شیعہ مت ھونا
حاجی عبدالرحمن رحمة الله علیہ گنگوہ شہر کے اچھے لوگوں میں شمار ھوتے تھے جو مولانا رشید آحمد گنگوہی رحمة الله علیہ کے دور مسعود کی یاد گار تھے ہمہ وقت ذاکر و شاغل اور علماء و اہل اللہ کی صحبت کے شوقین و حریص تھے، وہ تقریباً روزانہ مدرسہ اشرف العلوم ۔ گنگوہ تشریف لاتے، کچھ باتیں بزرگوں کی سناتے اور کچھ چھوٹوں کی سنتے،یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ ایک مرتبہ حاجی عبد الرحمن صاحب رحمة الله علیہ ایک دم مدرسہ سے غیر حاضر ہو گئے اور ایک ماہ گزر گیا ۔ ایک ماہ کے بعد وہ تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ حاجی صاحب! آپ نےہم لوگوں کو اپنے دیدار سے ترسا دیا اور اور ھم آپ کی دید کے لئے تڑپتے رھے۔ آپ اتنی مدت کے بعد تشریف لائے ہیں، کہاں تھے آپ؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں اپنے، بھتیجوں کے پاس کراچی چلا گیا تھا۔ کل ہی وہاں سے واپس آیا ہوں، طرفین سے خیر و عافیت دریافت ہونے کے بعد فرمایا کہ میں آج ایک عبرتناک چشم دید واقعہ آپ لوگوں کو سنانا چاھتا ہوں، ہم لوگوں نے عرض کیا حضرت! ضرور سنائیے اور ہم سب لوگ حاجی صاحب رحمة الله علیہ کی طرف متوجہ ھو کر بیٹھ گئے ۔
حاجی صاحب رحمة الله علیہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور فرمایا کہ میرے کراچی میں قیام کے دوران میرے ایک بھتیجے کی طبیعت آچانک زیادہ خراب ہوگئی، تو اس کو ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ۔ میں اس کو دیکھنےاور اُس کی عیادت کرنے کے لئے ہسپتال پہنچا، میں اپنے بھتیجے کے بستر کی طرف جا رھا تھا کہ راستہ میں ایک دوسرے مریض نے مجھے آواز دی ۔ میں آواز سن کر اسکے پاس چلا گیا، میرا خیال تھا کہ اس بیچارے کو کوئی ضرورت ہوگی، میں اسکے قریب گیا تو اس نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور صرف اتنا کہا کہ “شیعہ مت ہونا" اور کہا اب آپ جاؤ۔ میں نے اُسے کہا یہ کیا بات ہوئی ۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ کو کوئی کام ہوگا جو میں کرکے خوشی محسوس کروں گا ۔ اس نے کہا کہ بس یہی کام تھا ۔ میں نے کہا ارے بھائی! میں تو الحمد للہ پکا سنی ہوں بھلا میں شیعہ کیوں ہوں گا ۔ آخر تم نے یہ بات کیوں کی؟ اس نے کہا بیٹھ جاؤ میں آپ کو پوری بات سناتا ہوں
میں بیٹھ گیا تو وہ کچھ یوں گویّا ھوا ۔ سنو! میں پیدائشی کٹر شیعہ تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم خصوصاً حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر بہت زیادہ تبرا کیا کرتا تھا۔ ان دونوں کا بہت ہی دشمن تھا اور اُن پر تبرا کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔
بدبختی کی میری زندگی یوں ھی گزر رھی تھی کہ اللہ پاک کو مجھ پر رحم آ گیا اور اللہ پاک نے میرے لئے ھدایت کا سبب پیدا فرما دیا ۔ ھوا یوں کہ میں ایک رات اپنے گھر میں اپنے روم میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ۔ خواب میں دیکھتا ھوں کہ میں بہت زیادہ پیاسا ہوں اور کہیں چلا جا رہا ہوں ۔ میں سوچ رھا ھوں کہ راستے میں کہیں پانی مل جائیگا تو پی لوں گا کہ اچا نک ایک نہر نظر آئی جس کا پانی بہت ہی صاف وشفاف تھا ۔ میری جان میں جان آئی اور میں پانی پینے کے ارادے سے آگے بڑھا۔ میں نے دیکھا کہ اس نہر کے گھاٹ پر ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس پر نمایاں حروف میں یہ لکھا ہوا ہے"نہر خلیفۃ المسلمین ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ " مجھے چونکہ اُن سے شدید نفرت تھی اس لئے یہ دیکھ کر میں بُری طرح جل بھن گیا اور میں نے نفرت و بغض کے ساتھ اس نہر کو چھوڑ دیا اور دل میں سوچا کہ مجھے پیاسا مرنا تو منظور ہے مگر اپنے دشمن کی نہر سے پانی پینا منظور نہیں، میں پانی پیے بغیر ھی آگے بڑھ گیا
پیاس سے بیتابی بھی بہت زیادہ ہو گئی تھی ، ادھر ادھر دیکھتا رھا کہ کہیں پانی مل جائے تاکہ اپنی پیاس بجھا سکوں۔ کچھ دور چل کر مجھے ایک اور نہرصاف شفاف پانی کی نظر آئی۔ اب کچھ ڈھارس بندھی کہ یہاں میری پیاس بجھے گی مگر میں نے گھاٹ پر پہنچ کر کیا دیکھا کہ ایک بورڈ پر جلی حروف سے لکھا ہوا ہے"نہر امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ ‘‘ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی کیونکہ میرے دل میں اُن کے لئے بھی شدید نفرت تھی اور میں اسی نفرت اور غصے کی کیفیت میں آگے بڑھا ،دل میں سوچا کہ مجھے موت تو گوارہ ہے مگر اپنے دشمن کی نہر سے پانی پینا گوارہ نہیں ۔ لہذا میں نے یہاں سے بھی پانی پینا پسند نہ کیا
میں مسلسل چلتا رھا اور پانی کی تلاش بھی کرتا رھا ۔ پھر مجھے کچھ فاصلہ پر جا کر ایک اور نہر نہایت صاف شفاف پانی کی نظر آئی۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور اس نہر کے گھاٹ پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ھوں کہ اس نہر پر ایسا ہی ایک شاندار بورڈ لگا ہوا ہے جس پر بڑے حروف سے لکھا ہوا ہے "نہر آمیرالمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ “ اب میرے غصے کی کوئی حد نہ تھی کہ ھر نہر پر میرے کسی دشمن کا نام موجود تھا میں نے باوجود شدید پیاس کے یہاں بھی پانی پینا گوارہ نہ کیا اور بغض و نفرت کی آگ میں جلتا ھوا آگے بڑھ گیا
اب تو پیاس کی اتنی زیادہ شدت ہوگئی تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی کے بغیر میری جان نکل ھی جائیگی ۔ پھر بھی میں ہمت کرکے آگے بڑھتا رہا، تو مجھے ایک اور صاف و شفاف پانی کی نہر نظر آئی، گھاٹ پر پہنچا تو اس پر لکھا ہوا تھا "نہر امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ “ اب تو میری خوشی کا عالم نہ پوچھیئے کہ میں اب حضرت امیر کی نہر سے سیراب ہوں گا، مگر جوں ہی گھاٹ میں اتر کر پانی پینے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ ایک شخض گٹھیلے بدن کا نہایت گنجان ڈاڑھی والا کھڑا ہے، اس نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ھو ؟ میں نے اپنا نام بتایا اور عرض کیا کہ میں بہت پیاسا ہوں، پانی پینا چاہتا ہوں۔ ساتھ ھی میں نے یہ بھی پوچھ لیا کہ حضرت! آپ کون ہیں؟اُنہوں نے فرمایا میں ہوں "علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ " میں نے خوشی سے کہا کہ اور میں ہوں آپ کا چاہنے والا، آپ کا غلام، انہوں نےفرمایا کہ کیا تجھے اس سے پہلے کوئی نہر نہیں ملی؟ میں نے عرض کیا کہ حضور تین نہریں ملی تو تھیں ، مگر میں نے ان سے اس لئے پانی نہیں پیا کیونکہ میں ان سے محبت نہیں رکھتا جن کی وہ نہریں تھیں۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جو ان سے محبت نہیں کرتا، وہ مجھ سے بھی محبت نہیں رکھتا اور جو ان کا دشمن ہے، وہ میرا بھی دشمن ہے، یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے میرے منہ پر ایک تھپڑ اتنے زور سے رسید کیا کہ میرے بتیس کے بتیس دانت نکل کر باہر ہوگئے اور پھر نیند سے بھی میری آنکھ کھل گئی، دیکھا تو میرے سارے دانت تکیہ پر پڑے ھوئے ہیں اور میرے منہ سے خون جاری ہے، شدید تکلیف ہورہی ہے،
میں نے اس تکلیف کے عالم میں اپنے گھر والوں کو آواز دی اور روتے ہوئے وہ سارا ماجرہ جو خواب میں دیکھا تھا انہیں سنایا۔ میری حالت میری سچائی کی گواھی دے رھی تھی ۔ چونکہ رب ذوالجلال نے مجھے سب کچھ دکھا دیا تھا اور یہ بات آچھی طرح میری سمجھ میں آگئی تھی کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے ؟ میں نے اسی وقت شیعیت سے فورا سچی توبہ کی اور یہ عہد کیا کہ جب تک میں زندہ رہوں گا ہر ایک کو یہ پیغام دیتا رھوں گا کہ “شیعہ مت ہونا”۔