ایک مرتبہ ایک گاؤں میں غیر مقلدین کا جلسہ ہورہا تھا ،
بڑا شور اور ہنگامہ تھا ،
اہل حدیث کانفرنس کے بڑے بڑے اشتہارات کثیر تعداد میں لگائے گئے تھے تاکہ شرکاء کی تعداد بڑھائی جاسکے ان اشتہارات میں بہت دلکش اعلانات بھی تھے
مگر تمام تر اشتہار بازی کے باوجود شرکاء کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی ،
ہوتی بھی کیسے ظاھر ھے اس فر قہ سے وابستہ لوگ ہی ہمارے ملک میں کتنے ہیں ؟
وہاں لگے ہر اشتہار میں یہ اعلان نمایاں طور پر لکھا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں سوال و جواب کا کھلا سیشن ہوگا اور علمائے اہل حدیث قرآن و سنت کی روشنی میں ہر سوال کا جواب دیں گے ۔
سوال و جواب کا وقفہ شروع ہوا ، غیر مقلد علماء کے ذریعے بڑے پرزور دعوے کیے جا رہے تھے کہ وہ (حنفی) تمہیں "ہدایہ" سے مسائل بتاتے ہیں ، ہم تمہیں "بخاری" سے بتائیں گے
وہ تمہیں "قدوری" سے بتاتے ہیں ، ہم تمہیں "ترمذی" سے بتائیں گے
وہ تمہیں "فتاوی شامی و عالمگیری" سے بتاتے ہیں ، ہم تمہیں "ابو داؤد" سے مسائل بتائیں گے ۔
ہمارے نزدیک قرآن و حدیث سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ، ہم بس قرآن حدیث کو مانتے ہیں ، دنیا میں صرف اہل حدیث جماعت ہی وہ جماعت ہے جس نے ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث سے ہی استفادہ کیا ہے .....
غیر مقلدوں کی اس کانفرنس کا اعلان ہوتے ہی چند حنفی طلباء نے یہ تیاری کر لی تھی کہ کس طرح اسٹیج پر جاکر علمی سوالات کے ذریعے سوال و جواب کا کھلا سیشن کرنے والوں کو بتا یا جائے کہ ہر سوال کا جواب قرآن اور حدیث کے دلائل سے دینے کی ان کی اوقات ہی نہیں ہے ۔
اسی منصوبہ بندی کے ساتھ یہ طلبا اسٹیج کے قریب اس مقام پر پہنچے ، جسے سوال کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا ۔حنفی طلباء کو دیکھ کر غیر مقلدوں نے اس نیت سے ان کی آو بھگت کی کہ ان طلباء کو گمراہ کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ تھی کہ منتظمین نے ان طلباء کی مسلکی شناخت ظاہر کرتے ہوئے انہیں سوالات کرنے کا بھرپور موقع دینے کا باقاعدہ اعلان کر دیا جس سے اس کانفرنس میں موجود لوگوں کا تجسس اور بھی بڑھ گیا ۔
یہ موقع پاتے ہی پہلے سنی طالب علم نے غیر مقلد مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ بھینس کو عربی زبان میں کیا کہتے ہیں ؟
غیرمقلد مولوی صاحب نے بتایا ۔۔جاموس ، دوسرے نوجوان نے کہا ، ٹھیک ہے میں اسے لکھ لیتا ہوں ۔
تیسرے طالب علم نے سوال کیا
مولوی صاحب ۔
"جاموس" کا لفظ قرآن پاک کی کس آیت میں آیا ہے ذرا سنا دیجیے ؟
غیرمقلدمولوی صاحب نے کہا قرآن پاک میں یہ لفظ نہیں آیا ،
پہلے طالب علم نے پھر مائک سنبھالتے ہوئے گزارش کی ۔
اچھا بخاری شریف کی کوئی حدیث ہی بتا دیں جس میں جاموس کا لفظ آیا ہو ۔
ان سوالات کو سن کر غیرمقلد مولوی صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔
موصوف نے جھنجھلا کر کہا ،
تم یہاں شرارت کرنے آئے ہو؟
ایک طالب علم نے بڑی ہی معصومیت سے جواب دیا ۔
مولوی صاحب یہ شرارت نہیں ، ہماری اور تمہاری مشترکہ ضرورت ہے ۔
بھینس کا دودھ آپ بھی پیتے ہو ، ہم بھی استعمال کرتے ہیں ، بھینس کا گوشت آپ بھی کھاتے ہو ہم بھی کھاتے ہیں ، ، بھینس کے دودھ سے بنی لسی آپ بھی شوق سے پیتے ہو ہم بھی پیتے ہیں ، اس کا مکھن آپ بھی کھاتے ہو ہم بھی استعمال کرتے ہیں ۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم حنفی ہیں اس لیے اپنی ضرورت "ہدایہ" سے پوری کر لیتے ہیں ، حنفی مسلک کی اس کتاب میں ہم نے پڑھا تھا کہ بھینس کا گوشت حلال ہے ، اس لیے اپنے علماء پر اعتماد کرتے ہوئے ہم نے بھینس کے گوشت کو حلال جان لیا ۔
مگر آپ نے بھینس کو اپنے لیے کیسے حلال ٹھہرا لیا ؟
ذرا ہمیں یہ بھی بتائیے ۔ ؟
قرآن کی کوئی آیت تو آپ کے پاس ہے نہیں جو ڈائر یکٹ بھینس کو حلال بتا ئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بھی آپ کے پاس ہے نہیں جس سے بھینس کا حلال ہونا ثابت ہو جائے پھر یہ بھینس ، اہل حدیث فرقہ کے لوگوں کے لیے کیسے حلال ہو گئی ؟ یہ معمہ ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔۔
آپ نے قرآن و حدیث سے ہر سوال کا جواب دینے کا اعلان کیا ھوا ہے
یہ پوسٹر دیکھیے ۔ اسٹیج پر لگے اس بینر پر نظر ڈالیے ۔۔۔۔۔۔
اس میں بھی یہی بات موجود ہے کہ آپ قرآن و حدیث کے حوالوں سے جوابات دیں گے ۔۔
اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد غیرمقلد مولوی صاحب نے کہا کہ بھینس کو ہم نے "قیاس" کے ذریعے اپنی خاطر حلال ٹھہرالیا ہے ،
قرآن و حدیث سے بھینس کے حلال ہونے کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، ۔۔
یہ سنتے ہی طلباء نے سوالات کی بوچھار کردی ۔ ،
یہ “قیاس” کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟
کیا یہ وہی تو نہیں ، جس کے خوب طعنے تم نے حنفی علماء کو دیے ہیں ۔ ؟
اب آپ کیا کررہے ہیں ۔۔۔ ؟
قرآن و حدیث کو چھوڑ کر “قیاس” کرکے کیوں بھینسوں کو حلال کر رہے ہیں؟
کیا بغیر بھینس کھائے آپ مسلمان نہیں رہ سکتے تھے ؟ جب قرآن و حدیث میں بھینس کے حلال ہونے کا ذکر ھی نہیں تو پھر “قیاس” کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ ؟
اسے حلال قرار دینے کی جسارت آپ نے کیسے کرلی ۔؟
خیر چھوڑیے ،
ہمیں بتائیے کہ بھینس کو حلال کرنےکے لیے کس پر تم نے “قیاس” کیا ہے؟
غیر مقلد مولوی صاحب نے سرد رات میں اپنے پیشانی کا پسینہ پوچھتے ہوئے کہا کہ ہم نے گائے پر “قیاس “ کیا ہے ، ایک طالب علم نے دریافت کیا کہ وہ علت بتائیے جس کی وجہ سے آپ نے بھینس کو حلال سمجھ لیا ؟
غیرمقلد مولوی صاحب نے بتانا شروع کیا
گائےکی بھی دو آنکھیں ہیں ، بھینس کی بھی دو آنکھیں ہیں ،
گائےکی بھی چار ٹانگیں ہیں اور بھینس کی بھی چار ٹانگیں ہیں.
گائےکے بھی دو کان ہیں ، اور بھینس کے بھی دو کان ہیں ۔۔۔۔۔۔
غیر مقلد مولوی صاحب جب اپنا جواب ختم کر چکے تو ایک طالب علم نے کہا کہ
مولوی صاحب ۔۔۔۔۔۔
پھر اس کتیا کا کیا گناہ ہے ۔ ؟
جسے آپ نے حرام سمجھ رکھا ہے ۔۔
اسی “قیاس” سے اسے بھی اپنے لیے حلال کر لیجیے ۔۔۔
کیا اس کی چار ٹانگیں نہیں ہیں ، دو آنکھیں نہیں ہیں اور دو کان نہیں ہیں ؟
اس سے قبل کہ غیر مقلد مولوی صاحب کچھ کہتے ۔۔۔۔
ان کی قابل رحم حالت کو دیکھ کر منتظمین نے دوسرے غیر مقلد مفتی صاحب کو میدان میں اتاردیا ۔۔۔
مائک سنبھالتے ہی گرجدار آواز میں انہوں نے کہا کہ
“قیاس “ نہیں حدیث ہے ہمارے پاس ۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا !
کہ جو جانور داڑھ سے شکار کریں وہ بھی حرام ہیں اور جو پنجے سے شکار کریں وہ بھی حرام ہیں ،
بھینس نہ داڑھ سے شکار کرتی ہے نہ پنجے سے - اس لیے اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ بھینس حلال ہے
غیر مقلد مفتی صاحب نے جوں ہی حدیث پیش کی ۔ اس کانفرنس میں موجود سارے وہابیوں کے مرجھائے ہوئے چہر وں پر بہار آگئی لیکن یہ خوشی چند لمحوں کی مہمان بن کر ان کے لبوں سے اس وقت رخصت ہوگئی جب حنفی طلباء نے غیر مقلد مفتی صاحب کو ان کی ہی پیش کردہ حدیث کے ذریعے دبوچا اور ایک ایسا سوال کردیا کہ وہابیوں کے پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا ۔۔
حنفی طلباء نے کہا کہ
مفتی صاحب ۔۔
گدھوں پر بھی کچھ مہربانی کر دیجیے ان گدھوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ۔۔۔ ؟
کیا آپ نے کبھی گدھے کو داڑھ سے شکار کرتے دیکھا ہے ؟
کیا آپ نے کسی گدھے کو کبھی پنجوں سے شکار کرتے دیکھا ہے ۔۔ ؟
پھر گدھوں کو ذبح کرنے کا فتوی آپ جاری کیوں نہیں کرتے ؟
اپنے لوگوں کو گدھے کے گوشت کی لذت سے کیوں محروم رکھ رہے ہیں ؟
حنفی طلباء کے اس سوال نے غیر مقلدوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ۔
غیر مقلد مفتی صاحب بھی کچھ پریشان سے نظر آنے لگے مگر اچانک جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گدھوں کو اس قدر حقارت سے نہ دیکھو ،
تم نہیں جانتے کہ جنگلی گدھوں کے حلال ہونے کی حدیث بخاری میں موجود ہے ۔
ایک حنفی طالب علم نے کہا
مولوی صاحب ۔۔۔۔
ہم قرآن و حدیث سے بھینس کا ثبوت آپ سے طلب کررہے ہیں
اور آپ گدھے کو پیش کر رہے ہیں ۔
گدھے کے حلال ہونے کی دلیل دے رہے ہیں ۔
یہ کیا مذاق ہے ؟
یہ آپ کے اپنے لوگ کیا سوچتے ہوں گے کچھ تو خیال کیجیے ۔۔ !
مولوی صاحب نے کہا
یہ کیا حماقت ہے تمہاری ؟
میں حدیث کا حوالہ دے رہا ہوں تم لوگ مذاق کر رہے ہو ۔ میں جنگلی گدھا کہہ رہا ہوں ،
تم شہر میں موجود گدھوں کا ذکر کیوں کر رہے ہو ۔ ؟
اس تقریر کو سن کر ایک حنفی طالب علم نے کہا کہ مولوی صاحب ۔
جب گائے کی بنیاد پر آپ بھینس کو حلال کر سکتے ہوتو پھر جنگلی گدھے کی بنیاد پر شہری گدھے کو حلال کرنا کون سا مشکل کام ہے آپ کے لیے ۔ ؟
غیر مقلدوں نے اپنے اس مفتی صاحب کو مصیبتوں میں پھنستا دیکھ کر ایک اور وہابی اسکالر کو تیسرے مناظر کے طور پر پیش کیا ۔ اس وہابی شیخ نے کہا کہ جس جانور کے کھر چرے ہوئے ہوں وہ جانور حلال ہے ۔ یہ علت ہے “قیاس” کی ۔۔
اس بات کو سنتے ہی ایک حنفی طالب علم نے کہا کہ اس اصول سے تو آپ کے نزدیک خنزیز بھی حلال ہونا چاہیے اس لیے کہ اس کے کھر بھی چرے ہوئے ہوتے ہیں ۔
اس بر جستہ سوال پر غیرمقلد شیخ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔
اس بحث نے قر آن وسنت پر عمل کرنے کے غیر مقلدوں کے کھوکھلے دعوے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں ۔۔۔۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ
غیر مقلد دن رات جس فقہ کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں اور فقہائے کرام کی شان میں مغلظات بکتے ہیں ۔ ان فقہائے کرام نے مسلمانوں پر کیسے کیسے احسانات کیے ہیں ، ۔ ؟
فقہ کی جن کتابوں کو دریا برد کرنے اور جلانے کی فضول باتیں غیر مقلدین کرتے ہیں ان کتابوں میں علمائے اسلام کے تحریر کردہ مسائل نے مسلمانوں کو کس قدر راحت پہنچائی ہے ۔۔ ؟
یہ فقہاء کا احسان ہے کہ انہوں نے قرآن و حدیث پر خوب غور وفکر کے بعد مسائل کو بیان کیا ۔
اس کی ایک مثال یہیں سمجھ لیجیے کہ
قرآن پاک میں چار جانوروں کا ذکر آیا ہے
1 ۔۔۔ اونٹ ،
2 ۔۔۔۔۔۔ گائے
3 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھیڑ
4 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکری
مجتہدین نے ان چاروں جانوروں پر اس بات کو لے کر خوب غور وفکر کیا کہ آخر وہ کون سی خصوصیت ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ان چار جانوروں کو ممتاز کرتی ہے ۔۔ ہزار زاویوں سے سوچنے کے بعد فقہاء اس نتیجے پر پہنچے کہ ان چاروں جانوروں کی مشترکہ خصوصیت اور خوبی یہ ہے کہ یہ سب جگالی کرتے ہیں ، جگالی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ کھانے کے بعد دوبارہ منہ ہلاکر غذا کو چاب چاب کر باریک کرنا ۔۔۔
اس تحقیق پر اطمینان کے بعد فقہاء نے کسی جانور کے حلال یا حرام ہونے کے لیے یہ اصول پیش کیا کہ جو جانور جگالی کرتا ہے وہ حلال ہے ، اور جو جانور جگالی نہیں کرتا وہ حرام ہے ،
اب آپ پوری دنیا کے جانور پوچھتے جائیں -
لومڑی حلال ہے؟
نہیں ، حرام ہے ۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ جگالی نہیں کرتی ،
بھینس حلال ہے؟
ہاں ، حلال ہے ۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ جگالی کرتی ہے ،
گیدڑ حلال ہے؟
نہیں ، حرام ہے ۔۔۔ اس لیے کہ وہ جگالی نہیں کرتا -
گدھا حلال ہے ۔۔۔۔۔ ؟
نہیں ، حرام ہے ۔۔۔ اس لیے کہ وہ جگالی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مسلمان بھائی بتائیں کہ
کیا یہ علمائے دین اور فقہائے کرام کا احسان نہیں ۔۔۔۔۔ ؟
کہ قرآن میں ذکر کیے گئے ان چار جانوروں میں ایک ایسی علت نکال لی کہ پوری دنیا کے جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا مسئلہ ہی حل ہوگیا ۔۔۔۔۔۔
اسی کو کہتے ہیں "فقہ اور تفقہ"
اور قرآن میں واضح طور پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
فاسئلواأَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تم سوال کرو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے
یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نام ور علماء و اولیاء ۔ محدثین و مفسرین اور مجددین ۔ اہل سنت وجماعت کے چاروں ائمہ کرام میں سے کسی نہ کسی کے مقلد ہی رہے ۔۔۔۔۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید اس امت کی غالب اکثریت اسی لیے کرتی ہے کہ
وہ صاحب علم ہیں ۔۔۔۔۔
ایسے علم والے ہیں کہ حدیث میں جن کی بشارت موجود ہے ۔۔۔۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک شخص ایسا ہو گا کہ علم اگر ثریا پر بھی ہو گا تو وہ اسے حاصل کر لے گا ۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الر حمہ کی شان ہے ۔
قرآن و حدیث کو جتنا انہوں نے سمجھا اتنا ہم نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔۔۔۔
قرآن و حدیث پر غور وفکر کے بعد آپ نے ایسے اصول وضع کیے
جس سے ساری دنیا کے مسلمان فائدہ حاصل کر رہے ہیں
اللہ پاک ، اپنی بے شمار رحمتیں
امام اعظم ابوحنیفہ اور دیگر فقہائے اسلام پر نازل فرمائے ۔
اور مسلمانوں کو ان کے احسانات کو سمجھنے اور یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین