عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 7 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر  اجماعِ صحابہ و اجماعِ  اُمت   *


عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جس طرح قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اسی طرح عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  صحابہ کرام ؓ اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔جس طرح کسی بھی مسئلے پر قرآن اور حدیث بطور دلیل ہیں۔اسی طرح صحابہ کرام ؓ کا اجماع یا امت کا اجماع بھی کسی مسئلے پر دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 


 آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ھیں  کہ اجماع کی حقیقت کیا ھے  اور پھر عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع اور امت کا اجماع کیا حیثیت رکھتے ھیں ۔ 


*اجماع کی حقیقت* 


اللہ تعالٰی نے ہمارے آقا و مولی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو بے شمار انعامات دیئے ہیں ان میں سے ایک انعام *اجماع امت* بھی ہے۔ 


اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے کے حکم پر امت کے علماء مجتہدین اتفاق کرلیں تو اس مسئلے پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہوجاتا ہے۔جس طرح قرآن اور احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔ 


چونکہ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی ایسی ہستی امت میں موجود نہیں تھی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھا جائے۔اس لئے اللہ تعالٰی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علماء مجتہدین کے اجتہاد کو یہ درجہ دیا کہ امت کے علماء مجتہدین کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق ہو جایئں تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ چیز اللہ تعالٰی کے ہاں بھی ایسی ہی ہے جیسے اس امت کے علماء مجتہدین نے سمجھا ہے۔


اس بات کو حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ 

*عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ*

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

"میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی ، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو ۔"

(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر  3950 ٬ باب سواد الأعظم) 


اصول کی کتابوں میں اجماع امت کے حجت شرعیہ ہونے اور اس کے لوازمات اور شرائط کے بارے میں مفصل بحثیں موجود ہیں۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن اور حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا گیا ہے۔ 

اور جس مسئلے پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوجائے تو وہ اسی طرح قطعی اور یقینی ہے جس طرح کسی مسئلے پر قرآن کی آیات قطعی اور یقینی ہیں۔ 


چنانچہ علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ 

*واجماعھم حجتہ قاطعتہ یجب اتباعھا بل ھی اوکد الحجج وھی مقدمتہ علی غیرھا ولیس ھذا موضع تقریر ذلک فان ھذا الاصل مقرر فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقھاء ولا بین سائر المسلمین الذین ھم المومنون خلاف۔*

"اجماع صحابہ ؓ حجت قطعیہ ہے بلکہ اس کا اتباع فرض ہے۔بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں میں سب سے زیادہ موکد اور سب سے زیادہ مقدم ہے۔یہ موقع اس بحث کا نہیں۔کیونکہ ایسے مواقع (یعنی اصول کی کتابوں میں)یہ بات اہل علم کے اتفاق سے ثابت ہوچکی ہے۔اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا اختلاف نہیں۔"

*(بیان الدلیل علی بطلان التحلیل جلد صفحہ 240)


*عقیدہ ختم نبوتﷺ پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع*

اسلامی تاریخ میں یہ بات تواتر کی حد کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں نبوت کا دعوی کیا اور لوگوں کی ایک خاصی تعداد  نے اس کے دعوی نبوت کو تسلیم بھی کر لیا۔ 

ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا ایلچی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے مسیلمہ کذاب کے دعوی کے بارے میں پوچھا تو ایلچی نے کہا کہ میں مسیلمہ کذاب کو اسکے تمام دعوؤں میں سچا سمجھتا ہوں۔تو جواب میں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا کہ اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کروا دیتا۔ 

کچھ عرصے بعد ایک صحابی ؓ نے اس مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو ایک مسجد میں دیکھا تو اس کو قتل کروا دیا۔

حدیث کے الفاظ اور ترجمہ ملاحظہ ھوں ۔ 

*عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا ؟ قَالَا:‏‏‏‏ نَقُولُ كَمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا*

حضرت نعیم بن مسعود اشجعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان دونوں نے کہا:ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے (یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں)

 آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ 

(ابوداؤد)

مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے قتل کروایا تھا جیسا کہ یہ واقعہ درج ذیل روایت میں  ذکر کیا گیا ہے۔ 

*عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ،فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِفَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ،قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ*

(حضرت حارث بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا:میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے،میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں،یہ سن کر عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا،وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے۔پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا:جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے"

(ابوداؤد:حدیث نمبر 2762 ٬ باب فی الرسل)


جب حضور اکرم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بہت سے فتنوں نے سر اٹھایا جن میں منکرین زکوۃ کا فتنہ بھی تھا۔صحابہ کرام ؓ نے منکرین زکوۃ کے خلاف بھی جہاد کیا لیکن جہاد کرنے سے پہلے اس پر خوب بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا جائے یا جہاد نہ کیا جائے۔ جب صحابہ کرام ؓ متفق ہوگئے تو پھر منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد ہوا۔ 

لیکن جب مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جہاد کا حکم دیا تو کسی ایک صحابی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ کلمہ گو ہے اس کے خلاف جہاد نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ تمام صحابہ کرام ؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکاروں کو کفار سمجھ کر کفار کی طرح ان سے جہاد کیا۔ اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کی وجہ صرف اس کا دعوئ  نبوت تھا کیونکہ ابن خلدون کے مطابق صحابہ کرام ؓ کو اس کی دوسری گھناونی حرکات کا علم اس کے مرنے کے بعد ہوا اور یہی صحابہ کرام کا عقیدۂ ختم نبوت پر اجماع ہے۔


*عقیدہ ختم نبوت پر اجماعِ امت*

عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتابوں میں اجماع امت کے حوالے بہت کثرت سے  موجود ھیں جن میں سے کچھ کا  ذکر یہاں کیا جاتا ھے ۔ 


*حوالہ نمبر 1*

ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں۔ 

*"دعوی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفرا بالاجماع۔"* 

ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا امت کے اجماع سے کافر ہے۔ 

(الفقہ الاکبر صفحہ 150)


*حوالہ نمبر 2*

امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ  

*ان الامتہ فھمت بالاجماع من ھذا الفظ ومن قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا۔وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھذا لایکون الا منکر الاجماع*

"بیشک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول ہوگا۔اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں۔پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے۔"


(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 178 ٬ الباب الرابع ٬بیان من یجب تکفیرہ من الفرق ٬طبع بیروت 2003ء) 


*حوالہ نمبر 3*

علامہ آلوسیؒ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امت کےاجماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 

*وکونهﷺ خاتم النبیین مما نطقت بہ الکتاب وصدعت بہ السنتہ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر۔*

"آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا خاتم النبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پر کتاب(قرآن) ناطق ہے اور احادیث نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو بوضاحت بیان کرتی ہیں۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔

(روح المعانی جلد 22 صفحہ 41 تفسیر آیت نمبر 40 سورة الاحزاب) 


*حوالہ نمبر 4*

قاضی عیاضؒ نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا۔تو خلیفہ نے وقت کے علماء جو تابعین میں سے تھے ان کے فتوی سے اس کو قتل کروا دیا۔قاضی صاحب اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ 

*وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم والمخالف فی ذالک من کفرھم کافر۔*

"اور بہت سے خلفاء سلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے۔اور اس زمانے کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔اور جو شخص ایسے مدعیان نبوت کو کافر نہ کہے وہ خود بھی کافر ہے۔" 

(شرح الشفاء جلد 2 صفحہ 534 طبع بیروت 2001ء)


عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم * کے بارے میں  تمام تر کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قرآن پاک کی سو سے زیادہ آیات ، دو سو سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواتر سے ثابت ہے۔عقیدہ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  صحابہ کرام ؓ کے اجماع اور امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔ امت کا سب سے پہلا اجماع  اسی پر منعقد ہوا۔ 

عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وجہ سے قرآن پاک کی حفاظت کا اللہ تعالٰی نےوعدہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے وہ کافر ، کذاب اور دجال ھے اس کو نبی ماننے والے بھی کافر ھیں اور جو انھیں کافر نہ کہے وہ بھی بغیر کسی شک شبہہ کے کافر ھے

Share: