری تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ اپنی تصنیف ’’ختم النبوۃ في القرآن‘‘ میں ذکر کیا ہے اور دوسری تصنیف لطیف ’’ختم النبوۃ في الأحادیث‘‘ میں ۲۱۰؍ احادیث جمع فرمائی اور ’’ختم النبوۃ في الآثار‘‘ میں امت کا اجماع، سیکڑوں علمائے امت کے اقوال ختم نبوت کی تائید میں جمع فرمادیے۔ اللہ حضرت کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!
حضرت مفتی محمدشفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان نوراللہ مرقدہٗ ’’ختم نبوت‘‘ کی تمہید میں تحریر فرماتے ہیں:
یعنی آں حضرتﷺ پر ہر قسم کی نبوت اور وحی کا اختتام اور آپﷺ کا آخری نبی ورسول ہونا اسلام کے ان بدیہی مسائل اور عقائد میں سے ہے، جن کو تمام عام و خاص، عالم وجاہل، شہری اور دیہاتی مسلمان ہی نہیں ؛ بلکہ بہت سے غیرمسلم بھی جانتے ہیں، تقریباً چودہ سو برس سے کروڑہا مسلمان اس عقیدہ پر ہیں، لاکھوں علماء امت نے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے واضح فرمایا، کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہ نبوت کی کچھ اقسام ہیں، اور ان میں سے کوئی خاص قسم آں حضرتﷺ کے بعد بھی باقی ہے، یا نبوت کی تشریعی غیر تشریعی یا ظلی وبروزی یا مجازی وغیرہ اقسام ہیں، قرآن وحدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں، پوری امت اور علماء امت نے نبوت کی یہ قسم نہ دیکھی اور نہ سنی؛ بل کہ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک پوری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عقیدہ پر قائم رہی کہ آں حضرتﷺ پر ہر طرح کی نبوت ورسالت ختم ہے، آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ سے پہلے پیدا ہوکر منصب نبوت پر فائز ہوچکے ہیں، ان کا اخیرزمانہ میں آنا اس کے قطعاً منافی نہیں)۔
اس مسئلہ کے اتنا بدیہی اور اجماعی ہونے کے ساتھ اس پر دلائل جمع کرنا اور اس کا ثبوت پیش کرنا درحقیقت ایک بدیہی کو نظری اور کھلی ہوئی حقیقت کو پیچیدہ بنانے کے مترادف معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ اس مسئلہ کا ثبوت پیش کرنا ایسا ہی ہے جیساکوئی شخص مسلمانوں کے سامنے لا اِلہ الاَّ اللّٰہ کا ثبوت پیش کرے، ان حالات میں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس موضوع پر کوئی مستقل رسالہ یا کتاب لکھی جائے؛ لیکن تعلیمات اسلام سے عام غفلت وجہالت اور روز پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں نے جہاں بہت سے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے باطل کو حق اور حق کو باطل کرکے ظاہر کیا ہے وہیں یہ مسئلہ بھی تختۂ مشق بن گیا۔
اس مسئلہ میں فرقہ وار جماعت کی حیثیت سے سب سے پہلے باب وبہا کی جماعت فرقۂ بابیہ نے اختلاف کیا، مگر وہ علمی رنگ میں اس بحث کو آگے نہ پہنچاسکے، اس کے بعد مرزا غلام قادیانی لعنتی نے اس میں مخالفت و اختلاف کا دروازہ کھولا اور ان کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابوں میں یہ بحث ایسی منتشر اور متضاد ہے کہ خود ان کے ماننے والے بھی، اس پر متفق نہ ہوسکے کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اور ان کا دعویٰ کیا ہے؟ کہیں بالکل عام مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے اور وحی نبوت کے انقطاع کلی کا اقرار اور آپﷺ کے بعد مطلقاً کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا اعتراف ہے، کہیں اپنے آپ کو مجازی اور لغوی نبی کہا گیا ہے، کہیں نبوت کی ایک نئی قسم ظلی و بروزی بتلاکر بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیاگیا، کہیں نبوت کو تشریعی اور غیرتشریعی میں تقسیم کرکے تشریعی کا اختتام اور غیرتشریعی کا جاری ہونا بیان کیاگیا، اور اپنے آپ کو غیرتشریعی نبی بتلایا اور وحی غیرتشریعی کا دعویٰ کیاگیا ہے، کہیں کھلے طور پر صاحب شریعت نبی ہونے اور وحی تشریعی کا دعویٰ کیاگیا ۔
یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے متبعین تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے:
ایک فرقہ مرزا لعنتی کو صاحب شریعت اور تشریعی نبی ورسول مانتا ہے، یہ ظہیرالدین اروپی کا فرقہ ہے،
دوسرا فرقہ مرزا کو با اصطلاح خود غیرتشریعی نبی کہتا ہے، یہ قادیانی پارٹی ہے، جو مرزا محمود کی پیروہے،
تیسرا فرقہ مرزا کو نبی یا رسول نہیں؛ بلکہ مسیح موعود اور مہدی موعود قرار دیتا ہے، یہ مسٹرمحمدعلی لاہوری کے متبعین ہیں۔
غرض مرزا غلام قادیانی اور اس کے متبعین نے اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف وشقاق کا دروازہ کھولا، عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متأثر، دینی تعلیم سے بیگانہ افراد کی ناواقفیت سے ناجائز فائدے اٹھائے اور اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کردیے، اور ان کی نظر میں بدیہی مسئلہ کو نظری بنادیا؛ اس لیے اہل علم اور اہل دین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑاکہ ان کے شبہات دور کیے جائیں اور قرآن وحدیث کی صحیح روشنی ان کے سامنے لائی جائے۔ (ختم نبوت، ص:۱۰-۱۲)
حضرت کاندھلویؒ فرماتے ہیں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معنی یہ ہیں کہ نبوت اور رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت پر ختم ہوگئی اور آپﷺ انبیاء کے خاتم (بالکسر) ہیں یعنی سلسلہ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور آپﷺ سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالفتح) یعنی مہر ہیں۔ اب آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا، مہر کسی چیز کا منہ بند کرنے کے لیے لگاتے ہیں، اسی طرح حضور پرنورﷺ سلسلہ انبیاء پر مہر ہیں، اب آپﷺ کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکے گا، اور قیامت تک کوئی شخص اب اس عہدہ پر فائز نہ ہوگا۔ مہر ہمیشہ ختم کرنے اور بند کرنے کے لیے ہوتی ہے کما قال تعالٰی یُسْقَونَ مِن رَحیقٍ مختومٍ ختامُہ مِسْک یعنی سربمہر بوتلیں ہوںگی اور شراب ان کے اندر بند ہوگی۔ ختم اللّٰہ علی قلوبہم اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے، یعنی کفر اندر بند کردیا ہے۔ (احتساب قادیانیت، ج:۲،ص:۵۱۴)
مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے اس کے بعد مَا کانَ محمدٌ أبا أحدٍ من رِجالِکُمْ ولکِنْ رسول اللّٰہ خاتم النّبیین وکان اللّٰہُ بکل شيئٍ علیما پر تقریباً ۸۴ صفحات پر پورے شرح وبسط کے ساتھ کلام کیا ہے، جو قابل مطالعہ ہے، لغت، احادیث اور آثار کی روشنی میں بڑی جامع تفسیر کی ہے۔ اس کے بعد مختصراً اس کے علاوہ دیگر تقریباً ۹۹؍ آیات کی مختصر تشریح کی ہے،
جیساکہ اس سے پہلے بھی بیان کیا گیا کہ تقریباً دو سودس احادیث سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ ثابت ہے جس میں سے اہم روایت بخاری کی ہے۔
عن أبی ہریرۃ ان رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قا ل إنّ مثلی و مثلَ الأنبیائِ مِنْ قَبْلِي کَمثلِ رَجُلٍ بنٰی بیتا فأحسنَہٗ و أجملَہٗ إلاّ موضعَ لبنۃٍ من زاویۃٍ فجعل الناسُ یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ہلا وشعتْ ہذہ اللبنۃُ و أنا خاتم النبیین۔ (رواہ البخاری فی کتاب الأنبیاء و مسلم:ج۲/۲۴۸ فی الفضائل و أحمد فی مسندہ،ج:۲ ص۳۹۸، والنسائی والترمذی) و فی بعض ألفاظہ فکنتُ أنا سددت موضع اللبنۃ و ختم بی البنیان و ختم بی الرسل ہکذا فی الکنز عن أبی عساکر۔
’’حضرت ابوہریرہؓ آںحضرتﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ و پیراستہ بنایا؛ مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی، پس لوگ اُس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان کی تعمیر مکمل ہو جاتی) چناں چہ میں نے اس جگہ کو پُر کیا اور مجھ سے ہی قصرِ نبوت مکمل ہوا، اور میں ہی خاتم النّبیین ہوں، یا مجھ پر تمام رسُل ختم کردیئے گئے‘‘۔ (ختم نبوت: ص۲۰۵ تا ۲۰۶ )
اس کے علاوہ دیگر بے شمار مستند کتابوں میں تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ایسی ہیں جو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دلیل بنتی ہیں اور صراحتاً ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دلالت کرتی ہیں۔
ان مذکورہ احادیث کے علاوہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ نے دوسرے ۶۷؍ احادیث ایسی نقل کی ہیں جو کنایۃً و اشارۃً ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے جو کلام کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی محبت وشفقت جو امت مر حومہ کے ساتھ ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ،اور پھر یہ بھی مسلم ہے کہ زمانہ ماضی ومستقبل کے جتنے علوم وحالات آپﷺ کو عطا کیے گئے وہ نہ کسی نبی کو حاصل ہیں اور نہ کسی فرشتہ کو ۔
ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے بعد یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کے لیے دین کے راستہ کو ایسا ہموار اور صاف بنا کر چھوڑا کہ جس میں دن ورات برابر ہوں، اس پر چلنے والے کو ٹھوکر لگنے یا راستہ بھولنے کا اندیشہ نہ رہے، اس میں جتنے خطرات کے مواقع ہوںگے، وہ سب آپﷺ نے ان کو بتلادیے،نیز اس راستہ کے ایسے ایسے نشانات ان کو پوری تفصیل سے بتلادیے جو تمام راستوں میں ان رہبری کرتے رہیں ۔
چناںچہ جب ہم حدیث نبویﷺ کے دفتر پر نظر ڈالتے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے ،کہ آپﷺ نے ان امور میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ،آپﷺ کے بعد جتنے قابل اقتدا ء رہنما پیدا ہونے والے تھے، آپؐ نے اکثر کے نام لے لے کر بتلادیے ،اور امت کو ان کی پیروی کی ہدایت فرمائی ، جن میں سے نمونہ کے طور پر چند احادیث اوپر ذکر کی گئیں، آنحضرت… کی انتہائی شفقت ومربیانہ تعلیم اور پھر احادیث مذکورہ بالا کو دیکھتے ہوئے ایک مسلمان؛ بلکہ ایک منصف مزاج انسان یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی (اگرچہ وہ بقول مرزا ظلی یا بروزی رنگ میں سہی) اس عالم میں پیدا نہیں ہوسکتا ورنہ لازم تھا کہ آپﷺ ان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس نبی کا ذکر فرماتے ؛کیوںکہ ان سب کا اتباع پر امت کی نجات کا مدار ہے ۔
مگر عجب تماشہ یہ ہے کہ نبی کر یمﷺ اپنی امت کو خلفائے راشدین کے اقتداء کا حکم فرماتے ہیں ،ائمہ دین اور امراء کی اطاعت کی تعلیم دیتے ہیں؛ بلکہ ایک حبشی غلام کی بھی (جب کہ وہ امیر بن جائے )اطاعت امت پر واجب قرار دیتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور عمار بن یاسرؓ کی اقتداء کی دعوت دیتے ہیں ، حضرت زبیرؓ ، ابو عبیدۃ بن الجراح، معاذ بن جبلؓ عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ کے نام لے لے کر انہیں واجب التکریم اور قابل اقتداء فرماتے ہیں، اویس قرنسؒ کے آنے کی خبر اور ان سے استغفار کرانے کی تعلیم دیتے ہیں، مجددینِ امت کا ہر صدی پر آنا، ابدال کا ملک شام میں پیدا ہونا، اور اُن کا مستجاب الدعوات ہونا وغیرہ وغیرہ مفصل بیان فرماتے ہیں۔ لیکن ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں فرماتے کہ ہمارے بعد فلاں نبی پیدا ہوگا، تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا۔
اگر پہلو میں دل اور دل میں ایمان یا انصاف کا کوئی ذرہ بھی ہے تو تمام احادیثِ سابقہ کو چھوڑ کر صرف یہی احادیث ایک انسان کو اس پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپﷺ کے بعد تا قیامت کسی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
یہ دو سو دس احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن میں آںحضرتﷺ نے ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قطعی اعلان فرماکر ہر قسم کی تاویل اورتخصیص کا راستہ بند کردیا ہے۔
جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے۔ إن في ذلک لَعِبْرۃً لِمَنْ کان لہ قلبٌ أو القیٰ السمعَ وہو شہید۔ (ختم نبوت : ص۲۹۵ تا ۲۹۶)
اسی لیے علامہ انورشاہ کشمیری نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:
’’ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں متواتر ہے، قرآن و حدیث سے اجماع بالفعل سے اور یہ پہلا اجماع ہر وقت اور ہر زمانہ میں حکومت اسلامی نے اس شخص کو جس نے دعوئ نبوت کیا، سزائے موت دی ہے،
ایک شاعر کو صلاح الدین ایوبیؒ نے بہ فتویٰ علماء دین، صرف ایک شعر کہنے پر قتل کرادیا تھا ۔ ؎
کان مبدأ ہذا الدینِ من رَجُلٍ سَعٰی فأصبحَ یُدْعیٰ سیدُ الأُممٖ
(صبح الأعشی: ۳۰۵، ۱۳۹)
اس شعر میں اس شخص نے نبوت کو کسبی قرار دیا تھا یعنی شعر کے مطابق نبوت ریاضتوں اور عبادتوں سے بھی حاصل ہوسکتی ہے، اس لیے اسے قتل کروادیا گیا۔ (احتساب قادیانیت: ج۴/ص۴۲)
اس واقعہ سے ھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنا حساس مسئلہ ھے اور ماضی کے مسلم حکمران اس کے متعلق کتنے حساس تھے وہ ایسے شخص کے لئے کسی قسم کی کسی بھی نرمی کے قائل نہیں تھے جو کسی طرح بھی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نقب زنی کی ناپاک کوشش کرنے کی جسارت کر رھا ھو لہذا ماضی میں جب بھی کسی خبیث نے یہ کوشش کی اسے مسلم حکمرانوں نے فی الفور صفحہ ھستی سے مٹانے میں کسی نرمی کا رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسے جتنی جلدی ممکن ھو سکتا تھا جہنم واصل کر دیا گیا
اللہ پاک ھمیں عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم رکھے اور اپنے علم ، صلاحیتوں ، جان اور مال کے ساتھ اس کا تحفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین