قبر کے تین سوال “ دوسرا حصہ”

 *قبر کا دوسرا سوال*

سوال: ما دینک- تيرا دین کیا هے؟ 

جواب: دینی الاسلام - ميرا دین اسلام هے

اس سوال کا جواب درآصل اس کی گزاری ھوئی دنیاوی زندگی ھے کہ وہ دنیا میں کون سے طریقوں کو پسند کرتا رھا اور کون سے طریقے اپنا کر زندگی گزارتا رھا  اگر تو وہ اسلام کے طریقوں کو دل سے پسند کرتا تھا اور ان کو اپنانے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا رھا تھا اور اسلام کے سنہری آصولوں پر کسی دوسرے آصولوں کو فوقیت نہیں دیتا تھا  اور اسلام میں ھی اپنی کامیابی کا یقین رکھتا تھا  تو پھر وہ اس سوال کا جواب بآسانی دے سکے گا اور اگر زندگی میں اسلام کے آصولوں کو پس پشت ڈال کر  غیروں کے آصولوں  کو پسند کرتا رھا انہی کو اپناتا رھا انہیں میں کامیابی ڈھونڈتا رھا تو پھر معاملہ اس کے برعکس ھوگا

یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اللہ کے دربار میں صرف یہی مذھب قابل قبول ھوگا  اس کی تعلیمات کائنات انسانی کے لئے یکسر رحمت ومحبت ہے۔ جس کی اساس و بنیاد ایسے مضبوط و محکم اصولوں پر قائم ہے، جن کی صداقت دن کے اجالوں کی طرح روشن و عیاں ہے۔ اسلام صرف ایک سماجی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس سے بھی بلند تر عقائد و اعمال پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو حیات بعد الممات کی بنیادوں پر کائنات انسانی کو رشدوہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور معاش و معاد دونوں کی فلاح و بہتری کا پیغام سناتا ہے۔

آخر اس سچائی سے کون ذی عقل اور ہوش مند انکار کرسکتا ہے کہ انسانیت ترقی وبلندی کی معراج پر اسی وقت رسائی حاصل کرسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ تصور یقین محکم کی حیثیت اختیار کرلے کہ ذات واحد کے سوا عالم ہست و بود میں کوئی قابل پرتش نہیں، وجود و بقا، حیات وموت، عزت و ذلت، تربیت و ربوبیت، پروردگاری و پالنہاری وغیرہ سب صرف اور صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اس سچائی کے منکشف ہوجانے کے بعد ایک دوسری حقیقت خود بخود نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ جب انسان کی زندگی ایک سب سے بلند وبالاتر طاقت کے قبضہ میں ہے تو بلاشبہ اسی بلند طاقت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ انسان کو یہ ہدایت اور رہنمائی دے کہ کس راہ پر چل کر وہ انسانی دنیا میں ایک سچا انسان اور خلق خدا کے لئے صحیح معنوں میں رحمت و رأفت کا پیکر بن سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر معراجِ انسانیت کے رتبہٴ عالی و مرتبہٴ سعادت تک پہنچنے کیلئے کونساراستہ سیدھا ودرست ہے؟ اس بات کو آشکارا کرنے کیلئے ارشاد فرمایا گیا

“ربُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہ ثُمَّ ہَدَیٰ“ 

ہمارا رب ہی وہ ہے جس نے ہر چیز کو وجود عطا کیا پھر ہدایت و رہنمائی سے نوازا۔

اس لئے زندگی کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے ہم اپنی دنیوی ترقی اور معاشی سرافرازی کی جدوجہد کے ساتھ خداے وحدہ لاشریک لہ کے بتائے ہوئے نظام حیات (اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ“ (یقینا اللہ کا مقرر کردہ دین اسلام ہی ہے) کی تعلیم و تحصیل سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غافل اور بے پروا ہوں تاکہ آنے والے دنوں میں ہمیں افسوس نہ ہو کہ ”یک لمحہ غافل بودم وصدسالہ راہم دورشد“

اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ ہمارے ملک  کا نظام حکومت جمہوری ولادینی ہے (یعنی ریاست کسی فرد کی مذہبی دینی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے گی) اس لئے خدائی نظام حیات سے آشنا اور بہرہ ور ہونے کے لئے من حیث القوم ہر ہر فرد پر یہ اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اگلی نسلوں کی فلاح و صلاح اور اسے خدائی نظام حیات دین اسلام سے وابستہ وپیوستہ رکھنے کے لئے مذہبی بنیادی تعلیم کا بار خود اپنے کاندھوں پر اٹھائے تاکہ کم سنی کے یہ نقوش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے لوح قلب پر ثبت رہیں اور زندگی کے میدانوں میں رواں دواں رہتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے دین کا دامن نہ چھوٹے۔ دین سے بھی وابستگی ہمارے ملی وجود اور انسانی دنیا میں ہمارے تشخص و امتیاز کا واحد ذریعہ ہے خدانخواستہ اگر ہمارے ہاتھوں سے دین کا دامن چھوٹ گیا تو پھر صحراؤں کے ذرات کی طرح بکھر کر دنیا کے نقشہ سے بے نام و نمود ہوجائیں گے۔

اس دنیا میں اگر کچھ لوگوں کو اسلامی  تعلیم کے نام سے الرجی ہوتی ہے تو ہونے دیجئے۔ تاریخ بارہا اس سچائی کو واضح کرچکی ہے کہ انسانیت کے باہمی تعاون و اشتراک اور صحیح معنوں میں اخوت انسانی و مساوات کا داعی ہر دور میں یہی اسلامی تعلیمات ثابت ہوئیں، اور یہی نہیں بلکہ بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ اسلامی عدم ثقافت سے آشنا ہوگا اسی قدر اس کے دل میں اپنے وطن اور وطن میں بسنے والوں کی محبت، خدمت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں خود جنگ آزادی کی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اخلاص وطن کی جدوجہد میں اسلامی علوم کے حاملین علماء حق نے جس بڑی تعداد کے ساتھ خود کو اور اپنے ماننے والوں کو دار و رسن کے لئے پیش کیا اور باہمی تعاون و اشتراک کا جو بلند کردار پیش کیا مذہب سے ناآشنا زندگی اس بے لوث کردار و عمل کا مقابلہ نہیں کرسکی۔

اس دنیامیں روٹی کا مسئلہ لاریب ایک مسئلہ ہے جس سے مشرق و مغرب کی فضائیں پرشور ہیں، دینی علوم ومذہبی افکار کے بغیر اسے بھی اطمینان بخش طریقہ پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ جو قومیں روٹی کے اس مسئلہ کو خدائی نظام معیشت سے بے نیاز ہوکر سلجھانا چاہتی ہیں وہ کس طرح کے تضاد اور کشمکش کی شکار ہیں ارباب علم و بصیرت سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

صفحہ: ۲

بہرحال ہم جب اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اسلامی تعلیم کی حفاظت و اشاعت ہمارا ایک عظیم مقصد ہونا چاہئے، اور اس بارے میں کتاب وسنت نے جو فرائض ہمارے ذمہ کئے ہیں اگر ہم انہیں انجام دینا شروع کردیں تو  قبر کا دوسرا سوال ھمارے لئے آسان ھو گا اور ہمارا مستقبل ہرخطرہ سے محفوظ ہوجائیگا۔

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

“قُو اَنْفُسَکم واَہَلِیْکُم نارًا“ 

اے مسلمانوں تم (اعمال صالحہ کے ذریعہ) اپنے آپ کو اور (صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعہ) اپنی اولاد کو نار جہنم سے بچاؤ۔

اس عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا اہتمام کریں۔ چشم فلک نے ایک زمانہ وہ بھی دیکھا ہے کہ ہر مسلمان کا گھر دینی تعلیم کا مدرسہ تھا، ان کی مسجدیں، دینی تعلیم کی درسگاہیں تھیں، ان کے ہر قریہ اور ہر گاؤں میں دینی مکاتب اور مدرسے قائم تھے اور وہاں کے علماء تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ دینی تعلیم سے اس وابستگی نے انہیں دنیا کی تمام قوموں میں ممتاز و سربلند کردیا تھا۔ آج اسی احساسِ فرض کو دوبارہ زندہ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور بس اپنے عمل اور کردار سے انسانی دنیا کو باور کرانا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور مرنے کے بعد قبر اور حشر کی  کامیابی کا دارومدار اس کے آصولوں پر عمل پیرا ھونے میں ھی ھے

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: