حشر کے پانچ سوال “ پانچواں سوال”

 *حشر کے پانچ سوال*



*پانچواں سوال: * *اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟


حشر کے پانچ سوالوں میں پانچواں سوال علم کے متعلق ھوگا کہ جو علم حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا یہاں یہ بات جاننی ضروری ھے کہ علم سے مراد یہاں دینی علم یعنی قرآن وسنت کا علم  ھے دنیاوی علوم و فنون اس  سوال میں داخل نہیں ھیں دوسرا اس سوال کا یہ مطلب بھی ھرگز نہیں کہ اس سوال سے بچنے کے لئے  دین کا علم ھی نہ سیکھا جائے  کہ نہ علم ھو گا نہ سوال ھو گا  ایک مرتبہ ایک بزرگ اپنے بیان میں بتا رھے تھے کہ قیامت والے دن اس سلسلہ میں عالم سے تو ایک سوال ھو گا  کہ علم پر کتنا عمل کیا لیکن جاھل سے دو سوال ھوں گے کہ علم کیوں حاصل نہ کیا اور عمل کیوں نہ کیا ( واللہ عالم) 

یہ لازمی جاننا چاھیے کہ دینی علم کا کچھ حصہ ایسا ھے جسے سیکھنا ھر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ھے  چنانچہ ابن عساکر  نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ  سے روایت کی کہ ان سے حضور صلی الله  علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے قیامت میں سوال ہوگا کہ تم عالم تھے یا نرے جاہل،اگر تم نے کہا کہ میں عالم تھا تو حکم ہوگا کہ اپنے علم پر عمل کیا کیا؟ اور اگر تم نے کہا کہ جاہل تھا تو فرمایا جاوے گا کہ تم جاہل کیوں رہے ؟ تمہیں کیا عذر تھا۔ علم سے مراد علم دین ھی  ہے سو اگر کوئی شخص  دنیاوی علوم میں بہت بڑی بڑی ڈگریاں رکھتا ھو لیکن دین کا فرض علم بھی اس نے نہ سیکھا ھو تو دینی اعتبار سے وہ جاھل ھی تصور  کیا جائے گا  جیسا کہ آج کل کا عام مشاھدہ ھے  کہ پڑھے لکھے جہلاء کی بہتات ھے وزیروں تک کی حالت یہ ھے کہ سورہ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتے لہذا ایک مسلمان  کو چاہیے کہ علم دین سیکھنے کا اھتمام کرتا رھے  اور نیک عمل کرتا رھے۔

علماء فرماتے ھیں کہ پانچ طرح کے علوم حاصل کرنا ہر عاقل بالغ مسلمان پرفرض ہے:


(1)اسلامی عقائد کا علم : 

یعنی ان عقیدوں کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنتا ھے  اور ان کا انکار کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جاتا ھے  یا گمراہ ہو جاتا ھے


(2)ضرورت کےمسئلے جاننا : 

یعنی عبادات (مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ) و معاملات (مثلاً ملازمت و کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق ہے اس کے ضروری مسائل


(3) حلال و حرام کا جاننا:  

مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہننے، زینت کرنے،ناخن و بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض و امانت و تحفہ لینے دینے، قسم کھانے، وصیّت و تقسیمِ جائیداد وغیرہ کے مسائل ظاہری گناہ کی ضروری معلومات بھی اس میں شامل ہے


(4)ہلاک کرنے والے اعمال : 

ہلاک کر دینے والے اعمال کی ضروری معلومات اور ان سے بچنے کے طریقوں کا سیکھنا بھی ضروری ھے ۔


(5)نجات دلانے والے اعمال: 

عذاب  سے نجات  دلانے والے اعمال کی ضروری معلومات اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے معلوم کرنا بھی ھر مسلمان کے لئے ضروری ھیں 


رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘(ابن ماجہ،

اس حدیثِ پاک سے اسکول کالج کی مُرَوَّجہ دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دینی علم مُرادہے۔لہٰذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائط ومُفسِدات(یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے )پھر رَمَضانُ المُبارَک کی تشریف آوَری ہوتوجس پر روزے فرض ہوں اُس کیلئے روزوں کے ضَروری مسائل،جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل،اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے،نکاح کرنا چاہے تو اس کے،تاجر کو تجارت کے،خریدار کو خریدنے کے،نوکری کرنے والے اورنوکر رکھنے والے کو اِجارے کے،وَعلٰی ھٰذا الْقِیاس(یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے )ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔اِسی طرح ہر ایک کیلئے حلال و حرام کے ضروری مسائل بھی سیکھنا فرض ہیں۔نیز مسائلِ قلب(باطِنی علم)یعنی فرائضِ قَلْبِیہ(باطِنی فرائض)مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر،رِیاکاری،حَسَد،بدگمانی،بغض و کینہ،شُماتَت وغیرہ کا جاننا بھی ضروری ھے


 اللہ تعالی کی  صفات میں سے ایک صفت “اعلم “ ہے، اللہ کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطا کیا، اور اس میں انسان کو برتر رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق ،اور سیرت اور کردار میں خوبی، اور بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے ، اس لیے کہ اس کا علم ”علم محیط“ ہے، اللہ نے اپنی اس صفت کا پرتو انسان میں اسی لیے رکھا تاکہ تخلقوا بأخلاق اللّٰہ والی حدیث پر عمل در آمد ہو سکے، اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم علیہ السلام کو جو برتری اورخصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہٰذا علم کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا علم ہو انسان اتناہی بااخلاق ہو، حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کو اللہ نے” علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔

حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب بر پا ہوگیا، اور وہ بھی رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے أسوہ بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتاہے


علم حاصل کرنے کےبعد اس پر عمل کرنا بھی اشد ضروری ھے ورنہ یہی علم انسان کے لئے وبال بن جائے گا یہی وہ عمل ھے جس کے متعلق قیامت والے دن سوال ھوگا  قرآن وحدیث  میں اس کی بہت تاکید آئی ھے

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ھے

يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اﷲِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَO  (الصف)

اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہوo اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔


مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اﷲِ ط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَo

(الجمعة،)

اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

بہت سی آحادیث مبارکہ میں بھی علم پر عمل کرنے کی تراغیب اور عمل نہ کرنے پر  شدید وعیدیں وارد ھوئی ھیں


عَنْ أُسَامَةَ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يُجَاءَ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ. فَيَدُوْرُ کَمَا يَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ. فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُوْنَ: أَي فُلاَنُ، مَا شَأْنُکَ؟ أَلَيْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ: کُنْتُ آمُرُکُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيْهِ وَأَنْهَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِيْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت ایک شخص کو لا کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کے پیٹ کی آنتیں باہر گر پڑیں گی۔ پھر وہ اس طرح گردش کرے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں کر ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص جواب دے گا: ہاں میں تمہیں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برے کام کرتا تھا۔

( متفق علیہ)

ایک دوسری روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔

(مسلم، احمد، نسائی اور ابن ماجہ )


ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ فرشتوں نے جواب دیا: یہ دنیا دار (پیشہ ور) خطباء ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتابِ (الہٰی) کی تلاوت کرتے تھے۔ کیا وہ عقل نہیں رکھتے؟

اسے امام احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ھے

خلاصۂ کلام یہ کہ ھر مسلمان کو حتی الوسع علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاھیے خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ھے

اطلبوا العِلم من المَهد إلى اللَّحد

ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو

علم عمل کرنے کی نیت سے ھی حاصل کرنا چاھیے اور زندگی میں اس پر عمل کرتے ھی رھنا چاھیے تاکہ  عالم آخرت میں علم کے بہترین فضائل حاصل ھو سکیں جو جنت میں اونچے درجات کے حصول کا سبب بن سکیں اور   قیامت والے دن عمل نہ کرنے کے سوال کی سختی سے بچ سکیں 

اللہ پاک ھم سب کو عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

*تمت بالخیر*

Share: