ایصالِ ثواب کا حکم اور اس کی قبولیت کی شرائط
بطورِ تمہید یہ اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان بھائی کے لیے ایصالِ ثواب کرنا شریعت کی نگاہ میں ایک بہترین عمل ہے، اس سےاس کو فائدہ پہنچتا ہے، یہی اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے، اس لیے اس کا انکار کرنا ہرگز درست نہیں۔ البتہ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایصالِ ثواب تبھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوسکتا ہے جب اس میں دو باتیں پائی جائیں:
1- ایصالِ ثواب اخلاص کے ساتھ ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے، اس میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ نہ ہو۔
2- ایصالِ ثواب شریعت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے، اس کے لیے خود ساختہ طریقے ایجاد نہ کیے جائیں۔ کیوں کہ جب ایصالِ ثواب شریعت کا عمل ہے تو اس کے لیے طریقہ بھی شریعت والا ہی اختیار کرنا ضروری ہوگا، یہ تو بڑی عجیب بات ہوگی کہ عمل شریعت کا ہو، طریقہ ہمارا خود ساختہ ہو اور پھر اس کو ہم جائز بھی سمجھیں اور اس پر ثواب کی بھی امید رکھیں!!
ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی گئی تو وہ ایصالِ ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت نہیں پاسکتا، جس کے نتیجے میں نہ تو اس عمل کرنے والے کو ثواب مل سکتا ہے اور نہ ہی یہ ثواب کسی دوسرے کو بھیجا جاسکتا ہے، بلکہ ایسا کرنے والا خود گناہ گار ٹھہرتا ہے۔
یہ بنیادی بات اور تمہید سمجھ لینے سے بہت سی غلط فہمیاں اور غلطیاں دور ہوجاتی ہیں اور ایصالِ ثواب کی قبولیت کا صحیح معیار سمجھ آجاتا ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کا ایصالِ ثواب
بطورِ وضاحت یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب پہنچانا بالکل جائز بلکہ مفید ہے، اس لیے چاہے کوئی شخص مکمل قرآن کریم کا ثواب پہنچائے، کسی ایک پارے کا ثواب پہنچائے، کسی ایک رکوع کا ثواب پہنچائے یا چند آیات کا ثواب پہنچائے؛ یہ سب جائز اور مفید ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب پہنچانے کے لیے ختمِ قرآن بھی ضروری نہیں، بلکہ جس قدر تلاوت کی استطاعت اور توفیق ہوسکے اسی کا ثواب پہنچانا بھی بالکل درست اور نافع ہے۔ اس لیے ایصالِ ثواب کی اس وسعت میں بے جا پابندیاں لگانا ہرگز درست نہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مروّجہ قرآن خوانی کی رسم کو ناجائز، ممنوع اور بدعت قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت کا ایصالِ ثواب ہی درست نہیں، بلکہ اعتراض اجتماعی قرآن خوانی کی مروجہ رسم پر ہے، گویا کہ قرآن کریم کی تلاوت کا ایصالِ ثواب کرنے اور ایصالِ ثواب کے نام پر مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کا اہتمام کرنے میں واضح فرق ہے اور دونوں کا حکم بھی الگ الگ ہے کہ پہلی صورت جائز جبکہ دوسری ناجائز ہے۔
مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کا جائزہ لینے کی ضرورت
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ سمجھ لیجیے کہ آجکل ایصالِ ثواب کی نیت سے اجتماعی قرآن خوانی کا جو عمومی رواج ہوچکا ہے حتی کہ یہ ایک بُری رسم کی صورت اختیار کرچکی ہے، اس حوالے سے یہ غور کرنا چاہیے کہ یہ عمل شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کے ذریعے میت کو ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ جب ایک کام شریعت میں جائز نہ ہو تو اس کا ثواب نہ تو وہ نیکی کرنے والوں کو ملتا ہے اور نہ ہی میت کو پہنچتا ہے۔
مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کی خرابیاں
حفاظ یا محلے اور علاقے والوں یا عزیز واقارب کو جمع کرکے میت کے ایصالِ ثواب کے نام پر مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کا اہتمام کرنے میں متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہ رسم ناجائز ہے، جیسے:
1- مروجہ قرآن خوانی کا حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالاں کہ ایصالِ ثواب کی ضرورت اس وقت بھی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے ایصالِ ثواب کے لیے مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کی رسم کو اختیار نہیں کیا، اس لیے آج اس رسم کو ایصالِ ثواب کے نام پر اختیار نہیں کیا جاسکتا۔
2- عمومًا مروجہ اجتماعی قرآن خوانی جیسی رسومات میں ریاکاری اور نام ونمود کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور اس کا اہتمام بھی بہت سے لوگ اسی لیے کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں نام ہو یا ان کی ملامت سے بچا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں یہ عمل کیسے قبول ہوسکتا ہے اور اس کا ثواب کیسے پہنچ سکتا ہے!!
3- مروجہ اجتماعی قرآن خوانی میں بہت سے لوگ اپنی خوشی سے شریک نہیں ہوتے بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی ملامت سے بچنے کے لیے مجبورًا شریک ہوجاتے ہیں، حالاں کہ یہ خود اخلاص کے خلاف ہے جو کہ نیکی کی قبولیت میں رکاوٹ بنتا ہے۔
4- بہت سے لوگ اس مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کو ضروری سمجھتے ہیں حتی کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں کو ملامت بھی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات بھی ختم کردیتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ ساری صورتحال اس رسم کے ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے۔
5-?مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کی رسم میں ختم کے بعد کھانا یا شیرینی وغیرہ کھلانا ایک لازمی جُز بن چکا ہے، اس کے بغیر یہ رسم پوری ہی نہیں ہوتی، بلکہ بہت سے لوگ اسی نیت سے شرکت کرتے ہیں، حالاں کہ یہ کھانا ایصالِ ثواب پر اجرت کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد مفاسد ہیں جن کی وجہ سے اجتماعی قرآن خوانی کی یہ مروجہ رسم ناجائز ہے۔ مزید تفصیل درج ذیل دو فتاویٰ اور ایک اہم اقتباس میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
مروجہ اجتماعی قرآن خوانی سے متعلق جامعہ دار العلوم کراچی کے دو فتاویٰ
فتوی نمبر -۱
قرآن مجید کی تلاوت ایک اہم عبادت اور بہت زیادہ باعث ِ ثواب ہے اور یہ عبادت اجتماعًا بھی جائز ہے اور انفرادًا بھی، شریعت نے اس کی کوئی خاص صورت وہیئت متعین نہیں کی۔ آداب وشرائط کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت ثواب ہی ثواب ہے، البتہ موجودہ دور میں اجتماعی قرآن خوانی کی جو صورت لوگوں نے متعیّن کرلی ہے وہ کئی منکَرات پر مشتمل ہوگئی ہے:
(الف)۔۔لوگوں نے خوشی اور غم کے موقعوں پر انفرادی تلاوت کو بِالعموم ترک کردیا ہے اور اجتماعی قرآن خوانی کے بغیر تلاوت نہیں کرتے۔
(ب)۔۔جو حضرات جمع ہوتے ہیں، ان میں سے بعض تو قرآن خوانی میں اس نیت سے شریک ہوتے ہیں کہ اگر شریک نہ ہوئے تو دعوت دینے والے ناراض ہونگے، بعض کی نیت میل ملاقات، اور بعض کی نیت صرف کھانے پینے کی اور بعض کی قرآن خوانی پر اُجرت لینے کی ہوتی ہے، ایسی صورت میں پڑھنے والے ہی کوثواب نہیں ملتا تو ایصالِ ثواب کیسا…!
(ج)۔۔قرآن مجید پڑھوانے والے اکثر اس قرآن خوانی میں شریک نہیں ہوتے، انتظامات میں مصروف رہتے ہیں، انہیں قرآن مجید پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، اور جو پڑھتے ہیں ان میں اخلاص سے اور محض ثواب کی نیت سے پڑھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔
اس لیے اجتماعی قرآن خوانی کا موجودہ رسمی طریقِ کار ٹھیک نہیں، بہتر یہ ہے کہ اپنے طور پر قرآن مجید پڑھنے اور انفرادی طور پر ایصال ِ ثواب کا اہتمام کیا جائے۔‘‘ (مأخذہ تبویب: الف42/218)
فتوی نمبر - 2
’’ ایصالِ ثواب اور خیرو برکت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت بلاشبہ بہت اہمیت کی حامل ہے، مگر اجتماعی قرآن خوانی مندرجہ ذیل مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے:
1- جمع ہوکر قرآن پڑھنا نہ فرض ہے، نہ واجب، زیادہ سےزیادہ ایک نفل کام ہے اور نفل کام کے لیے لوگوں کو زبردستی جمع کرنا، نہ آنے پر اعتراض ہونا، دل میں کدورت پیدا ہونا؛ یہ شریعت کی اصطلاح میں ’’تداعی‘‘ کہلاتا ہے جو کہ پسندیدہ نہیں۔
2- اس اجتماعی قرآن خوانی میں شرکت بطور ِدکھاوے کے ہوتی ہے، خالص اللہ کے لیے نہیں ہوتی، ورنہ اس اجتماع کی کیا ضرورت! انفرادًا ایصال ِثواب میں اس سے زیادہ ثواب ہے۔
3- اس اجتماعی قرآن خوانی میں چونکہ پورے قرآن مجید کے ختم کرنے کی پابندی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات قرآن کے الفاظ کی تجوید کے مطابق صحیح مخارج سے ادائیگی نہیں ہوتی۔
4- سب مل کر قرآن مجید پڑھتے ہیں لیکن سجدہ ٔتلاوت کوئی نہیں کرتا۔
5- اس میں اکثر نام ونمود پایا جاتا ہے۔
6- کھانے اور شیرینی کی پابندی بھی اس اجتماعی قرآن خوانی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اگر کوئی انتظام نہ کرے تو اس پر اعتراض ہوتا ہے، لعنت وملامت کی جاتی ہے، حالانکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے لکھاہے کہ اگر ایصال ِثواب کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اس پر اُجرت لینا جائز نہیں۔
البتہ ان مذکورہ بالا مفاسد میں سے کوئی خرابی نہ ہو اور گھر کے لوگ جمع ہوکر قرآنِ کریم پڑھ کر دعا کرلیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ جائز ہے۔‘‘ (مأخذہ تبویب :۹۶/۱۳۳۹)
اجتماعی قرآن خوانی سے متعلق ایک مفید تفصیل
مروّجہ قرآن خوانی سے متعلق حضرت اقدس مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب فرماتے ہیں
اجتماعی قرآن خوانی کا رواج
اس سلسلے میں اس وقت میں ایک ایسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا آج ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ رواج ہے لیکن سنت میں اس کی یہ شکل وصورت نظر نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے تو قبرستان ہی میں دفن کے بعد اس کے لیے قرآن خوانی کا اعلان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات اخبارات میں بھی یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں شخص کی قرآن خوانی فلاں جگہ پر فلاں تاریخ کو فلاں وقت ہوگی، اور پھر لوگ دور دراز سے سفر کر کے اس اجتماعی قرآن خوانی میں شرکت کا بطور خاص اہتمام کرتے ہیں، بلکہ بعض جگہ تو اس کا رواج اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ ہر محلے میں مکان در مکان نمبر وار یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہتا ہے کہ اس جمعہ کو فلاں مکان میں اجتماعی قرآن خوانی ہوگی، دوسرے جمعہ کو فلاں مکان میں ہوگی اور تیسرے جمعہ کو تیسرے مکان میں ہوگی، یوں ایک مسلسل سلسلہ چل رہا ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتا۔
قرآن خوانی کا چلہ اور دعوت
جب کسی محلے میں ایک شخص کا انتقال ہوتا ہے تو بعض جگہ چالیس دن تک پورے محلے میں مکان در مکان قرآن خوانی کا سلسلہ چلتا رہے گا، اس دوران اگر دوسرے شخص کا انتقال ہو جائے تو دوسرا چلہ شروع ہو جائے گا، چالیسویں دن جا کر اس کا اختتام ہوتا ہے اور چالیسویں دن خاص طور پر محلے والوں کو بلانے اور خصوصی اجتماع اور کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے جس میں تمام محلے والے ضرور جمع ہوتے ہیں اور اس طرح چالیسویں دن قرآن خوانی اور ایک شاندار دعوت پر اس کے انتقال کی خوشی اختتام پذیر ہوتی ہے۔
رواجی قرآن خوانی ثابت نہیں
جب ہم اس اجتماعی اور رواجی قرآن خوانی پر غور کر کے اور اس کے اندر جو چیزیں پائی جاتی ہیں اُن کا تصور کر کے حضور ﷺ کی حیاتِ طیّبہ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں اور ان کی تعلیمات میں تلاش کرتے ہیں تو اس رائج الوقت صورت حال کے ساتھ اس کا کہیں سراغ نظر نہیں آتا، اگر واقعی یہ کوئی پسندیدہ اور مسنون عمل ہوتا تو ظاہر ہے کہ حضور اقدس ﷺ خود اس کا اہتمام فرماتے، حالانکہ آپ کے سامنے آپ کے بہت سے پیارے پیارے صحابہ کرام کا انتقال ہوا، آپ کی بعض ازواج مطہرات کا انتقال ہوا، آپ کی اکثر بیٹیوں کا انتقال ہوا، آپ کے صاحبزادوں کا انتقال ہوا اور آپ کے قریب ترین عزیزوں کا انتقال ہوا۔ رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین، لیکن ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو باقاعدہ اعلان کر کے کہیں جمع ہونے کے لیے کہا ہو کہ میرے فلاں عزیز کا انتقال ہو گیا ہے، آپ سب لوگ مسجد نبوی میں جمع ہو جائیں اور وہاں ہم سب اکھٹے ہو کر قرآن شریف ختم کریں گے اور ان کے لیے ایصال ِثواب کریں گے، ایسا کوئی عمل نہیں ملتا، اور جب حضور ﷺ کی زندگی میں ایسا عمل نہیں ملتا تو بعد کے زمانے میں بھی ملنا مشکل ہے، اسی لیے حضرات خلفاء راشدین رضی الله تعالی ٰعنہم اور حضرات تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں بھی ایسا کوئی عمل نہیں ملتا جس کو ہم سند کے طور پر پیش کر سکیں کہ ہمارا یہ عمل حضور ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہے یا چونکہ حضور ﷺ نے ایسا کیا تھا لہٰذا ہم بھی ایسا کررہے ہیں، مگر ایسا کہیں نہیں ملتا، اسی طرح حضرات خلفاء راشدین اور تابعین وتبع تابعین کے زمانے میں بھی ایسا کوئی عمل نہیں ملتا، اور جب نہیں ملتا تو خود بخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ طریقہ بعد کے لوگوں نے بنایا ہے اور جو طریقہ بعد کے لوگ از خود بنائیں جس کی سند اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے نہ ملتی ہو تو اس میں یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ چونکہ سنت کا رنگ اس کے اندر نہیں ہے اس لیے اس کے اندر بہت سے کام ایسے نظر آئیں گے جو شریعت کی واضح ہدایات کے خلاف ہوں گے، چنانچہ جب ہم اس مروجہ قرآن خوانی میں غور کر تے ہیں تو اس میں بہت سی ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں۔
مروّجہ قرآن خوانی کی خرابیاں
مثلًا پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح جمع ہو کر قرآن شریف پڑھنا زیادہ سے زیادہ ایک نفل کام ہے، نہ فرض ہے، نہ واجب ہے اور نہ سنت ہے، اور نفل کام کے لیے لوگوں کو زبردستی اکٹھا کرنا، جمع کرنا، بلانا، اور جمع نہ ہونے پراعتراض ہونا اور دل میں کدورت پیدا ہونا کہ صاحب! ہم نے آپ کو بلایا تھا مگر آپ نے شرکت نہیں کی، یہ عمل شریعت کے اندر ناپسندیدہ ہے، شریعت کی اصطلاح میں اس کو ’’تداعی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ایک وہ عمل جوشرعًا نہ فرض ہے اور نہ واجب ہے لیکن اس کے لیے لوگوں کے جمع ہونے کو اتنی اہمیت دیں کہ اگر وہ شرکت نہ کریں تو اس کی وجہ سے ان کی طرف سے دل میں کدورت پیدا ہو، اس پر اعتراض پیدا ہو اور ان کو اس پر طعنہ دیا جائے کہ آپ نے شرکت کیوں نہیں کی؟ اور اگر اس کو کوئی عذر ہوتو وہ عذر بھی ہمارے نزدیک قابل قبول نہ ہو، لہذا یہ عمل شریعت میں ناپسندیدہ ہے، اس لیے کہ جب شریعت نے اس کو فرض و واجب اور ضروری قرار نہیں دیا تو تم نے اس کو فرض و واجب کا درجہ کیوں دے دیا؟ [مزید تفصیل کے بعد فرماتے ہیں:]
صحیح قرآن خوانی کی تین شرطیں
حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک واقعہ یاد آگیا، یہ واقعہ آپ کے ایک شاگرد نے سنایا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب کانپور میں مدرّس تھے تو ایک روز ہم لوگ حضرت تھانوی رحمۃ الله علیہ کی خدمت میں سبق پڑھنے کے لیے حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت والا بہت مغموم بیٹھے ہیں، طبیعت پر غم کے آثار ہیں اور افسردگی ہے، ہم نے پوچھا کہ حضرت! کیا بات ہے؟ آپ اس قدر غمگین کیوں ہیں؟ حضرت والا نے جواب میں فرمایا کہ گھر سے خط آیا ہے کہ میری بڑی ہمشیرہ کا انتقال ہوگیا ہے، اس وجہ سے طبیعت غمگین ہے۔ شاگردوں نے حضرت والا سے عرض کیا کہ آج ہم سبق نہیں پڑھیں گے، حضرت نے فرمایا کہ میں سبق پڑھانے کے لیے آیا ہوں، آپ اندازہ لگائیں کہ بڑی بہن کا انتقال ہوگیا لیکن اظہارِ غم کے لیے یہ نہیں کیا کہ محفل جما کر بیٹھ گئے، بلکہ غم بھی ہورہا ہے اور ساتھ ساتھ کام کرنے کے لیے تشریف بھی لے آئے۔ جب شاگردوں نے سبق نہ پڑھنے پر زیادہ اصرار کیا تو آپ نے بھی ان کو سبق پڑھنے پر مجبور نہیں فرمایا، اس کے بعد ان طلبہ نےعرض کیا کہ آج ہم اس گھنٹے میں کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر کے مرحومہ کو ایصالِ ثواب کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت والا نے فرمایا کہ میں چند شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دیتا ہوں، اگر تم ان شرائط کی پابندی کرسکو تو ٹھیک ہے ورنہ رہنے دو۔
▪پہلی شرط یہ ہے کہ تم سب اکھٹے ہو کر قرآن شریف مت پڑھنا بلکہ ہرشخص انفرادی طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرے۔
▪دوسری شرط یہ ہے کہ جو شخص جتنا آسانی کے ساتھ پڑھ سکے وہ اتنا پڑھ کر ایصال ثواب کردے، اگر ایک پارہ پڑھنا ممکن ہو تو ایک پارہ پڑھ لے، آدھا پارہ پڑھ سکتا ہو تو آدھا پارہ پڑھ لے، ایک پاؤ پڑھ سکتا ہو تو ایک پاؤ پڑھ لے، ورنہ کم از کم تین مرتبہ سورۃ اخلاص ہی پڑھ لے، قرآن کریم ختم کرنا کوئی ضروری نہیں۔
▪تیسری شرط یہ ہے کہ جب تم پڑھ کر ایصال ثواب کرلو تو کوئی طالب علم مجھے آکر یہ نہ بتائے کہ حضرت! میں نے آپ کی ہمشیرہ کے لیے اتنا قرآن شریف پڑھا ہے، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ اگر تم مجھے بتانے کی نیت سے پڑھو گے تو اس میں خلوص کہاں رہے گا؟ بلکہ اس صورت میں تم اپنے آپ پر جبر کر کے زیادہ پارے پڑھو گے، اس لیے کہ دل میں یہ خیال آئے گا کہ اگر ہم نے ایک پارہ پڑھ کر حضرت والا کو بتایا کہ ایک پارہ پڑھا ہے تو حضرت کہیں گے کہ بس ایک ہی پاره پڑھا ہے؟ بس ہم سے اتنی ہی محبت تھی؟ اس لیے ہر طالب علم جبر کر کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرے گا جس کی وجہ سے اس میں خلوص باقی نہیں رہے گا، اور جب خلوص نہیں ہوگا تو پڑھنے کا ثواب کیا ملے گا؟ لیکن جب یہ پابندی لگا دی کہ مجھے کوئی آکر نہ بتائے تو اب جو طالب علم جتنا بھی قرآن شریف پڑھے گا وہ خلوص سے پڑھے گا، اور خلوص کے ساتھ تین مرتبہ سورتِ اخلاص پڑھنا بغیر خلوص کے پورا قرآن شریف پڑھنے سے یقینًا بہتر ہے۔
لہٰذا اگر ہم بھی یہ تین شرطیں اپنا لیں تو ہماری یہ قرآن خوانی بھی درست ہوسکتی ہے، ہماری مروّجہ قرآن خوانی میں یہ تینوں قباحتیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے اس کے اندر نہ سنت کا نور ہے اور نہ خلوص کی روح ہے۔ بعض مرتبہ ثواب کے بجائے الٹا گناہ کا اندیشہ ہو جاتا ہے، لہٰذا ہمیں بھی یہ شرطیں یاد رکھنی چاہیے اور آئندہ ان پرعمل کرنا چاہیے، نہ پورا قرآن شریف ختم کرنے کو اپنے اوپر لازم کر یں اور نہ جمع ہونے کی پابندی کریں، بلکہ ہرآدمی اپنے طور پر اپنی جگہ جتنا ہو سکے قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیا کرے۔
(کتاب: مروّجہ قرآن خوانی کی شرعی حیثیت)
حاصلِ کلام
کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب پہنچانا بالکل جائز بلکہ مفید ہے، چاہے مکمل قرآن کریم کا ثواب پہنچائے یا جس قدر بھی تلاوت کی توفیق ہوسکے اسی کا ثواب پہنچا دے، لیکن ایصالِ ثواب کے نام پر مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کی رسم متعدد وجوہات کی وجہ سے ناجائز، ممنوع اور واجبُ الترک ہے، اس کا ثواب نہ تو تلاوت کرنے والوں کو ملتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو پہنچایا جاسکتا ہے۔
*فائدہ:* ایصالِ ثواب سے متعلق بنیادی احکام کےلیے رسالہ ’’ایصالِ ثواب شریعت کے مطابق کیجیے “ ملاحظہ فرمائیں۔
فقہی عبارات
رد المحتار
صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي «بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ» بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا كَذَا فِي «الْهِدَايَةِ»، بَلْ فِي زَكَاةِ «التَّتَارْخَانِيَّة» عَن «الْمُحِيطِ»: الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ؛ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ..... وَأَمَّا عِنْدَنَا فَالْوَاصِلُ إلَيْهِ نَفْسُ الثَّوَابِ. وَفِي «الْبَحْرِ»: مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِن الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ، وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي «الْبَدَائِعِ»، ثُمَّ قَالَ: وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا. وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَنْوِيَ بِهِ عِنْدَ الْفِعْلِ لِلْغَيْرِ أَوْ يَفْعَلَهُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ يَجْعَلُ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ؛ لِإِطْلَاقِ كَلَامِهِمْ، وَأَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ. اهـ. وَفِي «جَامِعِ الْفَتَاوَى»: وَقِيلَ: لَا يَجُوزُ فِي الْفَرَائِضِ اهـ. ..... قُلْت: لَكِنْ سُئِلَ ابْنُ حَجَرٍ الْمَكِّيُّ عَمَّا لَوْ قَرَأَ لِأَهْلِ الْمَقْبَرَةِ الْفَاتِحَةَ هَلْ يُقْسَمُ الثَّوَابُ بَيْنَهُمْ أَوْ يَصِلُ لِكُلٍّ مِنْهُمْ مِثْلُ ثَوَابِ ذَلِكَ كَامِلًا؟ فَأَجَابَ بِأَنَّهُ أَفْتَى جَمْعٌ بِالثَّانِي، وَهُوَ اللَّائِقُ بِسَعَةِ الْفَضْلِ. (مَطْلَبٌ فِي الْقِرَاءَةِ لِلْمَيِّتِ وَإِهْدَاءُ ثَوَابِهَا لَهُ)
الہدایہ
الْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الْإِنْسَانَ لَهُ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ
غَيْرَهَا عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ؛ لِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَحَدَهُمَا عَنْ نَفْسِهِ وَالْآخَرَ عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِوَحْدَانِيَّةِ اللهِ تَعَالَى وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، جَعَلَ تَضْحِيَةَ إحْدَى الشَّاتَيْنِ لِأُمَّتِهِ. (باب الحج عن الغير)
رد المحتار
قُلْت: وَقَوْلُ عُلَمَائِنَا لَهُ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ يَدْخُلُ فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ فَإِنَّهُ أَحَقُّ بِذَلِكَ حَيْثُ أَنْقَذَنَا مِنَ الضَّلَالَةِ، فَفِي ذَلِكَ نَوْعُ شُكْرٍ وَإِسْدَاءُ جَمِيلٍ لَهُ، وَالْكَامِلُ قَابِلٌ لِزِيَادَةِ الْكَمَالِ. وَمَا اسْتَدَلَّ بِهِ بَعْضُ الْمَانِعِينَ مِنْ أَنَّهُ تَحْصِيلُ الْحَاصِلِ؛ لِأَنَّ جَمِيعَ أَعْمَالِ أُمَّتِهِ فِي مِيزَانِهِ. يُجَابُ عَنْهُ بِأَنَّهُ لَا مَانِعَ مِنْ ذَلِكَ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى أَخْبَرَنَا بِأَنَّهُ صَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أَمَرَنَا بِالصَّلَاةِ عَلَيْهِ، بِأَنْ نَقُولَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَاللهُ أَعْلَمُ. (مطلب في زيارة القبور)
البحر الرائق
وَظَاهِرُ إطْلَاقِهِمْ يَقْتَضِي أَنَّهُ لَا فَرْقَ بين الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ فإذا صلى فَرِيضَةً وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِغَيْرِهِ
فإنه يَصِحُّ لَكِنْ لَا يَعُودُ الْفَرْضُ في ذِمَّتِهِ؛ لِأَنَّ عَدَمَ الثَّوَابِ لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ السُّقُوطِ عن ذِمَّتِهِ، ولم أره مَنْقُولًا. (باب الحج عن الغير)
رد المحتار
وَفِي «الْبَزَّازِيَّةِ»: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ، وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَو الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ. وَفِيهَا مِنْ كِتَابِ الِاسْتِحْسَانِ: وَإِنْ اتَّخَذَ طَعَامًا لِلْفُقَرَاءِ كَانَ حَسَنًا اهـ وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ فِي «الْمِعْرَاجِ» وَقَالَ: وَهَذِهِ الْأَفْعَالُ كُلُّهَا لِلسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ فَيُحْتَرَزُ عَنْهَا؛ لِأَنَّهُمْ لَا يُرِيدُونَ بِهَا وَجْهَ اللهِ تَعَالَى.
(مطلب فِي الثَّوَاب عَلَى المصيبة)
رد المحتار
فَالْحَاصِلُ أَنَّ مَا شَاعَ فِي زَمَانِنَا مِنْ قِرَاءَةِ الْأَجْزَاءِ بِالْأُجْرَةِ لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّ فِيهِ الْأَمْرَ بِالْقِرَاءَةِ
وَإِعْطَاءَ الثَّوَابِ لِلْآمِرِ وَالْقِرَاءَةَ لِأَجْلِ الْمَالِ؛ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لِلْقَارِئِ ثَوَابٌ لِعَدَمِ النِّيَّةِ الصَّحِيحَةِ فَأَيْنَ يَصِلُ الثَّوَابُ إلَى الْمُسْتَأْجِرِ؟ وَلَوْلَا الْأُجْرَةُ مَا قَرَأَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ فِي هَذَا الزَّمَانِ بَلْ جَعَلُوا الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ مَكْسَبًا وَوَسِيلَةً إلَى جَمْعِ الدُّنْيَا -إنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ- اهـ.
(مَطْلَبٌ فِي الِاسْتِئْجَارِ عَلَى الْمَعَاصِي)