*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *
*عبدالعزیز باسندی*
اس شخص نے 332ھ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک پہاڑی مقام کو اپنا مستقر بنایا۔ یہ شخص انتہائی مکار اور شعبدہ باز تھا۔ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالتا تو اس کی مٹھی سرخ اشرفیوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظر بندیوں نے ہزاروں لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔
علماء کرام اور اہل حق نے لوگوں کو بہت سمجھایا مگر جن کی قسمت میں مرتد ہونا لکھا تھا اس کو کون ٹال سکتا تھا جب باسندی نے دیکھا کہ اہل حق اسکی نبوت میں رکاوٹ ہیں تو اس نے اہل حق کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کیا۔ ہزاروں مسلمان اس جرم میں اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ جب لوگ اس کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تو حکومت کو بھی اس کی تحریک سے خطرہ محسوس ہوا چنانچہ وہاں کے حاکم ابو علی بن محمد بن مظفر نے باسندی کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ باسندی ایک بلند پہاڑ پر جاکر قلعہ بند ہوگیا لشکر اسلام نے اس کے گرد محاصرہ ڈال دیا اورکچھ مدت کے بعد جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے لگیں تو باسندی کے فوجیوں کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی اور جسمانی طاقت بھی جواب دے بیٹھی ۔یہ صورت حال دیکھ کر لشکر اسلام نے پہاڑ پر چڑھ کر ایک زبردست حملہ کیا اور مار مار کر دشمن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ باسندی کے اکثر فوجی مارے گئے اور خود باسندی بھی جہنم واصل ہوا۔
’’
*ابو طیب احمد بن حسنین *
متبنی‘‘
303ھ میں کوفہ کے محلہ کندہ میں پیدا ہوا جوانی ہی میں شام چلا آیا اور فنون ادب میں مشغول رہ کر درجہ کمال کو پہنچا اسے لغات عرب پر غیر معمولی عبور تھا۔ جب کبھی اس سے لغات کے متعلق کوئی سوال کیا جاتا تو نظم ونثر میں کلام عرب کی بھرمارکردیتا۔
ابو طیب کے دعویٰ نبوت کے بارے میں ایک شخص ابو عبداللہ لاذوقی جس نے اس سے مکالمہ کیا تھا کہ اس کی شعبدہ بازی دیکھ کر مرتد ہوگیا جب اس نے ملک شام میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک کثیر تعداد میں لوگ اس کا کلمہ پڑھنے لگے تو حمص کے حاکم امیر لؤلؤ نے گرفتارکرکے اس کو قید خانے میں ڈال دیا۔ معتقدین اِدھر اُدھر ہوگئے اور جب قید وبند کی صعوبتیں سہتے سہتے اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو اس نے ایک قصیدہ لکھا جس سے پڑھ کر امیر کو رحم آیا اور وہ ابوطبیب سے کہنے لگا اگر تو اپنی جھوٹی نبوت سے توبہ کرلے تو میں تجھے آزاد کردوں گا۔ ابو طبیب نادم ہوا اور اپنی نبوت کے دعوے سے توبہ کی اور ایک دستاویز لکھ کر امیر کے سپردکی اس دستاویز میں لکھا تھا:
’’میں اپنی نبوت کے دعوے میں جھوٹا تھا۔ نبوت خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر ختم ہوگئی اب میں توبہ کرکے ازسر نو اسلام کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
*ابو القاسم احمد بن وقسی*۔
ابتداء میں یہ شخص جمہور
مسلمین کے مذہب ومسلک پر کاربند تھا لیکن بعد میں اغوائے شیطان سے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح قرآنی آیات کی عجیب عجیب تاویلات بیان کرنا شروع کردیں اور ملحدوں کی طرح نصوص پر اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کا روغن قاز ملنے لگا پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔
اس کو بھی ہزاروں بے وقوف متابعت اور عقیدت مندی کے لیے مل گئے۔ شاہ مراکش علی بن یوسف بن تاشقین کو جب معلوم ہوا کہ ایک شخص احمد بن قسی نام کا نبوت کا دعویدار ہے تو اس نے اس کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے دعویدار ہو؟ اس نے صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ مختلف قسم کی باتیں بناکر اور حیلے گڑھ کر بادشاہ کو مطمئن کرکے چلا آیا۔
واپس آنے کے بعد اس نے شیلہ کے ایک گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں بیٹھ کر اپنے مسلک اور مذہب کا پرچار کرنے لگا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے ثلب کے مقامات احیلہ اور مزیلہ پر بزور شمشیر قبضہ کرلیا۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد خود اسکا ایک فوجی سردار محمد بن وزیر اس سے برگشتہ ہوکر اسکا مخالف ہوگیا اس کو دیکھ کر دوسرے معتقدین بھی اس سے الگ ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
انہیں ایام میں مراکش کی حکومت شاہ یوسف بن تاشقین کے ہاتھ سے نکل کر عبدالمومن کے عنان اختیار میں آگئی۔ یہ شخص بھاگ کر عبدالمومن کے پاس پہنچا۔ عبدالمومن نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے مدعی ہو کہنے لگا جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی یعنی صادق اور کاذب۔ میں نبی ہوں مگر کاذب ہوں۔
اس پر عبدالمومن نے اس کو قیدکردیا۔ اس کے سوا اس کا مزید حال تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی موت 550ھ اور 560ھ کے درمیان کسی وقت ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی خانہ ساز نبوت بھی دم توڑ گئی۔