عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 24 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکری و عملی تقاضے اور ھماری ذمہ داریاں  *


اللہ تعالٰی نے حضرت انسان کو زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ اللہ تعالی کی زمین پر اللہ تعالی کی مرضی کا قانون نافذ کروائے اللہ تعالی کے بندوں کو اسکی فرمانبرداری کی طرف مائل کرے اور اللہ تعالی کی زمین کو اسکی نافرمانی سے پاک کرے۔

معلوم ہوا کہ انسان آزاد پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ ہر معاملے میں اللہ رب العزت کے حکم کا پابند ہے۔اسی مقصد کی تکمیل کے لیے اور انسان کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالٰی نے انبیاءکرام علیھم السلام کا مبارک سلسلہ چلایا جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم بھی ہو گیا اور مکمل بھی ہو گیا۔

کیوں کہ جس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام کا سلسلہ چلایا تھا وہ مقصد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پورا ہو گیا یعنی جو شریعت آپﷺ  لے کر آئے وہ کامل ہے اور جو کلام آپﷺ پر نازل کیا گیا قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہر معاملے میں اور زندگی کے ہر شعبے میں کافی ہے۔ پہلے انبیاء کرام کی لائی ہوئی شریعتیں  یا تو مسخ ہو گئیں یا اس میں ردوبدل ہو گیا۔ مگر قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا  ھے چنانچہ ارشاد ربانی ھے 

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الـذِّكْـرَ وَاِنَّا لَـهٝ لَحَافِظُوْنَ (9) سورہ الحجر

ہم نے یہ نصیحت اتار دی ہے اور بے شک ہم  ھی اس کے نگہبان ہیں 

اور قرآن مجید پہلی آسمانی کتابوں کی بھی تصدیق کرتا ہے ۔اس لیےاب قیامت تک آنے والے انسانوں کو اگر ہدایت و رہنمائی مطلوب ہے تو اسے کلام پاک کی طرف  ھی رجوع کرنا ہوگا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے سے انسان کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا یہ نظام مکمل ہو گیا ۔ جس میں اللہ تعالٰی اپنے برگزیده بندوں کو منتخب کرتے ہیں ۔

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں رہی ۔عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔یعنی دائرۂ  اسلام میں داخل ہونے والا دل و جان سے یہ تسلیم کرے کہ آپﷺ ہی اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں اس لیے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل اور آپﷺ کے مثل تو دور کی بات کوئی آپﷺ کے عکس جیسا بھی نہیں ہو سکتا۔

عقیدۂ  ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس  عقیدہ کے دفاع کے لئے مقدور بھر اپنی پوری کوشش کریں۔ اس کے لئے اگر ہم اگر جان بھی قربان کر دیں تو اس فرض کا حق ادا نہیں کر سکتے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں متعدد بار عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو واضح کیا ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ھے 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ ۔ (الاحزاب)

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں "

اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 بھی عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی واضح دلیل ہے

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ 

، آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے،

آحادیث مبارکہ  اس سلسلہ میں اتنی کثرت اور وضاحت کے ساتھ مروی ہیں کہ ان کا احاطہ بھی دشوار ہے،

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسے محل کی ہے جسے نہایت ہی خوب صورت طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بچی ہو دیکھنے والے اسے دیکھتے ہوں اور اس کے حسن تعمیر پر حیرت زدہ ہوں ، سوائے اس اینٹ کی جگہ کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں، مجھ پر عمارت مکمل ہو گئی ہے ، رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا اور میں آخر ی نبی ہوں۔"(بخاری:501/1) حضرت ابوہریرہ ؓ  ہی کی روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ چھ باتوں میں آپﷺ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی، ان میں دو باتیں یہ تھیں کہ آپﷺ تمام مخلوقات کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے اورآپﷺ پر نبیوں کا سلسہ ختم کر دیا گیا۔ ( مسلم:199/1)

حضرت ثوبان رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ، جو کہیں گے کہ وہ الله کے نبی ہیں، حالاں کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔( ابوداؤد:584/1)

دارمی کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا میں پیغمبروں کا قائد اور خاتم ہوں اورمجھے اس پر کوئی فخر نہیں ۔ (دارمی حدیث نمبر49)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ایک نام ”عاقب“ بتایا اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، یعنی وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو، انا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔ ( بخاری:501/1)

احادیث نے اس بات کو  واضح کر دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کی نبوت باقی نہیں رہی، چناںچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ میرے بعد نبوت کی گنجائش ہوتی تو تم نبی ہوتے ، لوکان بعدی نبیاً لکان عمر۔ ( ترمذی:209/2) اور حضرت علی رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا کہ تم میری نسبت سے ویسے ہی ہو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا: انت منی بمنزلة ہارون من موسی، إلا أنہ لانبی بعدی․(بخاری:633/2) ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا، میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو، انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم ۔( ابن ماجہ:207 ، باب فتنة الدجال)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مسجد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انبیاء سے منسوب جو مسجدیں تھیں، ان میں آخری مسجد میری مسجد ہے، مسجدی خاتم مساجد الانبیاء۔( دیلمی، حدیث نمبر:112)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان فرمودات سے واضح ہے کہ آپﷺ پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے، آپﷺ آخری نبی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتا ب ہے، آپ ﷺ کی امت آخری امت ہے، انبیاء سے منسوب مساجد میں آپﷺ کی مسجد آخری مسجد ہے اور آپﷺ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا معاملہ ہمارے ایمان کا معاملہ ہے اس لیے ہمارے ذمے لازم ہے اور ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائیں۔ایسی محافل و مجالس کا اہتمام کریں جن میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ چور دروازوں سے آنے والے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ڈاکوؤں سے سادہ لوح معصوم اور کم علم مسلمانوں کو آگاہ کریں۔ تاکہ کوئی بھی شر پسند اپنے غلط عقائد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ایمان کو خراب نہ کر سکے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والے کے ساتھ آج بھی وہی سلوک ہونا چاھیے جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب کے ساتھ کیا تھا۔ ہمیں چاہیے کہ ھم آنے والی نسلوں کو سب سے اول عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اہمیت سے روشناس کروائیں۔ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سکولز، کالجز، یونیورسٹیوں میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے موضوع کو دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے۔ تاکہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہم ترین عقیدے کے حوالے سے بگاڑ کا شکار ہو کر اپنا ایمان نہ کھو دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین نے سب سے اہم کام نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خاتمے کا کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکے قتل کا حکم صادر کیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کا عمل ہمیں بتاتا ہے کہ عقائد میں سب سے اہم عقیدہ توحید کے بعد عقیدہ رسالت ہی ہے اور آج کے دور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا یا آپﷺ سے افضل ہونے کا دعوٰی کرنے والے کی سزا فقط سر تن سے جدا کرنا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دین حق کا تقاضا اور ایمان کی جڑ ہے۔ اگر عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں کمزوری ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کمی لازم آئےگی جو ایمان میں کمزوری کی وجہ بنے گی اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خواہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بھرپور کوشش کریں۔ تاکہ اس دنیا میں بھی اور روز قیامت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دیکھ کر خوش ہوں۔ اور ہمیں آپﷺ کی شفاعت اور آپﷺ کے ہاتھوں سے جام کوثر نصیب ہو۔ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ، آخرت میں حصول جنت اور شفاعتِ رسولﷺ کا ذریعہ ہے۔

 ھمارے ھاں قادیانی فتنہ اپنے منصوبوں پر پوری قوت سے عمل پیرا ہے، مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کی تشہیر پورے زوروں سے جاری ہے اور مسلمان نوجوانوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے قادیانی بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد قادیانیوں کی ناپاک سازشوں سے بالکل ناواقف ہے بلکہ بعض تو ابھی تک بھی ان لعنتیوں کو مسلمانوں کا حصہ ھی سمجھتے ھیں جس سے لعنتی قادیانی لوگ پورا فائدہ اٹھارہے ہیں اور اپنی ارتدادی مہم (مسلمانوں کو قادیانی بنانا) کو بہت تیزی کے ساتھ جاری رکھے ھوئے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر طریقہ سے اس فتنہ کا تعاقب کرے، اور اس فتنہ کے تعاقب، سد باب اور سرکوبی کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔ حالات کی ان سنگینیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، قادیانیت کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ھمارے لئے کچھ  اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ھے :۔

1۔ سب سے پہلے  وطن عزیز کے جید علماء، اسکالرز اور عوام الناس کے درمیان اتحاد کی فضا کو عام کیا جائے, کیونکہ اس فتنہ کو کچلنے کے لئے اتحاد کا ھونا بہت بڑا دخل ہے-

2۔ قادیانیت کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے والے نو مسلموں کا تحفظ بہت ضروری ہے تاکہ نو مسلم حضرات دوبارہ ان کے دامِ فریب کا شکار ہوکر قادیانیت کے چنگل میں نہ پھنس جائیں  –

3۔ اخبارات و رسائل کے ذریعہ مختلف زبانوں میں ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لٹریچر کو عام کیا جائے جس میں خاص طور پر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، رد قادیانیت، اور حیات عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم موضوعات پر روشنی ڈالی جائے، خود صاحب قلم ہیں تو اس عنوان پر مضامین لکھیں یا  پھر اوروں سے لکھوائیں۔

4۔قادیانی مصنوعات اور پروڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ کریں تاکہ ان کی معیشت کمزور پڑجائے اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف رقم خرچ نہ کر سکیں۔

5۔مسلمانوں میں شعور بیدار کرنے کی غرض سے کانفرنسز اور جلسے جُلوسوں کا اھتمام کیا جائے اور خصوصاً وقفہ وقفہ سے جمعہ کے موقع پر ائمہ وخطباء حضرات اسی عنوان کو جمعہ کا موضوع بنائیں-

6۔آج بھی مسلمانوں اور قادیانیوں کی بیٹیاں آپس میں ایک دوسرے کے یہاں ازدواجی زندگی میں منسلک ہیں (اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے) ایسی صورتحال میں محافظین ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مجاہدین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے مسلمانوں سے فوراً رابطہ قائم کریں اور قرآن وحدیث کی روشنی میں بتلائیں کہ قادیانی کافر ہیں اور سمجھائیں کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کا نکاح ہرگز نہیں ہوسکتا۔

7۔اگر کسی علاقے میں قادیانی اور مسلمان رہتے ہوں تو مسلمانوں کو قادیانیوں کی شادی اور تقریبات میں شامل نہ ہونے دیں، کیوں کہ مسلمان ان کے کلچر، رہن سہن اور طور طریقوں سے متأثر ہوکر ان کے شکار نہ بن جائے۔

8۔رد قادیانیت کورس کا اھتمام کرکے طلبہ، وکلاء، ڈاکٹرز،سرکاری وغیر سرکاری ملازمین غرض کہ زندگی کہ ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہر مسلمان کو ہر بستی سے ایک، شہر کے سارے محلوں سے ایک ایک کو کم از کم “عقیدہ ٔ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” کی بنیادی اور اہم باتوں سے واقف کراکر اس کو ذمہ دار بنایا جائے تاکہ وہ پوری بستی اور سارے محلہ کو قادیانیت کے فتنہ سے محفوظ رکھ سکے۔

9۔”ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ ،”رد قادیانیت“ اور حیاتِ عِیسیٰ علیہ السلام کے موضوعات پر  انعامی تحریری اور تقریری مقابلوں  کا انعقاد کیا جائے۔

10۔ اخبارات میں”مراسلات “ کا جو کالم ہوتا ہے جس میں ایڈیٹر کے نام خط لکھا جاتاہے جس میں عوام اپنے مذھبی، سماجی، سیاسی، اور اقتصادی مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں ایک آدمی کی آواز پورے ملک میں خواص و عوام اور حکومت تک پہنچتی ہے لھذا”مراسلات“ کے کالم میں ”ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  “کے عنوان پر لکھا جائے ان شاء اللہ اس کا غیر محسوس طریقہ پر فائدہ ہوگا۔

11۔مسلم مینیجمنٹ عصری اسکولوں، کالجوں، ،یونیورسٹیوں، دینی مدارس، دارالعلوم اور ان کے دفاتر میں نیز دوکانوں، فیکٹریوں اور رفاہی تنظیموں کے دفاتر میں ”اَنَا خَاتَمُ النَبِیّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ اور ”تاجدار ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  زندہ باد“ کے چارٹ دیواروں اور اہم جگہوں پر آویزاں کیے  جائیں ، تاکہ بار بار اس پر نظر پڑنے کی وجہ سے ”عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ہر ایک کے دل میں مضبوطی کے ساتھ راسخ و پیوست ہوجائے۔

12۔قصبات، گاؤں، دیہات میں رہنے والوں پر خصوصاً محافظ ختمِ نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خاص نظر رکھیں اگر ممکن ہو تو اپنی تنظیم کے تحت مالی امداد اور ضروری سامان ان تک مہیا کرایا جائے، نیز معاشی اعتبار سے ان کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں تاکہ قادیانی قرض اور مالی  امداد کے بہانے ان بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے جال میں نہ پھنسا لیں 

13۔بعض  دور دراز علاقوں کے  دیہاتوں میں قادیانی معلمین کے ذریعہ یہ مکروہ کھیل کھیل رھے ھیں وھاں اپنے آپ کو مسلمان بتاکر بحیثیت معلم مسلم بچوں کو قرآن مجید کی غلط تراجم و تشریحات بیان کرکے مرزا قادیانی کی نبوت کو سچا اور قادیانیت کو ثابت کرکے مسلمان بچوں کے دل و دماغ میں قادیانی عقائد و نظریات کو راسخ کرکے قادیانیت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،  لہٰذا محافظین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ایسے معلمین پر خصوصی نظر رکھیں۔

14۔دیہات اور گاؤں کے غریب طبقہ کے لوگ حصول علم، محنت ومزدوری، ملازمت وغیرہ کے سلسلہ میں شہر کا رُخ کرتے ہیں تو مالدار قادیانی اپنی ذاتی رہائشی عمارت کا مفت یا کرایہ کے کمروں کا انتظام کرتے ہیں،تاکہ ان کو قریب کرکے قادیانیت کے عقائد اور نظریات کی چھاپ چھوڑ کے ان کواپنی طرف مائل کرسکیں ۔لہذا محافظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاؤں کے سروے فارم میں نام، پتہ ،پیشہ، علمی قابلیت کے ساتھ ،دیہات کے لوگوں کے شہر کے رہائشی مقام کا خانہ بھی محفوظ کرے-

15۔ دینی مدارس،  ہفتہ واری انجمنوں  یا کم از کم ماہانہ اجتماعی انجمنوں میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عنوان سے طلباء کو تقاریر پیش کرنے کا پابند بنایا جائے تاکہ مثبت انداز میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو عام کیا جاسکے-

یہ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے چند تجاویز ہیں جن  پر عمل پیرا ہوکر ان شاء اللہ فتنہ قادیانیت کا قلع قمع کرنے میں مدد مل سکتی ھے

اگر  تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی صورتحال کو دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ لگ بھگ سو سال کی طویل جدوجہد کے بعد اسلامیانِ پاکستان ۱۹۷۴ء میں ملک کے دستور میں منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ایک گروہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس دستوری ترمیم کے بعد اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے قانون سازی کا کام نہ ہو سکا۔ اور ۱۹۸۴ء میں مولانا محمد اسلم قریشی کے حوالے سے منظم ہونے والی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نتیجہ میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے جاری کردہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی صورت میں قانون سازی کی طرف پہلی عملی پیشرفت ہوئی۔ ۱۹۷۴ء کی دستوری ترمیم اور ۱۹۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس کی شکل میں ہمیں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاذ پر جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اگرچہ مکمل نہیں ہے اور بہت سے بنیادی مطالبات ابھی تشنۂ تکمیل ہیں جن کے لیے جدوجہد جاری ہے، لیکن ان دو بنیادی امور کے تحفظ اور ان پر عملدرآمد کا مسئلہ بجائے خود سنجیدہ توجہ اور جدوجہد کا تقاضا کر رہا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کے شعائر سے روکنے کے لیے جو دستوری اور قانونی اقدامات اب تک ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کا معاملہ خاصا کمزور ہے۔ اور قادیانی گروہ اور اس کی حمایتی لابیاں ان اقدامات کو عملًا غیر مؤثر بنانے کے لیے پورا زور صرف کر رہی ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور دوسری استعماری قوتیں اور پاکستان میں ان کی لابیاں مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف کیے گئے یہ آئینی و قانونی اقدامات ختم کرا دیے جائیں۔ تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عملی تقاضوں کے حوالہ سے بنیادی طور پر ہم پر تین اھم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم اور ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحفظ کے لیے ہم پوری طرح ہوشیار رہیں، اور ان کے خاتمہ کی کوشش کرنے والی قوتوں کا پوری بیداری کے ساتھ تعاقب کریں۔

دوسری یہ کہ ان اقدامات پر عملدرآمد کے لیے بھرپور محنت کو جاری رکھا جائے اور مشترکہ محاذ کے ذریعے عوامی دباؤ کو قائم رکھنے کی محنت کی جائے۔

اور تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے باقی مطالبات کی منظوری کے لیے جدوجہد کو منظم اور مربوط طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔

اللہ پاک ھر ھر مسلمان کو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے  لئے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے مطابق کام کرنے کی توفیق عنایت فرنائے۔ 

آمین یا رب العالمین 


Share: