نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے سفر سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جو مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے)پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا ،اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا :-
*من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ*''
جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے،
اس خطبہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہل بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اور ان سے بغض وعداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدیرخُم میں
''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ''
ارشاد فرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لئے تھا ،اورالحمدللہ! اہل سنت والجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کاجزء سمجھتے ہیں۔
مذکورہ بالا جملہ ایک حدیث کا حصہ ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، یہ حدیث حضور ﷺ نے ''غدیر خم'' کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمائی تھی،
اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ ایک موقعہ پر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا امیر بناکر بھیجا تھا تو اس سفر میں ان کے بعض ساتھیوں کو ان کے کچھ فیصلوں سے اختلاف ہوا تھا، جس کی انہوں حضورﷺ سے واپس آکر شکایت کی تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان فیصلوں کو درست قرار دے کر ان کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا
"من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ"
واضح رہے کہ "مولیٰ" کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے، جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال، اس کا سیاق و سباق اور سامعین نے جملہ میں استعمال کے بعد اس کا کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔
1۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق "من كنت مولاه فعلي مولاه" والی روایت مختلف طرق سے مختصر و طویل متن کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے، ان تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا" کا لفظ محب، دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا، لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا" کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔
2۔ "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی" کہنا جائز ہوگا۔
تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گم راہ فرقے کا شعار بن چکا ہے اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپا ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے خلیفہ بلا فصل تھے وغیرہ، لہذا ان الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔
چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا گیا تھا ، اس لیے یہ گمراہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت بلافصل ثابت کرتا ھے اور ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ھے اور اسے عید غدیر کا نام دیا جاتا ھے ۔
اس دن اس بدعت کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ھے ،اس شخص نے 18- ذوالحجہ 351ہجری کو بغداد میں یہ عید منانے کا حکم جاری کیا تھا اور اس کا نام ''عید خُم غدیر''رکھا تھا
جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفۂ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت بھی ہے۔جس کاتقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان اپنے آپ کو دور رکھیں
کیونکہ اس بدعت کی ابتدا کرنے والا یہ حاکم ایک شیعہ تھا اس لئے ممکن ھے کہ اس نے بغضِ عثمان رضی اللہ عنہ میں ھی ایسا کیا ھو
الغرض ! دین اسلام میں صرف دو ھی عیدیں اوردو ھی تہوار ھیں ، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحیٰ ، ان دو کے علاوہ دیگر تہواروں اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لئے مذکورہ بالا دو تہواروں کے علاوہ باقی تمام خود ساختہ تہواروں کو نہ تو منانا جائز ھے اور نہ ھی ان میں شرکت درست ہے۔
اللہ پاک ھر طرح کی خرافات سے ھمیں محفوظ رکھے
آمین یا رب العالمین