گذشتہ دنوں مولانا مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ اور مرزا جہلمی کے درمیان مکالمات میں بار بار “*المہند علی المفند*” کا ذکر سننے کو ملا چونکہ مرزا جہلمی نے اس پر بھرپور تنقید کی تھی جس پر مولانا مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ اور مرزا جہلمی کے درمیان بحث چلتی رھی مرزا جہلمی نے مولانا مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ کو اس پر مناظرہ کا چیلنج کیا اور انہیں جہلم آکر بات کرنے کی دعوت دی اس پر مولانا مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ جہلم پہنچے اور ایک ویڈیو کےذریعہ مرزا جہلمی کو اپنی آمد کی اطلاع دے دی مولانا مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ اڑتالیس گھنٹے جہلم میں رھے لیکن مرزا جہلمی کہیں چھپ کر بیٹھا رھا نہ تو سامنے آیا نہ ھی کوئی رابطہ کیا اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھو گیا اور مرزا جہلمی کا جھوٹ مکمل طور پر کھل کر سامنے آگیا عام لوگوں کو تو خیر شاید یہ بھی معلوم نہ ھو کہ “*المہند علی المفند*” جس کا اتنا ذکر ھوتا رھا ھے وہ ھے کیا؟ تو آئیے ھم اس کتاب کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ھیں
”*المہند علی المفند کا پس منظر*
الحمد للہ وحدہ لاشریک لہ والصلوۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ اما بعد!
اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کو پھیلانے کے لیے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب فرماتے ہیں۔ اس دور میں اللہ پاک نے اس مقصد کے لئے براعظم ایشیاء میں خصوصاًاور پوری دنیا میں عموماً علماء حق علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کا انتخاب فرمایا جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے لگا دیا ہے۔ ” علماء اھل السنۃ ولجماعۃ دیوبند“ دارالعلوم دیوبند ہندو ستان سے منسوب ان علماء حق کا نام ہےجنہوں نے اس دار العلوم کی بنیاد رکھی، دارلعلوم دیوبند میں پڑھا، دار العلوم دیوبند میں پڑھایا یا دار العلوم دیوبند کے نظریات کو اپنایا۔ علماء حق علماء اھل السنۃ ولجماعۃ دیوبند نے کوئی نیا دین پیش نہیں فرمایا بلکہ جس دین کو اللہ رب العزت نے حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرماکر مکمل فرمایا تھا جس دین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ذریعے دنیا میں پھیلایا اور مضبوط فرمایا اور جس دین کو فقہا ء کرام اور محدثین عظام کے ذریعے عموماً اور چاروں ائمہ رحمہم اللہ کے ذریعہ خصوصاً لکھوایا اسی دین کو اللہ رب العزت نے انہی علماء حق علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے ذریعے فتنوں سے بچایا اور الحاد و بدعات کی نجاستوں وآلائشوں سے پاک کروایا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تکمیل دین، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے تمکین دین اور حضرات محدثین اور فقہاء کرا م رحمہم اللہ تعالیٰ کے ذریعہ تدوین دین، علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے ذریعہ تطہیر دین فرمائی۔
جس طرح دین دشمن افراد اور جماعتوں نے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ان کی، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ان کی اور حضرات محدثین وفقہاء عظام کے وقت میں ان کی ہر طرح سے مخالفت کی، ان پر بہتان باندھے، الزام تراشیاں کیں، اسی طرح علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبندکے دور میں بعض لوگوں نے ان نورانی صفات اور اخلاص و عاجزی کے پیکر بندگانِ خدا کی مخالفت کی، الزامات لگائے حتیٰ کہ ان دین کے خدمت گار وں کو دین دشمن او ر بے دین تک قرار دے کر ان پر کفر تک فتوے لگائے جس کی ایک مثال ہندوستان کی معروف شخصیت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتاب” حسام الحرمین“ ہے جس کا پورا نام ہے
” *حُسَامُ الْحَرَمَیْنِ عَلیٰ مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَالْمَیْنِ*“
یعنی فسق اور کفر کی گردن پر حرمین کی تلوار۔
مولوی احمد رضاخان صاحب بریلوی (متوفیٰ1340ھ) 1323 ھ مطابق 1906ء حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور علماء حرمین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (زاد ھما اللہ شرفاً وکرماً) کے سامنے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے چار اکابر علماء کرام کی عبارات کو کاٹ چھانٹ کرکے غلط انداز میں پیش کیا۔ ان علماء کرام میں حضرت اقدس مولا نا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” تحذیر الناس“ میں لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی زمانہ میں کوئی نبی آسکتا ہے یعنی بقول مولوی بریلوی حضرت نانوتوی علیہ الرحمۃ نے ختم نبوت زمانی کا انکار کیا ہے حضرت اقدس مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (م1323ھ) پرالزام لگایا کہ انہوں نے” فتاویٰ رشیدیہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولتے ہیں حضرت اقدس مولاناخلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1346ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ ابلیس کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے زیادہ ہے اور حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” حفظ الایمان“ میں لکھاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنا علم تھا اتنا علم تو ہر آدمی حتیٰ کہ پاگل اور جانور کے پاس بھی ہے۔یہ الزامات اس وقت کے علماء حرمین کے سامنے پیش کر دئیے گے
ادھر معاملہ یہ تھا کہ اس وقت کے علماء حرمین اردو نہیں جانتے تھے کہ وہ اصل کتاب دیکھ لیتے اور ان حضرات سے متعارف بھی نہ تھے کہ ان سے براہ راست معلوم فرمالیتے۔ لہٰذا انہوں نے لکھ دیا کہ انہوں نے اگریہ لکھاہے تو یہ کافر ہیں۔
بس مولوی احمد رضاخان بریلوی نے یہاں سے یہ فتویٰ لیا اور” حسام الحرمین“ کے نام سے اسے کتابی شکل میں ہندوستان میں چھاپ دیا۔ جب اس ساری صورت حال کا علم حضرت اقد س شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ) کو ہوا تو حضرت نے علماءِ حرمین سے اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ علماء حرمین نے چھبیس سوالا ت لکھ کردیے کہ آپ علماء دیوبند اس بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ ان چھبیس سوالات کے جوابات حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے زیرِ نظر کتاب
”اَلْمُہَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّدْ“
کی صورت میں تحریر فرمائے۔ ”المہند“ کا معنی ہے ”ہندی تلوار“ اور ”المفند“ کا معنی ہے ” خطا کار اور جھوٹا“ ۔ گویا کتاب کے نام کا مطلب ہوا ”جھوٹے آدمی پر ہندی تلوار“
اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد علماء دیوبند کا نقطۂ نظر تفصیل سے سامنے آگیا تھا تو علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ فاضل بریلوی صاحب نہ صرف یہ کہ علماء دیوبند کے متعلق اپنی غلطی کا اعتراف کرتے بلکہ کھلے دل سے علماء دیوبند سے معافی کے طلبگار ھوتے تو یہ فتنہ وھیں ختم ھو جاتا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے موقف پر ڈٹے رھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فتنہ جو حسام الحرمین کتاب چھاپنے سے شروع ھوا تھا پورے زور وشور سے جاری رھا اور فاضل بریلوی کے پیروکاروں نے اپنی دکانیں چمکانے کے لئے اسے خوب پروان چڑھایا سو یہ فتنہ ابھی تک بھی موجود ھے
جب علماء حرمین کے سوالات اور ان کے جوابات منظر عام پر آئے
اس وقت حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما انتقال فرماچکے تھے اس لیے ان دونوں حضرات کی تصدیقات ان جوابات پر نہیں ہیں البتہ ان کے صاحبزادوں؛ مولانا محمد احمد فرزندِ حضرت نانوتوی اور مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی فرزندِ حضرت گنگوہی کی تصدیقات موجود ہیں۔ دیگر جن اکابرین نے تصدیقات فرمائیں وہ مندرجہ ذیل ہیں
(1)شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن .... م1339ھ
(2)حضرت مولانا میر احمد حسن صاحب امروہی.... م1330ھ
(3)حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی .... م1347ھ
(4)حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی .... م1362ھ
(5)حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری .... م1337ھ
(6) حضرت مولانا حکیم محمد حسن (برادر حضرت شیخ الہند ) .... م1345ھ
(7)حضرت مولانا قدرت اللہ مراد آبادی
(8)حضرت مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی (برادر علامہ شبیر احمد عثمانی) .... م1348ھ
(9)حضرت مولانا محمد احمد (فرزندِ حضرت نانوتوی) .... م1347ھ
(10)حضرت مولانا غلام رسول مدرس دارالعلوم دیوبند.... م1337ھ
(11)حضرت مولانا محمد سہول .... م1367ھ
(12) حضرت مولانا عبد الصمد
(13)حضرت مولانا حکیم محمد اسحاق نہوڑی دہلی
(14)حضرت مولانا ریاض الدین مدرسہ عالیہ میرٹھ
(15)حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی.... م1372ھ
(16)حضرت مولانا ضیا ء الحق دہلی
(17)حضرت مولانا محمد قاسم دہلی
(18)حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی .... م1360ھ
(19)حضرت مولانا سراج احمد سردھنہ میرٹھ
(20)مولانا قاری محمد اسحاق مدرسہ اسلامیہ میرٹھ
(21)مولانا حکیم محمد مصطفٰی بجنوری
(22)حضرت مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی (فرزندِ حضرت گنگوہی)
(23)حضرت مولانا محمد یحییٰ سہارنپوری.... م1334ھ
(24)حضرت مولانا کفایت اللہ گنگوہی مدرس مظاہر العلوم سہارنپور
ہندوستان کے ان چوبیس اکابر علماء کرام کے علاوہ “ا لمہند علی المفند” کی تصدیق مکہ مکرمہ، مدینہ منورّہ، مصر اور شام کے کئی مشہور علماء کرام نے بھی فرمائی جن کے نام یہ ہیں:
مکہ مکرمہ کے علماء کرام :
(1) حضرت مولانا شیخ محمد سعید بابصیل الشافعی.... م1330ھ
(2) شیخ احمد رشید الحنفی
(3) شیخ محب الدین المکی الحنفی
(4) شیخ محمد صدیق افغانی المکی
(5) شیخ محمد عابد مفتی المالکیہ.... م1340ھ
(6) شیخ محمد علی بن حسین المالکی.... م1367ھ
مدینہ منورہ کے علماء کرام :
(1) شیخ مولانا مفتی سید احمدبرزنجی شافعی
(2) شیخ رسوحی عمر
(3) شیخ ملا محمد خان البخاری الحنفی
(4) شیخ خلیل بن ابراہیم
(5) شیخ السید احمد الجزائری
(6) شیخ عمر بن حمدان
المحرسی.... م1368ھ
(7) شیخ محمد العزیز الوزیر التونسی.... م1338ھ
(8) شیخ محمدمکی البرزنجی
(9) شیخ محمدالسوسی الخیاری
(10) شیخ احمدبن المامون
البلغیش.... م1348ھ
(11) شیخ محمد توفیق
(12) شیخ موسی کاظم بن محمد
(13) شیخ احمد محمد خیر الحاجی العباسی
(14) شیخ ابن نعمان محمد منصور
(15) شیخ معصوم احمدسید
(16) شیخ عبداللہ القادربن محمد بن سودہ العرسی ولیہ
(17) شیخ محمد یٰسین
(18) شیخ ملا عبد الرحمٰن
(19) شیخ محمود عبدالجواد
(20) شیخ احمد بساطی
(21) شیخ محمد حسن سندی
(22) شیخ احمد ابن احمد اسعد
(23) شیخ عبد اللہ
(24) شیخ محمد بن عمر الفلانی
(25) شیخ احمد ابن محمد خیر الشنقیظی المالکی المدنی
مصر (الجامع الازہر) کے علمائے کرام:
(1) حضرت شیخ سلیم البشری
(2) شیخ محمد ابراہیم القایانی
(3) شیخ سلیمان العبد
دمشق کے علماء کرام :
(1) شیخ سید محمد ابو الخیر ابن عابدین بن علامہ احمد بن عبد الغنی حسینی نقشبندی
(2) شیخ مصطفیٰ بن احمد الشطی الحنبلی
(3) شیخ محمود بن رشید العطار
(4) شیخ محمد البوشی الحموی
(5) شیخ محمد سعید الحموی
(6) شیخ علی بن محمد دلال الحموی
(7) شیخ محمد ادیب الحوارانی
(8) شیخ عبد القادر
(9) شیخ محمدسعید
(10) شیخ محمد سعید لطفی حنفی
(11) شیخ حضرت فارس بن محمد
(12) شیخ مصطفی الحداد
اب یہ سمجھ لینا چاھیے کہ گویا یہ کتاب ان اکابر ین کی تصدیقات کے بعد علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی متفقہ عقائد کی تحریر ہے۔ اب جو شحص خود کو علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کتاب میں موجود تمام نظریات وعقائد کو تسلیم کرے۔ بعض حضرات نے “المہند علی المفند “ پر اعتراضات بھی کیے ہیں۔ ان کے اعتراضات کے جوابات بھی” المہند علی المفند پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ“ کے نام سے دیے جا چکے ہیں اور اس کتاب کے کئی ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں۔
حسام الحرمین کے مستقل جوابات بھی اکابر علماء کرام دے چکے ہیں۔ مثلاً
[۱]: مولانا محمد مرتضیٰ حسن چاند پوری (م1371ھ)
[۲]:” الشہاب الثاقب“ از مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ)
[۳]:” فیصلہ کن مناظرہ“ از مولانامنظوراحمدنعمانی
علماء اہل سنت والجماعت ( دیوبند ) کے عقائد جاننے کے لئے المہند والمفند کتاب کا مطالعہ بہت مفید ھو گا اللہ پاک ھمارے علماء کرام کی زندگیوں میں برکت عطا فرمائے اور ان کی ھر طرح سے حفاظت فرمائے اور جو اس دنیا سے رخصت ھو چکے ہیں ان کے درجات بلند عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین