عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 17 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*عبدالحق بن سبعین مرسی*


اس کا پورا نام قطب الدین ابو محمد عبدالحق بن ابراہیم بن محمد بن نصر بن محمد بن سبعین تھا۔ یہ مراکش کا رھنے والا تھا مراکش کے شہر مرسیہ میں اس نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیرو سبعینیہ کہلاتے تھے۔صاحب علم آدمی تھا اور اس کا کلام بھی اکابر صوفیا کے کلام کی طرح بڑا غامض اور دقیق تھا جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ اسمام شمس الدین ذہبیؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عالم اسلام کے مایہ ناز عالم قاضی القضاۃ تقی الدین ابن دقیق چاشت کے وقت سے لے کر ظہر تک اس کے پاس بیٹھے رہے اور اس اثناء میں وہ گفتگو کرتا رہا۔ علامہ تقی الدین اس کے کلام کے الفاظ کو سمجھتے تھے مگر مرکبات ان کے  فہم سے بالاتر تھے۔عبدالحق ایک کلمہ کفر کی بناء پر مغرب سے نکالا گیا۔ اس نے کہا تھا کہ امر نبوت میں بڑی وسعت اور گنجائش تھی لیکن ابن آمنہ ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم) نے لانبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا جائے گا) کہہ کر اس میں بڑی تنگی کردی۔

اعمال کے متعلق علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک صالح آدمی نے جو عبدالحق کے مریدوں کی مجلس میں رہ چکا تھا بیان کیا کہ یہ لوگ نماز اور دوسرے مذہبی فرائض کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔

شیخ صفی الدین ہندی کا بیان ہے کہ 666ھ میں میری اس سے مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ 668ھ میں اس نے فصد کھلوائی خون بند نہ ہوسکا اسی میں مرگیا۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص کیمیا اور سیمیا بھی جانتا تھا۔


*بایزید روشن جالندھری*


اس کا پورا نام بایزید ابن عبداللہ انصاری تھا 931ھ میں  بمقام جالندھر (پنجاب) میں پیدا ہوا۔ بڑا عالم اور صاحب تصنیف تھا۔ حقائق ومعارف بیان کرنے میں لاثانی اور لوگوں کے دل پر اس کی علمیت اور کمالات کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہمایوں بادشاہ کے بیٹے مرزا محمد کلیم صوبیدار کابل نے اپنے دربار میں علماء سے اس کا مناظرہ کرایا تھا۔ علمائے کابل جو علوم فلسفہ بالکل نہ جانتے تھے اس کے مقابلے پر آئے مگر بایزید کے سامنے ان کو کامیابی نہ ہوسکی اور صوہ دار بایزید کی علمیت اور زورکلام سے اتنا مرعوب ہوا کہ خود ہی اس کا معتقد ہوگیا۔

بایزید پر شیطان کا پورا جادو چل گیا اور اپنی ریاضت وعبادت کے انوار وثمرات سے بہک کر اپنے آپ کو عرش بریں پر خیال کرنے لگا اور یہ خیال یہاں تک بڑھا کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ جبریل امین میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ اس نے ایک کتاب بنام ’’خیر البیان‘‘ چار زبانوں عربی، فارسی، ہندی اور پشتو میں لکھی اور اس کو کلام الٰہی کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اورکہا کہ میں نے اس میں وہی کچھ لکھا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کیا ہے۔ بایزید کا باپ عبداللہ جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا بیٹے کی اس گمراہی پر بہت غضبناک ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہوکر بایزید پر چھری لے کر  اسے قتل کرنے کے ارادہ سے حملہ آور ھوا بایزید بری طرح زخمی ہوا  لیکن بچ گیا اور کامی کرم چھوڑ کر افغانستان کے علاقے ننگرہار چلا آیا ۔

جب وہاں کے علماء کو بایزید کی گمراہی اور بدمذہبی کا حال معلوم ہوا تو سب اس کی مخالفت پر متفق ہوکر کھڑے ہوگئے جب وہاں اس کا جادو نہ چل سکا تو یہ پشاور جاکر غور یاخیل قبائل میں رہنے لگا۔ یہاں چونکہ کوئی عالم دین اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں تھا اس لیے اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ بایزید یہاں اپنا تسلط قائم کرکے اب ہشت نگر وارد ہوا۔ یہاں بھی اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار گرم ہوگیا۔ ایک دینی عالم اخوند درویزہ سے بایزید کا مناظرہ ہوا جس میں بایزید مغلوب بھی ہوگیا مگر اس کے مرید ایسے اندھے خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزہ کی ساری کوششیں بیکار ہوگئیں۔ جب بایزید کی مذہبی غارتگری کا حال کابل کے گورنر محسن خان نے سنا جو اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا حاکم تھا تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آیا اور بایزید کو گرفتار کرکے لے گیا اور ایک مدت تک اس کو قید میں رکھ کر رہاکردیا۔ بایزید ہشت نگر آگیا اور اپنے مریدوں کو جمع کرکے آس پاس کے پہاڑوں میں جاکر مورچہ بند ہوگیا۔

بایزید مغل بادشاہ اکبر کے مقابلے پر اور اکبر بادشاہ کی اطاعت سے باہر ہوکر علیٰ الاعلان اس کا حریف بن کر مقابلے پر آگیا۔ جب بایزید کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اکبر نے ایک لشکر جرار اسکی سرکوبی کے لیے روانہ کیا مگر مقابلہ ہوتے ہی بایزید کے ہاتھوں شکست کھاگیا۔ اس فتح سے بایزید کے حوصلے اور بڑھ گئے اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے اس سے لوگوں کے دل میں اس کی عقیدت کم ہونے لگی۔ ادھر اکبر بادشاہ ہر وقت اس کی سرکوبی کے منصوبے بناتا تھا آخر کار اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ ایک لشکر روانہ کیا اور کابل کے صوبہ وار محسن خان کو بھی ساتھ ملالیا اس حملے میں بایزید کو شکست ہوئی اور افغانستان کے سلسلہ کوہ میں بھیتر پور کی پہاڑیوں میں اسکا آخری وقت گزرا اور اسی علاقے میں اس کی قبر  بھی واقع ہے۔

Share: