عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 4)


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قرآنی آیات کی روشنی میں *


عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و سنّت کے قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ 

عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات سے ثابت ہے اور دو سو دس احادیث مبارکہ میں اسے وضاحت سے بیان کیا گیا ہے مگر یہاں اختصار کے مدنظر صرف چند آیات مختصر تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہیں۔


ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیماO

(سورۂ احزاب:40)

محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔


تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ “خاتم النبیین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔


خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفسیر  خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 


حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی)

اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرمایا ھے جس کے چند جملے ملاحظہ ھوں : 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی مقامِ نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3)


خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے


حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) 

حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام  کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5)

کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی، اُمتی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟


خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اجماع امت


1) حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔“ (الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123)


2) علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے ہیں:اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔“ (روح المعانی ص 39 ج 22)


3) امام حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ”یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ493، جلد3)


4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ”خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی صفحہ196 جلد14) 


پس عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے. 


”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (سورہ مائدہ: 3)

آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا‘ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا‘ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“

یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے‘ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد ”واتممت علیکم نعمتی“ فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلۂ  وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین: ”قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے“ (رواہ البخاری)،

اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی(81) دن زندہ رہے (معارف صفحہ41 جلد3) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل،آخری کتاب ہے


و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً۔“ (سورۂ سبا: 28)

ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔“


قل یٰایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔“ (سورۂ اعراف: 158)

فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔


یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔“

ترجمہ: ”میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔

(کنز العمال جلد11 )

پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ 


”و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔“ (سورۂ انبیاء: 107)

میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔


یعنی حضور  آکرم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو سکتا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوتا، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاتا تو نجات نہ ہوتی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اللہ)


”و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔“(سورۂ بقرہ: 4،5)

جو ایمان لاتے ہیں، اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“


”یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باللہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل

علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل۔“ (النسأ: 136) 

اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔“


یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدۂ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور ی تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا اور  قیامت تک کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھی نبوت کا زمانہ رھے گا

Share: