فتنۂ غامدیت - دورِ حاضر کاایک بہت بڑا فتنہ

برصغیر میں ماضی میں نت نئے فتنے ظاھر ھوتے رھے ھیں مثلاً  قادیانی فتنہ ، پرویزی فتنہ وغیرہ وغیرہ۔  پاکستان بننے کے بعد وطنِ عزیز بھی کسی نہ کسی فتنہ کی زد میں رھا ھے اب بھی پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے فتنے سر اُٹھا رھے ھیں جن میں ایک  بڑا فتنہ “ فتنۂ غامدیت” کے نام سے مشہور ھے اس  فتنه كا بانی  “جاوید احمد غامدی “کے نام سے مشھور ھے  جس کا اصل نام”شفيق احمد غامدی “ ھے یہ شاطر شخص پچاس کے عشرے میں پاکستان پنجاب کے ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں جیون شاہ میں پیدا ہوا  ۔ پاک پتن کے ایک اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ  لاہور آگیا اوربی اے کا امتحان پاس کیا... اس نے  مختلف اساتذہ سے اپنی ابتدائی زندگی میں روایتی انداز میں اسلامی علوم پڑھے.. ستر کے عشرہ میں یہ کئی سال تک امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی میں بھی رھا   اس کے بعد دس  بارہ سال تک سول سروسز اکیڈمی لاہور میں بطور عربی ٹیچر کی ملازمت کرتا رھا.... 

نائن الیون کے واقعہ ھوا تو  امریکن سی آئی اے اپنے وزیر دفاع ریمزے فیلڈ کی ھدایت پر پاکستان میں کوئی ایسا شخص ڈھونڈ رھی تھی جو پاکستانی عوام کو اسلام کی وہ تصویر پیش کرے جو آمریکی چاھتے تھے۔    یعنی امریکن ایڈیشن  کے اسلام کی تعلیم  ، تو تلاش کے دوران  ان کی نظر کرم   جاوید غامدی جو اس وقت شفیق غامدی تھا پر پڑی اور اس شخص (غامدی )نے تمام آمریکی مطالبات کو تسلیم کر لیا  گویا  ڈالروں کی عوض اپنا دین و ایمان امریکن کے ھاتھوں  بیچ ڈالا اور پوری تندھی سے امریکن میڈ اسلام کی تبلیغ  کرنے لگا جو اب  تک بھی پورے زور وشور سے جاری ھے 

*جاوید غامدی کا فتنۂ غامدیت  دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک  بہت بڑا  فتنہ ہے خصوصی طور پر ہمارا دینی تعلیم سے محروم  عصری  تعلیم یافتہ  نوجوان اور  اردو دان طبقہ کافی حد تک  اس سے متاثر ھو کر اس فتنہ کی لپیٹ میں آگیا ھے .. وقت کے ساتھ ساتھ آمریکی پشت پناھی میں اس فتنے  نے اپنے پر پرزے نکالے اور آج غامدی فکر  بھی قادیانی فکر کی طرح ایک مکمل گمراہ مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے. یہ دور حاضر کاایک ایسا خطرناک  اور گمراہ  گروہ ہے. جس نے اپنے امریکی آقاؤں کی ھدایت پر دین اسلام کا امریکن ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے نہ صرف معانی  بلکہ  دینی اصطلاحات کے مفاہیم تک  بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے. یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ مصلح  کے روپ میں ایک ایمان کا ڈاکو  ہے یا یوں سمجھیں جیسے رنگین خوشنما کیپسول میں زہر قاتل بھر کے بیچ رھا  ہے 

*برصغیر پاک و ہند میں اس سے پہلے  بھی دو فکری سلسلوں نے اسی طرح کے فتنے کو پروان چڑھایا..ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا  غلام احمد پرویزی  (معروف منکرِ حدیث) تک پہنچتا ہے..جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا جبکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا   بالکل واضح ارشاد ہے کہ

وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ 

عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ O

اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔


غامدی ایک طرف تو منکرِ ِحدیث ہے دوسری طرف  اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کا علمبردار بھی ہے. یہ شخص اپنی چرب زبانی کے ذریعہ سے  اس فتنے کو خوب پھیلا رہا ہے اور اس مقصد کے لیئے امریکی ایجنسی سی آئی اے کی مدد سے اُس  کو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی پوری توجہ و سرپرستی بھی حاصل ہے...

غامدی  کے منکرِ ِحدیث ہونے کے کئی ثبوت موجود ہیں مثلاً 

وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتا ہے

حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتا ہے اور ہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتا ہے 

آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ وہ صحیح حدیثِ رسول ﷺ کو بھی دین اسلام میں بطور دلیل تسلیم نہیں کرتا

جاوید غامدی کا ایک نہیں بلکہ بہت سے گمراہ عقائد ایسے ہیں جو صریحاً حدِ کفر کو پہنچتے ہیں اور قرآن و حدیث کے صریح نصوص سے بالکل متصادم ہیں۔ اس بنا پر اکثریت کے نزدیک غامدی خارج از اسلام ہے۔ امت کے جمہور ائمہ نے بھی اس طرح کے کفریہ عقائد رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ غامدی کے  من گھڑت اور گمراہ کن نظریات میں سے چند درج ذیل ہیں:


 (1) عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔

(2) قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔

(3) غلام احمد  قادیانی اور غلام احمد پرویزی سمیت کوئی بھی کافر نہیں، کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے۔

(4) حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔

(5) سنتوں کی کل تعداد صرف 27 ہے۔ 

(6) ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں۔

(7) اجماع دراصل دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔

(8) مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی (اب منسوخ ہو چکی ہے)۔ 

(9) شراب نوشی کی کوئی شرعی سزا (حد) نہیں۔

(10) اسلام میں ”فساد فی الارض“ اور ”قتل نفس“کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔

(11) قرآن پاک کی صرف ایک قرأت ہے، باقی قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں۔

(12) فقہاءکی آراء کو (اہمیت دینے سے پہلے) اپنے علم و عقل کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔

(13) ہرآدمی کو اجتہاد کا حق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں۔ جو سمجھے کہ اسے تفَقُّہ فی الدین حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔

(14) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہءِ دین کی خاطر جہاد (بِا السَّیف) ہمیشہ کے لیے ختم (منسوخ ہو چکا) ہے۔

(15) "تصوف" عالم گیر ضلالت (گمراہی) اور اسلام سے متوازن (یعنی دونوں کے درمیان) ایک الگ دین ہے۔

(16) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی تھے اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعۂ کربلا سو فیصد افسانہ ہے۔

(17) مسلم و غیر مسلم اور مرد و عورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔

(18) ایک ریاست کو زکٰوۃ کے نصاب میں تبدیلی کا حق حاصل ہے۔

(19) یہود و نصاریٰ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں، اِس کے بغیر بھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔

(20) موسیقی اور گانا بجانا جائز ہے۔[

(21) بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔

(22) بیمہ (Insurance) جائز ہے۔

(23) یتیم پوتا اپنے دادے کی وراثت کا حق دار ہے۔ مرنے والے کی وصیت ایک ثلث تک محدود نہیں۔ وارثوں کے حق میں بھی وصیت درست ہے۔

(24) سور (خنزیر) کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال، ہڈیوں، کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔

(25) سنت صرف دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری رکھا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراؤ یہود و نصاریٰ کے فکر و عمل سے ہوگا تو قرآن کی بجائے یہود و نصاریٰ کے متواتر عمل کو ترجیح ہوگی۔

(26) عورت بھی مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔

(27) دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے اس کا کوئی جواز نہیں (ناجائز ہے)۔

(28) مسجدِ اقصی پر مسلمانوں کا نہیں، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔

(29) بغیر نیت، الفاظِ طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔


*توجہ*

 اس فتنہ سے پوری طرح ھوشیار رھیں۔   اپنےاور دیگر متعلقین  کے  عقیدے اور ایمان کی حفاظت کریں۔   اس فتنہ کی زیادہ سے زیادہ تشھیر کرکے لوگوں کو اس فتنہ کی سنگینی سے اگاہ کریں۔  اپنے دینی معلومات  میں اضافہ کریں اور اس فتنہ کے لیکچرز سے اتنا ہی دور رھنے کی کوشش کریں  جتنا قادیانیوں سے دور رہتے ہیں*

اللہ پاک  دورِ حاضر کے تمام فتنوں سے ھم سب کی حفاظت فرمائے

آمین یا رب العالمین*

Share: