حشر کے پانچ سوال “ تیسرا سوال”

 *حشر کے پانچ سوال*


*تیسرا سوال:** *مال کہاں سے کمایا*؟


حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں زندگی میں کمائے ھوئے مال کا سوال بھی شامل ھے مال کے بارے میں دو سوال ھوں گے ایک یہ کہ مال کہاں سے کمایا تھا؟ یعنی مال کمانے کے ذرائع کیا تھے ؟ جائز ذرائع سے کمایا تھا یا پھر ناجائز ذرائع  یعنی سود، رشوت ،دھوکہ دھی ، وراثت میں خرد برد وغیرہ سے اور  دوسرا یہ کہ کمائے ھوئے مال کو کہاں خرچ کیا تھا؟  

 

دین اسلام چونکہ ایک کامل ومکمل نظامِ حیات ہے اس لئے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے ۔دینِ اسلام کے دئیے ہوئے اصول وضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہوگا وہ حلال شمار ہوگا ۔اسلام نے اپنے پیروکاروں  کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے اور حرام رزق سے بچنے کی ترغیب بھی دی ھے اور حلال کمائی کے فوائد اور فضائل بھی بتائے ھیںں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :

    ’’اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔‘‘( مسلم)۔

     بخاری میں حضرت مقدام بن سعد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    ’’اُس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی داؤد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘

    اُم المومنین سیدہ طیبہ اماں عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا   روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

     ’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہےـ‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔

    یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی ۔

    ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی  کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

     ’’اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہے ‘‘ (کنزالعمال)۔

    یعنی نماز،زکوٰۃ ،روزہ ،حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض رزق حلال کماناہے ۔اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو دین اسلام روزی کمانے سے اُسے منع نہیں کرتا بلکہ روزی کمانے کے لئے کچھ حدود وقیود مقرر کرتا ہے تاکہ اُن حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے وہ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ کیلئے رزق حلال کمائے ـ حلال رزق میں برکت ہوتی ہے اور رزق حرام دیکھنے میں زیادہ، لیکن حقیقت میں اُس میں برکت نہیں ہوتی ۔مثال کے طور پر رزقِ حلال سے تیار کیا گیا 3 افراد کا کھانا5 افراد کھائیں تو کھانا پھر بھی بچ جاتا ہے جبکہ حرام کی کمائی سے تیار شدہ3 افراد کا کھانا3 افراد کی کفایت بھی نہیں کرتا ،جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ’’ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے واسطے اس میں برکت نہیں اوراپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم جانے کا سامان ہے…الخ۔‘‘(مسند احمد بن حنبل )

    حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

     ’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہواور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل ،بیہقی)

     ہم مسلمان جانتے ہیں کہ ایک لاکھ جوبیس ھزار انبیاء ورسل کو اللہ تعالیٰ نے’’حبیب اللہ ‘‘نہیں فرمایا ،لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’حبیب اللہ ‘‘ فرمایا اور ہمارے آقا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الکاسب حبیب اللہ  ’’ رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے ۔‘‘

    کتنی فضیلت والی بات ہے اُن حضرات کے لئے جو رزق حلال کماتے ہیں کہ لسان نبوتؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اللہ کا دوست ہونے کی بشارت دی ہے ،یہ کوئی عام فضلیت وعنایت نہیں ۔

    اسی طرح اولیائے کرام رحمہم اللہ کا معمول رہا کہ وہ رزق حلال کیلئے تگ ودو کرتے تھے۔وقت کے بادشاہ ان کے پاس نذرانے بھیجتے لیکن یہ حضرات انہیں قبول نہ فرماتے بلکہ واپس بھیج دیتے تھے۔ چند واقعات حضرات اولیائے کرام رحمہم اللہ کے پیش خدمت ہیں جن  کی دینی کاوشوں سے اسلام چہار جوانب پھیلا۔

      حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے محدث اور فقیہ گزرے ہیں ۔اُن کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت کیا معاملہ پیش آیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے لیکن میرے گھر کے سامنے جو لوہار تھا اُسے مجھ سے بلند مرتبہ ملا ہے ۔وہ شخص حیران ہوا صبح اُس لوہار کی بیوی سے جا کر ملا اور پوچھا کہ تیرا شوہر ایساکیا عمل کرتا تھا کہ اسے جنت میں عبداللہ بن مبارک سے بھی اونچا رتبہ ملا ہے۔اُس کی بیوی نے کہا اور تو خاص نہیں۔ ایک تو جب آخر شب عبداللہ بن مبارک نمازِ تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو یہ کہتا تھا کہ اے اللہ !کاش میرے رزق میں فراخی ہوتی تو میں بھی رات کے اس پہر تیرے سامنے سر بسجود ہوتا۔دوسرا اس کا عمل یہ تھا کہ جب یہ دوکان پر ہتھوڑا مارنے کیلئے اوپر اٹھاتا اور اذان ہوجاتی تو فوراً ہتھوڑا پیچھے کی جانب گرا دیتا تھا کہ اللہ نے پکارا ہے ۔بس یہ دو عمل تھے۔ اس کے اور تو کچھ خاص نہیں۔

    اس حکایت سے معلوم ہوا کہ رزق حلال کمانے کی برکت اور کسب حلال کے ساتھ اللہ کے فرائض کی پابندی ایسا عظیم الشان عمل ہے جس سے انسان بڑے بڑے زاہدوں سے بھی روزِ محشر بڑھ سکتا ہے ۔

     اِس زمانے میں لوگ لقمۂ حلال کی بالکل پرواہ  نہیں کرتے ،جو چیز نظر آتی ہے  حلال ھو یا حرام آنکھیں بند کرکے کھاجاتے ہیں اور پھر تاویلیں  کرتے ہیں کہ یہ یوں ہے اور یوں نہیں ۔لیکن جب  حشر میں مال کا سوال ھوگا تو پھر کوئی تاویل  نہیں چلے گی 

شریعت ہمارے لئے کیا چیز حلال کرتی ہے اور  کیا حرام  یہ جاننا اشد ضروری ھے اور ہم مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ہے ،نہ حلال کی پرواہ کرتے ہیں نہ حرام کی ، اور حرام کو مباح بنا کر کھاجاتے ہیں ۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ حلال اور حرام کے متعلق صریحی اورقطعی نصوص کو ترک کردیا جاتاہے اور بعض ظنی اوربعید از قیاس آیات واحادیث سے استدلال کرکے حرام کو حلال بنا دیا جاتاہے۔

     مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب ٹرین پر سفر کرتے تھے تو سامان کا وزن خود کراتے تھے ۔جتنا سامان زیادہ ہوتا اُس اضافی سامان کی رقم جمع کراتے ۔ایک بار ایک ٹکٹ کلکٹر نے کہا کہ حضرت آپ رقم جمع نہ کرائیں ،فلاں اسٹیشن تک میں خود ہوں اُس کے بعد جو ٹکٹ کلکٹر آئے گا میں اُسے کہہ دوں گا ،وہ آپ کو تنگ نہ کرے گا ۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی وہ کہا ں تک جاتا ہے ،اس ٹکٹ کلکٹر نے کہا حضرت جہاں تک ٹرین جائے گی ،تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے ،اور میری منزل روزِ محشر ہے۔ اگر وہاں تک تمہاری رسائی ہے تو بتلاؤ۔وہ خاموش ہوگیا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ ؒ نے اضافی سامان کی اضافی رقم جمع کرادی ۔ یہ تھے ھمارے آکابرین جو مال کے بارے میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے

قیامت والے دن مال حرام کی وجہ سے شدید پریشانی ھوگی جن جن کا مال حرام طریقہ سے لیا ھو گا وہ نیکیوں کی شکل میں دینا ھوگا اور نیکیاں بھی ختم ھو گئیں تو انکے گناھوں کا بوجھ اپنے سر لینا ھوگا چبانچہ ایک حدیث مبارکہ میں وارد ھوا ھے 


عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أتدرون من المفلس؟» قالوا: المُفْلِس فينا من لا دِرهَمَ له ولا مَتَاع، فقال: «إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شَتَمَ هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسَفَكَ دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يُقْضَى ما عليه، أخذ من خطاياهم فَطُرِحتْ عليه، ثم طُرِحَ في النار».

(رواہ المسلم)


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ کچھ سامان۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کی صورت میں اعمال) لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا ہوگا) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں اس پر آنے والے ہرجانہ کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

حشر کے اس سوال  کی سنگینی سے بچنے کے لئے  یہ ضروری ھے کہ ھم صرف مال حلال پر قناعت کریں اور حرام  مال سے کلیةً اجتناب  برتیں 

اگر  بالفرض کسی کے پاس کسی بھی طریقے سے حرام مال آگیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت  دھوکہ دھی وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔  اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔


اس نیت سے حرام مال کمانا کہ اس کو خود استعمال نہیں کریں گے، بلکہ غریبوں پر صدقہ کریں گے، شرعاً جائز نہیں ہے،  ایسے لوگ  حرام  کا ارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی  فائدہ کرتے ہیں، یہ بڑی نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کابھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے۔


حرام  رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے،مشرکینِ مکہ سخت  قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں،  جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں  ہے اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے؛

اگر کوئی شخص نادانی میں حرام ملازمت وغیرہ سے کماکر سرمایہ جمع کرے اور پھر تجارت کرکے مال بڑھادے، اور اس کے بعد اسے توبہ کی توفیق ہو تو فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ اصل حرام رقم کے بقدر رقم صدقہ کردے تو اس کے بعد اس کے لیے منافع کا استعمال حلال ہوگا، واللہ عالم

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: